معاشرہ اور تاریخ ( از شہید ڈاکٹر مرتضی مھطری )

صرف علی

محفلین
فہرست
معاشرہ اور تاریخ
پیش لفظ
معاشرہ کیا ہے؟
کیا انسان مدنی الطبع ہے؟
کیا معاشرے کا وجود اصیل اور عینی ہے؟
معاشرہ اور اس کے قوانین و سنن
جبر یا اختیار
معاشرتی تقسیم اور طبقہ بندی
معاشروں کی یگانگت یا ان کا تنوع بہ اعتبار ماہیت
معاشروں کا مستقبل
تاریخ کیا ہے؟
سائنسی تاریخ
۱۔ نقلی تاریخ کا معتبر یا بے اعتبار ہونا
۲۔ تاریخ میں قانون علت و معلول
۳۔ کیا تاریخ کی فطرت مادی ہے؟
مادیت تاریخ کے نظریہ کی بنیاد
نتائج
انتقادات
۱۔ بے دلیل ہونا
۲۔ بانیان مکتب کی تجدید نظر
۳۔ بنیاد اور عمارت کے جبری تطابق کا بطلان
۴۔ آئیڈیالوجی کی اپنے دور سے عدم مطابقت
۵۔ ثقافتی ترقی کا استقلال
۶۔ تاریخی میٹریالزم خود اپنی تنسیخ کرتا ہے
اسلام اور تاریخی مادیت
اعتراض
معیار اور پیمانے
۱۔ دعوت سے متعلق حکمت عملی
۲۔ عنوان مکتب
۳۔ شرائط و موانع قبولیت
۴۔ معاشروں کا عروج اور انحطاط
تاریخ کا تغیر و تبدل
۱۔ نسلی نظریہ
۲۔ جغرافیائی نظریہ
۳۔ بلند پایہ شخصیتوں سے متعلق نظریہ
۴۔ اقتصادی نظریے
۵۔ الٰہی نظریہ
تاریخ میں شخصیت کا کردار
 

صرف علی

محفلین
پیش لفظ
کوئی مکتب معاشرے اور تاریخ کے بارے میں کیا نظریہ رکھتا ہے اور ان دونوں سے کیا اخذ کرتا ہے‘ یہ امر اس مکتب کے تصور کائنات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اسلامی تصور کائنات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہو کہ معاشرے اور تاریخ کو اسلام کس انداز سے دیکھتا ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ اسلام عمرانیات (Socialogy) کا کوئی مکتب (School of Thought) ہے‘ نہ فلسفہ تاریخ ہے۔ اسلام کی آسمانی کتاب میں معاشرے یا تاریخ سے متعلق کوئی ایسی گفتگو نہیں جو عمرانیات اور فلسفہ تاریخ کی مروجہ زبان میں ہو‘ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح اس میں اخلاقی‘ فقہی‘ فلسفی اور دیگر علوم سے متعلق مفاہیم رائج زبان اور ان اصطلاحات میں بیان نہیں ہوئے جو ان علوم کا خاصہ ہیں- تاہم ان علوم سے وابستہ بہت سے مسائل کامل طور پر اس سے اخذ کئے جا سکتے ہیں اور قابل استنباط ہیں۔
معاشرہ تاریخ چونکہ باہم مربوط موضوع ہیں‘ علاوہ ازیں ہم ان کے بارے میں اختصار سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں‘ لہٰذا ہم نے انہیں ایک ہی فصل میں قرار دیا ہے۔ ان دونوں کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر خاص اہمیت کا حامل ہے‘ جسے مطالعے اور تحقیق کا عنوان قرار دیا جانا چاہئے‘ البتہ ہم معاشرے اور تاریخ سے مربوط مسائل کو اسی قدر اٹھائیں گے جس قدر ہمارے خیال میں مکتب اسلام کی شناخت کے لئے ضروری ہے۔
پہلے ہم معاشرے پر گفتگو کریں گے اور پھر تاریخ کو موضوع بحث بنائیں گے۔ معاشرے کے مسائل یہ ہیں:
۱۔ معاشرہ کیا ہے؟
۲۔ کیا انسان مدنی الطبع ہے؟
۳۔ کیا فرد کو اصلیت حاصل ہے اور معاشرے کی حیثیت انتزاعی اور ضمنی ہے یا اس کے برعکس معاشرہ اصلیت رکھتا ہے اور فرد کی حیثیت انتزاعی اور ضمنی ہے یا پھر کوئی تیسری صورت ہے؟
۴۔ معاشرہ اور اس کے قوانین و آداب۔
۵۔ کیا فرد معاشرے اور اجتماعی ماحول کے آگے بے بس ہے یا مختار؟
۶۔ اپنی ابتدائی تقسیم کے اعتبار سے معاشرہ کن شعبوں‘ سمتوں اور کن گروہوں میں تقسیم ہوتا ہے؟
۷۔ کیا انسانی معاشرے ہمیشہ ایک ہی ماہیت اور ایک ہی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف کی صورت ایسی ہے جیسی ایک ہی نوع(یہاں پر لفظ ”نوع“ علم منطق کے اصطلاحی مفہوم میں آیا ہے۔ ایک ہی نوع کے افراد ماہیت کے اعتبار سے بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مترجم) سے تعلق رکھنے والے افراد کے مابین ہوتی ہے یا پھر جغرافیے اور زمان و مکان کے فرق کے اعتبار سے نیز ثقافت و تمدن میں تغیر کے لحاظ سے معاشرے مختلف النوع ہوتے ہیں‘ یوں ان کی عمرانیات بھی مختلف ہو جائے گی۔ پھر ہر نوع کا اپنا خاص دوسروں سے مختلف مکتب بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کیا جس طرح تمام انسان علاقائی‘ نسلی اور تاریخی اختلافات کے باوجود جسم کے اعتبار سے واحد نوعیت کے حامل ہیں اور ان پر ایک ہی طرح کے فزیالوجیکل اور طبی قوانین حکم فرما ہیں‘ اجتماعی لحاظ سے بھی واحد نوعیت کے حامل ہیں اور ایک ہی اخلاقی و اجتماعی نظام ان پر لاگو کیا جا سکتا ہے اور بشریت پر ایک ہی مکتب حاکم ہو سکتا ہے یا ہر معاشرہ خاص جغرافیائی‘ ثقافتی اور تاریخی حالات کے تحت اپنی خاص عمرانیات رکھتا ہے اور ایک خاص مکتب کا متقاضی ہے؟
۸۔ کیا انسانی معاشرے ابتدائے تاریخ سے عصر حاضر تک پراگندہ صورت میں اور ایک دوسرے سے جدا حیثیت کے ساتھ موجود رہے ہیں اور ان پر کثرت و اختلاف حکم فرما رہا ہے‘ (نوعی اختلاف نہ ہو تو کم از کم انفرادی اختلاف رہا ہے) اور وحدت و یکتائی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بشریت کا مستقبل واحد معاشرہ‘ ایک تمدن‘ ایک ثقافت اور آخرکار بشریت کے یک رنگ و یک شکل ہو جانے سے عبارت ہے اور تضاد و تراجم تو ایک طرف اصلاً دوئی ختم ہو جائے گی یا پھر بشریت مجبور ہے کہ اس کے متعدد رنگ رہیں‘ مختلف صورتیں رہیں‘ ثقافت و تمدن اور جن امور پر انسان کا وجود اجتماعی قائم ہے ان میں اختلاف رہے؟
یہ وہ مسائل ہیں جن کے بارے میں ہمارے نزدیک اسلامی نقطہ نظر پیش کرنا انتہائی ضروری اور اہم ہے۔ ذیل میں ہم ترتیب کے ساتھ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان امور پر گفتگو کریں گے۔
معاشرہ کیا ہے؟
انسانوں پر مشتمل وہ جماعت جو خاص قوانین‘ خاص آداب و رسوم اور خاص نظام کی حامل ہو اور انہی خصوصیات کے باعث ایک دوسرے سے منسلک اور ایک ساتھ زندگی گذارتی ہو‘ معاشرہ تشکیل دیتی ہے۔ ایک ساتھ زندگی گذارنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ انسانوں کی کوئی جماعت کسی علاقے میں باہم مشترک زندگی گذارے اور ایک ہی آب و ہوا اور ایک جیسی غذا سے یکساں استفادہ کرے۔ یوں تو ایک باغ کے درخت بھی ایک دوسرے کے ساتھ پہلو بہ پہلو زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک ہی آب و ہوا اور ایک جیسی غذا سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہی حال ایک ہی گلے کے ہر جانور کا بھی ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چرتے ہیں اور باہم مل کر نقل مکانی بھی کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اجتماعی اور مدنی زندگی نہیں رکھتا‘ نہ معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔
انسان کی زندگی اجتماعی یا معاشرتی اس معنی میں ہے کہ وہ ایک ”اجتماعی ماہیت“ کی حامل ہے۔ ایک طرف تو اس کے مفادات‘ اس کے تعلقات اس کے کام کاج ”اجتماعی ماہیت“ رکھتے ہیں اور اپنے رسم و رواج کے دائرے میں تقسیم کار‘ تقسیم مفادات اور ایک دوسرے کی مدد کے بغیر اس کا گذارہ نہیں‘ دوسری طرف کچھ ایسے افکار‘ نظریات اور مزاج بھی لوگوں پر حاکم ہیں جو انہیں وحدت و یگانگت بخشتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں معاشرہ انسانوں کے اس مجموعے کا نام ہے جو ضرورتوں کے جبری سلسلے میں اور عقائد‘ نظریات اور خواہشات کے زیراثر ایک دوسرے میں مدغم ہیں اور مشترک زندگی گذار رہے ہیں۔
مشترک معاشرتی ضرورتوں اور زندگی سے متعلق خصوصی تعلقات نے نوع انسانی کو اس طرح ایک دوسرے سے منسلک کر دیا ہے اور زندگی کو اس طرح وحدت اور یکتائی بخشی ہے جیسے حالت سفر میں کسی گاڑی یا جہاز کے مسافر ہوا کرتے ہیں جو ایک مقصد کی سمت آگے بڑھتے ہیں‘ ایک ساتھ منزل پر پہنچتے ہیں یا ایک ساتھ رہ جاتے ہیں‘ ایک ساتھ خطرے میں گھرتے ہیں اور ان سب کی تقدیر ایک جیسی ہو جاتی ہے۔
رسول اللہ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کتنی اچھی مثال پیش کی‘ فرمایا:
”چند لوگ ایک بحری جہاز میں سوار ہوئے‘ جہاز سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا‘ ہر مسافر اپنی نشست پر بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص اس عذر سے کہ جس جگہ وہ بیٹھا ہے اس کی اپنی جگہ ہے اور وہ اپنی جگہ جو چاہے سو کرے‘ کسی چیز سے اس جگہ سوراخ کرنے لگا۔ اگر تمام مسافر وہیں اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اسے اس کام سے باز رکھتے تو نہ خود غرق ہوتے اور نہ اسے غرق ہونے دیتے۔“
 

صرف علی

محفلین
کیا انسان مدنی الطبع ہے؟
یہ سوال بہت پرانا ہے کہ انسان کی اجتماعی زندگی کن عوامل کے زیراثر وجود میں آئی ہے۔ کیا انسان اجتماعی طبیعت لے کر وجود میں آیا ہے یعنی طبعاً اس کی تخلیق ”کل“ کے ایک حصے کے طور پر کی گئی ہے اور اس کے وجود میں اپنے ”کل“ سے وابستہ ہونے کا رجحان موجود ہے یا اس کی تخلیق اجتماعی طبیعت پر نہیں ہوئی‘ بیرونی جبر و اضطرار نے اسے اجتماعی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا ہے؟ یعنی کیا انسان طبع اولی کے مطابق آزاد رہنا چاہتا ہے اور ان پابندیوں کو قبول نہیں کرنا چاہتا جو اجتماعی زندگی کا لازمہ ہیں لیکن تجربے نے اسے بتا دیا ہے کہ وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا لہٰذا بحالت مجبوری اس نے اجتماعی زندگی کی پابندیوں کو گلے لگا لیا ہے؟ یا یہ کہ انسان اجتماعی میلان لے کر پیدا نہیں ہوا‘ لیکن جو چیز اسے اجتماعی زندگی پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ اضطرار نہیں ہے یا کم از کم تنہا اضطرار نہیں ہے بلکہ انسان اپنی فطری عقل کے فیصلے اور محاسبے کی طاقت سے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ مشارکت‘ تعاون اور اجتماعی زندگی کے ذریعے ہی خلقت کے انعامات سے بہتر استفادہ کر سکتا ہے اور اسی لئے اس نے اس ”شرکت“ کو ”انتخاب“ کیا ہے؟ پس مسئلے کی تین صورتیں ہیں:
۱۔ کیا انسان کی اجتماعی زندگی طبیعی ہے؟ یا
۲۔ اضطراری ہے؟ یا
۳۔ پھر انتخاب شدہ ہے۔
u پہلے نظریے کے مطابق نوع بشر کی اجتماعی زندگی‘ عورت اور مرد کی گھریلو زندگی کی طرح ہے کہ زوجین میں سے ہر ایک آغاز خلقت سے ”کل“ کا ایک حصہ بن کر آیا ہے اور دونوں کی سرنوشت میں اپنے ”کل“ سے ملحق ہونے کا رجحان موجود ہے۔
u دوسرے نظریے کے مطابق اجتماعی زندگی کی مثال ایسے دو ملکوں کے تعاون اور باہمی سمجھوتے کی سی ہے جو وہ مشترک دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو ناتواں محسوس کرتے ہوئے اس راہ کو اختیار کر لیتے ہیں۔
u تیسرے نظریے کے مطابق اجتماعی زندگی ان دو سرمایہ داروں کی ایک کمپنی کی طرح ہے جو زیادہ منافع کمانے کے لئے ایک تجارتی‘ زرعی یا صنعتی یونٹ قائم کرتے ہیں۔
پہلے نظریے کے مطابق اصلی سبب انسان کی اندرونی طبیعت ہے۔ دوسرے نظریے کے مطابق انسانی وجود سے باہر ایک بیرونی عنصر اس میں کارفرما ہے اور تیسرے نظریے کے مطابق اصلی سبب انسان کی عقلی قوت اور اس کی حساب کتاب کی صلاحیت ہے۔
پہلے نظریے کی بنیاد پر اجتماعی ہونا ایک کلی اور عمومی مقصد ہے اور انسان بالطبع اس کی سمت رواں ہے۔ دوسرے نظریے کی بنیاد پر ایک اتفاق اور حادثاتی امر ہے اور فلسفے کی اصطلاح میں ”غایت اولی“ نہیں ”غایت ثانوی“ ہے اور تیسرے نظریے کے مطابق اس کی غایت فطری نہیں بلکہ فکری ہے۔
قرآن کریم کی آیتوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان کے اجتماعی ہونے کو اس کی خلقت میں رکھ دیا گیا ہے۔ سورئہ حجرات میں ارشاد ہوتا ہے:
یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی و جعلنا کم شعوبا و قبائل لتعا رفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقکم(حجرات ۱۳)
”اے انسانو! ہم نے تمہاری تخلیق مرد اور عورت سے کی ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تمہارے درمیان شناخت کی راہ نکل سکے (نہ یہ کہ اس کے ذریعے تم ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرنے لگو) بے شک اللہ کے نزدیک وہی زیادہ لائق تکریم ہے‘ جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے۔“
اس آیہ کریمہ میں ایک اخلاقی حکم دیتے ہوئے انسان کی خاص خلقت کے اجتماعی فلسفے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ انسان کو اس طرح سے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ مختلف قوموں اور مختلف قبیلوں کی صورت اختیار کرے۔ قوموں اور قبیلوں کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی شناخت ممکن ہو جاتی ہے‘ جو اجتماعی زندگی کا جزولاینفک ہے یعنی یہ نسبتیں جو ایک طرف سے وجہ اشتراک اور دوسری طرف سے اختراق بشر کا سبب ہیں‘ نہ ہوتیں تو ایک دوسرے کی شناخت ناممکن تھی اور اس صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات پر مبنی اجتماعی زندگی کا وجود غیر ممکن تھا۔ یہ اور ایسے دیگر امور مثلاً رنگ‘ شکل اور قد پر مبنی اختلاف دراصل وہ پہچان ہے جو ہر شخص کو اس کی شناخت کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ بالفرض اگر ہر کوئی ایک ہی رنگ‘ ایک ہی شکل اور ایک ہی قالب میں ڈھلا ہوتا اور اگر ان کے درمیان کوئی باہم اور کوئی انتساب نہ ہوتا تو تمام افراد کسی کارخانے میں ڈھلی ہوئی ایک شکل کی جنس کی طرح ہوتے اور ان کے درمیان تمیز مشکل ہوتی اور بالآخر یہی نتیجہ نکلتا کہ روابط‘ تبادلہ خیال‘ کام اور صنعتوں کے مبادلے کی بنیاد پر قائم انسان کی اجتماعی زندگی ناممکن ہو جاتی۔ پس قوموں اور قبیلوں کے ساتھ منسوب ہونے کی غایت اور حکمت طبیعی ہے اور وہ ہے لوگوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا اور ان کے درمیان شناخت کی صورت کا پیدا ہونا جو اجتماعی زندگی کا جزولاینفک ہے نہ یہ کہ اس بنیاد پر ہم اپنی بڑائی‘ برتری اور تفاخر کا اظہار کریں جب کہ شرف و کرامت کی بنیاد تو تقویٰ ہے۔
سورئہ فرقان کی آیت ۵۴ میں ارشاد ہوتا ہے:
وھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا و صھرا
”تمہارا رب وہ ہے جس نے پانی سے بشر کی تخلیق کی اور پھر اسے نسلی رشتے (نسبی رابطے) والا قرار دیا۔“
اس آیہ کریمہ میں بھی نسبی اور سببی روابط کو جو افراد کو ایک دوسرے سے ملانے اور ان میں پہچان کی علامت بننے کا سبب ہیں‘ ایک ایسے عنوان سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ اصل خلقت کی غایت کلی اور حکمت ہے۔
سورئہ مبارک زخرف کی آیت ۲۲ میں ارشاد ہوتا ہے:
لھم یقسمون رحمة ربک نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیوة الدنیا و رفعنا بعضھم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا و رحمة ربک خیر مما یجمعون
”کیا یہ لوگ تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟ (کیا خلق سے متعلق امور انہیں سونپ دیئے گئے ہیں کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں) ہم نے (استعداد پر مبنی) وسائل اور ذرائع معاش کو دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان بانٹ دیا ہے اور بعض کو بعض پر صلاحیتوں اور وسائل کے اعتبار سے برتری دی ہے تاکہ اس ذریعے سے بعض‘ بعض کو مسخر کریں (اور اس طرح طبیعی طور پر ہر ایک سے دوسرے کی تسخیر ہو) اور یقینا تیرے پروردگار کی رحمت (نعمت نبوت) اس چیز سے بہتر ہے جسے وہ جمع کر رہے ہیں۔“
ہم نے ”الٰہی تصور کائنات“ میں توحید پر گفتگو کرتے ہوئے اس آیہ مبارکہ کا مقصود واضح کیا تھا جسے یہاں ہم تکرار نہیں کریں گے۔ تاہم بطور خلاصہ عرض کریں گے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سب کے سب یکساں صلاحیت اور یکساں وسائل کے ساتھ خلق نہیں کئے گئے اور اگر ایسا ہوتا تو ہر کوئی وہی کچھ رکھتا جو دوسرے کے پاس ہے‘ ہر کوئی اسی چیز سے محروم ہوتا جس سے دوسرا محروم ہوتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا کہ کوئی متوازی احتیاج‘ کوئی باہمی تعلق یا متبادل خدمت کی راہ نہ نکلتی۔ اللہ تعالیٰ نے نوع بشر کو صلاحیتوں‘ جسمانی‘ روحانی‘ عقلی اور جذباتی وسائل کے اعتبار سے مختلف خلق کیا ہے۔ بعض کو بعض خوبیوں میں دوسروں پر درجے کے اعتبار سے برتری دی ہے۔ پھر ان دوسروں کو کسی اور خوبی میں بعض پر سبقت بخشی ہے۔ اس طرح سب کو بالطبع ایک دوسرے کا محتاج اور ایک دوسرے سے ربط باہم کا طلب گار بنا دیا ہے اور اس طرح ایک مربوط اجتماعی زندگی کی بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ آیہ کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ انسان کی معاشرتی زندگی نری معاہداتی (انتخاب شدہ) یا اضطراری و مسلط کردہ (Imposed) نہیں بلکہ طبیعی ہے۔
 

صرف علی

محفلین
کیا معاشرے کا وجود اصیل اور عینی ہے؟
معاشرہ افراد کے مجموع سے مرکب ہے۔ افراد نہ ہوں تو معاشرہ بھی نہیں ہوتا۔ اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ معاشرے کے افراد کی ترکیب کس طرح کی ہے؟ اس سلسلے میں کئی نظریات قابل ذکر ہیں۔ مثلاً
(الف) معاشرے میں افراد کی ترکیب اعتباری ہے‘ یعنی حقیقت میں کوئی ترکیب عمل میں نہیں آئی‘ حقیقی ترکیب تو اس صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہے جب کچھ امور ایک دوسرے پر اپنا رنگ جمائیں اور ایک دوسرے پر اثرات مرتب کریں۔ اثرگذاری اور اثرپذیری کا عمل ہو‘ عمل اور ردعمل کے نتیجے میں ایک نئی چیز اپنی خاص خوبیوں کے ساتھ وجود میں آئے‘ جیسے کیمیائی ترکیبیں ہوتیں ہیں‘ مثلاً آکسیجن اور ہائیڈروجن کے خاص انداز سے باہم ملنے سے پانی معرض وجود میں آتا ہے۔ پانی ایک بالکل نئی چیز ہوتی ہے جس کی ماہیت بھی نئی اور خواص و آثار بھی اپنے ہی ہوتے ہیں۔ حقیقی ترکیب کا لازمہ یہ ہے کہ اجزاء ایک دوسرے میں مدغم ہو کر اپنے خواص و آثار کھو دیں اور ”مرکب“ کے وجود میں حل ہو جائیں۔
انسان اپنی اجتماعی زندگی میں ہرگز یوں ایک دوسرے کے ساتھ مدغم نہیں ہوتا اور لوگ معاشرے میں ”انسان الکل“ کی حیثیت سے حل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ کوئی اصیل‘ عینی اور حقیقی وجود نہیں رکھتا بلکہ اس کا وجود اعتباری اور انتزاعی ہوتا ہے۔ اصیل عینی اور حقیقی وجود رکھنے والی چیز فرد ہے اور بس۔ لہٰذا انسانی زندگی اگرچہ معاشرے میں ایک اجتماعی شکل اور اجتماعی ماہیت کی حامل ہے لیکن معاشرے کے افراد معاشرے کے عنوان سے ایک حقیقی مرکب کی صورت اختیار نہیں کرتے۔
(ب) معاشرہ طبیعی مرکبات کی طرح حقیقی مرکب نہیں ہے لیکن صناعی مرکب ضرور ہے۔ صناعی مرکب اگرچہ طبیعی نہیں ہے لیکن مرکب حقیقی ہی کی ایک قسم ہے۔ صناعی مرکب کی مثال ایک مرتبط الاجزاء مشین کی سی ہے۔ طبیعی مرکب میں اجزاء ایک تو اپنی ہویت کھو کر کل میں جذب ہو جاتے ہیں‘ دوسرے ان کا اپنا جداگانہ اثر بھی بالتبع اور بالجبر جاتا رہتا ہے‘ لیکن صناعی مرکب میں ان کی ہویت باقی رہتی ہے لیکن جداگانہ اثر باقی نہیں رہتا۔ اجزاء ایک خاص ترکیب کے ساتھ ایک دوسرے سے مربوط ہو جاتے ہیں اور ان کے اثرات بھی آپس میں پیوستگی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ جو علیحدہ حیثیت میں اجزاء کے مجموعی آثار نہیں ہوتے۔ مثلاً ایک گاڑی سامان یا افراد کو ایک معین رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے حالانکہ یہ کام اس کا کوئی ایک جزو نہیں کر سکتا اور نہ اس کے اجزاء جب جدا جدا تھے تو مربوط ہونے سے پہلے مجموعی طور پر ایسا کر سکتے تھے۔ موٹرگاڑی کی ترکیب میں اجزاء کے درمیان جبری ارتباط اور جبری تعاون کارفرما ہے لیکن ہویت کل میں ہویت اجزاء کے جذب کا یہ مقام نہیں بلکہ یہاں کل‘ جزو سے ہٹ کر کوئی مقام نہیں رکھتا‘ کل اجزاء کے مجموعے اور ان کے درمیان ایک خاص رابطے سے عبارت ہے۔
معاشرہ بھی یوں ہی ہے۔ معاشرہ بنیادی اور فرعی شعبوں اور پہلوؤں سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ شعبے اور وہ افراد جو ان شعبوں سے وابستہ ہیں سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور سب ایک دوسرے میں پیوستہ ہیں۔ ثقافتی‘ مذہبی‘ اقتصادی‘ سیاسی‘ عدالتی یا تربیتی غرض جس شعبے میں بھی کوئی تغیر و تبدل ہو‘ اس کا اثر دوسرے شعبوں پر پڑتا ہے۔ اجتماعی زندگی یوں معرض وجود میں آتی ہے جیسے ایک پوری گاڑی ہوتی ہے بغیر اس کے کہ معاشرے یا شعبوں کے افراد معاشرے کی اجتماعی شکل میں اپنی ہویت و حیثیت کھو دیں۔
(ج) معاشرہ طبیعی مرکبات جیسا ہی ایک حقیقی مرکب ہے‘ لیکن یہ قلبی تعلقات‘ افکار‘ عواطف ارادوں اور چاہتوں کی ترکیب سے بنتا ہے یعنی یہ تمدنی ترکیب ہے‘ جسموں اور بدنوں کی ترکیب نہیں‘ جس طرح مادی عناصر ایک دوسرے پر اثرات قائم کر کے ایک نئی چیز ظہور میں لانے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں اور یہ اصطلاح اہل فلسفہ مادہ کے اجزاء کا ایک دوسرے میں اور ایک دوسرے پر تاثیر و تاثر اور عمل اور ردعمل قائم کر کے ایک نئی شکل کی استعداد حاصل کرتے ہیں اور اس ترتیب سے ایک نیا مرکب ظہور میں آتا ہے اور اجزاء ایک نئی ہویت کے ساتھ اپنی زندگی کو جاری رکھتے ہیں‘ اسی طرح انسان بھی فطری اور عالم طبیعت سے حاصل کی ہوئی دولت کے ساتھ معاشرتی زندگی میں قدم رکھتا ہے اور روحانی طور پر ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتا ہے اور اس طرح وہ ایک جدید روحانی ہویت کے ساتھ گویا اجتماعی حیات کی صورت پاتا ہے اور یہ ترکیب خود اپنے طور پر ایک طرح کی طبیعی ترکیب ہے کہ جس کے لئے کوئی مثل و نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہ ترکیب اس اعتبار سے کہ اجزاء ایک دوسرے پر عینی اثرات مرتب کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے عینی تغیر کا سبب بنتے ہیں اور ایک نئی ہویت اختیار کرتے ہیں۔ ایک طبیعی اور عینی ترکیب ہے‘ لیکن اس اعتبار سے کہ ”کل“ اور مرکب ایک ”حقیقی اکائی“ کے عنوان سے وجود پذیر نہیں‘ یہ دیگر طبیعی مرکبات سے مختلف ہے یعنی باقی تمام طبیعی مرکبات میں ترکیب‘ ترکیب حقیقی اس لئے ہے کہ ان میں اجزاء ایک دوسرے پر حقیقی اثرات قائم کرتے ہیں اور افراد کی ہویت کچھ اور طرح کی ہویت ہو جاتی ہے نیز خود مرکب ایک حقیقی ”اکائی“ ہوتا ہے یعنی یہاں خالصتاً یگانہ ہویت موجود ہے اور کثرت اجزاء نے وحدت کل کی صورت اختیار کر لی ہے۔ جب کہ افراد اورمعاشرے کی ترکیب‘ حقیقی ترکیب اس لئے ہے کہ یہ اثر اندازی اور اثر پذیری اور عمل و ردعمل واقعی طور پر رونما ہوتے ہیں اور اجزائے مرکب یعنی معاشرے کے افراد نئی صورت اور نئی ہویت سے ہمکنار ہوتے ہیں‘ لیکن کسی طرح بھی کثرت وحدت میں نہیں بدلتی اور ایک حقیقی اکائی کے طور پر ”انسان الکل“ وجود میں نہیں آتا کہ کثرتیں اس میں حل ہو جائیں بلکہ ”انسان الکل“ افراد کا مجموعہ ہی ہوتا ہے جو اعتباری اور انتزاعی وجود رکھتا ہے۔
(د) معاشرہ‘ طبیعی مرکبات سے بالاتر ایک حقیقی مرکب ہے‘ طبیعی مرکبات میں اجزاء ترکیب سے پہلے ازخود ہویت و آثار کے حامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے میں اور ایک دوسرے پر تاثیر و تاثر اور عمل اور ردعمل کے نتیجے میں نئی چیز کے پیدا ہونے کی بنیاد فراہم ہوتی ہے لیکن افراد اجتماعی وجود سے پہلے کے مرحلے میں انسانی ہویت کے حامل نہیں ہوتے‘ خالی برتن ہوتے ہیں کہ جن میں اجتماعی روح کے حصول کی استعداد موجود ہوتی ہے‘ اجتماعی وجود سے قطع نظر انسان‘ حیوان محض ہے اور اس میں صرف استعداد انسانیت موجود ہے۔ انسان کی انسانیت یعنی اس کی خودی‘ اس کا تفکر‘ اس کے عواطف و احساسات‘ اس کے میلانات‘ اس کا فکری رجحان اور وہ چاہت جو انسانیت سے متعلق ہوتی ہے‘ اجتماعی روح کے پرتو میں ابھرتی ہے۔ یہ اجتماعی روح ہے جو اس خالی برتن کو پُر کرتی ہے اور کسی شخص کو شخصیت عطا کرتی ہے۔ اجتماعی روح ہمیشہ انسان کے ساتھ رہی ہے اور آئندہ بھی اخلاق‘ مذہب‘ سائنس‘ فلسفہ اور آرٹ سے متعلق تجلیوں کے ساتھ اس کے آثار ہمیشہ باقی رہیں گے۔ افراد کا ایک دوسرے پر روحانی اور معنوی اثرات مرتب کرنا نیز ایک دوسرے پر ایسا ہی عمل و ردعمل قائم کرنا اجتماعی روح کے ذریعے اور اس کے پرتو میں ہوتا ہے‘ نہ اس سے مقدم ہوتا ہے نہ اس سے پہلے والے مرحلے میں‘ درحقیقت انسان کی عمرانیات اس کی نفسیات پر سبقت رکھتی ہے اور یہ پچھلے نظریے کے برخلاف ہے کہ جو انسان کے لئے اجتماعی وجود سے پہلے اس کی نفسیات کے ہونے کا قائل ہے اور اس کی عمرانیات کو اس کی نفسیات کے بعد دوسرے مرحلے میں لاتا ہے۔ زیربحث نظریے کے مطابق اگر انسان اجتماعی وجود نہ رکھتا اور اگر اس کی عمرانیات نہ ہوتی تو وہ کوئی انفرادی انسانی نفسیات بھی نہ رکھتا۔
پہلا نظریہ خالص انفرادی اصلیت کا نظریہ ہے‘ اس لئے کہ اس نظریہ کے مطابق معاشرہ نہ کسی حقیقی وجود کا حامل ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قانون اور رسم و رواج ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سرنوشت ہے اور نہ ہی کوئی شناخت ہے۔ صرف افراد میں جو وجود عینی رکھتے ہیں وہی موضوع شناخت بنتے ہیں۔ ہر فرد کی تقدیر دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔
 

