معاشرے میں عدم برداشت کے رویے کی وجوہات اور ان کا سدباب

زرقا مفتی

محفلین
السلام علیکم
بادامی باغ کے سانحے کے بعد جب میں نے احساس شرمندگی کا اظہار کیا تو ایک اعتراض ہوا کہ پوری قوم کو جہالت کا الزام دینا نا قابلِ قبول ہے ۔اسی تنا ظر میں ایک معاشرتی سنجیدہ بحث کا آغاز کرنا چاہتی ہوں
فرد معاشرے کی اکائی ہے فرد کے کردار کی تعمیر میں خاندان، وراثت، گھریلو تربیت، مکتب مدرسے کی تعلیم، دینی عقائد اور معاشرتی رویے اہمیت کے حامل ہیں۔ خبروں اور مختلف ذرائع سے علم ہوا کہ تقریبا ۵ ہزار مشتعل افراد نے مل کر ١۵۰ سے زیادہ مکانوں اور بیس دوکانوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ کچھ سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں
ہمارے معاشرے کے ان پانچ ہزار افراد کے کردار کی تعمیر کس ماحول میں ہوئی؟
کیسی تعلیم ملی؟
وہ کیسے مذہبی عقائد کے حامل ہیں؟
اُنہیں کیسے منفی معاشرتی رویوں کا سامنا ہے ؟
آئیے ان سوالات کے جواب دیجیے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لئے اقدامات تجویز کیجیے
 

کاشفی

محفلین
ایک لڑی میں اپنی لکھی ہوئی باتوں کو دوبارہ لکھ رہا ہوں۔۔
ایک مفسر نے کہیں لکھا ہے کہ "خیالات تقدیر کا دوسرا نام ہے۔ اپنی تقدیر کو خود انتخاب کرو اور منتظر رہو۔ کیونکہ محبت سے محبت اور نفرت سے نفرت کا پھل لگتا ہے۔"
تو جہاں جہاں لوگوں نےمحبتیں بوئی ہیں وہاں سے محبتیں پھوٹتی ہیں اور جہاں جہاں نفرتیں بوئی ہیں وہاں سے نفرتیں تیزی سے پروان چڑھ کر محبتوں پر حاوی ہوجاتی ہیں۔۔
کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ تمام لوگ جانتے ہیں کہ جو وہ زمین میں بوتے ہیں یا جس چیز کا پودا لگاتے ہیں، زمین سے اُن کو وہی چیز ملتی ہے۔۔اور جَو بو کر گندم کاٹنا قطعاَ ممکن نہیں ہے۔۔ لیکن جب ذہنی اور دماغی کاشت کا سوال آتا ہے تو اس قانون کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔۔۔
جب ہم سالہا سال سے خوبصورت خیالات کے مخالف جذبات کا بیج بورہے ہوں تو اب مسرت و اطمینان کی فصل کی کس طرح اُمید رکھ سکتے ہیں۔ جب اس تمام عرصے میں مریضانہ خیالات کی پرورش کی گئی ہو تو اچھی صحت کی اُمید کس طرح کی جاسکتی ہے۔۔؟ اگر ہاری کانٹے بوکر گیہوں کی فصل کے انتظار میں ہو تو ہم اسے دیوانہ خیال کریں گے۔ لہذا ہمارے ذہن اور دماغ کی فصل بھی تو اسی یکساں قانون کی پابند ہے جو ہاری کی فصل پر لاگو ہے۔۔ ہم سب نے کیا یہ نہیں سنا ؟
"گندم از گندم بروید، جو ز جو!"
ہماری زندگی کے واقعات ہماری ذہنی کاشت کا حاصل ہوتے ہیں۔ہر خیال ایک بیج ہے جس سے تقریباَ اس جیسا ہی ایک ذہنی پودا ہوتا ہے۔۔اگر خیالات کے درخت کے بیج میں زہر ہے تو اُس کا پھل بھی یقناَ زہرآلودہ ہوگا۔ جس سے زندگی میں زہر پھیل جائے گا۔۔اور اس کا اثر خوشیوں اور محبتوں کو تباہ کردے گا۔ اور قتل و غارت گری کا بازار عام رہے گا۔۔۔ تو میرے کہنے کا مطلب یہی ہے کہ مذہبی فرقہ کے نام نہاد ٹھیکدار نفرتوں کے بیج بو کر اس کی آبیاری کرتے ہیں جس سے معاشرے میں قتل و غارت گری ہوتی ہے۔۔
از مکافاتِ عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید، جو ز جو!
ہمارا معاشرہ ایک بےحس معاشرہ اور خائن معاشرہ ہے۔۔۔لہذا اس میں کردار کی تعمیر روشن اصولوں پر نہیں ہوتی بلکہ مفاد کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہوتی ہے۔۔۔
کیسی تعلیم ملی؟۔۔ انہیں میرے خیال میں کوئی اچھی تعلیم نہیں ملی ۔ ہوسکتا ہے ایچ پی کا لالی پاپ ملا ہو۔۔ تعلیم انسان میں شعور لاتا ہے۔۔اورکوئی بھی ذی شعور انسان اس طرح کی غلط حرکت نہیں کرسکتا۔۔۔
وہ کیسے مذہبی عقائد کے حامل ہیں؟ ۔۔ ان کا عقیدہ جاہلوں کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔۔۔۔ اور جہلا کا اسلام کے کسی فقہ سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔۔۔ اسلام کے نزدیک ہر خون کی اہمیت ہے چاہے وہ خون لال ہو یا ریڈ۔۔۔
اُنہیں کیسے منفی معاشرتی رویوں کا سامنا ہے ؟ ۔۔۔ موجودہ معاشرے کو منفی بنیادوں پر ہی پروان چڑھایا گیا ہے ۔۔۔ میرے خیال میں ان کے نزدیک صرف یہی لوگ معطر اور پاک ہیں اور باقی مذہب کے لوگ پلید ہیں۔۔ ابھی آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔
سدباب بعد میں۔ ابھی آفس ٹائم ختم ہوچکا ہے اس لیئے باقی باتیں بھی بعد میں۔۔یعنی آفس ٹائم میں۔۔:)
 

arifkarim

معطل
آپکے سوالوں کے تمام جوابات جیو کی اس رپورٹ میں موجود ہیں:
آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ وزیر قانون نے آکر متاثرین کیلئے 2 لاکھ روپے دینے کا ’’وعدہ‘‘ کیا اور چلے گئے۔ جیسے جلے ہوئے اور لٹے ہوئے گھروں میں واپس جانا ممکن ہو جائے گا۔ میرے خیال میں یہ واقعہ بھی یہود و نصاریٰ کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ اسلا م کا اس سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں (روائیتی جواب)۔​
 

کاشفی

محفلین
کاشفی صاحب جواب کے لئے شکریہ مگر اصلاحی تجاویز کا انتظار ہے

اصلاحی تجاویز گئی جنت میں۔۔۔کل تلک میں دنیا و معاشرے کے بدلنے کا چاہتا تھا۔۔اور میں بہت ناکام ہورہا تھا۔۔۔
لہذا آج میں خود کو بدل رہا ہوں۔۔۔اور کچھ کچھ کامیاب ہورہا ہوں۔۔۔
ڈٹس آل۔۔ببائے ٹاٹا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
آپکے سوالوں کے تمام جوابات جیو کی اس رپورٹ میں موجود ہیں:
آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ وزیر قانون نے آکر متاثرین کیلئے 2 لاکھ روپے دینے کا ’’وعدہ‘‘ کیا اور چلے گئے۔ جیسے جلے ہوئے اور لٹے ہوئے گھروں میں واپس جانا ممکن ہو جائے گا۔ میرے خیال میں یہ واقعہ بھی یہود و نصاریٰ کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ اسلا م کا اس سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں (روائیتی جواب)۔​
یو ٹیوب تو پاکستان میں بند ہے۔
گھروں کی مرمت یا تعمیر بھی پنجاب حکومت اپنے خرچ پر کروا رہی ہے
 

نایاب

لائبریرین
ہمارے معاشرے کے ان پانچ ہزار افراد کے کردار کی تعمیر کس ماحول میں ہوئی؟