صرف علی

محفلین
دوسرا نظریہ بھی انفرادی اصلیت کا نظریہ ہے۔ یہ نظریہ معاشرے کے لئے ایک کل اور ترکیب افراد کے لئے ایک حقیقی ترکیب کے عنوان سے اصلیت اور غیبت کا قائل نہیں لیکن یہ افراد کے رابطہ کو ایک فزیکل رابطے کی مانند ایک طرح کا حقیقی اور عینی رابطہ بناتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق معاشرہ باوجود اس کے کہ افراد سے ہٹ کر کوئی جداگانہ وجود نہیں رکھتا اور صرف افراد ہی نہیں جو وجود عینی و حقیقی رکھتے ہیں لیکن اس اعتبار سے کہ افراد اور معاشرے کے اجزاء ایک کارخانے اور ایک مشینری کے اجزاء کی طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان کے آثار اور اعمال علت و معلول کے میکینیکل رابطے کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ افراد بھی ایک مشترک تقدیر رکھتے ہیں اور معاشرہ یعنی یہ مرتبط الاجزاء مجموعہ اسی علت و معلول کے خاص میکانیاتی نظام کے باعث جو اس کے اجزاء کے درمیان موجود ہے‘ اپنے اجزاء کی شناخت سے ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ لیکن تیسرا نظریہ فرد اور معاشرہ‘ دونوں کو اصالت دیتا ہے اس اعتبار سے کہ وہ معاشرے کے اجزاء کے وجود (یعنی افراد) کو معاشرے میں حل شدہ نہیں جانتا اور معاشرے کے لئے کیمیائی مرکبات کی طرح الگ سے کسی وجود کا قائل نہیں۔ یہ انفرادی افراد کا نظریہ ہے لیکن اس اعتبار سے کہ یہاں اس نظریے کے مطابق ترکیب افراد روحانی‘ فکری اور عاطفی مسائل کی رو سے کیمیائی ترکیب جیسی ہے کہ جہاں افراد معاشرے میں ایک نئی ہویت اختیار کرتے ہیں اور وہی ہویت معاشرے کی بھی ہے‘ ہرچندکہ معاشرہ یگانہ ہویت کا حامل نہیں۔ یہ نظریہ اجتماعی اصلیت کا نظریہ ہے‘ اس نظریہ کی بناء پر اجزاء کے تاثیر اور تاثر کے زیراثر ایک زندہ اور نئی حقیقت رونما ہوتی ہے اور نئی روح‘ نیا شعور‘ نیا ضمیر‘ نیا ارادہ اور نئی چاہت ظہور میں آ گئی ہے۔ یہ اس شعور‘ اس ارادے‘ اس ضمیر اور اس فکر کے علاوہ جو افراد کو انفرادی طور پر حاصل ہے اور اسے افراد کے اس شعور اور وجدان پر غلبہ حاصل ہے۔
اب رہا چوتھا نظریہ تو یہ خالص اجتماعی اصلیت کا نظریہ ہے‘ اس نظریے کے مطابق جو کچھ بھی ہے‘ اجتماعی روح‘ اجتماعی ضمیر‘ اجتماعی شعور‘ اجتماعی ارادہ‘ اجتماعی چاہت اور اجتماعی خودی ہی ہے۔ انفرادی ضمیر‘ اجتماعی شعور و ضمیر کا ایک مظہر ہے اور بس۔
قرآن مجید کی آیتیں تیسرے نظریے کی تائید کرتی ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں قرآن سائنس یا فلسفے کی کتاب کی طرح مسائل کو پیش نہیں کرتا بلکہ اس کا انداز کچھ اور ہے۔ وہ معاشرہ اور فرد سے متعلق مسائل کو اس طرح سامنے لاتا ہے کہ جس سے تیسرے نظریے کی تائید ہوتی ہے۔
قرآن تمام امتوں (تمام معاشروں) کے لئے مشترک سرنوشت‘ مشترک نامہ عمل‘ فہم و شعور‘ عمل اور اطاعت و عصیان کا قائل ہے۔(ملاحظہ ہو تفسیرالمیزان‘ جلد ۴‘ ص ۱۰۲)
ظاہر ہے اگر امت وجود عینی نہ رکھتی ہو تو سرنوشت‘ فہم و شعور اور اطاعت و عصیان کی گفتگو بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہ دلالت کرتی ہے کہ قرآن ایک طرح کی حیات کا قائل ہے کہ جو اجتماعی حیات ہے۔ اجتماعی حیات محض ایک تشبیہ و تمثیل نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح اجتماعی موت ایک حقیقت ہے۔
سورئہ اعراف کی چونتیسویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
ولکل امة اجل فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعة ولا یستقدمون
”ہر امت (ہر معاشرہ) کی ایک مدت میعاد ہے‘ اسے موت سے ہمکنار ہونا ہے پس جب ان کا آخری وقت آتا ہے تو اس میں نہ ایک گھڑی آگے ہوتی ہے اور نہ ایک گھڑی پیچھے۔“
اس آیت میں ایک حیات اور ایک ایسی زندگی کی گفتگو ہے جس کا ایک آخری لمحہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی‘ ایک گھڑی آگے نہ پیچھے‘ یہ حیات افراد سے نہیں امت سے متعلق ہے اور ظاہر ہے کہ افراد امت نہ ایک ساتھ اور نہ ہی ایک لمحے میں مرتے ہیں بلکہ ان کی موت متفرق اور متفاوت ہوتی ہے۔
سورئہ مبارکہ جاثیہ کی اٹھائیسویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
کل امة تدعی الی کتابہا
”ہر امت اور ہر معاشرے کو اس کے اپنے ہاتھ سے لکھی جانے والی کتاب کی سمت پڑتال کے لئے بلایا جائے گا۔“
پس معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف افراد کے اپنے مخصوص اعمال نامے اور کتابیں ہیں بلکہ معاشرے بھی اس اعتبار سے کہ زندہ‘ باشعور‘ مکلف اور قابل خطاب ہیں اور ارادہ و اختیار بھی ان کے پاس ہے۔ نامہ عمل رکھتے ہیں اور انہیں بھی نامہ عمل کی طرف بلایا جائے گا۔
سورئہ انعام کی ایک سو آٹھویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
زینا لکل امة عملھم
”ہم نے ہر امت کے عمل کو ان کے لئے زینت بنا دیا ہے۔“
یہ آیت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ایک امت اپنا ایک شعور‘ اپنا ایک معیار اور اپنا ایک طرز تفکر رکھتی ہے اور اس کا فہم و شعور و ادراک خصوصیت کے ساتھ اس سے وابستہ ہوتا ہے۔ ہر امت (کم از کم عملی ادراکات سے متعلق مسائل میں) اپنے مخصوص معیار کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ ہر امت کے ادراک کا ایک خاص ذوق اور سلیقہ ہوتا ہے بہت سے ایسے امور ہیں جو ایک امت کی نگاہ میں اچھے اور دوسری کی نگاہ میں برے ہوتے ہیں۔ یہ امت کا معاشرتی ماحول اور اس کی معاشرتی فضاء ہے جو افراد کے ادراک سے متعلق سلیقے کو ایسا بناتی ہے۔
سورئہ مومن کی پانچویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
و ھمت کل امة برسو لھم لیاخذ وہ و جادلوا بالباطل لید حضوابہ الحق فاخذ تھم فکیف کان عقاب
”اور ہر امت نے اپنے پیغمبر کو گرفتار کرنے کا عزم کیا اور ناحق خود اس سے جھگڑتے رہے تاکہ حق زائل ہو جائے اور جب انہوں نے ایسا کیا تو میں نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ پس میرا عذاب کیسا رہا؟“
اس آیت میں ایک ناشائستہ اجتماعی عزم و ارادہ کے بارے میں گفتگو ہے۔ یہاں بات حق سے بیکار جھگڑے کے لئے اجتماعی ارادہ سے متعلق کی گئی ہے۔ گفتگو یہ ہے کہ اس نوعیت کے اجتماعی عزم و آہنگ کی سزا عمومی اور اجتماعی عذاب ہے۔ قرآن کریم میں بعض مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ معاشرے کے کسی ایک فرد کے کسی کام کو پورے معاشرے کی طرف نسبت دی گئی ہے یا کسی نسل کے کسی عمل کو بعد کی نسلوں سے منسوب کیا گیا ہے۔(۱)
اس وقت ہو سکتا ہے جب معاشرے کے افراد‘ اجتماعی سوچ اور اجتماعی ارادہ رکھتے ہوں۔ اصطلاحاً کہہ سکتے ہیں کہ اجتماعی روح کے حامل ہوں۔ مثلاً قوم ثمود کے واقعہ میں حضرت صالح کی اونٹنی کو کاٹنے کے عمل کو پوری قوم سے نسبت دی گئی ہے جب کہ اسے کاٹنے والا ایک شخص تھا۔ قرآن کے الفاظ میں ”فعقروھا“ یعنی پوری قوم نے اس اونٹنی کو کاٹا۔ قرآن اس جرم میں پوری قوم کو ملوث جانتا ہے اور سب کو عذاب کا مستحق قرار دیتا ہے اور کہتا ہے:
فد مدم علیھم ربھم
نہج البلاغہ کے خطبوں میں سے ایک خطبے میں حضرت علی علیہ السلام اس مطلب کی وضاحت میں ارشاد فرماتے ہیں:
ایھا الناس انما یجمع الناس الرضا والسخط
”اے لوگو! بتحقیق وہ چیز جو سب کو اپنے گرد جمع کرتی ہے‘ انہیں رشتہ اتحاد میں منسلک کرتی ہے اور انہیں ایک ہی سرنوشت عطا کرتی ہے‘ خوشنودی اور غضب ہے۔“
جب کبھی لوگ اجتماعی صورت میں کسی فعل پر خوشی یا ناخوشی کا اظہار کریں خواہ وہ فعل فرد واحد نے کیوں نہ انجام دیا ہو۔ پوری قوم ایک ہی حکم اور ایک ہی انجام کی حامل ہو گی۔
و انما عقر ناقة ثمود رجل واحد فعمھم اللہ بالعذاب لما عموہ بالرضا‘ فقال فعقرو ھافا صبحوانا دمین
”یعنی خداوند عالم نے اپنے عذاب کو اجتماعی صورت میں پوری قوم ثمود پر نازل کیا۔ اس لئے کہ ثمود کی پوری قوم اس ایک فرد کے فیصلے پر راضی تھی اور جب یہ فیصلہ مرحلہ عمل میں آیا تو درحقیقت تمام لوگوں کا فیصلہ تھا۔“
خداوند عالم نے اپنے کلام میں اونٹنی کو مارنے کے عمل کو باوجود اس کے ایک شخص کے ہاتھوں انجام پایا تھا‘ پوری قوم کی طرف نسبت دی اور کہا پوری قوم نے مار ڈالا‘ یہ نہیں کہا کہ اس قوم کے ایک فرد نے یہ عمل انجام دیا۔
یہاں ایک نکتے کا تذکرہ مناسب ہے اور وہ یہ کہ کسی گناہ پر اظہار رضامندی اگر صرف رضامندی کی حد تک رہے اور عملاً اس گناہ میں شرکت شمار نہ ہوتا ہو تو گناہ نہیں کہلاتا‘ مثلاً کوئی شخص عمل گناہ انجام دے اور دوسرے کو اس فعل کے بارے میں فعل سے پہلے یا بعد میں آگاہی ہو جائے اور وہ اس سے خوش ہو یہاں تک کہ اگر خوشنودی عزم و ارادہ کے مرحلے میں بھی داخل ہو جائے اور اس پر عمل نہ ہو‘ تب بھی گناہ نہیں ہے۔
خوشنودی کو اس وقت گناہ کہا جائے گا جب یہ ایک فرد کے گناہ کرنے کے ارادے اور عمل میں ایک طرح کی شرکت شمار کی جائے اور ایک طرح سے اس کے ارادے اور عمل میں موثر سمجھی جائے۔ اجتماعی گناہوں کی یہی صورت ہے۔
معاشرتی ماحول اور اجتماعی روح کسی گناہ کے واقع ہونے پر راضی ہو کر اس گناہ کے ارتکاب کا ارادہ کرتی ہے۔ معاشرے میں سے ایک فرد کی جس کی رضایت سب کی رضایت کا ایک حصہ ہوتی ہے اور جس کا ارادہ سب کے ارادے کا ایک جزو ہوتا ہے‘ اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب ایک فرد کا گناہ پورے معاشرے کا گناہ کہلاتا ہے۔ نہج البلاغہ کے خطبے میں حضرت علی علیہ السلام نے آیت قرآن کے مقصود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسی حقیقت کو اجاگر کیا ہے وگرنہ محض ایک شخص کی اپنی حد تک خوشنودی یا محض اپنی حد تک ناراضگی کسی طرح بھی گناہگار کے عمل اور ارادے میں شرکت نہیں کہلا سکتی۔
قرآن کہیں کہیں کسی نسل کے کام کو بعد کی نسلوں سے نسبت دیتا ہے‘ جیسے قوم اسرائیل کے گذشتہ کاموں کو جناب رسالت مآب کے زمانے کے لوگوں سے نسبت دی اور کہا ہے کہ یہ لوگ اس لئے ذلت و مسکنت کا استحقاق رکھتے ہیں کہ انہوں نے ناحق پیغمبروں کو قتل کیا۔ یہ بات اس لئے ہے کہ پیغمبر اسلام کے زمانے کے لوگ قرآن کی نظر میں گذشتہ لوگوں کا ہی تسلسل ہیں بلکہ اجتماعی روح کے اعتبار سے عین وہی لوگ ہیں جن کا سلسلہ اب بھی باقی ہے۔ یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ ”انسانیت زندوں سے زیادہ مردوں سے بنی ہے“ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بشریت کے عناصر کی تشکیل میں ہمیشہ زندوں سے زیادہ مردوں کا عمل دخل رہا ہے اور یہ گفتگو بھی کہ ”زندوں پر مردوں کی پہلے سے کہیں زیادہ حکمرانی ہے“ اسی مذکورہ مفہوم کی حامل ہے۔
تفسیرالمیزان میں اس بحث کے بعد کہ جب کوئی معاشرہ ایک واحد سوچ اور ایک واحد روح کا حامل ہوتا ہے تو ایک فرد جیسا ہو جاتا ہے اس کے افراد انسانی اعضائے وجود بن جاتے ہیں جو ذات اور عمل کے اعتبار سے انسان کی حیثیت میں گم ہو جاتے ہیں۔ ان کی راحت اور تکلیف عیناً انسان کی راحت اور تکلیف بن جاتی ہے اور ان کی سعادت و شقاوت بھی عیناً انسان کی سعادت و شقاوت قرار پاتی ہے۔ اس کے بعد مرقوم ہے:
”قرآن نے ان قوموں اور ان معاشروں کے بارے میں جو مذہبی یا قومی تعصبات کی بنیاد پر ایک واحد اجتماعی سوچ کے حامل تھے اس طرح فیصلہ کیا ہے کہ بعد میں آنے والے طبقات اور نسلوں کو پہلے آنے والی نسلوں کے اعمال کی وجہ سے قابل مواخذہ قرار دیا ہے اور حاضرین کو غائبین کے اعمال کی بنیاد پر مورد عتاب و ملامت قرار دیا ہے‘ ایسے موقع پر جب لوگ اجتماع فکر اور اجتماعی جذبات کے حامل ہوں تو صحیح فیصلہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا۔“(المیزان‘ جلد ۴‘ ص ۱۱۲)
 

صرف علی

محفلین
معاشرہ اور اس کے قوانین و سنن
معاشرہ اگر حقیقی وجود کا حامل ہو تو لازمی طور پر اپنے سے متعلق خاص قوانین و سنن کا حامل ہو گا‘ اگر ہم معاشرے کی ماہیت کے بارے میں جس پر ہم ابھی بحث کر چکے ہیں‘ پہلے نظریے سے متفق ہوں اور معاشرے کے عینی وجود کو تسلیم نہ کریں تو ہم نے لازمی طور پر معاشرے کو قانون اور سنن سے عاری جانا ہے اور اگر دوسرے نظریے کو مانتے ہیں اور معاشرے کو صنعتی اور مشینی ترکیب جیسا تسلیم کرتے ہیں تو اس میں معاشرہ قانون اور سنن کا حامل ہے‘ لیکن یہ قانون و سنن صرف معاشرے کے اجزاء کے درمیان میکانیاتی اثرات ہی کی حد تک رہیں گے اور ایسے معاشرے میں کسی قسم کی زندگی یا اس کے مخصوص اثرات مشاہدہ نہیں کئے جا سکیں گے‘ اگر ہم تیسرے نظریے کو مانتے ہیں تو سب سے پہلے معاشرہ اس اعتبار سے کہ وہ انفرادی حیات سے الگ ایک خاص طرح کی حیات کا حامل ہے‘ ہرچند کہ اس اجتماعی حیات کا اپنا الگ کوئی وجود نہیں بلکہ افراد میں بکھر کر انہیں میں حلول کر گیا ہے‘ اپنے افراد اجزاء سے الگ قوانین و آداب کا حامل ہے اور ان کی شناخت ضروری ہے‘ پھر یہ کہ معاشرے کے اجزاء جو افراد سے عبارت ہیں‘ مشینی نظریے کے برخلاف اپنی ہویت کے استقلال کو اگرچہ نسبی طور پر کیوں نہ ہو کھو کر اعضاء کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ افراد کا نسبی استقلال محفوظ رہتا ہے کیوں کہ انفرادی حیات‘ انفرادی فطرت اور طبیعت سے فرد کا اکتساب‘ اجتماعی حیات میں حل نہیں ہوتا اور حقیقتاً اس نظریے کے مطابق انسان دو حیات دو روح اور دو ”میں“ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے‘ ایک اس کی فطری ”میں، روح اور حیات ہے جو طبیعت کی جوہری حرکات سے وجود میں آتی ہے اور دوسرے وہ اجتماعی ”میں“ روح اور حیات ہے جو اجتماعی زندگی سے وجود پذیر ہو کر انفرادی ”میں“ حلول کرتی ہے۔ پس اس اعتبار سے انسان پر نفسیات کے قوانین کے ساتھ عمرانی سنن بھی حکم فرما ہیں۔ چوتھے نظریے کے مطابق صرف ایک نوعیت کا قانون اور ایک نوعیت کی سنن انسان پر حاکم ہیں اور وہ اجتماعی سنن ہیں اور بس۔
علمائے اسلام میں غالباً عبدالرحمن ابن خلدون وہ پہلا شخص ہے جس نے تاریخ پر اپنے مشہور و معروف مقدمے میں صراحت کے ساتھ معاشرے پر حاکم قوانین و آداب کو انفرادی قوانین و آداب سے الگ پیش کیا ہے اور معاشرے کے لئے ”حیثیت“، ”طبیعت“ اور واقعیت کا قائل ہوا ہے‘ جدید علماء و حکماء میں اٹھارہویں صدی عیسوی کا فرانسیسی دانشور ”مونٹیسکیو“ وہ پہلا شخص ہے جس نے معاشروں پر حاکم سنن کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ریمون آرون‘ ”مونٹیسکیو“ کے بارے میں لکھتا ہے:
”اس کا مقصد تاریخ کو معقول صورت دینا ہے۔ وہ چاہتا ہے تاریخ کے پیش کردہ واقعات کو رد کرے۔ ہاں! تاریخ کے پیش کردہ واقعات تقریباً لامحدود تقدیسی عادات‘ افکار‘ قوانین‘ آداب و رسوم اور معاشرتی شعبوں کی شکل میں اس کے سامنے آتے ہیں اور یہی مختلف واقعات جو ظاہراً ہم آہنگ ہوتے ہیں اس کی تحقیق کا نقطہ آغاز بنتے ہیں۔ تحقیق کے آخر میں کسی شعور نظم کو واقعات کے ان نامربوط سلسلوں کا جاگزیں ہونا چاہئے۔ مونٹیسکیو ”میکس ویبر“ کی طرح نامربوط واقعات سے گذرنا چاہتا ہے تاکہ کسی شعوری نظم کو حاصل کر سکے‘ ہاں یہی طریقہ عالم عمرانیات کا طریقہ ہے۔“
اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اجتماعی واقعات کی ان ناہم آہنگیوں کے درپردہ جو انہیں ایک دوسرے سے اجنبی بنا دیتی ہیں۔ عمرانیات کا ماہر ایک ایسی وحدت ڈھونڈ نکالتا ہے کہ یہ تمام ناہم آہنگیاں اس وحدت کا مظہر بن جاتی ہیں۔ اسی طرح اس بارے میں کہ مشابہ اسباب کے عمل دخل سے مشابہ اجتماعی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ”رومیوں کے عروج و زوال کے اسباب سے متعلق ملاحظات“ نامی کتاب کا یہ اقتباس پیش کیا جاتا ہے:
”دنیا میں اتفاق یا حادثہ حکم نہیں ہے۔ اس نکتے کو رومیوں سے پوچھا جا سکتا ہے کیوں کہ جب تک فرماں روائی میں ان کا پروگرام منظم رہا‘ فتح و نصرت انہیں نصیب ہوتی رہی‘ لیکن جب انہوں نے اپنے پروگرام میں تبدیلی پیدا کی تو مسلسل پستیوں کی طرف گئے۔ ہر سرکاری نظام میں چکھ علل و اسباب خواہ اخلاقی ہوں یا جسمانی کا عمل دخل ہوتا ہے‘ جو اس نظام کو سربلندی عطا کرتے ہیں یا پھر تباہی و بربادی کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ واقعات انہی اسباب کے زیراثر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی معرکہ یعنی خاص ملت کسی حکومت کی بساط الٹ دے تو یقینا اس میں ایسے کلی اسباب کارفرما ہیں‘ جو وجہ معرکہ بن کر اس حکومت کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کوئی حقیقی بنیاد ہے جو تمام جزوی اتفاقات کا سبب بنتی ہے۔“
قرآن کریم اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ قومیں اور معاشرے اس اعتبار سے کہ قوم اور معاشرہ ہیں (صرف معاشرے کے افراد نہیں) قوانین و سنن اور ان قوانین و سنن کی بنیاد پر عروج و زوال رکھتے ہیں۔ معاشرے کے مشترک انجام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ قوانین و سنن کا حامل ہے۔
قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتاب لتفسدن فی الارض مرتین و لتعلن علوا کبیرا فاذا جاء و عدا اولھما بعثنا علیکم عباد النا اولی باس شدید فجا سوا خلال الدیار و مکان و عدا مفعولا‘ ثم رددنا لکم الکرة علیھم و امددنا کم باموال و بنین و جعلنا کم اکثر نفیراً… وان اساتم فلھا‘ فاذا جاء وعد الاخرة لیسوء‘ او جو ھکم ولید خلوا المسجد کما دخلوہ اول مرة و لیتبروا ماعلوا تتبیرا عسی ربکم ان یرحمکم و ان عدتم عدنا و جعلنا جھنم للکافرین حصیرا(سورئہ بنی اسرائیل‘ آیت ۴ تا ۸)
”اور ہم نے (آسمانی کتابوں میں سے) ایک کتاب میں بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا کہ تم ضرور بالضرور زمین میں دو مرتبہ فساد اور بڑی سرکشی کرو گے‘ پھر جب پہلی سرکشی سے متعلق وقت انتقام آئے گا‘ تو ہم بڑے جنگ آور اور زور آزما لوگوں کو تمہارے خلاف اٹھائیں گے جو تمہارے گھروں میں گھس آئیں گے اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ پھر ہم تمہیں (تمہاری برائیوں سے پشیمانی اور صحیح راستے کی طرف لوٹ آنے کے باعث) ان پر دوبارہ غلبہ دیں گے اور مال اور افراد سے تمہاری مدد کریں گے اور تعداد میں تمہیں ان سے بڑھا دیں گے پس کلی طور پر اگر تم نیکی کرو گے تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لئے ہو گا اور اگر بدی سے ہمکنار ہو گے تو اس میں بھی تمہاری اپنی ذات متاثر ہو گی (یعنی ہمارا طریقہ اور ہمارا قانون اپنی جگہ مستحکم اور اٹل ہے کہ کچھ شرائط ہیں جن میں ہم لوگوں کو قوت و قدرت و عزت و استقلال عطا کرتے ہیں اور کچھ شرائط ایسی ہیں جن میں دوسروں کے ہاتھوں انہیں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے) پھر جب (برائی اور تباہی کی طرف بازگشت کے نتیجے) تم سے تمہارے دوسرے انتقام کی باری آئے گی تو (ہم دوسرے صاحبان قوت و طاقت کو تم پر مسلط کر دیں گے) تاکہ وہ تمہارا چہرہ بگاڑ دیں اور اسی طرح مسجد میں گھس آئیں جس طرح پہلے گھس آئے تھے اور جس چیز پر غلبہ حاصل کریں اسے سختی سے مٹا دیں۔ (اگر تم راہ راست کی طرف لوٹ آئے تو) امید ہے کہ خدا پھر اپنی رحمت کو تمہارے شامل حال کر دے اور اگر تم نے پھر وہی کیا اور برائی کی طرف لوٹ آئے تو ہم بھی وہی کریں گے اور پھر سے دشمن اور عذاب معین کر دیں گے۔“
یہ آخری جملہ
وان عد تم عدنا
”تم جس قدر تباہی کی طرف لوٹو گے ہم اسی قدر دشمن کے ہاتھوں تمہیں ذلیل کریں گے۔“
اس توجہ کے ساتھ کہ مخاطب فرد نہیں قوم و ملت ہے‘ یہ معاشروں پر محیط قوانین کی کلیت اور ان کے اٹل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
 