کیسی تعلیم ملی؟
وہ کیسے مذہبی عقائد کے حامل ہیں؟
اُنہیں کیسے منفی معاشرتی رویوں کا سامنا ہے ؟
آئیے ان سوالات کے جواب دیجیے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لئے اقدامات تجویز کیجیے
محترم بہنا بحیثیت اس بگڑے بپھرے پانچ ہزار افراد میں شامل اک فرد کی صورت (خود کو اس کا اک حصہ مانتے ہوئے ) اپنے عمل و کردار کی تعمیر و تربیت اک گہری نگاہ ۔۔۔۔۔۔۔
ماں باپ اور بزرگوں نے مجھے " اخلاقیات " کے وہ سب سبق سنائے سمجھائے جو کہ انسانیت کے چراغ کہلاتے ہیں ۔ ان اخلاقیات کو ہمراہ رکھتے مروجہ تعلیم کے لیئے گھر سے سکول کالج کا سفر شروع کیا ۔ معاشرے کے منافقت بھرے چلن کی قلعی اترنے لگی ۔ اخلاقیات بارے گھر سے ملنے والے تمام اسباق جھوٹے لگنے لگے ۔ جس کی لاٹھی جس کے تعلقات اس کی ہی بھینس اور اس کا ہی معاشرہ ۔۔۔۔۔ سو یہ سب آگہی پاکر جہاں اک طرف مجھ میں قنوطیت اور بے بسی کے مارے غصہ نے اپنی جگہ بنائی وہیں مجھے اس قنوطیت اور غصے سے چھٹکارے کا اک آسان ذریعہ بھی دکھ گیا ۔
سکول و کالج کی تعلیم نے تو مجھے " انسانیت " سے پیار کی تعلیم دی ۔ مگر میرے مذہبی مسلکی عقائد کے ذمہ دار استادوں نے مجھے " تفریق بین الانسان " کی تعلیم دی ۔ ان سے مجھے جو تعلیم ملی وہ " اس دنیا میں عملی طور پر کامیاب ہوتے اک اچھا انسان بنتے انسانیت کی خدمت کرتے اسے جنت بنانے کی محنت و مشقت سے بچتے صرف عقائد پر توجہ رکھتے " اس جنت کو پانے کی تھی جسے فنا نہیں "
سو میرے لیئے یہ بہت آسان ہوا کہ مین اپنے " اعمال و کردار " سے صرف نگاہ کرتے دوسروں انسانوں کے " اعمال و افعال " پر ناقد ہوجاؤں ۔ اور انہیں ان کے اعمال و افعال کی اپنی من مرضی کی سزا دوں ۔ اپنے غصے اور قنوطیت سے چھٹکارہ پاؤں ۔ اور اپنے ضمیر کی چھبن سے بچنے کے لیئے اپنے ان اعمال کو " دفاع مسلک و مذہب " کا لبادہ پہناؤں اور خودساختہ " جنت " کماؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے لیئے ان سب میں الجھنا اس لیئے بھی آسان ٹھہرا کہ مجھے والدین کی کمائی اچھے مستقبل کی آس میں سکولوں کالجوں میں صرف کرتے صرف اک کاغذ کا ٹکڑا ڈگری کے نام پہ ملا ۔ جو کہ بنا تعلقات و رشوت کے میرے لیئے اک گالی ہی بن گیا ۔ ڈگری لیئے در در روزگار کی تلاش میں مارے مارے جوتیاں گھس گئیں ۔ مگر ڈگری کے قابل روزگار نہ ملا ۔ معاشرے سے " نکما بیکار " کے خطاب سن سن کر میں نے پیٹ پھرنے کو ریڑھی لگا لی ۔ ہاکر بن گیا ۔ کنڈیکٹری کرنے لگا ۔ لیکن میرے اندر اک آگ سلگتی رہی کہ اس معاشرے کے افراد نے میرے ساتھ انصاف نہ کیا ۔ اور مجھے جب ھی موقع ملا میں گھر جلا فساد مچا اپنی اس آگ کو ٹھنڈا کیا ۔۔
معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیئے ہم سب کو بحیثیت اک فرد کے اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہے ۔ دوسروں کے لیئے راستے آسان کرنے ہیں ۔ معاشرتی تقسیم کو مٹانا ہے ۔ " انسان کے لیئے وہی کچھ ہے جس کے لیئے اس نے کوشش کی " کو بلا کسی معاشرتی تفریق کے لاگو کرتے "حق دار " کو حق ملے کی راہ تعمیر کرنی ہے ۔
 

زرقا مفتی

محفلین
اصلاحی تجاویز گئی جنت میں۔۔۔ کل تلک میں دنیا و معاشرے کے بدلنے کا چاہتا تھا۔۔اور میں بہت ناکام ہورہا تھا۔۔۔
لہذا آج میں خود کو بدل رہا ہوں۔۔۔ اور کچھ کچھ کامیاب ہورہا ہوں۔۔۔
ڈٹس آل۔۔ببائے ٹاٹا۔
دُنیا اور معاشرہ فردِ واحد کی کوشش سے مختصر عرصے میں نہیں بدلتے ۔ اس کے لئے وقت، لگن اور مخلص گروہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ایک بابصر فرد اپنے کردار و عمل کو بھی درست رکھے تو یہ تبدیلی کی کوشش میں اُسکا حصہ ہے۔ دریا کے بہاؤ میں بہنا تو بہت آسان ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
کاشفی صاحب کے لئے
221207_62602551.jpg
 

زرقا مفتی

محفلین
محترم بہنا بحیثیت اس بگڑے بپھرے پانچ ہزار افراد میں شامل اک فرد کی صورت (خود کو اس کا اک حصہ مانتے ہوئے ) اپنے عمل و کردار کی تعمیر و تربیت اک گہری نگاہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ماں باپ اور بزرگوں نے مجھے " اخلاقیات " کے وہ سب سبق سنائے سمجھائے جو کہ انسانیت کے چراغ کہلاتے ہیں ۔ ان اخلاقیات کو ہمراہ رکھتے مروجہ تعلیم کے لیئے گھر سے سکول کالج کا سفر شروع کیا ۔ معاشرے کے منافقت بھرے چلن کی قلعی اترنے لگی ۔ اخلاقیات بارے گھر سے ملنے والے تمام اسباق جھوٹے لگنے لگے ۔ جس کی لاٹھی جس کے تعلقات اس کی ہی بھینس اور اس کا ہی معاشرہ ۔۔۔ ۔۔ سو یہ سب آگہی پاکر جہاں اک طرف مجھ میں قنوطیت اور بے بسی کے مارے غصہ نے اپنی جگہ بنائی وہیں مجھے اس قنوطیت اور غصے سے چھٹکارے کا اک آسان ذریعہ بھی دکھ گیا ۔
سکول و کالج کی تعلیم نے تو مجھے " انسانیت " سے پیار کی تعلیم دی ۔ مگر میرے مذہبی مسلکی عقائد کے ذمہ دار استادوں نے مجھے " تفریق بین الانسان " کی تعلیم دی ۔ ان سے مجھے جو تعلیم ملی وہ " اس دنیا میں عملی طور پر کامیاب ہوتے اک اچھا انسان بنتے انسانیت کی خدمت کرتے اسے جنت بنانے کی محنت و مشقت سے بچتے صرف عقائد پر توجہ رکھتے " اس جنت کو پانے کی تھی جسے فنا نہیں "
سو میرے لیئے یہ بہت آسان ہوا کہ مین اپنے " اعمال و کردار " سے صرف نگاہ کرتے دوسروں انسانوں کے " اعمال و افعال " پر ناقد ہوجاؤں ۔ اور انہیں ان کے اعمال و افعال کی اپنی من مرضی کی سزا دوں ۔ اپنے غصے اور قنوطیت سے چھٹکارہ پاؤں ۔ اور اپنے ضمیر کی چھبن سے بچنے کے لیئے اپنے ان اعمال کو " دفاع مسلک و مذہب " کا لبادہ پہناؤں اور خودساختہ " جنت " کماؤں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
میرے لیئے ان سب میں الجھنا اس لیئے بھی آسان ٹھہرا کہ مجھے والدین کی کمائی اچھے مستقبل کی آس میں سکولوں کالجوں میں صرف کرتے صرف اک کاغذ کا ٹکڑا ڈگری کے نام پہ ملا ۔ جو کہ بنا تعلقات و رشوت کے میرے لیئے اک گالی ہی بن گیا ۔ ڈگری لیئے در در روزگار کی تلاش میں مارے مارے جوتیاں گھس گئیں ۔ مگر ڈگری کے قابل روزگار نہ ملا ۔ معاشرے سے " نکما بیکار " کے خطاب سن سن کر میں نے پیٹ پھرنے کو ریڑھی لگا لی ۔ ہاکر بن گیا ۔ کنڈیکٹری کرنے لگا ۔ لیکن میرے اندر اک آگ سلگتی رہی کہ اس معاشرے کے افراد نے میرے ساتھ انصاف نہ کیا ۔ اور مجھے جب ھی موقع ملا میں گھر جلا فساد مچا اپنی اس آگ کو ٹھنڈا کیا ۔۔
معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لیئے ہم سب کو بحیثیت اک فرد کے اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہے ۔ دوسروں کے لیئے راستے آسان کرنے ہیں ۔ معاشرتی تقسیم کو مٹانا ہے ۔ " انسان کے لیئے وہی کچھ ہے جس کے لیئے اس نے کوشش کی " کو بلا کسی معاشرتی تفریق کے لاگو کرتے "حق دار " کو حق ملے کی راہ تعمیر کرنی ہے ۔
بھائی صاحب آپ نے کسی پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کی بہت اچھی عکاسی کی ہے۔ مگر مشتعل افراد کی اکثریت بادامی باغ کے قریب واقع سٹیل ملوں کے مزدوروں پر مشتمل تھی ﴿جنگ اخبار﴾ پولیس افسر ملتان خان کے مطابق زیادہ لوگ قریبی پٹھان کالونی کے مزدور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔﴿جیو نیوز﴾
 