صرف علی

محفلین
جبر یا اختیار؟
جو بنیادی مسائل اہل دانش کے درمیان خاص طور پر موجودہ صدی میں زیر غور ہیں‘ ان میں ایک مسئلہ معاشرے کے مقابل فرد کے جبر یا اختیار کا ہے‘ بعبارت دیگر یہاں اجتماعی روح کے مقابل انفرادی روح کے جبر و اختیار کی گفتگو ہے‘ اگر ہم معاشرے کی ترکیب کے مسئلے میں پہلے نظریہ کو مانتے ہیں اور معاشرے کی ترکیب کو خالص اعتباری جانتے ہیں اور مکمل انفرادی اصلیت پر ہمارا عقیدہ ہے تو اس میں اجتماعی جبر کی گنجائش نہیں کیوں کہ یہاں سوائے فرد و طاقت اور انفرادی طاقت کے علاوہ اجتماعی قوت نامی کوئی شے موجود نہیں جو فرد کو اپنے احکامات کے زیراثر لائے اور جس سے معاشرتی جبر کا خیال پیدا ہو‘ اب اگر کوئی جبر رونما ہوتا ہے تو اس کا تعلق اجتماعی جبر کے حامیوں کی رائے کے برخلاف معاشرے سے نہیں فرد یا افراد سے ہے۔ لیکن اگر ہم چوتھے نظریہ کو مانتے ہیں اور فرد کو انسانی حیثیت کے اعتبار سے ایک خام مادہ اور ایک خالی برتن کی طرح تصور کرتے ہیں اور فرد کی تمام انسانی حیثیت اس کی عقل اور اس کے ارادے کو کہ جو اس کے اپنے اختیار میں ہے‘ اجتماعی عقل اور اجتماعی ارادے کا پرتو جانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اجتماعی روح جو اپنے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی اکائی میں ایک انفرادی فریب بن کر ظاہر ہوتی ہے‘ خلاصہ یہ کہ اگر ہم صرف اور صرف اجتماعی اصلیت کے قائل بن کر سوچیں تو پھر اجتماعی امور میں فرد کی آزادی اور اس کے اختیار کا تصور باقی نہیں رہتا۔
فرانس کا مشہور عمرانی ماہر ”ایمل ڈورکم“ اس حد تک اجتماعی اصلیت کا قائل ہے کہ کہتا ہے:
”معاشرتی امور درحقیقت ان امور کے برخلاف جن کا تعلق کھانے پینے اور سونے جیسے امور سے ہے‘ جو انسان کے حیوانی اور حیاتیاتی (بائیولوجیکل) پہلو سے ہیں‘ کسی فرد کے فکر و ارادے سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ معاشرہ انہیں وجود میں لاتا ہے اور اس کی تین خصلتیں ہیں: بیرونی ہونا‘ جبری ہونا اور عمومی ہونا۔ بیرونی اس اعتبار سے ہیں کہ فرد کے وجود سے باہر یعنی معاشرے سے فرد پر لاگو ہوتے ہیں اور اس سے پہلے کہ فرد وجود میں آئے‘ یہ معاشرے میں موجود ہوتے ہیں اور وہ انہیں معاشرے کے زیراثر قبول کرتا ہے۔ آداب‘ اخلاق اور معاشرتی رسمیں‘ مذہب اور ان جیسی چیزیں معاشرے سے اسے ملتی ہیں اور اس اعتبار سے جبری ہیں کہ وہ خود کو فرد پر ٹھونستی ہیں اور فرد کے ضمیر‘ اس کے احساسات اس کے فیصلوں اور اس کے افکار و عواطف کو اپنی شکل اور اپنے رنگ میں ڈھال لیتی ہیں اور جبری ہونا عمومیت کی دلیل ہے۔“
لیکن اگر ہم تیسرے نظریے کو اپناتے ہیں یعنی فرد کو بھی اصلیت دیتے ہیں اور معاشرے کو بھی اگرچہ معاشرے کی طاقت افراد کی طاقت پر غلبہ رکھتی ہے تو اس صورت میں ضروری نہیں ہے کہ افراد انسانی مسائل اور سماجی امور میں مجبور قرار پائیں۔
”ڈورکم“ کا نظریہ جبر اس بات سے وجود میں آیا ہے کہ طبیعت کے صفحے پر جوہری تکامل سے وجود میں آنے والی انسانی فطرت کی اصالت سے غفلت برتی گئی ہے‘ یہ فطرت انسان کو ایک خاص طرح کی حریت‘ امکان اور آزادی عطا کرتی ہے جس کے باعث وہ معاشرے کی طرف سے ڈھونسی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرد اور معاشرے کے درمیان ایک طرح کا ”امربین الامرین“ حکم فرما ہے۔
قرآن کریم جہاں معاشرے کے لئے طبیعت‘ حیثیت‘ عینیت‘ توانائی‘ حیات‘ موت‘ اجل‘ ضمیر اور اطاعت و عصیان کا قائل ہے‘ وہاں صریحاً فرد کو امکانی طور پر معاشرے کے احکام سے حکم عدولی کرنے میں آزاد اور توانا جانتا ہے۔ قرآن نے اس مسئلے میں جس چیز کو بنیاد بنایا ہے اس کا نام ”فطرة اللہ“ رکھا ہے۔ سورئہ نساء کی آیت ۹۷ میں اس گروہ کی نسبت جو مکہ کے معاشرے میں اپنے آپ کو ”مستضعف“ و ناتواں جانتا تھا اور فطری ذمہ داری سے دستبرداری کے لئے اسی ناتوانی کو عذر بناتا تھا اور درحقیقت خود کو معاشرے کے مقابل مجبور پیش کرتا تھا:
”ان کا عذر کسی طرح بھی قابل قبول نہیں اس لئے کہ کم از کم وہ یہ تو کر سکتے تھے کہ اپنے آپ کو اس معاشرتی ماحول سے نکال کر دوسرے معاشرتی ماحول میں منتقل کر دیتے۔“
پھر دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
یا ایھالذین آمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم
(سورئہ مائدہ‘ آیت ۱۰۵)
”اے صاحبان ایمان! تم خود اپنے نفوس کی حفاظت کے ذمہ دار ہو‘ ہرگز دوسروں کی گمراہی (لازمی طور پر) تمہاری گمراہی کا سبب نہ بنے۔“
”ذر“ سے متعلق مشہور آیت جس کا اشارہ انسانی فطرت کی طرف ہے۔ اس گفتگو کے بعد کہ خداوند عالم نے توحید کے عہد کو انسان کے وجود اور اس کی ذات میں سمود یا ہے‘ گوش گذار کیا گیا ہے اور یہ اس لئے ہے تاکہ تم بعد میں یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے باپ دادا مشرک تھے اور ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا‘ ہم مجبور تھے کہ اپنے باپ دادا کی سنت پر باقی رہیں‘ اس الٰہی فطرت کے بعد اب کسی جبر یا مجبوری کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
قرآنی تعلیمات سراسر مسئولیت اور ذمہ داری کی اساس پر قائم ہیں۔ اپنی اور معاشرے کی ذمہ داری‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکرمعاشرے کی برائیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف فرد کے قیام کا حکم نامہ ہے۔ قرآن مجید کے بیشتر قصص و حکایات برائی کے اجتماعی ماحول کے مقابل فرد کے سینہ سپر ہونے سے عبارت ہیں‘ جناب نوح۱۱‘ جناب ابراہیم۱ ‘ موسیٰ۱۱‘ جناب عیسیٰ۱ ‘ رسالت ماب۱‘ اصحاب کہف اور مومن آل فرعون وغیرہ سب کے سب اسی حیثیت کے حامی ہیں۔
معاشرے اور معاشرتی ماحول میں افراد پر جبر کے واہمہ کی بنیاد ا س تصور پر ہے‘ حقیقی ترکیب کے لئے لازمی ہے کہ اجزاء ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں اور کثرت ”کل“ کی اکائی میں جذب ہو جائے اور ایک نئی حقیقت سامنے آئے (اور اس واہم کی بنیاد یہ تصور بھی ہے کہ) یا تو فرد کی حیثیت اس کی آزادی اور استقلال کو مانا جائے اور ترکیب کے حقیقی اور عینی ہونے کو رد کیا جائے جیسا کہ پہلے اور دوسرے نظریے میں معاشرے یا فرد کی اصالت کا ذکر آیا ہے‘ یا پھر ”ڈورکم“ کی طرح ترکیب کی اصالت اور معاشرے کی عینیت کو تسلیم کیا جائے اور فرد کی حیثیت‘ استقلال اور آزادی کو ٹھکرا دیا جائے کیوں کہ ان دونوں کی یکجائی ناممکن ہے اور چونکہ عمرانیات اپنے تمام دلائل کی رو سے معاشرے کی عینیت کو تسلیم کرتی ہے‘ لہٰذا فرد سے متعلق گفتگو کو مسترد سمجھا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ فلسفی نقطہ نظر سے تمام حقیقی ترکیبوں کو یکساں نوعیت کی نہیں سمجھنا چاہئے‘ عالم طبیعت کے نچلے درجات یعنی جمادات اور حیات سے عاری موجودات میں کہ جن میں بااصطلاح اہل فلسفہ صرف ایک بسیط قوت کارفرما ہے اور جو بہ تعبیر فلاسفہ ”علیٰ وتیرہ واحدہ“پر قائم ہیں‘ اجزاء اور قوی ایک دوسرے میں مکمل طور پر مدغم ہو جاتے ہیں اور ان کا وجود ”وجود کل“ میں مکمل طور پر حل ہو جاتا ہے‘ جیسے پانی کی ترکیب میں آکسیجن اور ہائیڈروجن لیکن ترکیب درجات میں جس قدر بلند ہوگی‘ اجزاء کل کی نسبت اتنے ہی زیادہ نسبی استقلال کے حامل ہوں گے اور عین وحدت کے ساتھ ایک طرح کی کثرت اور عین کثرت کے ساتھ وحدت کا ظہور ہو گا اور یہی کچھ انسان میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عین وحدت کے ساتھ ایک عجیب کثرت کا حامل ہے کہ جہاں صرف یہی نہیں کہ اس کے اندر کی طاقتیں اپنی کثرت کو ایک حد تک محفوظ رکھتی ہیں بلکہ ان میں ایک طرح کا تضاد اور دائمی کشمکش برقرار رہتی ہے۔ معاشرہ عالم طبیعت کے بلند ترین موجودات میں سے ہے اور اس کو ترکیب میں لانے والے اجزاء کا نسبی استقلال اس سے کہیں بلند تر ہے۔
پس اس اعتبار سے کہ افراد بشر ایک معاشرے کے اجزاء ہیں‘ اپنے طبیعی اور انفرادی وجود میں معاشرے سے زیادہ فطری عقل اور ارادے کے مالک ہیں نیز یہ کہ چونکہ عالم طبیعت کے اعلیٰ مراتب کی ترتیب میں اجزاء کا نسبی استقلال محفوظ رہتا ہے اس لئے انسانی افراد یعنی انفرادی روح معاشرے یعنی اجتماعی روح کے مقابلے میں مجبور اور مسلوب الاختیار نہیں ہوتی۔
 

صرف علی

محفلین
معاشرتی تقسیم اور طبقہ بندی
معاشرہ باوجود وحدت کے اپنے اندر گروہوں‘ طبقوں اور مختلف اصناف میں کہ جہاں متضاد صورتیں بھی نکل آتی ہیں‘ بٹا ہوا ہے۔ یہ صورت حال اگر کلی نہیں تو کم از کم بعض معاشروں کا یہی حال ہے لہٰذا امکان ہے کہ معاشرہ اپنی عین وحدت میں اندرونی طور پر مخالف اور کبھی متضاد طبقوں میں منقسم ہو‘ پس معاشرہ وحدت کے ساتھ کثرت اور کثرت کے ساتھ عین وحدت کا حامل ہے اور حکمائے اسلام کی اصطلاح میں معاشرے پر کثرت میں ایک طرح کی وحدت اور وحدت میں ایک طرح کی کثرت کارفرما ہے۔ پچھلے ابواب میں معاشرے کی وحدت پر گفتگو تھی کہ وہ وحدت کس نوعیت کی ہے۔ اب گفتگو معاشرے کی کثرت سے متعلق ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے؟
اس سلسلے میں دو نظریے مشہور ہیں‘ ایک نظریے کی بنیاد تاریخی مادیت اور جدلیاتی تضاد پر ہے‘ اس نظریے کے مطابق‘ جس کے بارے میں آگے چل کر گفتگو ہو گی‘ ہمارا موضوع بحث مالکیت کے قانون کے تابع ہے‘ یعنی وہ معاشرے جن میں ذاتی مالکیت کا کوئی وجود نہیں مثلاً اوائل تاریخ کا سوشلسٹ معاشرہ یا آئندہ رونما ہونے والا سوشلسٹ معاشرہ بنیادی طور پر ایک طبقے کے حامل ہیں اور وہ معاشرے جن میں ذاتی مالکیت کی بالادستی ہے حتمی طور پر دو طبقوں کے حامل ہیں پس اس صورت میں معاشرہ یا تو ایک طبقے کا حامل ہے یا دو کا‘ اور اس کی کوئی تیسری صورت نہیں ہے۔ دو طبقے رکھنے والے معاشروں میں انسان دو گروہوں میں بٹ جاتا ہے‘ ایک استحصال کرنے والا اور دوسرا استحصال ہونے والا اور سوائے ان دو حاکم و محکوم گروہوں یا لشکروں کے تیسرا کوئی گروہ موجود نہیں۔ آرٹ‘ فلسفے‘ اخلاق‘ مذہب جیسے دیگر معاشرتی امور میں بھی اسی طبقاتی نظام کا رنگ نظر آنے لگتا ہے‘ مثلاً دو طرح کا فلسفہ‘ دو طرح کا اخلاقی نظام اور دو طرح کے مذہب وغیرہ معاشرے پر حاکم ہو جاتے ہیں اور ہر ایک کسی مخصوص اقتصادی طبقے کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لیتا ہے‘ اگر بالفرض ایک فلسفہ‘ ایک مذہب یا ایک اخلاق معاشرے پر حاکم ہو تو بھی یہ انہی دو طبقات کے رنگوں میں کسی ایک کا رنگ ہو گا جسے دوسرے طبقے پر ٹھونسا گیا ہو گا۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کسی معاشرے کی ایک طبقے یا کئی طبقوں سے وابستگی کا انحصار مالکیت کے قانونی اصول پر نہیں ہے‘ بلکہ ثقافتی‘ اجتماعی‘ نسلی اور نظریاتی علل و اسباب بھی کسی معاشرے کو کئی طبقوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ثقافتی اور نظریاتی اسباب اس میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں اور معاشرے کو صرف دو نہیں بلکہ کئی متضاد طبقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ اسی طرح معاشرے کو اصل مالکیت کے لازماً رد کئے بغیر ایک طبقاتی معاشرے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن معاشرے کی کثرت کے بارے میں کس نقطہ نظر کا حامل ہے۔ کیا وہ کثرت و اختلاف کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں؟ اور اگر تسلیم کرتا ہے تو کیا اس کے نزدیک معاشرہ دو طبقوں کا حامل ہے اور وہ بھی مالکیت اور استحصال کی بنیاد پر کوئی اور صورت اس کے پیش نظر ہے؟ میرے خیال میں معاشرے اور اجتماع سے متعلق قرآنی الفاظ کا استخراج اور ان کے مفاہیم کے بارے میں قرآن کے نقطہ نظر کا تعین ہی قرآن کی رائے معلوم کرنے کا بہترین نہیں تو کم از کم ایک اچھا راستہ ضرور ہے۔
معاشرتی حوالے سے قرآنی الفاظ کی دو قسمیں ہیں بعض کا تعلق معاشرتی آثار سے ہے‘ جیسے ملت‘ شریعت‘ شرعہ‘ منہاج‘ سنت اور ان جیسے دوسرے الفاظ جن پر گفتگو ہمارے موضوع سے خارج ہے لیکن الفاظ جو سب کے لئے یا انسانی گروہوں کے لئے اجتماعی عنوان کے حامل ہیں‘ صحیح طور پر قرآن کے نقطہ نگاہ کو مشخص کر سکتے ہیں‘ جیسے قوم‘ امت‘ ناس‘ شعوب‘ قبائل‘ رسول‘ نبی‘ امام‘ ولی‘ مومن‘ کافر‘ منافق‘ مشرک‘ مذبذب‘ مہاجر‘ مجاہد‘ صدیق‘ شہید‘ متقی‘ صالح‘ مصلح‘ مفسد‘ امربالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ عالم‘ ناصح‘ ظالم‘ خلیفہ‘ ربانی‘ ربی‘ کاہن‘ رہبان‘ احبار‘ جبار‘ عالی‘ مستعلی‘ مستکبر‘ مستضعف‘ مسرف‘ مترف‘ طاغوت‘ ملا‘ ملوک‘ غنی‘ فقیر‘ مملوک‘ مالک‘ جبر‘ عبد‘ رب وغیرہ۔
البتہ بظاہر ان سے مشابہت رکھنے والے دوسرے الفاظ بھی ہیں۔ جیسے مصلی‘ مخلص‘ صادق‘ منفق‘ مستغفر‘ تائب‘ عابد‘ حامد اور ان جیسے دیگر الفاظ لیکن یہ الفاظ جماعتوں اور گروہوں سے ہٹ کر صرف ایک طرح کے ”افعال“ کو ذکر کرنے کے لئے آئے ہیں۔ اسی لئے ان کے بارے میں یہ احتمال نہیں ہو سکتا کہ ان میں گروہوں‘ جماعتوں اور معاشرتی طبقات کی گفتگو ہے۔
اب یہ ضروری ہے کہ ان آیتوں کا جن میں پہلے گروہ کے الفاظ کا تذکرہ ہے اور خاص طور پر وہ آیتیں جو اجتماعی رخ کو معین کرتی ہیں‘ بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تاکہ یہ بات کھل جائے کہ ان سب کو دو گروہوں میں سمویا جا سکتا ہے یا ان کے لئے متعدد گروہوں کی ضرورت ہے؟ اگر بالفرض انہیں دو گروہوں میں سمویا جا سکتا ہو‘ تو کن دو گروہوں کو ان کے لئے مختص کیا جائے؟
یعنی کیا ان سب کو اعتقادی موقف اختیار کرنے والے دو گروہوں‘ جو مومن اور کافر سے عبارت ہیں‘ میں تقسیم کیا جائے یا اس تقسیم کی بنیاد اقتصادی حالت کو بیان کرنے والے دو گروہوں یعنی غنی اور فقیر کے حوالے سے ہو؟ بعبارت دیگر تمام تقسیمات فرعی ہیں یا ایسا نہیں؟ اگر ایک تقسیم پر منتہی ہوتی ہیں تو وہ اصلی تقسیم کیا ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرے سے متعلق قرآن کا نقطہ نگاہ دو طبقوں کا حامل ہے۔ ان کے بقول قرآن کی رو سے معاشرے کے دو طبقے ہیں‘ ایک مسلط اور دوسرا محکوم۔ مسلط طبقے میں مستکبرین اور ان کے مخالف اور محکوم حلقے میں وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن میں ”مستضعفین“ کا نام دیا گیا ہے۔ مومن کافر یا موحد اور مشرک یا صالح و فاسد‘ جیسی تمام تقسیمات فرعی پہلو کی حامل ہیں یعنی یہ ظالم طاقتیں اور بے جا ظلم ہے جو کفر و شرک و نفاق وغیرہ کو وجود میں لاتا ہے اور اس کے مقابلے میں مظلومیت انسان کو ایمان‘ ہجرت‘ جہاد‘ صلاح‘ اصلاح وغیرہ کی طرف کھینچتی ہے‘ بعبارت دیگر وہ باتیں جنہیں قرآن عملی‘ اخلاقی یا اعتقادی انحراف سے یاد کرتا ہے‘ بنیادی طور پر اقتصادی روابط کی خاص کیفیات ہیں یعنی استحصال کا عمل ہیں اور وہ باتیں جن کی قرآن اعتقادی‘ اخلاقی یا عملی اعتبار سے تائید و تاکید کرتا ہے بنیادی طور پر مظلومیت اور محکومیت ہیں۔ انسان کا ضمیر فطرتاً اور جبراً اپنی مادی زندگی کی صورت حال کا تابع ہے‘ مادی حالات میں تبدیلی کے بغیر لوگوں کے روحانی‘ نفسیاتی اور اخلاقی حالات میں تبدیلی ناممکن ہے‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن طبقاتی جدوجہد کی شکل میں معاشرتی تحریکوں کو صحیح اور بنیادی قرار دیتا ہے‘ یعنی وہ اقتصادی یا اخلاقی جدوجہد کی نسبت اجتماعی جدوجہد کو افضلیت اور اصالت دیتا ہے۔ قرآن کے اعتبار سے کافر‘ منافق‘ مشرک‘ فاسق‘ فاجر اور ظالم ان گروہوں سے ابھرتے ہیں جنہیں قرآن ”مترف“، ”مسرف“، ”ملا“، ”ملوک“، ”مستکبر“ اور ان جیسے ناموں سے یاد کرتا ہے ممکن نہیں کہ ایسے گروہ متقابل طبقے سے ابھریں اور یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیغمبر‘ رسول‘ امام‘ صدیق‘ شہید‘ مجاہد‘ مہاجر اور مومن مستضعف گروہ سے ابھرتے ہیں اور مقابل طبقہ سے ان کا ابھرنا ناممکن ہے‘ پس یہ استکبار و استضعاف ہے جو معاشرتی مزاج کو بناتا ہے‘ اسے ایک سمت عطا کرتا ہے بقیہ تمام اور انہی کے مظاہر و تجلیات ہیں۔
قرآن نہ صرف یہ کہ ان گروہوں کو مستکبر و مستضعف کے دو اصلی طبقوں کے مظاہر سمجھتا ہے بلکہ اس نے ایک طرف صداقت‘ عفاف‘ اخلاص‘ عبادت‘ بصیرت‘ رافت‘ رحمت‘ فتوت‘ خشوع‘ انفاق‘ ایثار‘ خشیت اور فروتنی جیسی صفات و ملکات کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے مقابلے میں کذب‘ خیانت‘ فجور‘ ریا‘ نفس پرستی‘ کور دلی‘ قساوت‘ بخل اور تکبر جیسی برائیوں کا ذکر کیا اور پہلے گروہ کی خصوصیات کمزور بنائی جانے والی جماعت کی صفات اور دوسرے گروہ کی خصوصیات کو کمزور بنانے والوں کی صفات سے تعبیر کیا ہے۔
پس کمزور بنانا اور کمزور بننے پر مشتمل دائرئہ عمل نہ صرف مخالف اور متضاد گروہوں کا مرکز طلوع ہے بلکہ متضاد اخلاقی صفات و ملکات بھی اس سے پھوٹتتی ہیں اور یہ ہر انتخاب پر رجحان اور ہر سمت کے تعین‘ یہاں تک کہ تمام ثقافتی اور مدنی آثار کی بنیاد ہے‘ کمزور بنانے والے طبقے سے ابھرنے والا اخلاق‘ فلسفہ‘ آرٹ‘ علم و ادب اور مذہب اس کے اجتماعی موقف کو بیان کرتا ہے جو تمام کا تمام موجودہ حالات کو صحیح ثابت کرنے میں مصروف ہوتا ہے اور معاشرے کے جمود و رکود اور توقف کی اصل وجہ ہے‘ لیکن اس کے برخلاف مستضعفین یا زمین پر کمزور بنائے جانے والے طبقے کا اخلاق‘ فلسفہ‘ علم و ادب‘ آرٹ اور مذہب‘ بیدار رکھنے والا حرکت آفرین اور انقلابی ہوتا ہے۔
مستکبر یا جابر حکمران طبقہ اپنی آقائیت اور اپنی معاشرتی امتیازی خصوصیات کے باعث تاریک اندیش‘ روایت پسند اور عافیت طلب ہوتا ہے جب کہ مستضعف و محکوم طبقہ اس کے برخلاف بیدار‘ روایت شکن‘ انقلابی‘ مصمم‘ پرجوش و پرعزم ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ ان افراد کے عقیدے کے مطابق قرآن اس کی تائید کرتا ہے کہ وہ چیز جو انسان کو بناتی اور اس کے گروہ کو مشخص کرتی ہے‘ اسے رخ حیات دیتی اور اس کے فکری‘ اخلاقی‘ مذہبی اورنظریاتی مقام کو معین کرتی ہے وہ اس کی معاشی حالت ہے اور مجموعی طور پر قرآنی آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن نے اپنی تعلیم کو اسی بنیاد پر قائم کیا ہے۔
اس اعتبار سے ایک خاص طبقے سے وابستگی ہر شے کا معیار ہے اور اسی معیار کے ذریعے تمام دعوؤں کو جانچا جا سکتا ہے‘ مومن‘ مصلح‘ رہبر یہاں تک کہ نبی یا امام کی تائید و تکذیب بھی اسی کسوٹی کے ذریعے ہونی چاہئے۔
یہ نظریہ حقیقتاً انسان اور معاشرے کے بارے میں ایک مادی نقطہ نظر ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن نے افراد کی اجتماعی حیثیت کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے‘ لیکن کیا اس کا یہ مفہوم ہے کہ قرآن تمام نفسیات اور تمام طبقہ بندیوں کی اسی معیار پر توجیہ کرتا ہے؟ ہماری نظر میں انسان دنیا اور معاشرے سے متعلق اسلامی نقطہ نظر اس نوعیت کے معاشرتی نقطہ نظر سے ہم آہنگ نہیں ہے اور یہ قرآنی مسائل کے ایک سطحی مطالعے سے پیدا ہوا ہے‘ چونکہ ہم کتاب کے اس باب میں جہاں تاریخ پر اس عنوان سے بحث ہوئی ہے کہ ”کیا طبیعت تاریخ مادی ہے؟“، اس موضوع پر مکمل گفتگو کریں گے لہٰذا فی الوقت اس موضوع کو یہیں رہنے دیتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
معاشروں کی یگانگت یا ان کا تنوع بہ اعتبار ماہیت
اس مسئلہ کا بیان بھی جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے ہر مکتب فکر کے لئے ضروری ہے کیوں کہ اسی گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کیا تمام انسانی معاشرے ایک نظریہ حیات کے تابع ہو سکتے ہیں یا معاشروں کا تنوع مختلف نظریہ ہائے حیات کی پیداوار ہے اور ہر قوم‘ ہر ملت‘ ہر تمدن اور ہر ثقافت کو خاص نظریہ حیات (Ideology) کی ضرورت ہے کیوں کہ نظریہ حیات ان منصوبوں اور ان راستوں سے عبارت ہے جو معاشرے کو کمال و سعادت کی طرف لے جاتے ہیں‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر نوع‘ اپنی ایک خاص استعداد اور علیحدہ آثار و خواص کی حامل ہوتی ہے اور اس کا کمال و سعادت ہوتی ہے۔ گھوڑے کے لئے کمال اور سعادت بعینہ گو سفند یا انسان کے لئے کمال اور سعادت نہیں ہے۔ پس اگر تمام معاشروں کے لئے اصالت و غیبت کو فرض کر لیا جائے اور وہ سب ایک ذات‘ ایک طبیعت اور ایک ماہیت کے حامل ہوں تو ان کے لئے ایک واحد نظریہ حیات ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اس صورت میں ان کے اختلافات بھی ایسے ہوں گے جیسے ایک نوع کے افراد کے درمیان ہوتے ہیں‘ ہر زندہ نظریہ حیات جزئیات کے اختلاف کے بارے میں لچک اور انطباق کی قابلیت رکھتا ہے‘ لیکن اگر معاشرے طبیعتوں‘ ماہیتوں اور ذوات میں مختلف ہوں گے تو یہ فطری امر ہے کہ ان کے منصوبے‘ ان کے لائحہ ہائے عمل‘ ان کے نظریات اور ان کے لئے کمال و سعادت بھی متنوع ہوں گے اور واحد نظریہ حیات ان سب کا احاطہ نہیں کر سکے گا۔
بالکل یہی صورت آپ کو وقت کے دوش پر گذرتے ہوئے معاشروں کے انقلابات میں ملتی ہے‘ کیا معاشرے اپنے انقلابات کی راہ میں اپنی نوعیت اور ماہیت بدلتے ہیں؟ اور اس طرح معاشروں کی حد تک تبدل انواع کا قانون جاری ہوتا ہے یا ان کے معاشرتی انقلابات کی کیفیت ایک نوع کے ایک فرد میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی مانند ہے کہ جس کی ماہیت اور نوعیت محفوظ رہتی ہے۔
پس پہلے مسئلے کا تعلق معاشرے سے ہے اور دوسرے کا تاریخ سے‘ ہم فی الحال پہلے مسئلے کے بارے میں گفتگو کریں گے اور دوسرے مسئلے کو تاریخ کی بحث میں لایا جائے گا۔
عمرانیات کا مطالعہ یہ بتائے گا کہ معاشروں کے درمیان مشترک ذاتی خواص موجود ہیں یا نہیں؟ کیا ان کے درمیان فرق کو ہم سطحی کہہ سکتے ہیں اور اس فرق کے سبب یا معلول کو معاشرے کی ذات اور طبیعت سے باہر تصور کر سکتے ہیں اور معاشرے کی ذات اور طبیعت سے تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کو یکساں جان سکتے ہیں‘ یا یہ کہ یہ کہیں کہ بنیادی طور پر معاشرے اپنی ذات اور طبیعت میں مختلف ہیں لہٰذا بالفرض بیرونی شرائط کے اعتبار سے ان میں یکسانیت ہو‘ تو بھی ان کا عمل مختلف ہو گا اور یہ خود وہ راستہ ہے کہ اس سلسلے میں جن کے بارے میں ابہام ہے‘ فلسفہ خود ان اشیاء کو ان کی نوعی وحدت و کثرت کی پرکھ کے لئے پیش کرتا ہے‘ یہاں ایک نزدیک کا راستہ بھی موجود ہے اور وہ خود حضرت انسان ہے۔ انسان کے بارے میں ایک امر مسلم یہ ہے کہ انسان نوع واحد ہے‘ علم حیاتیات کے اعتبار سے انسان جب سے وجود میں آیا ہے اس میں کوئی حیاتیاتی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے‘ بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالم طبیعت میں جانداروں کے کمال کے نتیجے میں انسان بن گیا اور انسان تک پہنچ کر طبیعت نے راستہ بدل لیا اور ارتقائی عمل زیست سے اجتماع میں منتقل ہو گیا اور اس کا ارتقائی عمل جسمانی سے روحانی اور معنوی گذرگاہ میں منتقل ہو گیا۔
گذشتہ اوراق میں ہم انسان کے مدنی الطبع ہونے کی بحث میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ انسان جو انواع کا نہیں بلکہ نوع واحد کا حامل ہے‘ اپنی فطرت اور طبیعت کے اعتبار سے اجتماعی ہے یعنی انسان کا اجتماعی رجحان اور اس کا گروہ و جماعت کی صورت میں رہنا اور اس کا اجتماعی روح کا حامل ہونا‘ اس کی نوع اور اس کی ذات کا خاصہ ہے اور یہ انسانی نوع کے فطری خواص میں سے ہے۔ انسان اس کمال تک پہنچنے کے لئے جس کی صلاحیت اس میں رکھ دی گئی ہے‘ اجتماعی میلان کا حامل ہے۔ اس سے اجتماعی روح کے لئے بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ اجتماعی روح اپنی جگہ خود ایک وسیلہ ہے جو انسانی نوع کو اپنی انتہائے کمال تک پہنچاتا ہے‘ لہٰذا انسان کی نوع ہی اس کی اجتماعی روح کے راستے کا تعین کرتی ہے‘ جو خود اپنے مقام پر انسانی فطرت کی خدمت میں مصروف ہے۔ انسانی فطرت جب تک انسان باقی ہے‘ اپنی مصروفیت جاری رکھے گی پس انفرادی روح یا یوں کہہ لیجئے انسان کی انسانی فطرت پر اجتماعی روح کا دار و مدار ہے اور چونکہ انسان نوع واحد ہے لہٰذا انسانی معاشرے بھی یکساں ذات‘ یکساں طبیعت اور یکساں ماہیت کے حامل ہیں۔ البتہ جیسے ایک فرد کبھی فطرت کے راستے سے منحرف ہو جاتا ہے بلکہ کبھی مسخ بھی ہو جاتا ہے‘ اسی طرح معاشرہ بھی کبھی اپنے فطری راستے کو چھوڑ دیتا ہے۔ معاشروں کا تنوع‘ افراد کے اخلاقی تنوع کی طرح ہے جو کسی بھی صورت انسان کے نوع ہونے کے دائرے سے باہر نہیں ہوتا لہٰذا معاشرے‘ ثقافتیں‘ تہذیبیں مختصر یہ کہ اجتماعی روح جو معاشروں پر حکم فرما ہے اپنے ڈھانچے اور اپنی رنگت میں اختلاف کے باوجود انسانی نوع ہی کی حامل ہوتی ہے اور غیر انسانی ماہیت نہیں رکھتی۔
ہاں! اگر ہم معاشرتی ترکیب کے چوتھے نظریے کو قبول کر لیں اور افراد کو قابل جذب مادوں اور ظرفیت رکھنے والی خالی برتنوں کی طرح جانیں اور منکر فطرت ہو جائیں تو پھر معاشروں کے نوعی اور ماہیتی اختلاف کو پیش کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ نظریہ ڈورکم کے انداز فکر کی شکل میں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ اس لئے کہ وہ پہلا سوال جو اس میں لاجواب رہ جاتا ہے یہ ہے کہ اگر اجتماعی روح کا ابتدائی سرمایہ فردیت اور انسان کے طبیعی یا حیاتیاتی پہلو سے نہ نکلے تو پھر وہ کہاں سے وجود میں آئے؟ کیا اجتماعی روح کا وجود خالصتاً عدم سے پھوٹا ہے؟ کیا اجتماعی روح کی توجیہ کے لئے یہ کہنا کافی ہو گا کہ جب سے انسان کا وجود رہا ہے‘ معاشرہ اس کے ساتھ ہے؟ علاوہ ازیں خود ”ڈورکم“ کہتا ہے کہ اجتماعی امور یعنی وہ امور جن کا تعلق معاشرے سے ہے انہیں اجتماعی روح نے خلق کیا ہے۔ مذہب‘ اخلاق اور آرٹ جیسی چیزیں ہر معاشرے میں رہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی اور خود ڈورکم کی تعبیر کے مطابق یہ سب چیزیں ”ہمیشگی“ اور ”ہمہ جائیت“ رکھتی ہیں اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ڈورکم بھی اجتماعی روح کے لئے ماہیتی اور نوعی اکائی کا قائل ہے۔
اسلامی تعلیمات کو جو دین کے لئے ایک واحد نوعیت کی قائل ہیں اور شریعتوں کے اختلاف کو فرعی جانتی ہیں‘ نہ کہ ماہیتی اور دوسری طرف۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دین انفرادی اور اجتماعی ارتقاء سے متعلق لائحہ عمل کے سوا کچھ بھی نہیں‘ تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان تعلیمات کی بنیاد معاشروں کی نوعی وحدت پر ہے اور اگر معاشرے نوعیت کے اعتبار سے متعدد ہوتے تو کمال اور اس تک پہنچنے کی راہیں متعدد ہوتیں اور پھر ماہیت ادیان کا مختلف اور متعدد ہونا لازمی تھا۔ قرآن کریم اصرار اور صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ دین تمام علاقوں‘ معاشروں‘ وقتوں اور زمانوں میں ایک سے زیادہ نہیں رہا ہے‘ بااعتبار قرآن ادیان (بصورت جمع) کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ دین ہمیشہ بصورت مفرد موجود رہا ہے‘ تمام انبیاء الٰہی کا ایک ہی دین‘ ایک ہی راستے اور ایک ہی مقصد کی طرف انسانوں کو بلاتے رہے ہیں۔
شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی او حینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم و موسی و عیسی ان اقیموالدین ولا تتفر قوافیہ(سورئہ شوریٰ‘ آیت ۱۳)
”تمہارے لئے اس نے دین کی وہی باتیں مقرر کیں جن کی بابت اس نے نوح کو پیش تر وصیت کی تھی اور (اے رسول!) جس کی بابت ہم نے تمہاری طرف وحی کی ہے اور جس کی بابت ہم نے ابراہیم اور موسیٰ و عیسیٰ کو وصیت کی تھی۔ وہ یہی تھی کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو۔“
ایسی آیتیں قرآن میں کثرت سے ملیں گی‘ جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ دین ہر زمانے‘ ہر علاقے اور ہر پیغمبر کی زبان پر ایک ہی رہا ہے‘ البتہ شریعتوں کے اختلافات رائے نقص و کمال کے اختلافات میں سے ہیں۔ دین کے ماہیتاً ایک ہونے کی منطق انسان اور انسانی معاشرے کی اس فکر پر ہے کہ انسان انواع نہیں بلکہ نوع واحد ہے اور بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ ایک واقعیت عینی ہونے کے اعتبار سے انواع نہیں بلکہ نوع واحد ہے۔
معاشروں کا مستقبل
آج کے معاشروں‘ تمدنوں‘ ثقافتوں کو اگر ہم بالفرض نوع اور ماہیت کے اعتبار سے مختلف نہ بھی جانیں تو بھی کیفیت اور شکل و صورت کے اعتبار سے ان کا مختلف ہونا ناقابل انکار ہے۔ انسانی معاشرے آگے چل کر کیا صورت اختیار کریں گے؟ کیا یہ ثقافتیں‘ یہ تمدنیں‘ یہ معاشرے اور یہ قومیں بالکل اسی طرح اپنی حالت پر باقی رہیں گی یا ایک تمدن‘ ایک ثقافت اور ایک معاشرے کی سمت انسانیت کا سفر جاری و ساری رہے گا اور یہ سب آگے چل کر مستقبل میں اپنا روپ بدل لیں گے اور ایک رنگ میں ڈھل جائیں گے‘ جو اصلی اور انسانیت کا رنگ ہو گا۔ اس مسئلے کا تعلق بھی معاشرے کی ماہیت‘ اجتماعی اور انفرادی روح کے ایک دوسرے سے وابستہ ہونے کی نوعیت پر ہے‘ ظاہر ہے فطرت کی اصالت اور اس نظریے کی بنیاد پر ہے کہ انسان کا اجتماعی وجود اس کی اجتماعی زندگی یعنی معاشروں کی اجتماعی روح ایک ایسا وسیلہ ہے جسے انسان کی نوعی فطرت نے کمال مطلق تک پہنچنے کے لئے انتخاب کیا ہے۔
یہ کہنا بجا ہو گا کہ معاشرے‘ ثقافتیں اور تہذیبیں ایک اکائی ہونے‘ متحدالشکل ہونے اور آخر کار ایک دوسرے میں مدغم ہونے کی سمت گامزن ہیں اور انسانی معاشروں کا مستقبل ایک کمال یافتہ عالمی اکائی پر مبنی معاشرہ ہو گا جس میں انسانیت سے متعلق تمام امکانی اقدار عملی صورت اختیار کر لیں گے۔ یہ وہ منزل ہو گی جہاں‘ انسان اپنے حقیقی کمال و سعادت اور اس انسانیت کو پہنچے گا‘ جو اصیل ہو گی۔
قرآن کی رو سے یہ بات مسلم ہے کہ قطعی حکومت حق کی حکومت اور باطل کی مکمل نابودی سے عبارت ہے اور انجام کار متقین کے لئے ہے۔
تفسیرالمیزان میں ہے:
”کائنات کے بارے میں گہری جستجو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انسان بھی کائنات کے ایک جزو کی حیثیت سے آئندہ اپنی غایت و کمال کو پہنچے گا۔“(جلد ۴‘ ص ۱۰۶)
قرآن کا یہ ارشاد کہ عالم میں نفاذ اسلام ایک حتمی امر ہے‘ دراصل اسی بات کی دوسری تعبیر ہے کہ انسان کو بالآخر کمال مطلق تک پہنچنا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم و یحبونہ(سورئہ مائدہ‘ آیت ۵۴)
”بالفرض اگر تم اس دین سے پھر جاؤ تو اللہ بشریت کو اس دین کے ابلاغ اور اسے مستحکم کرنے کے لئے تمہارے بجائے دوسری قوم کو لے آئے گا۔“
یہاں درحقیقت مقصود یہ ہے کہ ضرورت خلقت اور انسان کے انجام کار کو بتلایا جائے‘ اس ضمن میں یہ آیت بھی ملاحظہ ہو:
وعد اللہ الذین آمنو امنکم و عملوا الصالحات یستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم و لیبد لنھم من بعد خوفھم امنا یعبد وننی لا یشرکون بی شیاء(سورئہ نور‘ آیت ۵۵)
”اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرتے رہے انہیں وہ ضرور زمین میں جانشین بنائے گا اور ضرور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے‘ نافذ کرے گا اور یقینا انہیں خوف میں ایک عرصہ گذارنے کے بعد امن عطا کرے گا (دشمنوں کو مٹا دے گا) تاکہ پھر وہ میری ہی عبادت کریں اور کسی چیز کو (میری اطاعت میں) میرا شریک قرار نہ دیں۔“
(توحید کے مباحث میں اس آیت پر گفتگو ہو چکی ہے)
اس کے بعد ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
ان الارض یرثھا عبادی الصالحون
”یہی امر حتمی ہے کہ میرے صالح اور شائستہ بندے ہی زمین کے وارث ہوں گے۔“
 

صرف علی

محفلین
”المیزان“ ہی میں ہے کہ اسلامی ملک کی سرحدیں‘ جغرافیائی حدود یا معاہداتی رقبے نہیں بلکہ عقائد ہیں۔ اس سلسلے میں صاحب المیزان لکھتے ہیں:
”اسلام نے قومی تفریقات کی بنیاد کو اس اعتبار سے کہ تشکیل معاشرہ میں موثر کردار کی حامل ہوں‘ رد کیا ہے۔ ان تفریقات کی دو اصلی وجوہات ہیں:
ایک نسلی رابطہ کی اساس پر قائم شدہ قبیلوں کی ابتدائی زندگی اور دوسری جغرافیائی خطوں کا اختلاف۔ انہی دو چیزوں نے نوع انسانی کو قوموں‘ قبیلوں اور اختلاف زبان و رنگ میں بانٹ دیا ہے‘ یہی وہ دو اسباب ہیں‘ جو آگے چل کر اس بات کا سبب بنے کہ ہر قوم ایک خطے کو اپنے لئے مخصوص کر لے اور اسے وطن سے منسوب کر کے اس کے دفاع پر آمادہ ہو جائے۔
یہ وہ پہلو ہے جس طرف طبیعت (Nature) انسان کو کھینچتی ہے‘ لیکن اس میں ایک ایسی چیز موجود ہے جو انسانی فطرت کے تقاضے کے خلاف ہے اور اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان ایک ”کل“ اور ایک ”یونٹ“ کی صورت میں زندگی بسر کرے۔ قانون طبیعت بکھرے ہوؤں کو سمیٹنے اور متفرق کو یکجا کرنے کی اساس پر قائم ہے اور اسی کے ذریعے طبیعت اپنی غایتوں کو حاصل کرتی ہے۔
یہ وہ امر ہے کہ جو مزاج طبیعت سے ہمارے سامنے آیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اصلی مادہ‘ عناصر اور پھر نباتات‘ پھر حیوان اور پھر انسان تک پہنچتا ہے ملکی اور قبائلی تفریقات ایک ملک یا قبیلے کو ایک مرکز اتحاد پر لاتی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ انہیں کسی دوسری وحدت کے بھی مقابل قرار دیتی ہیں‘ اس طرح کہ ایک قوم کے افراد آپس میں ایک دوسرے کو تو اپنا بھائی سمجھتے ہیں مگر دوسرے انسان ان کی نظر میں مدمقابل قرار پاتے ہیں اور وہ انہیں اس نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ جس نگاہ سے اشیاء کو دیکھا جاتا ہے‘ یعنی ان کی نگاہ منفعت جوئی اور سود و زیاں پر ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے قومی اور قبائلی تفریقات کو جس سے انسانیت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے‘ رد کیا ہے اور انسانی معاشرے کو نسل‘ قوم یا وطن کی بنیاد نہیں بلکہ (کشف حق اور اس سے لگاؤ کے) عقیدے پر قرار دیا ہے (جو سب کے لئے یکساں ہے) یہاں تک کہ زوجیت اور میراث کے بارے میں بھی عقیدہ کے اشتراک کو معیار قرار دیا ہے۔“(المیزان‘ جلد ۴‘ ص ۱۳۲۔۱۳۳)
اسی طرح ”دین حق بالآخر کامیاب ہے“ کے زیرعنوان صاحب تفسیرالمیزان لکھتے ہیں:
”نوع انسان اس فطرت کے تحت جو اس میں ودیعت کی گئی ہے اپنے متعلق کمال و سعادت کی خواہاں ہے‘ یعنی وہ اجتماعی صورت میں اعلیٰ ترین مادی اور معنوی مراتب زندگی کی خواہشمند ہے۔ ایک دن یہ اسے مل جائیں گے۔ اسلام جو دین توحید ہے‘ اسی طرح کی سعادت کا ایک لائحہ عمل ہے اس طولانی مسافت میں جن انحرافات سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے‘ انہیں انسانی فطرت کے بطلان اور اس کی صورت سے منسوب نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیشہ انسان پر اصلی حاکمیت فطرت ہی کی ہوتی ہے اور بس انحرافات اور اشتباہات تطبیق میں خطا کی حیثیت رکھتے ہیں۔
وہ کمال و غایت جسے انسان اپنی بے قرار فطرت کے حکم کے مطابق حاصل کرنا چاہتا ہے‘ ایک دن (جلد یا بدیر) ضرور اسے حاصل ہو جائے گی۔ سورئہ روم کی تیسری آیت جو اس جملہ سے شروع ہوتی ہے:
فاقم وجھک للدین حنیفاً فطرة اللہ التی فطر الناس علیھا اور لعلم یرجعون پر ختم ہوتی ہے۔
اس مفہوم کو ظاہر کرتی ہے کہ حکم فطرت آخرالامر اتباع چاہتا ہے اور انسان بھٹکتا ہوا اور تجربات سے گذرنے کے بعد اپنی راہ پا لے گا اور اسے نہیں چھوڑے گا۔ ان لوگوں کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے جو اسلام کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے یہ انسانی ثقافت کا ایک مرحلہ ہے۔
جس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے اور اب تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ اسلام اس مفہوم میں کہ جس میں ہم اسے جانتے ہیں اور اس پر بحث کرتے ہیں‘ عبارت ہے قطعی کمال پر مبنی انسان سے جو بضرورت ناموس خلقت ایک دن یقینا اس تک پہنچے گا۔“(المیزان‘ جلد ۴‘ ص ۱۴)
بعض لوگوں کا دعویٰ اس کے برعکس ہے اور کہتے ہیں کہ اسلام کسی صورت بھی انسانی ثقافت اور انسانی معاشرے کی یگانگت کے حق میں نہیں ہے بلکہ وہ ان کے تنوع اور تعداد کا حامی ہے اور اسی تنوع اور تعداد کو باضابطہ طور پر مانتا اور ثابت کرتا ہے‘ وہ کہتے ہیں:
ایک قوم کی حیثیت‘ ہویت اور خودی اس کی اپنی ثقافت سے عبارت ہے اور یہ ثقافت اس قوم کی اجتماعی روح کی ہے۔ اس اجتماعی روح کو اس قوم کی اپنے سے متعلق وہ خاص تاریخ بناتی ہے‘ جس میں دوسری قوموں کا کوئی دخل نہیں ہوتا‘ عالم طبیعت انسان کی نوعیت کو بناتا ہے اور تاریخ اس کی ثقافت کو بلکہ درحقیقت یہ اس کی حیثیت‘ رویے اور حقیقی خودی کی معمار ہے۔ ہر قوم اپنے سے متعلق ایک خاص ثقافت‘ ایک خاص ماہیت اور خاص طرح کے رنگ و مزاج و اصول کی حامل ہے‘ جو اس کی حیثیت کی تکمیل کرتی ہے اور اس ثقافت کی حفاظت کرتی ہے یعنی اس ملت کی ہویت کی حفاظت کرتی ہے۔
جس طرح کسی فرد کی ہویت اور حیثیت خود اسی سے متعلق ہوتی ہے اور اس کو چھوڑ کر دوسری ہویت اور دوسری شخصیت کو اپنانا گویا اپنے آپ کو اپنے سے سلب کرنا ہے یعنی مسخ ہونا اور اپنے آپ سے بیگانہ ہونا ہے‘ کسی قوم کے لئے ہر وہ کلچر بیگانہ و اجنبی ہے جو تاریخ میں کبھی اس کی مزاج سازی میں دخیل نہ ہوا ہو‘ یہ بات کہ ہر قوم ایک خاص قسم کا احساس فکر‘ ذوق‘ پسند‘ ادب‘ موسیقی‘ حساسیت اور آداب و رسوم رکھتی ہے اور کچھ ایسی چیزوں کو پسند کرتی ہے جو دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہوتی ہیں‘ اس لئے ہے کہ یہ قوم اپنی تاریخ میں کامیابیوں‘ ناکامیوں‘ ثروتوں‘ محرومیوں‘ آب و ہوا کی کیفیتوں‘ مہاجرتوں‘ رابطوں اور نامور نابغہ لوگوں سے متعلق مختلف وجوہات کی بناء پر ایک خاص کلچر کی حامل ہو گئی ہے۔ اس خاص کلچر یا اس خاص ثقافت نے اس کی قومی و اجتماعی روح کو ایک خاص صورت میں اور خاص زاویوں کے ساتھ بنایا ہے۔ فلسفہ‘ علم‘ ادبیات‘ ہنر‘ مذہب اور اخلاق وہ عناصر ہیں جو کسی انسانی گروہ کے مشترک تاریخی سلسلے میں ایک خاص صورت اور ایک خاص ترکیب اختیار کرتے ہیں اور اس کی ماہیت وجودی کو دوسرے انسانی گروہوں کے مقابل الگ تشخص دیتے ہیں اور اس ترکیب سے ایک ایسی روح جنم لیتی ہے جو ایک گروہ کے افراد کو ”اعضائے یک پیکر“ کے مانند ایک حیاتی اور اعضائی ارتباط دیتی ہے یہی وہ روح ہے جو اس پیکر کو نہ صرف ایک الگ مشخص وجود بخشتی ہے‘ بلکہ ایک ایسی زندگی عطا کرتی ہے جو تاریخ میں دیگر روحانی اور ثقافتی پیکروں کے مقابل اس کی وجہ شناخت بن جاتی ہے‘ کیوں کہ یہ روح اس کی اجتماعی روش‘ اس کے طرز فکر‘ جماعتی عادات‘ ردعمل‘ طبیعت‘ حیات‘ واقعات‘ احساسات‘ میلانات‘ خواہشات اور عقائد کے مقابل انسانی تاثرات میں حتیٰ کہ اس کی تمام سائنسی‘ فنی اور ہنری ایجادات میں بلکہ یوں کہئے کہ انسانی زندگی کے تمام مادی اور معنوی جلوؤں میں بڑی محسوس و ممتاز ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مذہب ایک طرح کی آئیڈیالوجی (نظریہ حیات) ہے‘ عقیدہ ہے اور ایسے خاص عواطف و اعمال کا مجموعہ ہے جو اس عقیدے کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں لیکن قومیت تشخص ہے اور ان ممتاز خصائص کی حامل ہے جو ایک ہی تقدیر سے وابستہ انسانوں کی مشترک روح کو جنم دیتی ہے۔ اس اعتبار سے قومیت اور مذہب کے درمیان وہی رابطہ ہے جو تشخص اور عقیدہ کے درمیان ہے۔
کہتے ہیں نسلی امتیازات اور قومی تفاوت سے متعلق اسلام کی مخالفت کو مختلف قومیتوں کی مخالفت پر منطبق نہیں کرنا چاہئے‘ اسلام میں برابری اور یکسانیت کے اصول قوموں کی نفی کے مفہوم میں نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس اسلام ایک مسلم اور ناقابل انکار طبیعی حقیقت کے عنوان سے قومیتوں کے وجود کا معترف ہے۔
یا ایھا الناس انا خلقنکم من ذکر وانثی و جعلنا کم شعوبا و قبائل لتعا رفوا ان اکر مکم عنداللہ اتقیکم
کہتے ہیں کہ اس آیت کے ذریعے اسلام کے نقطہ نظر سے قومیتوں کی نفی اور انکار پر استدلال کیا جاتا ہے جبکہ یہ بالکل برعکس قومیتوں کے اثبات اور ان کی تائید پر دلیل ہے کیوں کہ آیت سب سے پہلے (ذکور و اناث پر مبنی) انسانیت کو بااعتبار جنسیت تقسیم کرتی ہے اور یہ ایک طبیعی تقسیم ہے‘ پھر فوراً شعوب و قبائل کے اعتبار سے انسانی گروہ بندی کا تذکرہ ہوتا ہے اور یہ اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ شعوب و قبائل میں لوگوں کی گروہ بندی مرد و زن کی تقسیم بندی کی طرح ایک طبیعی اور الٰہی امر ہے۔
یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام جس طرح مرد و زن کے درمیان خصوصی رابطے کا طرف دار ہے اور جنسیت اور اس کے آثار کو ختم کرنا نہیں چاہتا‘ اسی طرح قوموں کے درمیان مساوات کی بنیاد پر رابطے کا حامی ہے اور انہیں مٹانے کے حق میں نہیں۔ یہ جو قرآن نے قوموں کی تشکیل کو جنسوں کی پیدائش کی طرح خدا سے نسبت دی ہے‘ اس کا معنی یہ ہے کہ مشخص قوموں کا وجود خلقت میں ایک طبیعی حقیقت ہے۔ یہ جو قرآن نے قوموں کے وجودی اختلاف کی غرض و غایت کو ”تعارف“ (قوموں کی آپس میں شناخت) کہا ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کے مقابل اپنی شناخت تک رسائی حاصل کرتی اور اپنے آپ کو پاتی ہے‘ ایک قومیت دوسری قومیت کے مقابل اپنے تشخص کو اجاگر کر کے قوت پیدا کرتی ہے۔
لہٰذا جو مشہور ہے‘ اس کے برخلاف اسلام ثقافت کے مفہوم میں نیشنلزم کا مخالف نہیں بلکہ حامی ہے‘ وہ جس نسلی مفہوم میں نیشنلزم کا مخالف ہے‘ وہ نسل پرستی ہے۔
یہ نظریہ کسئی اعتبار سے مخدوش ہے‘ اولاً یہ کہ اس کا دار و مدار انسان کے بارے میں کسی خاص نظریے اور انسان کے ثقافتی اصول و مواد یعنی فلسفہ‘ علم‘ فن اور اخلاق وغیرہ کے بارے میں بھی کسی خاص نظریے پر ہے‘ جو دونوں مخدوش ہیں۔
انسان کے بارے میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ وہ فکر کے اعتبار سے‘ مشاہدہ کائنات کے اعتبار سے‘ عاطفی اعتبار سے اور اس اعتبار سے کہ کس چیز کو چاہے اور کون سا راستہ اختیار کرے اور کس منزل کی سمت چلے اپنی ذات میں ہر صلاحیت سے خالی ہے‘ چاہے بالقوت ہی سہی۔ تمام افکار‘ تمام عواطف‘ تمام راستے اور تمام اہداف اس کے لئے یکساں ہیں۔ وہ ایک بے شکل و بے رنگ خالی ظرف کی طرح ہے جو ہر شے کو مظروف سے لیتا ہے‘ اس کی خودی‘ اس کی شخصیت‘ اس کا راستہ‘ اس کی منزل سب مظروف کی مرہون منت ہے۔
اس کا مظروف اسے جس طرح کا تشخص دے گا‘ جس طرح کا راستہ اور جس منزل کو اس کے لئے معین کرے گا‘ وہ اسی کا پابند ہو گا‘ یہی اس کی حقیقی شکل‘ حقیقی رنگ‘ حقیقی تشخص اور حقیقی راہ و منزل ہو گی‘ کیوں کہ اسی مظروف سے اس کی ”خود“ کو قوام اور سہارا ملا ہے۔ اب اس کے بعد اس کی شخصیت‘ اس کے رنگ اور اس کی شکل کو اس چھیننے کے لئے جو کچھ بھی اسے دیا جائے گا‘ اس کے لئے وقتی اور بیگانہ ہو گا‘ کیوں کہ وہ اس پہلے تشخص کے خلاف ہو گا جسے تاریخ نے اپنے اتفاقی عمل سے بنایا ہے بعبارت دیگر‘ یہ نظریہ فرد اور معاشرے کی اصالت سے متعلق چوتھے نظریے سے ہم آہنگ ہے جو خالص اجتماعی اصالت پر مبنی ہے اور جس پر ہم پہلے اعتراض کر چکے ہیں۔
انسان کے بارے میں بااعتبار فلسفی ہو یا بااعتبار اسلامی‘ اس طرح کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ انسان اپنی خاص نوعیت کے اعتبار سے بالقوہ ہی سہی ایک معین تشخص‘ معین راہ اور مقصد کا حامل ہے اور یہ چیز اسے الٰہی فطرت سے ملتی ہے‘ یہی فطرت اس کی حقیقی ”خود“ کو معین کرتی ہے۔ انسان کے مسخ ہونے یا نہ ہونے کو تاریخی معیار پر نہیں بلکہ انسان کے فطری اور نوعی معیار پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر وہ تعلیم اور ہر وہ کلچر جو انسان کی انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہو اور اسے پروان چڑھانے والا ہو‘ حقیقی و اصیل کلچر ہے۔ ہرچند کہ تاریخی حالات کے باعث اسے اولیت حاصل نہ ہو اور ہر وہ کلچر جو انسان کی انسانی فطرت سے مطابقت نہ رکھتا ہو‘ اس کے لئے اجنبی اور غیر ہے‘ ایک طرح سے اس کی حقیقی ہویت کو بدلنے والا‘ مسخ کرنے والا ہے اور اسے ”خود“ سے ”ناخود“ بنانے والا ہے۔ اگرچہ اس کی پیدائش قومی تاریخ کا کرشمہ کیوں نہ ہو مثلاً عقیدہ ثنویت اور آگ کی تقدیس ایرانی انسانیت کا مسخ ہے اگرچہ وہ اس کی تاریخ ہی سے کیوں نہ ابھری ہو‘ لیکن توحید یکتا پرستی اور غیر خدا کی پرستش سے دوری حقیقی انسانیت ہویت کی سمت اس کی بازگشت ہے۔ اگرچہ وہ باہر سے آئی ہو اور اس کی سرزمین نے اسے نہ دیا ہو۔
انسانی کلچر کے مواد سے متعلق خیال بھی غلط فرض کیا گیا ہے کہ یہ ان بے رنگ مادوں کی طرح ہے جن کی کوئی خاص شکل اور خاص تشخص نہیں ہوتا۔ ان کی شکل اور ان کی کیفیت کو تاریخ بناتی ہے‘ یعنی فلسفہ بہرحال فلسفہ ہے اور اسی طرح سائنس‘ سائنس ہے۔ مذہب‘ مذہب ہے۔ اخلاق‘ اخلاق ہے اور آرٹ‘ آرٹ ہے خواہ وہ کسی شکل اور کسی رنگ میں کیوں نہ ہو۔ لیکن یہ بات کہ ان کا رنگ اور کیفیت کیا ہو گی‘ یہ ایک نسبی امر ہے اور اس کی وابستگی تاریخ سے ہے‘ ہر قوم کی تاریخ‘ اس کا کلچر‘ اس کا فلسفہ‘ اس کا مذہب‘ اس کی سائنس‘ اس کا اخلاق اور اس کا فن متقاضی ہے کہ وہ خود اس سے مخصوص ہو۔
بعبارت دیگر جس طرح انسان اپنی ذات میں بے شکل و بے ہویت ہے اور اس کا کلچر اسے شکل و ہویت دیتا ہے‘ انسانی کلچر کے حقیقی مواد و اصول بھی خود اپنی ذات میں بے شکل و صورت ہیں‘ تاریخ انہیں رنگ عطا کرتی ہے اور ان پر اپنا خاص رنگ جماتی ہے۔ بعض لوگ اس نظریے میں یہاں تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ اب ان کا یہ دعویٰ ہے کہ
”علم ریاضی کی طرز فکر بھی ہر کلچر کے خاص ڈھب کے زیراثر قائم ہے۔“(فلسفہ تاریخ میں معروف صاحب نظر اور ماہر عمرانیات اسپنگلر کا قول جسے ”مراحل اساسی در جامعہ شناسی“ میں ”ریمون آرون“ نے نقل کیا ہے‘ ملاحظہ ہو‘ ص ۱۰۷)
یہ نظریہ انسانی کلچر کے نسبی ہونے کا نظریہ ہی ہے‘ ہم نے ”اصول فلسفہ“ میں اصول فکر کے اطلاق اور نسبیت کے بارے میں گفتگو کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نسبی چیزیں اعتباری اور عملی علوم و ادراکات ہیں اور یہی وہ ادراکات ہیں جو مختلف ثقافتوں میں مختلف زمانی اور مکانی شرائط کے مطابق مختلف ہوا کرتے ہیں۔ نیز یہی وہ ادراکات ہیں جو اپنی سطح سے ہٹ کر کسی دوسری حقیقت کے بارے میں فیصلہ کرنے اور ان کے لئے حق و باطل اور غلط و صحیح کا معیار بننے سے معذور ہیں‘ لیکن وہ نظری افکار و ادراکات و علوم جو انسان کے نظری علوم اور فلسفے کو بنانے والے ہیں‘ مثلاً اصول مطالعہ‘ کائنات بااعتبار مذہب اور اخلاق کے بنیادی اصول پکے مطلق اور غیر نسبی ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں یہاں اس سے زیادہ اس گفتگو کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔
 