زرقا مفتی

محفلین
بجا فرمایا آپ نے انتخابات کے نزدیک ایسا سانحہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی پر پانی پھیر دیتا ہے ۔ اپنی ساکھ بچانے کے لئے امدادی کام جنوں کی رفتار سے ہونگے
لیکن ساتھ ہی ساتھ مخالفت برائے مخالفت بھی جاری رہے گی
 

زرقا مفتی

محفلین
مشتعل افراد کے بارے میں ایک متوازن تحریر بشکریہ بی بی سی
پاکستان کا ’مشتعل ہجوم'
ذیشان حیدر
لاہور کے قدیم علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتی برادری کی وہ پہلی آبادی نہیں جو توہینِ رسالت کے کسی مبینہ واقعے پر ’مشتعل ہجوم‘ کے غیظ و غضب کا نشانہ بنی ہے۔
زیادہ دور نہ بھی جائیں تو دو ہزار نو کے سانحۂ گوجرہ سے دو ہزار تیرہ میں لاہور کی عیسائی بستی کے دو سو کے قریب گھروں کی تباہی کے درمیان توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کے نام پر پاکستان میں ’عوامی انصاف‘ کے مظاہرے کئی بار دیکھنے کو ملے ہیں۔
یہ وہ مشتعل ہجوم ہے جو کبھی توہین آمیز فلم کے خلاف اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑیوں کے شیشے توڑتے دیکھا جا سکتا ہے تو کبھی کراچی میں مبینہ طور پر توہینِ آمیز ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے والے مسیحی لڑکے کے گھر پر حملہ آور ہوتا ہے۔
یہی ہجوم لاہور کے نجی سکول کی استانی کی مبینہ غلطی پر مشتعل ہو کر اس سکول کی تین شاخوں کو تباہ کر دیتا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو دادو یا پھر احمد پور شرقیہ میں قرآن کی مبینہ بےحرمتی کے الزام میں لوگوں کو سرِ عام زندہ یا پھر اس کی لاش جلا دیتا ہے۔
ان تمام واقعات میں قدرِ مشترک تو مشتعل ہجوم ہی ہے لیکن ایک فرق ان افراد میں ہے جن سے مل کر یہ ہجوم تشکیل پاتا ہے۔
جہاں گوجرہ میں منظم طور پر کی جانے والی کارروائی کا الزام مذہبی شدت پسند کالعدم تنظیموں پر عائد کیا گیا تھا تو وہیں کراچی اور لاہور ایسے واقعات کا آغاز تو مذہب کی بنیاد پر اشتعال دلائے جانے سے ہوا لیکن منظرِ عام پر آنے والی تصاویر میں آگ لگاتے اور توڑ پھوڑ کرتے نوجوان اپنے حلیوں سے شدت پسند تنظیم کے رکن یا حمایتی کم اور شترِ بےمہار زیادہ دکھائی دیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مشتعل ہجوم ہے کیا اور وہ کون سے عناصر ہیں جو ان عام نوجوانوں کو ایک ایسے ہجوم کی شکل دے دیتے ہیں کہ جس کے غیظ و غضب کے آگے ہر کوئی لاہور کی اس پولیس کی مانند بےبس دکھائی دیتا ہے جو جوزف کالونی میں مکانات کو جلتے اور وہاں کے رہائشیوں کے سپنوں کو ٹوٹتے دیکھتی تو رہی لیکن ان پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ توڑ پھوڑ پر آمادہ ہجوم میں شامل افراد انفرادی طور پر چاہے اتنے پرتشدد نہ ہوں لیکن جب وہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو نہ ہی ان میں نتائج کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ ہی ضمیر کی خلش انہیں ستاتی ہے اور وہ اپنے اقدامات کے لیے بھی ہجوم کو ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ محسوس کرنے لگتے ہیں۔