صرف علی

محفلین
ثانیاً یہ جو کہا جاتا ہے کہ مذہب عقیدہ ہے اور قومیت تشخص ہے اور ان دونوں کا رابطہ عقیدے اور تشخص کا رابطہ ہے اور یہ کہ اسلام قومی تشخصات کو اسی طرح استحکام بخشتا ہے اور انہیں اصولی طور پر مانتا ہے جیسی کہ وہ ہیں‘ مذہبی ابلاغ و ہدایت کی سب سے بڑی نفی ہے۔ مذہب وہ بھی اسلام جیسے مذہب کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ محور توحید پر قائم کلی نظام سے متعلق ایک صحیح اور بنیادی انداز فکر ہمیں دے اور اسی انداز فکر کی بنیاد پر نوع بشر کی روحانی اور اخلاقی شخصیت کو سنوارے اور افراد اور معاشرے کی انہیں خطوط پر پرورش کا لازمہ ہے کہ ایک نئی ثقافت کا بیج بویا جائے جو قومی نہیں انسانی ثقافت ہے۔ یہ جو اسلام نے دنیا کو کلچر دیا اور آج ہم اسے اسلامی کلچر کے نام سے یاد کرتے ہیں اس لئے نہیں تھا کہ ہر مذہب کم و بیش اپنے لوگوں کے درمیان موجود کلچر میں گھل مل جاتا‘ اس سے متاثر ہوتا اور کم و بیش اسے اپنے زیراثر لے آتا ہے‘ بلکہ اس لئے تھا کہ کلچر بنانا اس مذہب کے متن ابلاغ میں رکھ دیا گیا ہے۔ اسلام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اس کلچر سے باہر نکالے جس میں انہیں نہیں ہونا چاہئے اور وہ چیزیں انہیں دے جن کی ان کے پاس کمی ہے اور وہ چیزیں جن کا ہونا ان کے لئے ضروری ہے اور ان کے پاس بھی ہیں‘ انہیں استحکام بخشے جسے قوموں کی مختلف ثقافتوں سے کوئی سروکار نہ ہو اور وہ سب سے ہم آہنگ ایسا مذہب ہے کہ جو پورے ہفتے میں صرف ایک بار چرچ والوں ہی کے کام آ سکتا ہے اور بس۔
ثالثاً: ”انا خلقنا کم من ذکر وانثی“کا یہ مفہوم نہیں کہ ہم نے تمہیں دو طرح کی جنس خلق کیا ہے‘ یہ کہا جائے کہ اس آیت میں سب سے پہلے انسان کو جنسیت کی بنیاد پر تقسیم کیا ہے‘ پھر فوراً قومی تقسیم کی بات آئی ہے اور ساتھ ہی یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آیت یہ سمجھانا چاہتی ہے کہ جس طرح اختلاف جنسیت ایک طبیعی امر ہے اور کسی مکتب فکر کو اس کی اساس پر استوار ہونا چاہئے نہ کہ اس کی نفی کی اساس پر‘ قومیت میں اختلاف کی صورت بھی یہی ہے۔
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے خلق کیا ہے‘ خواہ اس کا مطلب یہ ہو کہ تمام انسانوں کا نسلی رابطہ ایک مرد اور ایک عورت (آدم و حوا) پر منتہی ہوتا ہے اور خواہ یہ ہو کہ تمام انسان اس اعتبار سے یکساں ہیں کہ سب کا باپ ہوتا ہے اور سب کی ماں ہوتی ہے اور اس اعتبار سے کہیں کوئی امتیاز نہیں ہے۔
رابعاً: ”لتعارفوا“ جو آیہ کریمہ میں بعنوان غایت استعمال ہوا ہے‘ اس مفہوم میں نہیں ہے کہ قوموں کو اس اعتبار سے مختلف قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی شناخت پیدا کر لیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ قوموں کو لازمی طور پر جداگانہ حیثیتوں سے باقی رہنا چاہئے تاکہ وہ اپنے مدمقابل کی شناخت سے بہرہ ور ہو سکیں‘ اگر یہی بات تھی‘ تو ”لتعارفوا“ (ایک دوسرے کی شناخت کرو) کے بجائے ”لیتعارفوا“ (ایک دوسرے کی شناخت کریں) استعمال ہوتا کیوں کہ مخاطب عوام ہیں اور انہی عام افراد سے خطاب ہے کہ یہ جو گروہ یا تفریقات اس وجہ سے وجود میں آئی ہیں متن خلقت میں کسی حکمت سے اس کا سروکار ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ تم لوگ قوموں اور قبیلوں کی نسبت کے ساتھ ایک دوسرے کو پہچانو اور ہم جانتے ہیں کہ یہ حکمت اس بات پر موقوف نہیں کہ تمام قومیتیں لازمی طور پر جداگانہ حیثیت سے ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں۔
خامساً: جو کچھ ہم نے گذشتہ اوراق میں معاشرہ کی یگانگی اور تنوع سے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ کو پیش کیا اور بتایا کہ معاشروں کا طبیعی اور تکوینی سفریگانہ معاشرے اور یگانہ ثقافت کی طرف ہے اور اسلام کا بنیادی لائحہ عمل اسی ثقافت اور اسی معاشرے کا استحکام ہے۔ مذکورہ بالا نظریے کی تردید کے لئے کافی ہے۔
اسلام میں فلسفہ ”مہدویت“ اسلام‘ انسان اور عالم کے مستقبل کے بارے میں اسی طرح کے نظریے کی اساس پر قائم ہے اور اسی منزل پر ہم معاشرے سے متعلق اپنی اس بحث کا خاتمہ کر کے تاریخ کو زیربحث لاتے ہیں۔
تاریخ کیا ہے؟
تاریخ کی تعریف تین طرح سے ہو سکتی ہے۔ درحقیقت تاریخ سے متعلق تین ایسے علوم ہونے چاہئیں جو ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے ہوں:
۱۔ زمانہ حال میں موجود حالات و کیفیات کے بجائے گذرے ہوئے انسانوں کے اوضاع اور احوال اور بیتے ہوئے حادثات کا علم‘ ہر وہ کیفیت‘ ہر وہ حالت‘ ہر وہ واقعہ و حادثہ جس کا تعلق زمانہ حال سے ہو یعنی اس زمانے سے ہو کہ جس میں ابھی اس پر گفتگو چل رہی ہو‘ ”آج کا واقعہ“ اور ”آج کا حادثہ“ ہو گا اور جب یہ قید تحریر میں آ جائے گا تو ”روزانہ“ کہلائے گا۔ لیکن جونہی اس کی تازگی ختم ہو جائے گی اور وقت کی طنابیں کھنچ جائیں گی‘ یہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ پس اس مفہوم میں علم تاریخ ان حادثات‘ واقعات اور ان افراد کے حالات و کیفیات پر مبنی علم ہے جو گذشتہ سے اپنا رشتہ جوڑ چکے ہیں وہ تمام سوانح عمریاں‘ ظفرنامے اور سیرتوں پر مشتمل کتابیں جو ہر قوم میں تالیف ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں‘ اسی ضمن میں آتی ہیں۔
علم تاریخ اس مفہوم میں اولاً جزو ہے‘ کلیات کا علم نہیں‘ یعنی اس کا تعلق انفرادی اور ذاتی امور کے ایک سلسلے سے ہے نہ کہ قواعد و ضوابط‘ روابط اور کلیات سے۔ ثانیاً یہ عقلی نہیں نقلی علم ہے۔ ثالثاً اس کا تعلق کیوں ہوا سے نہیں‘ کیسے تھا سے ہے۔ رابعاً اس کی وابستگی حال سے نہیں ماضی سے ہے۔ ہم اس طرح کی تاریخ کو ”نقلی تاریخ“ کی اصطلاح دیتے ہیں۔
۲۔ گذشتہ زندگیوں پر حکم فرما قواعد و روایات کا علم جو ماضی میں رونما ہونے والے واقعات اور حوادث جو نقلی تاریخی ہیں‘ کے مطالعے اور تحلیل و تجزیہ سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی گذشتہ کے حوادث و واقعات اس علم کے مبادی و مقدمات کی حیثیت رکھتے ہیں اور درحقیقت یہ حوادث و واقعات‘ تاریخ کے اس دوسرے مفہوم میں ایک ایسے مواد کا حکم رکھتے ہیں اور درحقیقت یہ حوادث و واقعات‘ تاریخ کے اس دوسرے مفہوم میں ایک ایسے مواد کا حکم رکھتے ہیں‘ جسے طبیعات کا سائنس دان اپنی تجربہ گاہ میں اس لئے اکٹھا کرتا ہے کہ اس پر تجزیہ و تحقیق کر کے اس کی خاصیت اور فطرت معلوم کرے اور اس کے علت و معلول سے متعلق رابطے کو سمجھے‘ تاریخی حوادث کا مزاج دریافت کرنے اور ان کے سبب و مسبب کو جاننے کی ٹوہ میں ہوتا ہے تاکہ قواعد و ضوابط کا وہ عمومی سلسلہ اس کے ہاتھ آئے جس سے حال‘ مشابہ امور میں ماضی کی صورت اختیار نہ کرے۔ ہم اس معنی میں تاریخ کو ”علمی تاریخ“ کی اصطلاح کا نام دیتے ہیں۔
ہرچند کہ علمی تاریخ کا موضوع تحقیق‘ وہ واقعات اور وہ حادثات ہیں‘ جن کا تعلق گذشتہ سے ہے‘ لیکن یہ جو مسائل اور قواعد استنباط کرتا ہے گذشتہ سے مخصوص نہیں ہوتے بلکہ عمومیت رکھتے ہیں اور آئندہ پر بھی منطبق کئے جا سکتے ہیں۔
تاریخ کا یہ رخ اسے بڑا سود مند بنا دیتا ہے۔ یہ انسانی معرفت یا انسانی شناخت کا ایک مآخذ بن کر انسان کو اس کے مستقبل پر دسترس دیتا ہے۔ علمی تاریخ کے محقق اور ماہر علم طبیعات کے کاموں میں یہ فرق ہے کہ علم طبیعات کے ماہر کا تحقیقی مواد ایک موجود اور حاضر عینی مواد ہے جو لازماً اپنی تحقیق اور تحلیل و تجزیہ میں عینی اور تجرباتی پہلو رکھتا ہے‘ لیکن مورخ کا تحقیقی مواد گذشتہ دور میں تو تھا لیکن اب نہیں ہے صرف اس سے متعلق کچھ اطلاعات اور کچھ ریکارڈ مورخ کے پاس ہوتا ہے۔ مورخ اپنے فیصلوں میں عدالت کے ایک قاضی کی طرح ہوتا ہے جو ریکارڈ میں موجود دلائل و شواہد کی بنیاد پر اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ اس کے پاس منطقی‘ ذہنی اور عقلی تحلیل ہے‘ خارجی اور عینی تحلیل نہیں۔ مورخ اپنے تجزیوں کو خارجی تجربہ گاہ میں یا قرع و انبیق جیسے آلات کے ذریعے انجام نہیں دیتا‘ بلکہ اس کا عمل عقل کی تجربہ گاہ میں قیاس و استدلال کے آلات سے ہوتا ہے‘ لہٰذا مورخ اس جہت سے علم طبیعات کے ماہر کی نسبت ایک فلسفی کے مشابہ ہوتا ہے۔
علمی تاریخ بھی نقلی تاریخ کی طرح سے ہی حال سے نہیں گذشتہ سے متعلق ہے۔ یہ علم ”کیوں ہوا“ کا نہیں‘ ”کیسے تھا“ سے متعلق علم ہے لیکن نقلی تاریخ کے برخلاف کلی ہے جزوی نہیں‘ نیز عقلی ہے محض نقلی نہیں۔
علمی تاریخ درحقیقت عمرانیات کا ایک حصہ ہے‘ یعنی گذشتہ معاشروں سے متعلق عمرانیات کا موضوع مطالعہ عمومی ہے‘ جو معاصر معاشرے اور گذشتہ معاشرے دونوں پر محیط ہے۔
اگر ہم عمرانیات کو معاصر معاشروں کی شناخت کے لئے مختص کر دیں‘ تو پھر علمی تاریخ اور عمرانیات دو الگ علم ہوں گے‘ لیکن رشتہ میں ان کا ایک دوسرے سے قریبی تعلق ہو گا اور وہ ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوں گے۔
۳۔ فلسفہ تاریخ یعنی معاشروں کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلوں میں جانے اور انقلابات سے دوچار ہونے کا علم‘ نیز ان قوانین کا علم جن کا ان انقلابات پر سکہ رہا ہے۔
بعبارت دیگر: یہ ”کیوں ہوا“ کا علم ہے نہ کہ ”کیسے تھا“ کا علم۔ ممکن ہے محترم قارئین کا ذہن اس بات کی طرف جائے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ معاشروں میں ”کیسے تھا“ بھی ہو اور ”کیوں ہوا“ بھی جب کہ ”کیسے تھا“، ”علمی تاریخ“ کے نام سے کسی علم کا موضوع ہو لیکن فلسفہ تاریخ کے نام سے کسی دوسرے علم کا موضوع ہو؟ جب کہ ان دونوں کے درمیان اجتماع ناممکن ہے کیوں کہ ”کیسے تھا“ سکون ہے اور ”کیوں ہوا“ حرکت‘ لہٰذا ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ گذشتہ معاشروں کے بارے میں ہمارے پردہ ذہن کی تصویر یا ”کیسے تھا“ سے متعلق ہونی چاہئے یا ”کیوں ہوا“ سے۔ ممکن ہے محترم قارئین اشکال کو زیادہ کلی اور زیادہ جامع بنا کر پیش کریں اور وہ یوں کہ کلی طور پر کائنات اور معاشرہ بااعتبار اس کے کہ کلی کائنات کا ایک جزو ہے‘ سے متعلق ہماری شناخت اور پردہ ذہن کی تصویر یا ساکن اور ایستادہ امور میں سے ہے یا ان میں سے ہے جن میں تحرک پایا جاتا ہے‘ اگر دنیا یا معاشرہ ساکن یا ایستادہ ہے تو پھر اس میں ”کیسے تھا“ تو ہو گا۔ ”کیوں ہوا“ نہیں اور اگر یہ متحرک ہے تو اس میں ”کیوں ہوا“ ہو گا‘ ”کیسے تھا“ نہیں۔ اس اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اہم ترین فلسفی نظام دو بنیادی گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں ایک ”کیسے تھا“ کا فلسفہ اور دوسرا ”کیوں ہوا“ کا فلسفہ۔ پہلا فلسفہ وہ جو ”ہونے“ اور ”نہ ہونے“ کو ناقابل جمع اور متناقص قرار دیتا ہے۔ جہاں ”ہونا“ ہے وہ ”نہ ہونا“ نہیں اور جہاں ”نہ ہونا“ ہے وہاں ”ہونا“ نہیں۔ پس ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب ضروری ہے مگر چونکہ ضرورتاً ”ہونا“ ہے اور دنیا اور معاشرہ ایک حرف عبث نہیں لہٰذا اس دنیا پر ”سکون“ اور قیام کی حکومت ہے۔ ”کیوں ہوا“ کا فلسفہ وہ ہے کہ جو ”ہونے“ اور ”نہ ہونے“ کو آن واحد میں قابل جمع جانتا ہے اور یہ حرکت ہی ہے۔ حرکت سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ کوئی شے ہو اور باوجود ہونے کے نہ ہو۔ پس ”کیسے تھا“ کا فلسفہ اور ”کیوں ہوا“ کا فلسفہ ہستی کے بارے میں دو بالکل متضاد اور مختلف نظریے ہیں۔ ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ اگر ہم پہلے گروہ میں اپنے آپ کو شامل کر لیں تو ہمیں یہ فرض کرنا ہو گا کہ معاشروں میں ”ہونا“ رہا ہے‘ ”نہ ہونا“ نہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم دوسرا گروہ اختیار کر لیں تو وہاں معاشرے ”نہ ہونے“ سے متعلق ہیں‘ ”ہونے“ سے نہیں۔ پس ہمارے پاس گذشتہ مفہوم کے مطابق یا علمی تاریخ ہے اور فلسفہ تاریخ نہیں یا فلسفہ تاریخ ہے اور علمی تاریخ نہیں۔ جواب یہ ہے کہ ہستی اور نیستی‘ حرکت و سکون اور امتناع تناقض کے قانون کے بارے میں اس طرح کی سوچ مغربی انداز فکر ہے اور یہ ہستی کے فلسفی مسائل خاص طور پر ”اصالت وجود“ کے عمیق مسئلے اور بہت سے دیگر مسائل سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔
اول یہ کہ ”ہونا“ سکون کے مساوی بعبارت دیگر سکون ”ہونا“ ہے اور حرکت ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ملاپ ہے یعنی دو نقیضوں کا ملاپ ہے‘ یہ بات ان بڑے اشتباہات میں سے ہے جن سے مغرب کے بعض فلسفی دوچار ہوئے ہیں‘ ثانیاً جو کچھ یہاں ذکر ہوا ہے‘ اس کا اس فلسفی مسئلے سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہاں جو بات کہی گئی وہ یہ ہے کہ معاشرہ ہر زندہ وجود کی طرح دو قسم کے قوانین کا حامل ہے۔ ایک وہ قوانین جو ہر نوع کے دائرہ نوعیت پر حکم فرما ہیں اور دوسرے وہ جو انواع کے تغیرات اور ان کی آپس میں تبدیلی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ہم پہلی قسم کو ”کیسے تھا“ اور دوسری کو ”کیوں ہوا“ سے متعلق قوانین کی اصطلاح دیتے ہیں۔
اتفاقاً بعض بہت اچھے ماہرین عمرانیات نے اس نکتے پر توجہ مبذول کی ہے‘ ”ا۱گسٹ کانٹ“ انہی میں سے ہے۔ ”ریمون آرون“ کہتا ہے: حرکت اور سکون ”اگسٹ کانٹ“ کی عمرانیات کے دو خاص مقولے ہیں۔ سکون اس موضوعی مطالعے سے متعلق ہے‘ جسے ۱۱ گسٹ کانٹ نے اجتماعی اجماع (یا اجتماعی توافق) کا نام دیا ہے۔ معاشرہ ایک اعضاء کے ایک مجموعے (Organism) کی طرح زندہ ہے۔ جس طرح بدن کے کسی حصے کی کارکردگی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہوتاہے کہ اسے اس زندہ کل سے وابستہ کیا جائے جس کا وہ خود ایک حصہ ہے۔ اسی طرح حکومت اور سیاست کی جانچ پڑتال کے لئے بھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ اسے تاریخ کے ایک معین وقت میں معاشرے کے کل سے وابستہ کیا جائے۔ آغاز میں حرکت ان پے در پے مراحل کی سادہ سی توصیف سے عبارت ہے جسے انسانی معاشرے طے کرتے چلے آئے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
دودھ پلانے والے جانور ہوں یا رینگنے والے کیڑے‘ پرند ہوں یا چرند‘ مختلف انواع کے زندہ موجودات کی ہر نوع کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ اپنے خاص قوانین سے متصل ہیں‘ جن کا تعلق ان کی نوعیت سے ہوتا ہے۔ جب تک وہ اپنی اس نوع کی حدود میں رہتے ہیں‘ مذکورہ قوانین ان پر لاگو ہوتے ہیں۔ جیسے کسی حیوان کے مراحل جین سے متعلق قوانین یا اس کی صحت و بیماری یا طرز پیدائش و پرورش یا انداز حصول غذاء یا پھر اس کی مہاجرت‘ جبلت اور توالد و تناسل سے متعلق قوانین لیکن تبدیلی و تکامل انواع کے نظریے(ڈارون کا مشہور نظریہ]مترجم[) کے مطابق خصوصی قوانین کے علاوہ ہر نوع اپنے نوعیت میں کچھ اور قوانین بھی رکھتی ہے جو تبدیلی و تکامل انواع اور ان کی پستی سے بلندی تک پہنچنے سے متعلق ہے۔ یہی قوانین ہیں جو فلسفی شکل اختیار کرتے ہیں اور جسے ہم فلسفہ تکامل تو کہہ سکتے ہیں مگر علم حیاتیات نہیں‘ معاشرہ بھی اس اعتبار سے کہ ایک زندہ وجود ہے‘ دو طرح کے قوانین کا حامل ہے: ایک قوانین حیات اور دوسرے قوانین تکامل۔ وہ قوانین جن کا تعلق تمدنوں کی پیدائش اور ان کے انحطاط کے اسباب سے ہے اور جو معاشروں کی شرائط حیات کو معین کرتے ہیں اور جن کی حکمرانی تمام معاشروں‘ اطوار اور تغیرات پر ہے‘ انہیں ہم معاشروں کے قوانین کی اصطلاح کہتے ہیں اور وہ قوانین جو معاشروں کے ایک عہد سے دوسرے عہد میں ارتقاء پانے اور ایک نظام سے دوسرے نظام میں جانے سے متعلق ہیں‘ ان کے لئے معاشروں کے ”کیوں ہوا“ کے قوانین کی اصطلاح لاتے ہیں‘ بعد میں جب ہم دونوں قسم کے مسائل کو پیش کریں گے تو ان کا فرق بہتر طور پر واضح ہو گا۔ پس علم تاریخ تیسرے مفہوم میں معاشروں کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں جانے اور تکامل پانے سے متعلق علم ہے۔ ان کی زندگی کا علم نہیں جو ان کے ایک خاص مرحلے یا تمام مراحل حیات کی عکاسی کرے۔ ہم نے ان مسائل کے لئے ”فلسفہ تاریخ“ کی اصطلاح اس لئے پیش کی ہے تاکہ ان مسائل کا ان مسائل پر گمان نہ ہو‘ جنہیں ہم نے علمی تاریخ کے نام سے یاد کیا ہے۔ علمی تاریخ سے نسبت پانے والے مسائل جن کا تعلق معاشرے کی غیر تکاملی حرکات سے ہے‘ ان مسائل سے جدا نہیں کئے جا سکتے جو فلسفہ تاریخ سے متعلق ہیں اور جن کی نسبت معاشرے کی تکاملی حرکات سے ہے اور اسی لئے اشتباہات رونما ہوتے ہیں۔
فلسفہ تاریخ علمی تاریخ کی طرح کلی ہے جزوی نہیں‘ عقلی ہے نقلی نہیں۔ لیکن علمی تاریخ کے برخلاف یہ معاشروں کے ”کیوں ہوا“ کا علم ہے‘ ”کیسے تھا“ کا نہیں۔ نیز علمی تاریخ کے برخلاف فلسفہ تاریخ سے متعلق مسائل کا تاریخ سے رشتہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ گذرے ہوئے زمانے سے وابستہ ہیں بلکہ یہ ان واقعات کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا آغاز گذشتہ زمانے میں ہوا اور جن کا عمل اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ زمانہ اس طرح کے مسائل کے لئے محض ایک ”ظرف“ نہیں بلکہ یہ ان مسائل کے پہلوؤں سے ایک پہلو ہے۔
علم تاریخ اپنے تینوں مفاہیم میں مفید ہے یہاں تک کہ نقلی تاریخ بھی جس کا تعلق اشخاص کی سیرت اور ان کے حالات سے ہو‘ سود مند‘ انقلاب آفرین‘ مربی اور تعمیری ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ اس بات سے وابستہ ہے کہ ہم کن افراد کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی زندگی سے کن نکات کو لیتے ہیں۔ انسان جس طرح ”محاکات“ کے قانون کے تحت اپنے زمانے کے لوگوں کی ہم نشینی‘ ان کی رفتار و کردار اور ارادوں سے متاثر ہوتا ہے اور جس طرح معاصر لوگوں کی زندگی اس کے لئے سبق آموز اور عبرت انگیز ہوتی ہے‘ نیز جس طرح وہ اپنے زمانے کے لوگوں سے ادب اور راہ و رسم زندگی سیکھتا ہے اور کبھی لقمان کی طرح بے ادبوں سے ادب سیکھتا ہے تاکہ ان جیسا نہ ہو‘ اسی طرح گذشتہ لوگوں کی سرنوشت بھی اس کے لئے باعث ہدایت ہوتی ہے۔ تاریخ ایک براہ راست نشر ہونے والی فلم کی طرح ہے جو ماضی کو حال میں بدلتی ہے‘ اسی لئے قرآن کریم ان افراد کی زندگی کے مفید نکات کو پیش کرتا ہے‘ جو نمونہ عمل اور ”اسوہ“ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس بات کی تصریح بھی کرتا ہے کہ انہیں ”اسوہ“ قرار دو۔ جناب رسالت مآب کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(سورئہ احزاب‘ آیت ۲۱)
”رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لئے ایک عمدہ نمونہ حیات موجود ہے۔“
حضرت ابراہیم۱کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
قد کانت لکم اسوة حسنة فی ابراہیم والذین معہ(سورئہ ممتحنہ‘ آیت ۵)
”ابراہیم۱اور ان کے ساتھ رہنے والوں میں تمہارے لئے ”اسوئہ حسنہ“ موجود ہے۔“
قرآن ”اسوہ“ کے عنوان سے جن ہستیوں کو پیش کرتا ہے وہاں اس کے پیش نظر ان کی دنیاوی شخصیت نہیں ہوتی بلکہ وہ ان کی اخلاقی اور انسانی شخصیت کو پیش نظر رکھتا ہے۔ جیسے ایک سیاہ رنگ غلام لقمان جو بادشاہ تھے نہ مشہور فلسفی اور نہ ہی دولت مندوں میں ان کا شمار ہوتا تھا بلکہ اس کے برعکس ایک غلام تھے‘ مگر صاحب بصیرت تھے۔ قرآن نے انہیں حکیم و دانا کے نام سے یاد کیا ہے اور ان کے علم کو حکمت و دانائی کہا ہے یہی صورت ”مومن آل فرعون“ اور ”مومن آل یاسین“ کی ہے۔
اس کتاب میں جس میں ہم معاشرے اور تاریخ کو اسلامی طرز فکر کی روشنی میں پیش کر رہے ہیں‘ ہمارا مطمع نظر صرف ”سائنسی تاریخ“ اور ”فلسفہ تاریخ“ ہے‘ کیوں کہ تاریخ کے یہی وہ دو رخ ہیں جو طرز فکر کے کلی مفہوم کے دائرے میں آتے ہیں۔
اس اعتبار سے ہم اپنی گفتگو کو ان دونوں موضوعات کے بارے میں کچھ آگے بڑھاتے ہیں اور ”سائنسی تاریخ“ سے آغاز کلام کرتے ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
سائنسی تاریخ
سب سے پہلے مقدمے کے طور پر یہ یاد آوری ضروری ہے کہ علمی تاریخ اس مفہوم پر مبنی ہے‘ جسے ہم گذشتہ اوراق میں عرض کر چکے ہیں اور وہ یہ کہ افراد سے الگ معاشرہ اصالت و حیثیت کا حامل ہے‘ اگر افراد سے جدا معاشرہ اصالت کا حامل نہ ہو تو افراد اور ان پر لاگو قوانین کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں علمی تاریخ جو معاشروں پر حکم فرما قواعد و ضوابط کا علم ہے‘ باقی نہیں رہے گا‘ تاریخ کسی قانون کی حامل تب ہو سکتی ہے‘ جب تاریخ کوئی طبیعت رکھتی ہو اور تاریخ کسی طبیعت کی حامل تب ہو سکتی ہے جب معاشرہ کوئی طبیعت رکھتا ہو۔ سائنسی تاریخ کے بارے میں مندرجہ ذیل مسائل کا مطالعہ ضروری ہے:
۱۔ علمی تاریخ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ نقلی تاریخ پر منحصر ہے‘ نقلی تاریخ علمی تاریخ کی تجربہ گاہ کے لئے مواد کی حیثیت رکھتی ہے‘ پس سب سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ نقلی تاریخ معتبر اور قابل اعتماد ہے بھی یا نہیں۔ اگر قابل اعتماد نہیں ہے‘ تو پھر گذشتہ معاشروں پر حاکم قوانین کے بارے میں کسی طرح کی علمی تحقیق بے ہودہ اور عبث ہے۔
۲۔ بالفرض ”نقلی تاریخ“ قابل اعتماد ہو اور معاشرے کے لئے افراد سے الگ حیثیت اور طبیعت کو مان لیا جائے‘ تاریخی حوادث و واقعات سے کلی قواعد اور قوانین کا استنباط اس بات پر موقوف ہے کہ قانون ”علیت“ اور جبر و سبب و مسبب انسانی مسائل کے حدود و اختیارات میں موجود ہو‘ یعنی ان مسائل میں موجود ہو‘ جو انسان کے ارادہ و اختیار سے وابستہ ہیں اور جن میں تاریخی واقعات بھی شامل ہیں‘ وگرنہ قابل عمومیت و کلیت نہیں اور انہیں قاعدے اور ضابطے کے تحت نہیں لیا جا سکتا۔ کیا قانون علیت تاریخ پر مسلط ہے؟ اگر ہے تو پھر آزادی اور اختیار کے بارے میں انسان کا رویہ کیا ہونا چاہئے؟
۳۔ کیا تاریخ ”میٹریالسٹ“ ہے اور مادی طبیعت کی حامل ہے؟ کیا تاریخ پر حکم فرما اصلی طاقت مادی ہے اور تمام روحانی طاقتیں تاریخ کی مادی طاقت کے تابع ہیں اور ان کی صورت فرعی یا طفیلی کی سی ہے؟ یا اس کے برعکس طبیعت تاریخ معنوی ہے اور تاریخ پر حاکم طاقت ایک معنوی طاقت ہے اور مادی طاقتیں اس کی فرع‘ اس کی تابع اور طفیلی ہیں؟ یعنی کیا تاریخ خود اپنی ذات میں مثالیت پسند ہے یا کوئی تیسری صورت موجود ہے؟ اور وہ یہ ہے کہ تاریخ کی طبیعت مخلوط ہے اور اس میں دو یا کئی طاقتوں کا عمل دخل ہے اور متعدد مادی اور معنوی طاقتیں کم و بیش ایک ہم آہنگ اور کبھی متضاد نظام کی صورت میں تاریخ پر حکومت کرتی ہیں؟
۱۔ نقلی تاریخ کا معتبر یا بے اعتبار ہونا
کچھ لوگ نقلی تاریخ سے شدید بدظن ہیں‘ وہ تمام واقعات کو ناقلین کی جعل سازی جانتے ہیں جو ذاتی اغراض و مقاصد یا قومی اور مذہبی تعصبات یا پھر اجتماعی تعلقات کی بنیاد پر واقعات کو نقل کرنے میں کمی بیشی‘ الٹ پھیر‘ جعل و تحریف کرتے ہیں اور تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق جیسا چاہتے ہیں‘ رنگ دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان افراد نے بھی جنہوں نے عملاً اخلاقی طور پر جعل اور الٹ پھیر سے دامن بچایا ہے‘ واقعات کو نقل کرنے میں ”انتخاب“ سے کام لیا ہے‘ یعنی انہوں نے ہمیشہ ان چیزوں کو نقل کیا ہے‘ جو ان کے عقائد اور اہداف سے ہم آہنگ رہی ہیں اور ان واقعات کو نقل کرنے سے پرہیز کیا ہے‘ جو ان کے عقائد اور جذبات کے خلاف رہے ہیں‘ اس طرح کے لوگوں نے اگرچہ تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا اور کوئی جعلی بات اس میں نہیں بڑھائی‘ لیکن اپنی پسند کے واقعات نقل کر کے تاریخ کو جیسا چاہا ہے‘ شکل دے دی ہے۔ ایک حادثہ ایک شخصیت اسی وقت صحیح طور پر قابل تحقیق و تحلیل ہے کہ جب اس سے متعلق تمام باتیں محقق کے روبرو ہوں اور اگر بعض چیزیں ہوں اور بعض نہ ہوں اور چھپا دی گئی ہوں‘ تو پھر حقیقی چہرہ پوشیدہ رہتا ہے اور کوئی دوسری صورت ابھر آتی ہے۔
یہ بدگمان لوگ نقلی تاریخ کے بارے میں بالکل اسی طرح سوچتے ہیں‘ جس طرح بعض بدگمان فقہا مجتہدین نقل احادیث و روایات کے بارے میں سوچتے ہیں اور اسی کو ”انسداد باب علم“ کہا گیا ہے۔ تاریخ کے بارے میں بھی ایسی سوچ کے حامل افراد ”انسدادی“ ہیں۔ بعض لوگوں نے تاریخ کے بارے میں طنزاً کہا ہے:
”تاریخ نام ہے‘ وقوع پذیر نہ ہونے والے واقعات کا جو مورخ موقع سے غیر حاضر ہوتا ہے۔“
ایک صحافی سے اس طنز کو نقل کیا گیا ہے کہ
”حقیقتیں مقدس ہیں‘ مگر عقیدہ آزاد ہے۔“
تاہم بعض افراد اس دور تک بدگمان نہیں ہیں‘ لیکن انہوں نے تاریخ کے بارے میں شک کے فلسفے کو ترجیح دی ہے۔
کتاب ”تاریخ کیا ہے؟“میں پروفیسر سر جارج کلارک سے نقل کیا گیا ہے کہ
”گذشتہ دور میں رونما ہونے والے واقعات ایک یا کئی ذہنوں سے چھنتے چھناتے‘ ہم تک پہنچتے ہیں‘ لہٰذا ناقابل تغیر‘ بسیط اور جامد ذرات پر حاوی نہیں ہیں‘ اس موضوع پر تحقیق لاحاصل رہتی ہے‘ اسی لئے بعض محققین نے فلسفہ شک میں پناہ لی ہے اور کچھ نہیں تو اس عقیدہ کا سہارا لیا ہے‘ چونکہ تمام تاریخی فیصلوں میں لوگوں کے ذاتی نظریات کا عمل دخل ہے‘ لہٰذا کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور کوئی عینی تاریخی حقیقت موجود نہیں ہے۔“(تالیف: ایم ایچ کار‘ ترجمہ (فارسی) حسن کامشاد‘ ص ۸)
یہ حقیقت ہے کہ آنکھیں بند کر کے موثق راویوں پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ تاریخ‘ دوسرے علوم میں بدیہیات کی طرح کچھ اصول رکھتی ہے اور وہی اصول خود محقق کے تحلیل و تجزیہ میں آ سکتے ہیں۔ پھر ثانیاً محقق ایک طرح کے اجتہاد کے ساتھ بعض نقول کی صحت اور عدم صحت کی کسوٹی پر پرکھ کر اس سے نتیجہ حاصل کر سکتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے مسائل جن کی بعض ادوار میں بڑی دھوم رہی ہے لیکن کئی صدیاں گذرنے کے بعد محققین نے ان کے غیر معتبر ہونے کو سورج کی طرح روشن کر دیا ہے‘ اسکندریہ کے کتب خانے کو جلانے کی داستان جو ساتویں صدی کی ہے۔
جی ہاں فقط ساتویں صدی ہجری سے زبان زد خاص و عام ہوئی اور اس طرح پھیلی کہ بتدریج اکثر تاریخی کتابوں میں سرایت کر گئی‘ موجودہ صدی کے محققین کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ محض ایک بے بنیاد افسانہ ہے‘ جسے خود غرض عیسائیوں نے گھڑ رکھا ہے‘ جیسے کبھی کوئی حقیقت چھپا دی جاتی ہے‘ لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ سامنے آ جاتی ہے‘ لہٰذا مندرجات تاریخ کے بارے میں بطور کلی بدگمانی نہیں کی جا سکتی۔
 