ماہرِ علمِ بشریات ندیم عمر تاررڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے واقعات میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں ہی پسے ہوئے طبقات ہیں: ’یہ لوگ خود کو کچلنے والے بالا دست طبقات کو تو کچھ کہہ نہیں سکتے اور ان کا غصہ زیردست پر نکلتا ہے۔‘
ندیم تاررڑ کا کہنا تھا کہ ’بادامی باغ کے واقعے میں ڈنڈے لہراتے ہوئے جو نوجوان نظر آ رہے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس نہ روزگار ہے نہ تعلیم اور ان کے گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں حالانکہ جنھیں وہ مار رہے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ کچلے ہوئے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس کی ذمہ داری ہماری حکومت اور ان واقعات پر بیان بازی کرنے والی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد تو امداد اور اقدامات کے اعلانات کرتی ہے لیکن مسئلے کی بنیاد کی اصلاح کے لیے کام نہیں کرتی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کو بہانے اور عذر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ملک میں مسیحی برادری پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں ان میں معاشی پہلو ہمیشہ موجود رہا ہے اور بادامی باغ والا واقعہ بھی اس سے الگ نہیں۔
معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی جہاں اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ اس عوامی تشدد کی بڑی وجوہات طبقاتی محرومیاں، ریاست کا جبر اور حکمران طبقے کی جانب سے استحصال ہے وہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار کا انحطاط بھی اس قسم کے واقعات کا ذمہ دار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریاست یا فرد کی ملکیت یا انسانی جان کا احترام ختم ہو چکا ہے اور معاشرے کے محروم طبقات توڑ پھوڑ کر کے انتقام کی خواہش پوری کرتے ہیں۔ ’لوگوں میں احساسِ محرومی ہے، غصہ ہے اور اس کا اظہار وہ تشدد کی شکل میں کرتے ہیں اور کسی دوسرے کے مال و متاع کو آگ لگا کر اپنی محرومیوں کا غصہ اتارتے ہیں‘۔
ڈاکٹر مبارک کے مطابق بنیادی خرابیوں کو دور کیے بغیر تبدیلی ممکن نہیں: ’ہمارے ہاں محض نصیحتوں سے یا وعظ سے لوگوں کی اصلاح نہیں کر سکتے اور انہیں راہِ راست پر نہیں لا سکتے۔ اس کے لیے ان وجوہات کو تلاش کر کے دور کرنا ہوگا جو ان خرابیوں کی وجہ بن رہی ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قسم کے واقعات میں افواہوں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے اور اکثر اوقات افواہیں ہی اس قسم کے واقعات کی بنیاد بنتی ہیں لیکن انتہائی قدم اٹھانے سے قبل سچائی جان لینے کا خیال آپ کو جبھی آ سکتا ہے جب آپ باشعور ہوں اور یہ شعور صرف تعلیم کے عام ہونے سے ہی آ سکتا ہے۔




http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/03/130310_mob_psychology_zis.shtml
 