صرف علی

محفلین
۲۔ تاریخ میں قانون علت و معلول
کیا تاریخ پر قانون علیت حکم فرما ہے؟ اگر علیت کی حکومت ہے‘ تو اس کا لازم یہ ہے کہ ہر واقعے کی وقوع پذیری اس کی اپنی حد تک حتمی اور ناقابل اجتناب رہی ہے اور اس طرح ایک خاص ”جبر“ تاریخ پر مسلط ہے اور اگر تاریخ پر جبر کا تسلط ہے‘ تو پھر نوع بشر کی آزادی اور اختیار جبری ہے‘ تو پھر کسی شخص کی کوئی ذمہ داری نہ ہو گی اور کوئی بھی قابل توصیف و تمجید یا مستحق مذمت و ملامت نہیں ہو گا اور اگر قانون علیت کی حکمرانی نہیں تو پھر کلیت بھی نہیں اور اگر کلیت نہیں تو پھر تاریخ قوانین اور ضوابط سے عاری ہے‘ کیوں کہ قانون کلیت کا نتیجہ ہے اور کلیت قانون علیت کا نتیجہ ہے۔ یہ وہ پیچیدہ سوال ہے‘ جو ”علمی تاریخ“ اور ”فلسفہ تاریخ“ کے بارے میں پایا جاتا ہے‘ بعض افراد نے قانون علیت اور قانون کلیت کو مان کر آزادی اور اختیار کا انکار کیا ہے اور آزادی کے نام پر جو چیز انہوں نے قبول کی ہے‘ وہ درحقیقت آزادی نہیں ہے‘ بعض نے اس کے برعکس اصول آزادی کو قبول کر کے تاریخ کی قانون پذیری سے انکار کیا ہے۔ اکثر عمرانیات کے ماہرین نے قانون علیت اور آزادی کو غیر قابل یکجائی جانا ہے اور علیت سے رشتہ جوڑ کر آزادی کی نفی کی ہے۔ ”ہیگل“ اور اس کی پیروی میں ”مارکس“ جبر تاریخ کے حامی رہے‘ ہیگل اور مارکس کی نظر میں آزادی ضرورت تاریخ سے آگاہی کے سوا کچھ نہیں۔ ”مارکس اور مارکسزم“ کا مصنف اینجلز کی تالیف شدہ کتاب ”اینٹی ڈیورنگ“ کے حوالے سے لکھتا ہے:
”ہیگل وہ پہلا شخص تھا‘ جس نے آزادی اور ضرورت کے تعلق کی انتہائی واضح طور پر نشان دہی کی ہے۔ اس کی نظر میں آزادی‘ ادراک ضرورت کا نام ہے‘ ضرورت بس اس حد تک نابینا ہے کہ اس کا ادراک نہ ہو‘ آزادی‘ قوانین فطرت کے مقابل کھڑے ہونے میں نہیں بلکہ یہ ان قوانین کی شناخت اور انہیں معین مقاصد کے لئے بروئے کار لانے میں ہے۔ یہ امر خارجی طور پر بھی قوانین فطرت پر صادق آتا ہے اور انسان کی روح و جسم پر بھی۔“
نیز اس کتاب میں مولف اس موضوع پر ایک مختصر بحث کرتا ہے کہ انسان خاص تاریخی حالات کے تحت اور ان حالات کی معین کردہ سمت میں اقدام کر سکتا ہے اور اسے کرنا چاہئے۔ اس کے بعد لکھتا ہے:
”درحقیقت تاریخ کے ذریعے ہمارے حوالے کی جانے والی چیزوں کی شناخت انسان کے عمل کو زیادہ موثر بناتی ہے‘ ان چیزوں کے خلاف ہر اقدام تاریخ کے خلاف ردعمل اور اس سے ٹکرانے کے مترادف ہو گا‘ ان سے ہم آہنگ سمت میں اقدام‘ گویا تاریخ کی سمت اور راستے پر حرکت کہلائے گی‘ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہو گا کہ آزادی کا کیا بنے گا؟ مارکس کا مکتب فکر اس کا جواب یوں دیتا ہے کہ آزادی عبارت ہو گی‘ فرد کی ضرورت تاریخ اور اس جماعت کے راستے سے آگاہی کی جس کی سمت اسے کھینچا جا رہا ہے۔“
(مارکس اور مارکسزم‘ ص ۲۷‘ ۳۸‘ پانچواں ضمیمہ)
ظاہر ہے یہ باتیں مسئلے کو حل نہیں کرتیں‘ یہاں بات تاریخی حالات کے ساتھ انسان کے رابطہ کی ہے۔ کیا انسان تاریخی شرائط پر حاکم ہے؟ انہیں کوئی اور جہت دے سکتا ہے؟ ان کا رخ بدل سکتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا اور تاریخ کو کوئی سمت نہیں دے سکتا یا اس کے رخ میں تبدیلی نہیں لا سکتا‘ تو پھر مجبوراً تاریخ کے دھارے پر لا کر ہی وہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتا‘ بلکہ کمال حاصل کر سکتا ہے‘ وگرنہ اس کے خلاف اپنی راہ متعین کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ اب یہ سوال درپیش ہے کہ کیا انسان کو تاریخ کی سمت میں قرار پانے اور نہ پانے میں اختیار ہے؟ یعنی کیا وہ اس امر میں آزاد ہے یا مجبور؟ اور کیا فرد پر معاشرے کے تقدم کے قانون کے مطابق اور اس بات کے بعد کہ فرد کے وجدان و شعور و احساس کو مکمل طور پر معاشرہ و تاریخ خاص کر اقتصادی حالات بناتے ہیں‘ آزادی کے لئے کوئی جگہ باقی رہتی ہے؟
پھر ”آزادی‘ ضرورت کے بارے میں آگاہی سے عبارت ہے“ کا کیا مفہوم ہے؟ کیا وہ شخص جو خوفناک سیلاب کا شکار ہے اور اس بات سے آگاہ ہے کہ چند گھنٹوں میں یہ سیلاب اسے سمندر کی گہرائیوں میں پہنچا دے گا یا وہ شخص جو کسی بلندی سے گر رہا ہو‘ اس بات سے واقف ہو کہ قانون کشش ثقل اسے چند لمحوں میں چور کر دے گا‘ سمندر کی گہرائیوں میں جانے یا زمین پر گرنے میں آزاد ہے؟
تاریخی جبری مادیت کی رو سے‘ مادی و اجتماعی شرائط انسان کو محدود کر دیتی ہیں‘ اس کے لئے سمت کا تعین کرتی ہیں اور اس کے وجدان‘ اس کی شخصیت اور اس کے ارادہ انتخاب کو بناتی ہیں اور وہ اجتماعی شرائط کے مقابل ایک خالی برتن اور خام مواد کے سوا کچھ نہیں اور انسانی شرائط کا ساختہ ہے۔ انسان نے اجتماعی شرائط کو نہیں بنایا‘ پچھلوں کی شرائط بعد میں انسان کے لئے راستہ معین کرتی ہیں‘ مستقبل کی شرائط کی معمار نہیں‘ اس بناء پر آزادی کی صورت کوئی معنی و مفہوم نہیں رکھتی۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانی آزادی‘ نظریہ فطرت کے بغیر قابل تصور نہیں‘ اس نظریے کے مطابق انسان دنیا کی عمومی جوہری حرکت کی راہ میں دنیا سے ہٹ کر ایک اضافی پہلو کے ساتھ آتا ہے‘ یہی پہلو اس کی شخصیت کو پہلی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کے بعد عوامل ماحول کے زیراثر اس کی شخصیت کی تکمیل اور پرورش ہوتی ہے‘ یہی وجودی بعد ہے‘ جو انسان کو انسانی شخصیت دیتا ہے اور اس منزل تک لاتا ہے کہ وہ تاریخ پر حکمرانی کرنے لگتا ہے اور تاریخ کی راہ کو معین کرتا ہے‘ ہم اس سے پہلے ”جبر و اختیار“ کے عنوان کے تحت عظیم شخصیات کے کردار کے تذکرے میں اس موضوع پر مزید روشنی ڈالیں گے۔
انسان کی آزادی‘ جس مفہوم میں ہم اشارہ کر چکے ہیں‘ نہ تو قانون علیت سے ٹکراتی ہے اور تاریخی مسائل کی کلیت سے اور نہ ہی تاریخ کی قانون پذیری کے منافی ہے۔ یہ بات کہ انسان آزادی و اختیار کے ساتھ اپنی فکر اور ارادے کے بموجب اجتماعی زندگی میں ایک معین‘ مشخص اور غیر قابل تغیر راہ رکھتا ہو‘ اس کا معنی سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسان اور انسان کے ارادے پر ایک اندھی ضرورت حکم فرما ہو‘ تاریخ کی قانون پذیری اور کلیت میں ایک معترض بات یہ بھی ہے کہ تاریخ واقعات و حادثات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کبھی چند جزوی اور حادثاتی واقعات بھی تاریخ کے دھارے کو بدل دیتے ہیں‘ البتہ اتفاقی واقعات سے مراد بعض ناواقف افراد کی سوچ کے برخلاف علت کے بغیر رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں‘ بلکہ وہ واقعات ہیں جو ایک عام اور کلی علت سے رونما نہیں ہوتے اور اس اعتبار سے کلی ضابطے سے عاری ہیں۔ اگر وہ واقعات‘ جو کلی ضابطے سے عاری ہیں‘ تاریخ میں موثر کردار کے حامل ہوں‘ تو تاریخ کسی قاعدے‘ قانون اور مشخص روایت سے خالی ہو گی۔ اتفاقی تاریخی واقعات سے متعلق ضرب المثل مصر کی مشہور ملکہ قلوپطرہ کی ناک ہے‘ جس نے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ ایسے جزوی اور اتفاقی واقعات کی کمی نہیں‘ جنہوں نے تاریخ کے رخ کو موڑ دیا ہے۔
”ایڈورڈہیلٹ کار“ اپنی کتاب ”تاریخ کیا ہے؟“ میں لکھتا ہے: ”جبر تاریخ پر حملے کی دوسری بنیاد قلوپطرہ کی ناک“ کا مشہور معمہ ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے‘ جو تاریخ کو کم و بیش اغراض کا ایک باب اور اتفاقی امور سے ابھرنے والے واقعات کی ایک کڑی اور انتہائی اتفاقی علل سے منسوب ایک چیز جانتا ہے۔
عام طور پر مورخین نے جنگ ایکٹیوم کی طرف جن علل کو مسلم جانتے ہوئے نسبت دی ہے‘ وہ درست نہیں۔ یہ جنگ اینتھونی کی قلوپطرہ سے عشق کا نتیجہ تھی‘ جب بایزید گٹھیا کی بیماری کی وجہ سے مرکزی یورپ میں اپنی پیش قدمی جاری نہ رکھ سکا۔
گیبن نے لکھا ہے: ”کسی انسان پر کسی بیماری کا تھوڑا سا حملہ ممکن ہے‘ کئی قوموں کو تباہی سے بچا لے یا تباہی کو التوا میں ڈال دے۔“ جس وقت ۱۹۲۰ء کے موسم خزاں میں یونان کے بادشاہ الیگزینڈر کو ایک تربیت یافتہ بندر نے کاٹ لیا اور اس کی موت کا باعث بنا‘ تو اس حادثے نے ایسے واقعات کو جنم دیا کہ سروینسٹن چرچل کو کہنا پڑا کہ ”۲۵۰۰ افراد بندر کے کاٹنے سے مر گئے۔“ یاٹروئسکی ۱۹۲۳ء کے موسم خزاں میں مرغابیوں کا شکار کرتے ہوئے بخار کے عارضے میں مبتلا ہو گیا اور ایسے موقع پر جب اس کی جنگ زینوف کامنف اور اسٹالن سے ۱۹۳۳ء کے موسم خزاں میں جاری تھی‘ وہ بستر پر گر پڑا۔ وہ لکھتا ہے:
”انسان کسی جنگ یا انقلاب کی پیشین گوئی تو کر سکتا ہے‘ لیکن موسم خزاں میں مرغابیوں کے شکار کے نتائج کی پیشین گوئی ناممکن ہے۔“(”تاریخ چیست“ ترجمہ حسن کامشاد‘ مطبوعہ خوارزی‘ ص ۱۴۴‘ ۱۴۵)
عالم اسلام میں آخری اموی خلیفہ مروان بن محمد کی شکست اس امر کی ایک عمدہ مثال ہے کہ اتفاق کو تاریخ کی سرنوشت میں دخل حاصل ہے‘ عباسیوں کے ساتھ اپنی آخری جنگ کے دوران میں مروان کو سخت پیشاب آ گیا‘ لہٰذا وہ ایک طرف چلا گیا‘ اتفاق سے وہاں دشمن کا ایک آدمی جا رہا تھا‘ اس کی نظر پڑی اور اس نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے قتل کی خبر فوج میں پھیل گئی چونکہ اس حادثے کے بارے میں پہلے سے سوچا نہ گیا تھا‘ فوج کا جذبہ سرد پڑ گیا اور وہ بھاگ کھڑی ہوئی۔ یوں بنی امیہ کی حکومت ختم ہو گئی‘ لہٰذا کہا گیا:
ذہبت الدولة ببولة
ایڈورڈ ہیلٹ کار اس امر کی توضیح کے بعد کہ حادثہ علت و معلول کے ایک رشتے سے منسلک ہوتا ہے‘ جو علت و معلول کے ایک اور رشتے کو قطع کر دیتا ہے نہ یہ کہ ایسا کوئی حادثہ ہوتا ہے‘ جو بے علت ہو‘ لکھتا ہے:
”آخر کس طرح ہم علت و معلول کے منطقی تواتر کو تاریخ میں دریافت کر سکتے ہیں اور اسے تاریخ کا مبنیٰ قرار دے سکتے ہیں‘ جب کہ ہمارا تواتر ہر آن ممکن ہے‘ کسی دوسرے تواتر کے ذریعے جو ہماری نگاہ میں غیر مربوط ہو‘ منقطع ہوتا رہے یا کسی اور ڈگر پر چل پڑے۔“
(”تاریخ چیست“ ترجمہ حسن کامشاد‘ مطبوعہ خوارزی‘ ص ۱۴۶)
اس اشکال کے جواب کا تعلق معاشرے اور تاریخ کے لئے ایک معین راہ والی طبیعت کے ہونے اور نہ ہونے سے ہے‘ اگر تاریخ معین راہ رکھنے والی طبیعت سے ہمکنار ہے‘ تو جزوی واقعات کا کردار ناچیز ہو جائے گا‘ یعنی جزوی واقعات اگرچہ مہروں میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں‘ لیکن کل تاریخ کی راہ میں ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا‘ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ اس سفر میں تیزی یا کندی آ جائے گی‘ لیکن اگر تاریخ طبیعت‘ حیثیت اور اس معین شدہ راہ سے عاری ہو گئی‘ جسے طبیعت اور الگ حیثیت اس کے لئے مقرر کرے گی‘ تو لازماً تاریخ کی کوئی معین اور مشخص راہ نہیں ہو گی اور پہلے سے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکے گا اور وہ کلیت سے عاری ہو گی۔
تاریخ کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ تاریخ طبیعت اور حیثیت کی حامل ہے اور یہ طبیعت اور حیثیت اسے ان انسانوں سے ملتی ہے‘ جو فطرتاً کمال کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اتفاقی طور پر رونما ہونے والے واقعات تاریخ کی کلیت اور ضرورت کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ مونٹیسکو نے اتفاق کے بارے میں بڑی خوبصورت بات کہی ہے اور اس کے کچھ حصے کو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ وہ کہتا ہے:
”اگر اتفاقی طور پر یعنی ایک خاص علت کے سبب کسی حکومت کا تختہ الٹ جائے‘ تو یقیناً اس میں کسی کلی سبب کا ہاتھ ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ حکومت ایک جنگ میں گھٹنے ٹیک بیٹھتی ہے۔“
وہی کہتا ہے:
”بولٹاوا کی جنگ جو سویڈن کے بادشاہ بارہویں چارلس کے زوال کا سبب ہوئی‘ اگر نہ ہوتی اور وہ بولٹاوا میں شکست نہ کھاتا تو کسی اور مقام پر شکست کھا لیتا‘ اتفاقی واقعات کی تلافی آسانی سے ہو جاتی ہے‘ لیکن جو واقعات چیزوں کی فطرت سے دائماً جنم لیتے رہتے ہیں ان سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔“(مراحل اساسی اندیشہ در جامعہ شناسی‘ ص ۲۷)
 

صرف علی

محفلین
۳۔ کیا تاریخ کی فطرت مادی ہے؟
تاریخ کس فطرت کی حامل ہے؟ اس کی اصل فطرت ثقافتی ہے یا سیاسی ہے؟ اقتصادی ہے‘ مذہبی ہے یا اخلاقی ہے؟ اس کے مزاج میں مادیت ہے یا روحانیت؟ یا پھر مخلوط ہے؟ پہلا سوال تاریخ سے متعلق اہم ترین مسائل میں سے ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا‘ تاریخ کے بارے میں ہماری شناخت صحیح نہیں ہو گی۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ تمام مادی اور روحانی عوامل تاریخ کے بُننے اور اس کی تشکیل میں موثر رہے ہیں اور اب بھی ہیں‘ لیکن یہاں تقدم‘ اصالت اور تعین کنندہ ہونے سے متعلق گفتگو ہے۔ یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان عوامل میں سے کونسا عامل تاریخ کی اصلی روح اور اس کی اصل ہویت ہے؟ کون سا عامل باقی تمام عوامل کی توجیہ و تفسیر کرتا ہے؟ ان میں سے کونسا عامل بنیاد ہے اور باقی عوامل عمارت؟ عام طور پر اہل نظر تاریخ کو کئی انجنوں والی گاڑی سمجھتے ہیں‘ جس میں ہر انجن دوسرے انجن کی نسبت اپنی جگہ اپنی الگ حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لوگ تاریخ کو صرف ایک فطرت والی نہیں سمجھتے بلکہ اسے کئی فطرتوں والی جانتے ہیں‘ لیکن اگر ہم تاریخ کو کئی انجنوں والی گاڑی اور کئی فطرتوں والی شے جانیں تو پھر تاریخ کے تکامل اور کمال کی طرف اس کے سفر کا مفہوم کیا ہو گا؟ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ متعدد انجن چل رہے ہوں‘ جو کارکردگی میں ایک دوسرے سے الگ ہوں اور تاریخ کو اپنے اپنے دھارے پر پہنچانا چاہتے ہوں‘ تاریخ پر حکم فرما ہوں اور تاریخ کسی مشخص کمال کے راستے میں آگے بڑھ سکے۔ مگر یہ کہ مذکورہ عوامل کو تاریخ کی جبلی قوتوں کا درجہ دیا جائے اور ان تمام پر مافوق‘ تاریخ کی ایک روح مانی جائے‘ جو تاریخ کی گوناگوں جبلی طاقتوں سے فائدہ اٹھا کر کسی معین راہ کمال پر پہنچاتی ہو۔ یہی وہ روح ہے جو تاریخ کی حقیقی ہویت ہے‘ لیکن یہ تعبیر تاریخ کی ایک طبیعت کی بات سے مختلف ہے۔ تاریخ کی جبلی طاقتوں سے مراد کچھ اور ہے اور طبیعت تاریخ سے کچھ اور‘ کیوں کہ طبیعت تاریخ وہی ہے‘ جسے روح تاریخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہمارے اس دور میں ایک نظریہ یہ ابھرا ہے‘ جس نے اپنے بہت سے حامی پیدا کر لئے ہیں اور وہ تاریخی میٹریالزم یا تاریخی ”ڈائلکٹک میٹریالزم“ کے نام سے مشہور ہے۔ تاریخی میٹریالزم یعنی تاریخ کو معاشی نقطہ نظر سے دیکھنا‘ بعبارت دیگر تاریخی مادیت یعنی یہ کہ تاریخ ایک مادی ماہیت اور جدلیاتی وجود کی حامل ہے۔ مادی ماہیت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تمام تحریکیں‘ شعبے اور مظاہر اس کی اقتصادی تنظیم کا حصہ ہیں‘ یعنی اس معاشرے کی پیداوار کی مادی قوتیں اس کے پیداواری روابط کی کیفیت ہیں‘ جو اخلاق‘ علم‘ فلسفہ‘ مذہب‘ قانون اور ثقافت وغیرہ سے متعلق معاشرے کی تمام روحانی حقیقتوں کی تشکیل کرتے ہیں‘ انہیں سمت دیتے ہیں اور جب بدل جاتے ہیں تو انہیں بھی بدل دیتے ہیں۔
لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ تاریخ ایک جدلیاتی وجود کی حامل ہے‘ جدلیاتی اس مفہوم میں ہے کہ تاریخ کی تکاملی حرکات دراصل جدلیاتی حرکات ہیں‘ یعنی وہ ایک ایسے جدلیاتی تضادات کا محلول اور نتیجہ ہے جو ایک دوسرے سے خاص نوعیت کا رشتہ رکھتے ہیں‘ غیر جدلیاتی تضادات سے جدلیاتی تضادات کا فرق یہ ہے کہ ہر مظہر اور واقعہ جبری طور پر اپنی نفی اور انکار کو اپنے وجود میں پرورش دیتا ہے اور ان مختلف تبدیلیوں کے بعد جو داخلی تضاد کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں‘ وہ مظہر ایک شدید کیفی تغیر کے بعد پہلے دو مرحلوں کی نسبت زیادہ بلند مرحلے میں تکامل پاتا ہے۔
پس تاریخی میٹریالزم میں دو مسئلے شامل ہیں‘ ایک ہویت تاریخ کا مادی ہونا اور دوسرا اس کی حرکات کا جدلیاتی ہونا۔ ہماری گفتگو یہاں پہلے مسئلے کے بارے میں ہو گی‘ دوسرا مسئلہ اس باب میں زیربحث آئے گا‘ جہاں ہم تاریخ کے تحول و تکامل کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ ”ہویت تاریخ کی مادیت“ کا نظریہ ایک اور سلسلہ اصول سے وابستہ ہے‘ جو فلسفے‘ نفسیات یا عمرانیات کا پہلو لئے ہوئے ہے اور خود اپنے مقام سے آئیڈیالوجی سے متعلق نظریات اخذ کرتا ہے‘ بعض روشن فکر مسلمان اہل قلم اس بات کے مدعی ہیں کہ اسلام نے ہرچند فلسفی مادیت کو تسلیم نہیں کیا ہے‘ لیکن تاریخی مادیت اس کے لئے قابل قبول ہے اور اسلام نے تاریخی اور معاشرتی نظریات کو اسی بنیاد پر قائم کیا ہوا ہے‘ لہٰذا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ذرا تفصیل سے اس پر گفتگو کی جائے لہٰذا جس اصول پر یہ نظریہ قائم ہے‘ ہم اس کے بارے میں اپنی معروضات پیش کرتے ہوئے اس کے ”نتائج“ پر بھی گفتگو کریں گے اور اس کے بعد اصل نظریہ کو سائنسی اور اسلامی نقطہ نظر سے تحقیق و تنقید کی منزل پر لائیں گے۔
مادیت تاریخ کے نظریہ کی بنیاد
۱۔ روح پر مادہ کا تقدم

انسان جسم بھی رکھتا ہے اور روح بھی۔ جسم‘ علم حیاتیات اور علم طب کا موضوع مطالعہ ہے لیکن روح اور اس سے متعلق امور فلسفے اور نفسیات کا موضوع ہیں‘ افکار‘ ایمان‘ احساسات‘ میلانات‘ نظریات اور آئیڈیالوجی نفسیاتی امور کا حصہ ہیں۔ روح پر مادے کے تقدم کے اصول کی کوئی اساس نہیں بلکہ یہ صرف وہ عادی انعکاسات ہیں‘ جو مادہ عینی سے اعصاب اور دماغ پر وارد ہوتے ہیں۔ ان امور کی حیثیت صرف اس حد تک ہے کہ یہ باطنی مادی قوتوں اور بیرونی دنیا میں رابطہ پیدا کرتے ہیں‘ لیکن خود یہ امور انسان کے وجود پر حاکم مادی طاقتوں کے مقابل طاقت شمار نہیں ہوتے‘ مثال کے طور پر نفسیاتی امور کو‘ گاڑی کی لائٹس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے‘ گاڑی رات کو لائٹس کے بغیر نہیں چل سکتی‘ وہ لائٹس کی روشنی میں اپنا راستہ طے کرتی ہے‘ لیکن گاڑی کو چلانے والی شے لائٹس نہیں انجن ہے۔ نفسیات اور روح سے متعلق امور یعنی افکار‘ ایمان‘ نظریات اور آئیڈیالوجی اگر تاریخ کی مادی طاقتوں کے رخ پر کام آئیں تو وہ تاریخ کی حرکت میں معاون ثابت ہوں گے‘ لیکن وہ خود ہرگز کسی حرکت کو وجود میں نہیں لا سکتے اور ہرگز مادی طاقتوں کے مقابل طاقت نہیں بن سکتے‘ نفسیاتی اور روحانی امور بنیادی طور پر کوئی طاقت نہیں ہیں‘ نہ یہ کہ طاقت نہیں بلکہ ان کی حقیقت مادی ہے‘ انسانی وجود کی حقیقی طاقتیں بن رہی ہیں‘ جو مادی طاقتوں کے عنوان سے جانی جاتی ہیں اور جنہیں مادی ترازو کے ذریعے تولا جا سکتا ہے۔ اس اعتبار سے نفسیات پر مبنی امور‘ حرکت بخش اور جہت بخش ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور معاشرے کو آگے بڑھانے کے لئے اہرم (Lever) شمار نہیں ہوتے‘ نفسیاتی تدریس اگر مطلقاً مادی اقدار پر منحصر اور ان کی توجیہ کرنے والی نہ ہوں تو کسی طرح بھی ایک اجتماعی حرکت ان سے ظہور میں نہیں آ سکتی۔ اس بناء پر تفسیر تاریخ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں ظاہری فریب میں نہیں آنا چاہئے‘ اگر تاریخ کے کسی حصے میں بظاہر یہ دیکھنے میں آئے کہ کسی فکر‘ کسی عقیدے اور کسی ایمان نے کسی معاشرے کو آگے بڑھایا ہے اور اسے رشد و کمال کی طرف حرکت دی ہے‘ اگر اچھی طرح تاریخ کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان عقائد کی کوئی بنیادی حیثیت نہیں ہے اور جو مادی طاقتیں ہیں‘ جنہوں نے معاشرے کو آگے کی سمت حرکت دی ہے‘ یہ امور تو انہی مادی طاقتوں کا انعکاس ہیں‘ یہی طاقتیں ایمان کی شکل میں تحریک بن کر ابھری ہیں۔ تاریخ کو آگے بڑھانے والی مادی طاقت فنی نقطہ نظر سے معاشرے کا پیداواری نظام اور انسانی نقطہ نظر سے معاشرے کا محروم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہونے والا طبقہ ہے۔ مشہور مادی فلسفی ”فوئر باخ“ (Feuer Bagh)(جرمن فلسفی) جس کے بہت سے مادی نظریات سے مارکس نے استفادہ کیا ہے‘ لکھتا ہے: ”نظریہ کیا ہے؟“، ”پراکسز(فلسفہ عمل اجتماعی) کیا ہے؟“ ان دونوں کے درمیان کس بات کا فرق ہے؟ اور پھر بات کا جواب اس طرح دیتا ہے:
”ہر وہ چیز جو میرے ذہن تک محدود ہے‘ نظری ہے اور جو بہت سے اذہان میں ابھرتی ہے‘ عملی ہے‘ وہ جو بہت سے اذہان کو آپس میں متحد کرتی ہے‘ ایک گروہ کی تشکیل کرتی ہے اور اس طرح دنیا میں اپنے لئے ایک مقام پیدا کرتی ہے۔“
(مارکس اور مارکسزم‘ تالیف اینڈریو پیٹر‘ ترجمہ شجاع الدین ضیائیان‘ ص ۳۹)
اس کا وفادار شاگرد مارکس لکھتا ہے:
”ظاہر ہے کہ تنقید کا اسلحہ‘ اسلحے پر تنقید کی جگہ نہیں لے سکتا‘ مادی طاقت کو مادی طاقت سے ہی نیچا دکھایا جا سکتا ہے۔“
مارکس غیر مادی طاقتوں کی اصالت کا قائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی توضیحی اہمیت (اس سے زیادہ نہیں) پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے:
”لیکن نظریہ بھی یونہی عوام میں رسوخ پیدا کر لیتا ہے‘ مادی طاقت میں بدل جاتا ہے۔“
روح پر مادہ کے تقدم‘ نفس پر جسم کے تقدم اور روحانی اور معنوی اقدار اور طاقتوں کی اصالت کا نہ ہونا دراصل فلسفی مادیت کے بنیادی اصول ہیں۔
اس نظریے کے مقابل نظریہ اصالت روح ہے‘ اس کے مطابق انسانی وجود کے تمام بنیادی پہلوؤں کی مادہ اور اس سے متعلق امور کے حوالے سے توجیہ و تفسیر نہیں کی جا سکتی‘ روح انسان کے مرکز وجود میں ایک بنیادی حقیقت ہے‘ روحانی توانائی مادی توانائیوں سے بالکل جدا چیز ہے۔ اس اعتبار سے روحانی طاقتیں یعنی فکری‘ اعتقادی‘ ایمانی اور جذبوں کی طاقتیں بعض اعمال کے لئے ایک ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ اعمال انفرادی بھی ہو سکتے ہیں‘ اجتماعی بھی۔ ان قوتوں سے تاریخ کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے‘ بہت سے تاریخی واقعات و حرکات جداگانہ طور پر ان قوتوں کے مرہون منت ہوتے ہیں‘ خاص طور پر انسان کے انفرادی اور اجتماعی بلند پایہ کاموں کی براہ راست ان طاقتوں سے وابستگی ہے‘ ان کاموں نے انہی طاقتوں سے بلندی حاصل کی ہے۔
نفس کی قوتیں کبھی کبھی بدن کی مادی طاقتوں کو نہ صرف اختیاری فعالیتوں کی حد تک بلکہ میکانیاتی‘ کیمیائی اور حیاتیاتی کاموں کی سطح پر بھی شدید متاثر کرتی ہیں اور اپنی خاص سمت میں ان سے کام لیتی ہیں۔ جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے نفسیاتی طریقہ علاج اور ہپناٹزم کے غیر معمولی اثرات ایسی چیزیں ہیں‘ جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔(ایسے مسائل کے بارے میں زیادہ آگاہی کیلئے ہم کاظم زادہ ایرانشہری کی کتاب ”تداوی روحی“ کے مطالعے کی تلقین کرتے ہیں) علم اور ایمان اور خصوصاً ایمان‘ خاص طور پر وہاں جہاں نفس کی یہ دونوں قوتیں ہم آہنگ ہوں‘ ایک عظیم اور کارآمد طاقت بن جاتی ہیں اور تاریخ میں زیر و زبر کر دینے والی اور ارتقاء بخش تحریک پیدا کر سکتی ہیں۔ روح اور روحانی طاقتوں کی اصالت ”فلسفی ریلزم“ (Philosophical Realism) کے ارکان میں سے ہے۔
(دیکھئے اصول فلسفہ و روش ریلزم‘ جلد اول و دوم)
 

صرف علی

محفلین
۲۔ معنوی ضرورتوں پر مادی ضرورتوں کا تقدم
انسان کو کم از کم اپنے اجتماعی وجود میں دو طرح کی ضرورتیں درپیش ہیں: ایک روٹی‘ پانی‘ مکان‘ کپڑا اور دوا جیسی ضرورتیں اور دوسری تعلیم‘ ادب‘ آرٹ‘ فلسفی افکار‘ ایمان‘ آئیڈیالوجی‘ دعا‘ اخلاق اور ان جیسی روحانی چیزیں۔ یہ دونوں ضرورتیں بہرحال اور بہر سبب انسان میں موجود ہیں۔ لیکن یہاں گفتگو ان ضرورتوں کے تقدم اور اولیت کے بارے میں ہے کہ کون سی ضرورت دوسری پر مقدم ہے۔ مادی ضرورتیں روحانی ضرورتوں پر مقدم ہیں‘ یا برعکس ہے یا پھر کوئی تقدم نہیں رکھتیں۔ مادی ضرورتوں کے تقدم سے متعلق نظریہ یہ ہے کہ مادی ضرورتوں کو تقدم اور اولیت حاصل ہے اور یہ اولیت اور تقدم صرف اس جہت سے نہیں کہ انسان سب سے پہلے مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے درپے ہوتا ہے اور جب یہ پوری ہو جاتی ہیں‘ تو پھر معنوی ضرورتوں کا سرچشمہ ہیں- ایسا نہیں ہے کہ انسان اپنی خلقت میں دو طرح کی ضرورتوں اور دو طرح کی جبلتوں کے ساتھ آیا ہو‘ مادی ضرورت و جبلت اور معنوی ضرورت و جبلت‘ بلکہ انسان ایک طرح کی ضرورت اور ایک طرح کی جبلت کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور اس کی معنوی ضرورتیں ثانوی حیثیت کی حامل ہیں اور درحقیقت یہ مادی ضرورتوں کو بہتر طور پر پورا کرنے کے لئے ایک وسیلہ ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ روحانی ضرورتیں شکل‘ کیفیت اور ماہیت کے اعتبار سے بھی مادی ضرورتوں کے تابع ہیں۔ انسان ہر دور میں آلات پیداوار میں نشوونما کے تناسب سے مختلف شکل و رنگ اور کیفیت کی مادی ضرورتیں رکھتا ہے اور چونکہ اس کی معنوی ضرورتیں اس کی مادی ضرورتوں سے ابھرتی ہیں‘ لہٰذا وہ بھی شکل و صورت اور کیفیت و خصوصیت کے اعتبار سے مادی ضرورتوں سے مناسبت رکھتی ہیں۔ پس درحقیقت مادی ضرورتوں اور معنوی ضرورتوں میں دو طرح کی ترجیحات موجود ہیں‘ ایک وجود سے متعلق ترجیحات‘ یعنی روحانی ضروریات مادی ضروریات کی پیداوار ہیں اور دوسری ہویت سے متعلق ترجیح۔ جس میں روحانی ضرورتوں کی شکل و صورت اور خصوصیت و کیفیت مادی ضرورتوں کی شکل و صورت‘ کیفیت و خصوصیت کے تابع ہیں۔ پی- رویان ”میٹریالزم تاریخی“ میں ”ہایمن لوئی“ کی کتاب ”فلسفی افکار“ کے صفحہ ۹۲ کے حوالے سے لکھتا ہے:
”انسان کی مادی زندگی نے اسے اس بات پر ابھارا کہ وہ اپنے زمانے کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وسائل کے مطابق نظریات بیان کرے۔ یہ نظریات جو تصور کائنات‘ معاشرے‘ آرٹ‘ اخلاق اور دیگر روحانی پہلوؤں کے بارے میں ہیں کہ جو اسی مادی راستے اور پیداوار سے پیدا ہوئے ہیں۔“(میٹریالزم تاریخی‘ ص ۳۷)
اس اعتبار سے ہر شخص کے علمی تضادات‘ اس کی فلسفیانہ سوچ‘ اس کا ذوق‘ حس جمالیات‘ فنون لطیفہ کا ذوق‘ اخلاقی میزان اور مذہبی رجحان اس کی طرز معاش کے تابع ہے۔ اسی لئے جب قانون کسی فرد کے بارے میں لایا جائے گا‘ تو اس کی ادائیگی کی صورت یہ ہو گی۔
”بتاؤ وہ کیا کھاتا ہے؟ تاکہ میں بتا سکوں کہ وہ کیا سوچتا ہے؟“ اور اگر اسے معاشرے کی سطح پر استعمال کیا جائے تو جملہ یہ ہو گا ”مجھے بتاؤ کہ پیداواری آلات میں بہتری کس درجے پر ہے اور یہ بھی کہ معاشرے میں افراد کے مابین کس طرح کے اقتصادی روابط کارفرما ہیں تاکہ میں یہ بتا سکوں کہ اس معاشرے میں کس طرح کی آئیڈیالوجی‘ کس طرح کا فلسفہ‘ کس طرح کا اخلاق اور کیسا مذہب پایا جاتا ہے؟“
اس کے مدمقابل روحانی ضرورتوں کی اصالت پر مبنی نظریہ ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہرچند انسان میں مادی ضرورتیں وقت کے اعتبار سے جلدی جوان اور نمایاں ہو جاتی ہیں اور اپنے آپ کو جلد ظاہر کرتی ہیں‘ جیسا کہ چھوٹے بچے کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے‘ پیدا ہوتے ہی اسے دودھ اور ماں کی چھاتی کی تلاش ہوتی ہے‘ لیکن انسان کی سرشت میں چھپی ہوئی معنوی ضرورتیں بتدریج اس میں پھوٹنے لگتی ہیں اور رشد و کمال کی ایک ایسی منزل آتی ہے‘ جب وہ اپنی مادی ضرورتوں کو روحانی ضرورتوں پر قربان کر دیتا ہے۔ بہ تعبیر دیگر: معنوی لذتیں انسان میں مادی لذتوں اور مادی کششوں کی نسبت بنیادی بھی ہیں اور زیادہ طاقتور بھی(اشارات کے باب ہشتم میں بو علی نے اس مسئلے پر نہایت عمدہ بحث کی ہے)۔ آدمی جس قدر تعلیم و تربیت حاصل کرے گا‘ اس کی معنوی ضرورتیں‘ معنوی لذتیں یہاں تک کہ اس کی تمام حیات معنوی اسی قدر مادی ضرورتوں‘ مادی لذتوں اور مادی حیات کو اپنے زیراثر لے آئے گی‘ معاشرے کا بھی یہی حال ہے کہ ابتدائی معاشروں میں معنوی ضرورتوں سے زیادہ مادی ضرورتوں کی حکمرانی ہوتی ہے‘ لیکن جس قدر معاشرہ کمال کی منزلیں طے کرتا ہے‘ اسی قدر اس کی معنوی ضرورتیں قابل قدر بنتی جاتی ہیں اور انہیں تقدم حاصل ہوتا جاتا ہے اور وہ انسانی مقصد کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور مادی ضرورتوں کو ثانوی حیثیت دے کر انہیں ایک وسیلے کے مقام تک نیچے لے آتی ہیں۔
(دیکھئے: قیام اور انقلاب مہدی از دیدگاہ فلسفہ تاریخ‘ تالیف استاد مطہری)
۳۔ فکر پر کام کے تقدم کا اصول
انسان ایک وجود ہے‘ جو فکر کرتا ہے‘ پہچانتا ہے اور کام کرتا ہے‘ تو پھر کام کو تقدم حاصل ہے یا فکر کو؟ انسان کا شرف اس کے کام میں ہے یا فکر میں؟ انسان کا جوہر اس کا کام ہے یا فکر؟ انسان کام کا نتیجہ ہے یا فکر کا؟
مادیت تاریخ‘ فکر پر کام کے تقدم اور اس کی اصالت کی قائل ہے۔ وہ کام کو اصل اور فکر کو فرع اور شاخ شمار کرتی ہے۔ منطق اور قدیم فلسفہ‘ فکر کو کلید جانتا ہے۔ اس منطق میں فکر‘ تصور اور تصدیق میں تقسیم ہوتی تھی۔ پھر یہ دونوں بدیہی اور نظری میں منقسم ہوتی تھیں اور پھر بدیہی افکار نظری افکار کی کلید سمجھے جاتے تھے‘ اس منطق اور فلسفے میں جوہر انسان میں محض فکر کو سمجھا جاتا تھا‘ انسان کا کمال اور اس کا شرف اس کے علم میں بتایا جاتا تھا۔ ایک کامل انسان ایک عالم انسان کے مساوی تھا۔( فلسفے کی تعریف میں ہدف و غایت کے پہلو سے کہا جاتا ہے: ”صیرورة الا انسان عالما عقلیا و مضاھیا للعالم العینی“ یعنی ”فلسفی اس سے عبارت ہے کہ انسان عالم فکر بن جائے عالم عینی کی طرح“)
لیکن تاریخ مادیت اس بنیاد پر استوار ہے کہ کام‘ فکر کی کلید اور فکر کا معیار ہے‘ انسان کا جوہر اس کا پیداواری کام ہے۔ کام انسان کی شناخت کا سبب بھی ہے اور اسے بنانے والا بھی۔ مارکس کہتا ہے:
”پوری تاریخ عالم سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انسان کی خلقت انسانی کام کے ذریعے سے ہے۔“(مارکس اور مارکسزم‘ ص ۴۰‘ ۴۱)
اینجلز کہتا ہے:
”خود انسان بھی کام کی پیداوار ہے۔“(مارکس اور مارکسزم‘ ص ۴۰‘ ۴۱)
کیوں کہ وہ ابتداء ہی سے بجائے اس کے کہ طبیعی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لئے فکر سے کام لیتا‘ اس نے اپنے پر مشقت کام کے ذریعے اپنے بیرونی ماحول پر غلبہ پا لیا اور اسی انقلابی عمل کے ذریعے طاقت ور جارحین کا مقابلہ کیا۔
اپنی مرضی کے معاشرے کو آگے بڑھایا اور اس کی تعمیر کی۔ ”مارکس اور مارکسزم“ کا مولف لکھتا ہے:
”ایسی صورت میں جب فلسفہ ہستی میں یہ معمول تھا کہ پہلے فکر و اصول پیش ہوں اور پھر ان کی روشنی میں عملی نتائج برآمد ہوں پراکسز (فلسفہ عمل کے موجد) نے عمل کو فکر کی اساس قرار دیا (فلسفہ ہستی وہ فلسفہ ہے۔ جو دنیا کو ”ہونے“ کی اساس پر تفسیر کرتا ہے‘ اس کے مقابل پر ”ہو چکنے“ کا فلسفہ ہے۔ مارکسزم اسی سے تعلق رکھتا ہے)۔“
پروکسز طاقت کو عقیدے کی جگہ سمجھتا ہے اور ہیگل سے ہم آواز ہو کر اس عقیدے کو پیش کرتا ہے کہ ”انسان کی حقیقی ہستی پہلے مرحلے پر اس کا عمل ہے“ اور اپنے اس عقیدے میں جرمنی کے ایک نہایت صاف دل فلسفی کے ساتھ بھی شامل ہو جاتا ہے اور اس کے مشہور جملے کو الٹ کر دیتا ہے کہ ”سب سے پہلے فعل تھا“ یعنی روح تھی اور کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے‘ اس فلسفے نے اسے یوں بنا دیا ہے: پہلے عمل تھا(مارکس اور مارکسزم‘ ص ۳۹) کہ یہ مارکسزم کا ایک اصول ماہیت ہے‘ اس میں مارکسزم کے اصول کو ”پراکسز“ کے نام سے شہرت حاصل ہے اور مارکس نے اسے پہلے استاد مادیت ”فوئرباخ“ اور اپنے دوسرے پیشوا ہیگل سے لیا ہے‘ اس اصول کے مقابل قرار پانے والا اصول فلسفہ ریلزم ہے‘ جو کام اور فکر کی ایک دوسرے پر تاثیر اور فکر کے کام پر تقدم کا قائل ہے۔ اس فلسفے کے مطابق انسان کا جوہر اس کی فکر ہے (نفس کا اپنی ذات سے متعلق جوہری حضوری علم) انسان کام کے ذریعے یعنی بیرونی دنیا سے ارتباط کے ذریعے اپنی معلومات کے لئے مواد فراہم کرتا ہے۔ جب تک ذہن اس پہلے مواد کی مدد سے غنی ہو جائے معرفت سے متعلق باتوں پر ”تعمیم“، ”انتزاع“ اور استدلال (Generalization, Abstraction & Argumentation) کا عمل انجام دیتا ہے اور صحیح معرفت و شناخت کی راہ فراہم کرتا ہے۔ شناخت صرف ذہن میں عینی مادے کا سادہ انعکاس نہیں بلکہ ذہن میں اس عینی مادے کے انعکاس کے بعد روح کے غیر مادی جوہر سے ابھرنے والے ذہنی اعمال کے لئے معرفت کا ایک وسیلہ پیدا ہوتا ہے۔ پس کام فکر سے اور اسی حال میں فکر کام سے جنم لیتی ہے۔ کام معیار فکر اور اسی طرح فکر معیار کار ہے اور یہ دور(”دور“ ایک فلسفی اصطلاح ہے۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی کہے کہ انڈے نے مرغی کو اور مرغی نے انڈے کو جنم دیا ہے‘ تو ہم کہیں گے کہ اس طرح تو ”دور“ لازم آتا ہے‘ مترجم) دور محال نہیں انسان کی بزرگی اس کے علم‘ اس کے ایمان‘ اس کی عزت نفس اور کرامت نفس سے ہے اور کام اس اعتبار سے باوقار ہے کہ اس کے ذریعے یہ بزرگی اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ انسان کام کا خالق بھی ہے اور اس کا بنایا ہوا بھی اور یہ انسان کا ایک خاص امتیاز ہے کہ جس میں اور کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ شرف اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص قسم کی خلقت حاصل ہونے کی وجہ سے ہے۔(ہم نے ”مسئلہ شناخت“ کے بارے میں اپنی کتاب میں اس بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے) لیکن کام سے متعلق انسان کی تخلیق ایک ایجادی اور ایجابی تخلیق ہے‘ جب کہ کام سے انسان کی تخلیق ”اعدادی“ ہے‘ یعنی انسان حقیقتاً اپنے کام کو خلق کرتا ہے‘ لیکن کام واقعاً انسان کو خلق نہیں کرتا‘ بلکہ کام‘ تکرار عمل اور تجربہ انسان کی تخلیق کے لئے اندرونی طور پر راہ ہموار کرتا ہے اور جہاں دو اشیاء کا باہمی رابطہ ایسا ہو‘ جہاں ایک طرف ”ایجابی“ اور ”ایجادی“ ہو اور دوسری طرف ”اعدادی“ اور ”امکانی“ تو ہمیشہ ”ایجابی“ اور ”ایجادی“ کو تقدم حاصل ہو گا۔
پس وہ انسان جس کا جوہر ذات ایک طرح کی آگاہی ہے (نفس کا اپنی ذات کے بارے میں حضوری علم)‘ کام جس کے ساتھ اس کا رابطہ مدمقابل کا اور فریقی ہے اور انسان کام کو خلق کرنے والا اور اسے وجود میں لانے والا ہے اور یہ کام انسان کو وجود میں لانے والا ہے‘ اس اعتبار سے کہ انسان کام کی ایجابی علت اور کام انسان کی اعدادی اور امکانی علت ہے‘ پس انسان کام پر تقدم رکھتا ہے‘ کام انسان پر نہیں۔
 

صرف علی

محفلین
۴۔ انسان کے انفرادی وجود پر اس کے اجتماعی وجود کا تقدم
بعبارت دیگر انسان کی نفسیات پر اس کی عمرانیات کا تقدم۔ انسان تمام جاندار مخلوقات میں حیاتیات کے لحاظ سے زیادہ کامل مخلوق ہے۔ وہ تکامل کی نوع کے لحاظ سے استعداد کا حامل ہے‘ جسے انسانی تکامل کہا جاتا ہے۔ انسان ایک خاص شخصیت کا حامل ہے‘ جس سے اس کے وجود کے انسانی پہلو تشکیل پاتے ہیں۔ وہ بعض تجربات اور تعلیم کے زیراثر فکری‘ فلسفی اور علمی پہلو کا حامل ہوتا ہے اور پھر بعض تجربات کے ذریعے ایک اور جہت تک پہنچتا ہے‘ جسے ہم اخلاقی جہت کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ یہی وہ بعد یا جہت ہے‘ جو قدرت (Value) پیدا کرتی ہے‘ اس کے لئے اخلاقی معیار عمل پیش کرتی اور بتاتی ہے کہ کیا کرنا یا ہونا چاہئے اور کیا نہیں؟ مذہب اور آرٹ کی جہت کی بھی یہی صورت ہے۔ انسان اپنی فکری اور فلسفی جہات میں کچھ فکری اصول و مبانی پیدا کر لیتا ہے اور یہی اس کی فکری و فلسفی اساس بنتے ہیں‘ اسی طرح اپنی اخلاقی اور اجتماعی معیار سنجی کے ذریعے وہ کچھ مطلق اور نیم مطلق اقدار تک پہنچتا ہے۔ یہ سب انسانی ابعاد اور جہات انسانی وجود کی تشکیل کرتی ہیں۔
انسانی جہات تمام کی تمام اجتماعی عوامل سے وجود میں آتی ہیں۔ انسان آغاز پیدائش میں ان تمام جہات سے عاری ہوتا ہے‘ فقط ایک خام مادہ ہوتا ہے‘ جو ہر فکری اور جذباتی شکل میں ڈھلنے کے لئے تیار ہوتا ہے‘ اب یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کن عوامل کے زیراثر قرار پاتا ہے‘ وہ ایک خالی برتن کی طرح ہے‘ جسے باہر سے بھرا جاتا ہے‘ وہ ایک آڈیو ٹیپ ہے‘ جس میں آوازیں ریکارڈ کی جاتی ہیں اور جو چیز اس میں بھرتی جاتی ہے‘ بعینہ وہی سنی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر کرنے والے اور اسے ”شئے“ کی صورت سے نکال کر ”شخص“ بنانے والے وہ خارجی اجتماعی عوامل ہیں جو اسے ”شئے“ سے ”شخص“ بناتے ہیں۔ ”پی- رویان“ اپنی تالیف ”تاریخی میٹریالزم“ میں ”مارکسزم کے اصولی مسائل“ جو ”بلخانف“ کی تالیف ہے‘ کے صفحہ ۴۳ سے نقل کرتا ہے:
”سماجی ماحول کی صفات ہر زمانے کی اپنی پیداواری قوتوں کی سطح کے مطابق وجود میں آتی ہیں یعنی جب پیداواری قوتوں کی سطح معین ہو جاتی ہے‘ تو اجتماعی ماحول کی صفات اور اس سے متعلق سائیکالوجی‘ ماحول اور افکار و کردار کے باہمی روابط کا تعین بھی ہو جاتا ہے۔“
اسی کتاب میں مزید لکھتا ہے:
”جب پیداواری قوتوں کے ذریعے سائیکالوجی (نفسیات) کا تعین ہو جاتا ہے تو نتیجتاً اس سے متعلق وہ آئیڈیالوجیز (Ideologies) بھی معین ہو جاتی ہیں‘ جو اس سائیکالوجی سے قریب ہوں‘ لیکن اس آئیڈیالوجی کی برقراری کے لئے کہ جو تاریخی مرحلے میں اجتماعی روابط سے ابھرتی ہے اور نیز اس لئے کہ وہ وقت کے حاکم طبقے کے مفادات کی ہمیشہ حفاظت کرے‘ ضروری ہے کہ اجتماعی اداروں کے ذریعے اس کی تقویت اور تکمیل ہو۔
پس درحقیقت طبقاتی معاشروں کے اجتماعی ادارے باوجود اس کے کہ حکمران طبقے کی حفاظت اور آئیڈیالوجی کی توسیع و تقویت کے لئے وجود میں آتے ہیں لیکن اصولاً ان کا تعلق اجتماعی روابط کے نتائج سے ہوتا ہے۔ آخری تجزیے کے مطابق وہ پیداواری کیفیت اور خصلت سے ابھرتے ہیں مثلاً چرچ اور مسجدیں مذہبی عقائد کی نشر و اشاعت کے لئے ہوتی ہیں اور ان کی بنیاد تمام مذاہب میں روز جزاء پر ایمان ہے۔ روز جزاء پر ایمان طبقاتی تقسیم پر مبنی مخصوص اجتماعی روابط سے پیدا ہوتا ہے جب کہ طبقاتی تقسیم پیدواری وسائل کے ایک تکاملی مرحلے سے وجود میں آتی ہے۔ گویا آخری بات یہ ہے کہ روز جزاء پر ایمان پیداواری قوتوں کی خصلت کا نتیجہ ہے۔
اس اصول کا نقطہ مقابل علم بشریات (Enthropology) کے ایک اور مکتب کے ایک اصول جس کے مطابق اعلیٰ افکار اور عالی جذبوں پر مشتمل انسانی شخصیت کی اساس اس کی خلقت میں عواملِ خلقت کے ہاتھوں رکھی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان افلاطون کے نظریے کے برخلاف ایک بنی بنائی شخصیت کے ساتھ دنیا میں نہیں آتا لیکن وہ اپنی شخصیت کے اصلی ارکان اور اصلی بنیادوں کو معاشرے سے نہیں بلکہ خلقت سے پاتا ہے۔ اگر ہم فلسفی اصطلاح میں یہ بات کہنا چاہیں تو ہمیں اس طرح کہنا ہو گا کہ اخلاق‘ مذہب‘ فلسفہ‘ آرٹ اور عشق جیسی بنیادی انسانی جہات کا اصلی سرمایہ انسان کی نوعی صورت‘ اس کے باب کا مبداء اور اس کا نفس ناطقہ ہے‘ جس کی تکوین عوامل خلقت کے ذریعے ہوتی ہے۔ معاشرہ انسان کو ذاتی استعداد کے اعتبار سے یا پرورش دیتا ہے یا پھر مسخ کرتا ہے۔ نفس ناطقہ ابتدائی امر میں بالقوہ ہوتا ہے اور پھر بتدریج عملی صورت اختیار کرتا ہے‘ لہٰذا انسان فکر و فہم کے ابتدائی اصول نیز مادی اور معنوی میلانات کے اعتبار سے دوسرے زندہ موجودات کی طرح ہے کہ پہلے تمام بنیادیں بالقوہ اس میں موجود ہوتی ہیں اور پھر بعض جوہری حرکات ان خصلتوں کو ابھارتی ہیں۔ اس طرح یہ چیزیں انسان میں نشوونماء پاتی ہیں۔ انسان بیرونی عوامل کے زیراثر اپنی فطری شخصیت کی پرورش کرتا ہے اور اسے کمال تک پہنچاتا ہے یا پھر دوسری صورت میں اسے مسخ اور منحرف کرتا ہے۔ یہ وہی اصول ہے جسے اسلامی علوم میں ”فطرت“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ اصول فطرت وہ ہے جسے اسلامی علوم میں ام الاصول کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
اصول فطرت کے اعتبار سے انسان کی نفسیات اس کی عمرانیات پر مقدم ہوتی ہے۔ انسان کی عمرانیات اس کی نفسیات سے حصول فیض کرتی ہے۔ اسی اصول فطرت کے اعتبار سے انسان جب پیدا ہوتا ہے باوجود اس کے کہ وہ بالفعل نہ کوئی ادراک رکھتا ہے اور نہ کوئی تصور‘ نہ تصدیق اور نہ اس میں انسانی میلانات ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ حیوانی پہلوؤں کے ساتھ وجودی پہلوؤں کو بھی اپنے ساتھ لاتا ہے‘ یہی وہ پہلو ہیں جو انتزاعی تصورات‘ منطقی تصدیقات (منطقی اصطلاح میں ”معقولات ثانیہ“) کے ایک سلسلے کو جو انسانی فکر کی اساس ہے اور اس کے بغیر ہر طرح کی منطقی سوچ محال ہے‘ انسان میں جنم لیتے ہیں اور اس میں علوی میلانات بھی انہی پہلوؤں سے پیدا ہوتے ہیں‘ یہی وہ پہلو ہیں‘ جو انسانی شخصیت کی حقیقی اساس سمجھے جاتے ہیں۔ انسان کی نفسیات پر اس کی عمرانیات کے تقدم سے متعلق نظریے کے مطابق انسان محض ایک اثر پذیر ہستی ہے اور جدوجہد کرنے والی اور تخلیق کار نہیں۔ وہ ایک خام مال ہے‘ جو بھی شکل اسے دی جائے گی اس کی ذات کے اعتبار سے اس کے لئے یکساں ہو گی۔ وہ ایک خالی ٹیپ کی طرح ہے‘ جو آواز بھی اس میں بھری جائے گی‘ ٹیپ کی طرح ذات کے اعتبار سے کسی بھی اور آواز کی طرح ہو گی‘ جو اس میں بھری جائے۔ اس خام مال کے اندر کسی معین شکل کی سمت حرکت نہیں کہ اگر وہ ”شکل“ اسے دے دی جائے تو گویا وہ خود اسی کی اپنی شکل ہو گی اور اگر اسے کسی دوسری شکل سے ہمکنار کیا جائے تو گویا ایسا ہو گا‘ جیسے اس کی صورت کو مسخ کر دیا گیا ہو‘ اس ٹیپ کے اندر ایک معین آواز مطلوب نہیں ہے کہ اگر دوسری آواز اس میں بھر دی جائے تو وہ اس کی ذات اور اس کی حقیقت سے ہٹ کر ہو گی۔ اس مادے کی نسبت تمام شکلوں سے‘ اس ٹیپ کی نسبت تمام آوازوں سے اور اس ظرف کی نسبت تمام چیزوں سے یکساں ہے۔
لیکن اصول فطرت اور انسان کی نفسیات پر اس کی عمرانیات کے تقدم کی بنیاد پر انسان اپنے آغاز حیات میں ہرچند ہر ادراک بالفعل اور ہر میلان بالفعل سے عاری ہوتا ہے‘ لیکن وہ اپنے اندر سے ڈائنامیکی (Dynamique) صورت میں بعض ابتدائی قضاوتوں جنہیں بدیہیات اولیہ بھی کہا جاتا ہے‘ کی طرف نیز ان بلند مرتبہ اقدار کی سمت جو اس کی انسانیت کے معیار ہیں‘ گامزن ہے‘ سادہ تصورات جو فکر کرنے کے لئے ابتدائی مواد کا کام کرتے ہیں اور جنہیں فلسفی اصطلاح میں ”معقولات اولیہ“ کہتے ہیں‘ باہر سے ذہن میں اترنے کے بعد وہ اصول نظری یا عملی تصدیقات کی صورت میں پھوٹتے ہیں اور یہ میلانات اپنا اظہار کرتے ہیں۔
پہلے نظریے کے مطابق یہ جو انسان ان موجودہ شرائط میں ”مثلاً ۲x۲=۴ کے اصول کو صحیح تسلیم کرتا ہے اور اسے ایک ایسا حکم مطلق مانتا ہے‘ جو تمام زمانوں اور مکانوں میں یکساں طور پر حکم فرما ہے‘ درحقیقت اس کے اپنے ماحول کی خاص شرائط اور حالت کی پیداوار ہے‘ یعنی اس خاصا ماحول اور ان خاص شرائط میں بنی نوع انسان کا ردعمل ہے اور درحقیقت یہ وہ آواز ہے جو اس ماحول میں اس طرح ٹیپ ہوئی ہے‘ ممکن ہے دوسرے ماحول اور دوسری شرائط میں اس کی صورت مختلف ہو اور وہ مثلاً ۲x۲=۲۶ ہو۔
لیکن دوسرے نظریے کے مطابق ماحول جو کچھ انسان کو دیتا ہے‘ وہ ۲‘ ۴‘ ۸‘ ۱۰ وغیرہ کا تصور ہے‘ لیکن یہ حکم کہ ۲x۲=۴ یا ۵x۵=۲۵ انسانی روح کی عمارت کا لازمہ ہے اور محال ہے‘ اس سے کوئی دوسری شکل رونما ہو اور یہ اسی طرح ہے جس طرح انسان کا طلب کمال کرنا اس کی خلقت روح کا لازمہ ہے۔ (فطرت کے بارے میں مزید تفصیل کیلئے دیکھئے اصول فلسفہ و روش
ریالیسم خصوصاً پانچواں مقالہ (پیدائش کثرت در ادراکات) نیز تفسیرالمیزان (ترجمہ فارسی) ج ۱۶‘ ص ۱۹۰ ”اخذ میثاق“ کے بارے میں بحث نیز استاد مطہری کی کتاب ”فطرت“ دیکھئے)
 