نایاب

لائبریرین
بھائی صاحب آپ نے کسی پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کی بہت اچھی عکاسی کی ہے۔ مگر مشتعل افراد کی اکثریت بادامی باغ کے قریب واقع سٹیل ملوں کے مزدوروں پر مشتمل تھی ﴿جنگ اخبار﴾ پولیس افسر ملتان خان کے مطابق زیادہ لوگ قریبی پٹھان کالونی کے مزدور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔﴿جیو نیوز﴾
محترم بہنا ۔ نہ تو پڑھالکھا ہوں اور نہ ہی بے روزگار ۔ بچپن سے مزدوری کرتا ہوں ۔ اور مجھ سے چھ گنا زیادہ پڑھے لکھے جب مجبوری کے عالم میں میرے پاس " دیہاڑی " کرتے ہیں ۔ تو ان کی سوچوں سے آگاہی ملتی رہتی ہے ۔ یہ سٹیل مل کے مزدور بھی تو ایسے ہی ہوں گے معاشرے نے جن کی خواہشات کو مفاد کی ہتھوڑی سے کچلا ہوگا ۔ مزدور جب مزدوری پر راضی ہو تے ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہو اور اسے کہیں کام نہ ملے تو " جھنجھلاہت اور بے بسی کا احساس " غیر محسوس طریقے سے ایسی ہی سرگرمیوں میں دھکیل دیتا ہے ۔ اور مفاد پرست وطن و انسانیت کے دشمن انہیں اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں ۔ اپنے پیٹ کی بھوک برداشت ہوجاتی ہے مگر اولاد کی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
اس لڑی کو تو سیاست سے دور رکھیں۔۔۔
حقائق کو واضح کرنے کے لئے خبر لگائی کسی بھی اپنی پسند کے ذریعے سے تصدیق کرلیں آپ اسے سیاست پر محمول کریں تو آپکی مرضی مجھے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں کہ میں ن لیگ کے ناقدین میں شامل ہوں ۔ لیکن ایسا بھی نہیں سچ کو جھوٹ لکھ دوں یاجھوٹ کو من و عن تسلیم کر لوں
 
کچھ سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں
ہمارے معاشرے کے ان پانچ ہزار افراد کے کردار کی تعمیر کس ماحول میں ہوئی؟
کیسی تعلیم ملی؟
وہ کیسے مذہبی عقائد کے حامل ہیں؟
اُنہیں کیسے منفی معاشرتی رویوں کا سامنا ہے ؟
آئیے ان سوالات کے جواب دیجیے اور معاشرے میں مثبت تبدیلی کے لئے اقدامات تجویز کیجیے
بابا فرید گنج شکر کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ کسی نے ان سے اسلام کے ارکان کی تعداد پوچھی تو انہوں نے جواب میں پانچ کہنے کی بجائے چھ کہا۔ پانچوں ارکانِ اسلام نوانے کے بعد جو چھٹا رکن گنوایا ،اسکا نام ہے 'روٹی'۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی ہجوم کے تشدد ، بلوے اور جلاؤگھیراؤ کی کارروائیاں ہوتی ہیں ان میں سے غالب اکثریت کا تعلق معاشرے کے پسے ہوئے اور استحصال کے شکارمحروم طبقات سے ہوتا ہے۔یہ محرومی اور یہ عسرت، ایک گھٹن کو جنم دیتی ہے اور اس گھٹن کو vent out ہونے کیلئے محض کسی معمولی بہانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ معمولی بہانہ بسا اوقات پیدا کیا جاتا ہے چند مخصوص مفاد پرست عناصر کی جانب سے، جو اس صورتحال سے درپردہ طور پر اپنے کسی نہ کسی مفاد یا منفی جذبے کی تسکین چاہ رہے ہوتے ہیں۔ عام طور پر مذہب کے کسی ایشو کو بنیاد بنا کر یہ صورتحال پیدا کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر اس میں انتقام کا جذبہ ہی کارفرما ہوتا ہے۔
جب ہم یہ اور اس سے ملتے جلتے دوسرے واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان میں قدرِ مشترک یہی ہوتی ہے عام طور پر۔ یعنی تین عناصر کی موجودگی ضروری ہے:
1-گھٹن اور غصہ (اسکو ایک بارودی مواد کی طرح سمجھ لیں)
2- اس گھٹن اور غصے کو ایکسپلائٹ کرنے والے عناصر(اسکو اس موبائل فون کال یا ریموٹ کنٹرول سگنل کی طرح سمجھ لیں جس سے اس بارودی مواد کو Detonate کیا جاتا ہے)
3- اس بارودی مواد کو Detonate کرنے کا مکینزم (جو عموماّ مذہبی اور عصبیت پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ پسے ہوئے استحصالی طبقے کے پاس صرف مذہب ہی ایک ایسی چیز ہے جس میں اسکے لئے ان مسائل سے فرار اور تسکین کی قابلیت ہوتی ہے)۔
پہلے پوائنٹ کا حل یہ ہے کہ معاشرے میں عدل و انصاف اور معاشی بہتری کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔
دوسرے پوائنٹ کا حل یہ ہے کہ ایسے عناصر کو ڈھیل دینے کی بجائے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں تاکہ ان تمام لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو جو اس قسم کی کارروائیاں کرنے کا مجرمانہ رحجان رکھتے ہوں۔
تیسرے پوائنٹ کا حل یہ ہے کہ میڈیا، مساجد، مذہبی مدرسے، خطیب، اور لوگوں کے جذبات پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کو ایک ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ مولویوں، خطیبوں اور مذہبی اجتماعات میں ہونے والی تقریروں، اور مدارس میں چھپنے والے اور پڑھائے جانے والے لٹریچر کی زبردست قسم کی مانیٹرنگ اور سکروٹنی ہونی چاہئیے۔


3-
 

کاشفی

محفلین
حقائق کو واضح کرنے کے لئے خبر لگائی کسی بھی اپنی پسند کے ذریعے سے تصدیق کرلیں آپ اسے سیاست پر محمول کریں تو آپکی مرضی مجھے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہر گز نہیں کہ میں ن لیگ کے ناقدین میں شامل ہوں ۔ لیکن ایسا بھی نہیں سچ کو جھوٹ لکھ دوں یاجھوٹ کو من و عن تسلیم کر لوں
وضاحت تو کوئی مانگ بھی نہیں رہا۔۔:)۔ لیکن نواز شریف اور شہباز شریف سے رَتی برابر بھی ہمدردی رکھنا ایسے ہے جیسے کوئی ارئیل شارون سے ہمدردی رکھے۔۔ ارئیل شارون نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کروایا بالکل اسی طرح ان دونوں شریفوں نے 20 ہزار سے زائد اردو بولنے والے کراچی کے مسلمان نوجوانوں کو شہید کروا کر بوریوں میں بند کرکے اِدھر اُدھر ڈلوایا۔۔۔اور اس اقدام پر نواز شریف اور شہباز شریف سے ہمدردی رکھنے والے ڈھول کی دھمال میں خوشیاں مناتے ہیں اور اس غلط اقدام کی تائید کرتے ہیں۔۔
لہذا نواز شریف اور شہباز شریف اور ان کے کسی بھی قسم کے اقدام میرے نزدیک ہمیشہ غلط ہی تصور کیا جائیں گے ۔
میرے خیال میں مزید وضاحت دینے کی مجھے ضرورت نہیں۔۔ آپ نے چونکہ نام لے کر پوسٹ شائع کی تھی لہذا وضاحت ضروری تھی سیاسی باتوں کی۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
محترم بہنا ۔ نہ تو پڑھالکھا ہوں اور نہ ہی بے روزگار ۔ بچپن سے مزدوری کرتا ہوں ۔ اور مجھ سے چھ گنا زیادہ پڑھے لکھے جب مجبوری کے عالم میں میرے پاس " دیہاڑی " کرتے ہیں ۔ تو ان کی سوچوں سے آگاہی ملتی رہتی ہے ۔ یہ سٹیل مل کے مزدور بھی تو ایسے ہی ہوں گے معاشرے نے جن کی خواہشات کو مفاد کی ہتھوڑی سے کچلا ہوگا ۔ مزدور جب مزدوری پر راضی ہو تے ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہو اور اسے کہیں کام نہ ملے تو " جھنجھلاہت اور بے بسی کا احساس " غیر محسوس طریقے سے ایسی ہی سرگرمیوں میں دھکیل دیتا ہے ۔ اور مفاد پرست وطن و انسانیت کے دشمن انہیں اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں ۔ اپنے پیٹ کی بھوک برداشت ہوجاتی ہے مگر اولاد کی نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
معاف کیجیے گا مگر اس واقعے میں ملوث ہو کر کوئی مالی فائدہ تو حاصل نہ ہوا ہو گا نہ ہی کسی کو اپنے خاندان کی بہتری کا وسیلہ ہاتھ لگا ہوگا۔ انتہائی پسماندہ آبادی تھی جہاں کے مکین پولیس کے کہنے پر گھر خالی چھوڑ کر گئے ہوئے تھے۔گھر چھوڑنے والے نقدی یا قیمتی سامان تو ساتھ لے گئے ہونگے ان کے سادہ سامان کو نذرِ آتش کرنے سے شاید غیض وغضب کو تسکین ملی ہوگی ۔ یا کچھ ناکام افراد اسے اپنے خیالوں میں اُخروی کامیابی پر محمول کر رہے ہونگے دُنیاوی لحاظ سے اس کا کچھ فائدہ نہیں تھا۔
 
Top