صرف علی

محفلین
۵۔ معاشرے کے معنوی پہلوؤں پر مادی پہلوؤں کا تقدم
معاشرہ‘ اداروں‘ تنظیموں اور کئی شعبوں کا مجموعہ ہے۔ اقتصادی شعبہ‘ ثقافتی شعبہ‘ انتظامی شعبہ‘ سیاسی شعبہ‘ مذہبی شعبہ‘ عدالتی شعبہ وغیرہ۔ اس اعتبار سے معاشرہ ایک مکمل عمارت کی طرح ہے۔ جس میں ایک گھرانہ زندگی بسر کرتا ہے‘ اس میں ڈرائنگ روم‘ ڈائننگ روم‘ بیڈ روم‘ کچن‘ غسل خانہ وغیرہ‘ سبھی کچھ ہوتا ہے۔
معاشرتی اداروں میں ایک ادارہ ایسا ہے‘ جس کی حیثیت بنیاد کی سی ہے‘ جس پر تمام عمارت اپنی پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہے‘ اگر وہ متزلزل ہو جائے تو پوری عمارت منہدم ہو جائے اور وہ معاشرے کا اقتصادی ڈھانچہ ہے‘ یعنی وہ چیزیں جن کا تعلق معاشرے کی بنیادی پیداوار سے ہے۔ جیسے پیداوری آلات‘ پیداواری ذرائع اور پیداواری روابط و تعلقات۔
پیداواری آلات جو معاشرے کی ساخت کا سب سے اہم حصہ ہیں۔ اپنی ذات میں تغیر و ارتقاء پذیر ہیں۔ پیداواری آلات کی ترقی و تکامل کے ساتھ سا تھ اسی اعتبار سے یہ رابطہ و تعلقات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ پیداواری روابط یعنی مالکیت سے متعلق اصول و قوانین کی کیفیت‘ درحقیقت یہ وہ قوانین ہیں‘ جو معاشرے کے نتیجہ عمل کے ساتھ انسان کے قراردادی روابط کو قائم کرتے ہیں۔ پیداواری روابط کی لازمی اور حتمی تبدیلی کے بعد انسان کے تمام قانونی‘ فکری‘ اخلاقی‘ مذہبی‘ فلسفی اور علمی اصول بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ”بنیاد معیشت“ ہے۔
کتاب ”مارکس اور مارکسزم“ میں کارل مارکس کے رسالے ”سیاسی معیشت پر تنقید“ سے منقول ہے:
”انسان اپنی زندگی کی پیداوار میں ایسے ضروری اور معین تعلقات کو اپناتا ہے‘ جو اس کے ارادے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری روابط مادی قوتوں کی ترقی اور توسیع کے ایک معین درجے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ روابط معاشرے کا اقتصادی ڈھانچہ بنتے ہیں‘ یعنی حقیقی بنیاد جس پر معاشرے کی قانونی اور سیاسی عمارت معاشرتی شعور کی معین شکلوں کے مطابق بنتی ہے۔ مادی زندگی میں سماجی‘ سیاسی اور روشن فکرانہ زندگی کی رفتار پیداواری روش سے معین ہوتی ہے۔ انسان کا شعور اس کے وجود کو معین نہیں کرتا‘ بلکہ اس کے برعکس اس کا معاشرتی وجود اس کے شعور کو معین کرتا ہے۔“
(مارکس و مارکسیم‘ ص ۲۴۶ (ضمیمہ سوم) نیز دیکھئے‘ مراحل اساسی اندیشہ
در جامعہ شناسی‘ ص ۱۶۳ اور تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ‘ ص ۲۴۶)
اسی کتاب میں اننکوف کے نام مارکس کے خط سے نقل کیا گیا ہے:
”اگر آپ انسانوں کی پیداواری قوتوں کی وسعت کی کیفیت کو اپنے سامنے رکھیں تو ان کی تجارت اور کھپت کی کیفیت از خود آپ کے سامنے آ جائے گی۔ آپ تجارتی پیداوار اور مصرف پر توجہ کریں تو اس میں طبقاتی و اصنافی تقسیم اور خاندانی نظام اور اجتماعی ترکیب مختصراً یہ کہ پورا مدنی معاشرہ آپ کو دکھائی دے گا۔“(مارکس و مارکسیم‘ ۲۴۷۱‘ ضمیمہ سوم)
”پیٹر“ مارکس کے نظریہ کی ان الفاظ میں وضاحت کرتا ہے:
”اور اس طرح مارکس معاشرے کو ایک ایسی عمارت سے تعبیر کرتا ہے‘ جس کی بنیاد کو معاشی قوتیں اور خود اس عمارت کو افکار‘ آداب و رسوم اور نیز عدالتی‘ سیاسی‘ مذہبی وغیرہ ادارے تشکیل دیتے ہیں‘ جس طرح کسی عمارت کا دار و مدار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ اسی طرح معاشی حالات یا پیداواری روابط بھی فنی کیفیت سے وابستہ ہیں اور افکار‘ رسوم اور سیاسی نظام کی صورتیں بھی اس معاشی حالت کے تابع ہیں۔“
(مارکس و مارکسیم‘ ص ۳۳)
اسی کتاب میں لینن سے منقول ہے:
”پیداواری روش عالم طبیعت اور انسانی زندگی کی پیداوار کے فوری نتائج نیز اجتماعی حالات اور ان سے پیدا شدہ فکری حالات کے مقابل انسانی طرز عمل کی آئینہ دار ہوتی ہے۔“
”سیاسی معیشت پر تنقید“ کے پیش لفظ میں وہ لکھتا ہے:
”میری تحقیقات نے مجھے یہ فکر دی کہ عدالتی تعلقات اور حکومت کی مختلف صورتیں نہ تو ازخود ظہور میں آ سکتی ہیں اور نہ گویا انسانی سوچ کا عمومی تحول اسے وجود میں لا سکتا ہے‘ بلکہ یہ روابط اور یہ مختلف صورتیں موجود مادی شرائط سے ابھرتی ہیں… معاشرے کی ”اناٹومی“ کو سیاسی معیشت میں تلاش کرنا چاہئے۔“
”مارکس“، ”فقر فلسفہ“ میں لکھتا ہے:
”معاشرتی روابط مکمل طور پر پیداوار قوتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انسان نئی پیداواری قوتوں کو حاصل کر کے اپنی پیداوار کی کیفیت کو بدل سکتا ہے۔ پیداواری کیفیت اور طرز حصول معاش میں تبدیلی لا کر مکمل طور پر اپنے اجتماعی روابط کو بدل دیتا ہے۔ ہاتھ کی چکی معاشرے کی طوائف الملوکی اور بجلی یا بھاپ سے چلنے والی چکی سرمایہ دارانہ صنعتی معاشرے کی نشاندہی کرتی ہے۔“
تمام معاشرتی شعبوں پر مادی شعبے کے تقدم سے متعلق نظریہ فکر پر کام کے تقدم کے نظریے جیسا ہی ہے۔ فکر پر کام کے تقدم کا نظریہ انفرادی سطح پر بیان کیا جاتا ہے اور مادی شعبے کے دیگر اجتماعی شعبوں پر تقدم کا نظریہ درحقیقت فکر پر کام کے تقدم کا نظریہ ہی ہے‘ لیکن اجتماعی سطح پر انسانی نفسیات کے علم کو اس کے علم عمرانیات پر مقدم جانیں تو اس کے برخلاف ہو گا۔ مادی شعبے کا معاشرے کے دیگر شعبوں پر تقدم انفرادی کام کے انفرادی فکر پر تقدم کا نتیجہ ہے۔
معاشرے کا مادی شعبہ جو معاشی ساخت اور معاشی بنیاد بھی کہلاتا ہے‘ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے‘ ایک پیداواری آلات‘ جو عالم طبیعت کے ساتھ انسان کے رابطے سے وجود میں آتے ہیں اور دوسرے دولت کی تقسیم کے سلسلے میں معاشرے کے افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ معاشی رابطہ جسے گاہے پیداواری تعلقات سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ پیداواری آلات اور پیداواری تعلقات کے مجموعے کو عام طور پر ”کیفیت پیداوار“ یا ”طرز پیداوار“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔(پی نکسن کی کتاب ”مبانی علم اقتصاد“ دیکھئے جسے ناصر زر افشاں نے ترجمہ کیا ہے مرج۔ نیز رویان کی کتاب میٹریالزم تاریخ میں پیداوار کا موضوع دیکھئے) نیز یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ اصطلاحات تاریخی مادیت کے رہنماؤں کی زبان میں ابہام سے خالی نہیں وہ صاف اور واضح زبان میں اس کی وضاحت نہیں کر سکتے۔(دیکھئے ”تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ“) جہاں اس بات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ معاشیات اساس ہے اور معاشرے کا مادی پہلو باقی تمام پہلوؤں پر مقدم ہے‘ اس سے مراد تمام پیداواری نظام ہے۔ اس میں آلات پیداوار اور پیداواری روابط دونوں شامل ہیں۔ وہ نکتہ جس پر توجہ ضروری ہے اور جو تاریخی مادیت کے رہنماؤں کی گفتگو میں مختلف مقامات پر پوری طرح ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ہے کہ خود بنیاد دو طبقوں پر مشتمل ہے‘ جن میں ایک دوسرے کی بنیاد ہے اور دوسرا اس پر قائم ہے۔ اصل بنیاد دراصل پیداواری آلات یعنی مجسم کام ہے‘ یہ مجسم کام دولت کی تقسیم کے اعتبار سے خاص قسم کے معاشی روابط کا متقاضی ہے۔ یہ روابط جو پیداواری آلات کی ترقی کے درجے کے آئینہ دار ہوتے ہیں‘ اپنے آغاز پیدائش میں صرف یہی نہیں کہ پیداواری آلات کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں بلکہ ان کا محرک اور مشوق بھی ہوتے ہیں‘ یعنی یہ ان آلات سے حصول منفعت کا بہترین ذریعہ بھی ہیں۔ یہ پیداواری آلات کے جسم پر بالکل فٹ آنے والا لباس ہے‘ لیکن پیداواری آلات خود اپنی ذات میں ترقی پذیر ہیں۔ پیداواری آلات کی ترقی پیداواری نظام کے دونوں یونٹوں کے درمیان ہم آہنگی کو توڑ دیتی ہے‘ یعنی وہی قوانین جو سابقہ پیداواری آلات کی مناسبت سے وجود پذیر ہوئے تھے‘ ترقی یافتہ پیداواری آلات کے بدن پر تنگ ہو جاتے ہیں‘ اس کے لئے رکاوٹ بن جاتے ہیں اور دو یونٹوں کے درمیان تضاد کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ آخرکار مجبور ہو کر نئے پیداواری آلات سے مناسبت رکھنے والے جدید پیداواری روابط قائم کرنے پڑتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کی اساس بالکل دگرگوں ہو جاتی ہے۔ اسی تبدیلی کے نتیجے میں تمام مذہبی‘ اخلاقی‘ فلسفی اور قانونی عمارت کو بھی جو اس بنیاد پر قائم تھی‘ منہدم ہونا پڑتا ہے۔
اجتماعی کام بالفاظ دیگر مجسم کام جسے پیداواری آلات کہتے ہیں‘ کی ترجیح کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیز اس امر پر توجہ کرتے ہوئے کہ مارکس ان ماہر عمرانیات میں سے ہے‘ جو انسان کے علم عمرانیات کو اس کے علم نفسیات پر مقدم جانتے ہیں اور انسان کو انسان کی حیثیت سے ایک اجتماعی وجود اور خود مارکس کے الفاظ میں ”جزک“ وجود ہے‘ کام کا فلسفی کردار مارکسزم کی نظر میں واضح ہو جاتا ہے‘ یہ بات فلسفہ مارکسٹ کا جوہر ہے‘ جس پر کم توجہ دی گئی ہے۔
مارکس‘ کام کی انسانی وجودیت اور انسان کی کام سے وجودیت کے بارے میں اسی طرح سوچتا ہے‘ جس طرح ڈیکارٹ انسان کی عقلانی وجودیت‘ برگسن‘ استمراری اور ژان پال سارتر اس کی عصیانی وجودیت کے بارے میں سوچتے ہیں۔
ڈیکارٹ کہتا ہے: ”میں فکر کرتا ہوں پس میں ہوں۔“
برگسن کہتا ہے: ”مجھ میں استمرار ہے‘ ”پس میں ہوں۔“
سارتر کہتا ہے: ”میں گناہ کرتا ہوں‘ پس میں ہوں۔“
مارکس بھی یہی کچھ کہنا چاہتا ہے‘ وہ کہتا ہے: ”میں کام کرتا ہوں‘ پس میں ہوں۔“
ان دانشوروں میں کوئی نہیں چاہتا کہ وہ سوچ‘ استمرار یا عصیان وغیرہ جیسی چیزوں سے ماوراء انسانی ”میں“ کی موجودیت کو اثبات کرے بلکہ بعض تو انسان کے لئے ان کے علاوہ کسی وجودیت کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہر کوئی ضمناً یہ چاہتا ہے کہ وہ جوہر انسانیت اور انسان کی وجودی حقیقت کی تعریف کرے۔
مثلاً ڈیکارٹ یہ کہنا چاہتا ہے: ”میری وجودیت‘ فکر کی وجودیت کے مساوی ہے اگر فکر نہیں تو میں بھی نہیں۔“ برگسن کہنا چاہتا ہے: ”انسان کی موجودیت عین استمرار اور زمانے کی موجودیت ہے۔“ سارتر کی گفتگو بھی یہی ہے کہ ”جوہر انسانیت اور انسان کی حقیقی وجودیت گناہ اور سرتابی ہے‘ اگر گناہ کو انسان سے ہٹا لیا جائے تو پھر وہ نہیں ہے۔“ مارکس بھی اپنے مقام پر کہنا چاہتا ہے: ”انسان کی تمام موجودیت اور اس کی حقیقی ہستی ”کام“ ہے۔ کام انسانیت کا جوہر ہے۔ میں کام کرتا ہوں‘ اس لئے میں ہوں۔ اس مفہوم میں نہیں کہ کام میری وجودیت کی دلیل ہے بلکہ یہ کہ کام میری عین وجودیت اور میری حقیقی ہستی ہے۔“
مارکس کہتا ہے:
”سوشلسٹ انسان کے نزدیک پوری عالمی تاریخ بشری‘ کام کے ذریعے انسان کی خلقت کے سوا کچھ نہیں۔“
(مارکس و مارکسزم‘ ص ۴۰‘ مقول از اقتصاد سیاسی از مارکس)
یا وہاں جہاں وہ انسان کی آگاہی اور اس کے حقیقی وجود کے درمیان فرق پیدا کر کے کہتا ہے:
”انسانوں کی آگاہی ان کے وجود کو معین نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس ان کا ”اجتماعی وجود“ ان کی آگاہی کو معین کرتا ہے۔“
(تجدید نظر طلبی‘ ص ۱۵۳)
یا پھر یہ بات کہ
”وہ مقدمات جن سے ہم آغاز کرتے ہیں‘ ایسی بنیادیں نہیں جو خود اختیاری ہوں اور ارادے پر مبنی ہوں بلکہ حقیقی افراد‘ ان کا عمل اور ان کے مادی وجود کی شرائط اور حالات ہیں۔“
پھر مارکس ان حقیقی افراد کی اس طرح وضاحت کرتا ہے:
”یہ طرز فکر ہم جیسے لوگوں کے لئے حیران کن ہے‘ جو انسان کی حقیقی ہستی اس کی ”میں“ (Self) کو جانتے ہیں اور اس ”میں“ کو غیر مادی جوہر قرار دیتے ہیں اور اسے عالم طبیعت کی جوہری حرکات کی پیداوار سمجھتے ہیں‘ معاشرے کی پیداوار نہیں‘ لیکن وہ شخص جو مارکس کی طرح مادی سوچ کا حامل ہے اور غیر مادی جوہر پر یقین نہیں رکھتا اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ انسان کے جوہر اور اس کی حقیقت کی حیاتیاتی پہلو سے توجیہ کرے اور کہے کہ انسان کا جوہر اس کے بدن کی مادی ساخت ہی ہے۔ جس طرح قدیم مادہ پرستوں مثلاً اٹھارہویں صدی کے مادہ پرستوں کا عقیدہ تھا لیکن مارکس اس نظریے کو رد کرتا ہے‘ اس کا دعویٰ ہے کہ انسانیت کا جوہر معاشرے میں تشکیل پاتا ہے‘ عالم فطرت میں نہیں‘ جو چیز فطرت میں صورت اختیار کرتی ہے وہ انسان بالقوہ ہے‘ بالفعل نہیں۔ اب مارکس فکر کو جوہر انسانیت قرار دے اور کام اور فعالیت کو فکر کا مظہر و تجلی قرار دے۔ مادی فکر رکھنے والا مارکس یہی نہیں کہ فرد میں مادے کی اصالت کا قائل ہے اور فرد میں مادے سے ماوراء جوہر کا انکاری ہے‘ معاشرے اور تاریخ کے باب میں بھی مادے کی اصالت کا قائل ہے اور ناچار دوسری صورت کو منتخب کرتا ہے۔
اس مقام پر ہویت تاریخ کے بارے میں دیگر مادہ پرست مفکرین سے مارکس کے نظریے کا فرق واضح ہوتا ہے۔ ہر مادی نظریہ رکھنے والا مفکر بہرحال اس اعتبار سے کہ انسان اور اس کے وجودی مظاہر کو مادی جانتا ہے‘ تاریخ کی ماہیت و ہویت کو بھی مادی گردانتا ہے‘ لیکن مارکس اس سے بڑھ کر بات کرتا ہے۔ وہ کہنا چاہتا ہے:
ماہیت تاریخ معاشی ہے اور معاشیات میں چونکہ وہ معاشی پیداواری روابط یعنی انسان کی مالکیت اور حاصل کار کو ایک لازمی اور ضروری امر اور پیداوار آلات یعنی تجسم یافتہ کام کے مرحلہ پیش رفت کی انعکاسی صورت جانتا ہے لہٰذا درحقیقت یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہویت تاریخ آلاتی ہے۔ پس صرف یہ کہہ دینا کہ ہویت تاریخ مادی ہے یا حتیٰ اسے معاشی کہنا مارکس کے نظریے کا مکمل بیان نہیں ہے۔ ہمیں اس امر پر توجہ دینا چاہئے کہ تاریخ کی روح اور ہویت مارکس کی نگاہ میں آلاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی بعض تحریروں میں مارکس کے تاریخی میٹریالزم کو ”آلاتی نظریہ“ کہا ہے اور یہ بات ہم نے تاریخ سے متعلق اپنے ”انسانی نظریہ“ کو سامنے رکھ کر کہی ہے‘ جس کے مطابق تاریخ انسانی ماہیت کا ماحاصل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مارکس ”فلسفہ کار“ میں اتنا غرق ہے اور کام کو ایسا اجتماعی نظریہ دیتا ہے کہ اس کے فلسفے کے مطابق درست یوں سوچنا پڑتا ہے کہ انسان وہ نہیں جو کوچہ و بازار میں چلتے‘ پھرتے‘ سوچتے اور فیصلہ کرتے نظر آتے ہیں بلکہ مثلاً حقیقی انسان وہ آلات اور وہ مشینیں ہیں جو کارخانوں کو چلا رہی ہیں۔ وہ انسان جو چلتے‘ پھرتے‘ سوچتے اور بات کرتے ہیں انسان کی ”مثال“ ہیں‘ ”خود“ انسان نہیں۔
پیداواری آلات اور اجتماعی کاموں کے بارے میں مارکس کا تصور ایک جاندار وجود کا سا ہے۔ جو خود بخود سوچی سمجھی ”مثالوں“ یعنی انسانی مظاہر کے ارادے اور فیصلے کے بغیر ہی ایک جبر کے تحت رشد کرتے رہتے ہیں اور ارتقاء پاتے رہتے ہیں اور ظاہری انسانوں یعنی ان ”مثالوں“ کو جو فکر و ارادہ کی حامل ہیں‘ کو اپنے جبری اور قہری نفوذ کے تحت رکھتے اور انہیں اپنے پیچھے پیچھے چلائے رکھتے ہیں۔
ایک اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مارکس اجتماعی کار اور انسان کے شعور‘ ارادے اور آگاہی کے بارے میں وہی کچھ کہتا ہے جو بعض حکمائے الٰہی انسان کے بدن کی اس کی فعالیت کے بارے میں کہا کرتے تھے‘ جو غیر شعوری طور پر نفس کے ایک آٹومیٹک پوشیدہ ارادے کے تحت روبہ عمل رہتی ہے‘ جیسے ہاضمے کا عمل یا قلب و جگر وغیرہ کے افعال۔
ان حکماء کے نقطہ نظر سے میلانات‘ خواہشات‘ چاہتیں‘ نفرتیں اور وہ جملہ امور جو نفس کے عملی پہلو سے تعلق رکھتے ہیں‘ یعنی جو سفلی‘ تدبیری‘ تعلقی اور بدن سے متعلق ہیں اور جو ذہن کے لئے آگاہ شعور کی سطح پر ہوتے ہیں‘ بعض طبیعی ضرورتوں سے ابھرتے ہیں اور یہ آگاہ شعور یہ جانے بغیر کہ ان امور کی اساس کہاں ہے مجبوراً نفس کی پوشیدہ تدبیر کے تحت قرار پاتا ہے۔ یہ اس چیز سے ملتی جلتی ہے‘ جسے فرائیڈ نے شعور باطن یا شعور ناآگاہ کہا ہے اور جو شعور آگاہ پر مقتدرانہ تسلط رکھتی ہے‘ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ جو کچھ سابقہ حکماء کہتے تھے یا جو کچھ فرائیڈ کہتا تھا اولاً شعور ظاہر کے ایک حصے سے اس کا تعلق تھا‘ ثانیاً ایک مخفی شعور کی حکومت اس پر کارفرما تھی‘ علاوہ ازیں وہ جو کچھ کہتے تھے انسان کے وجود سے باہر نہیں تھا اور جو کچھ مارکس کہتا ہے وہ وجود انسان سے باہر ہے اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو مارکس کا نظریہ فلسفی نقطہ نظر سے سخت تعجب خیز ہے۔
مارکس اپنی اس دریافت کا ڈارون کی مشہور حیاتیاتی دریافت کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔ ڈارون نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح کوئی امر حیوان کے ارادے اور شعور سے باہر اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وقت کے گذرتے ہوئے لمحات میں اس کا بدن بتدریج اور لاشعوری طور پر تکمیل کی منزلیں طے کرے۔ مارکس بھی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ ایک اندھا امر (جو انسان کی حقیقی ہستی بھی ہے) بتدریج اور ناآگاہانہ طور پر اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان کے اجتماعی بدن کی تعمیر ہو‘ یعنی وہ چیزیں جنہیں مارکس نے عمارت کہا ہے بلکہ خود بنیاد کا ایک حصہ یعنی اجتماعی معاشی روابط کی تعمیر ہو۔وہ کہتا ہے:
”ڈارون نے طبیعی ”فن شناسی“ کی تاریخ کی طرف دانشوروں کی توجہ مبذول کی ہے‘ یعنی ان کی زندگی کے لئے پیداواری وسائل کی حیثیت سے پودوں اور جانوروں کے اعضاء کی تشکیل کی طرف توجہ دلائی ہے‘ کیا اجتماعی انسان کو وجود میں لانے والے اعضاء کی تاریخ پیدائش یعنی ہر طرح کی اجتماعی تشکیلات کی مادی اساس کے بارے میں اس طرح کی سوچ مناسب نہیں؟… فن شناسی عریاں طبیعت کے مقابل انسان کے طرزعمل کو بناتی ہے۔ پیداوار حاصل کرنے والی اس کی مادی زندگی اور نتیجے کے طور پر اجتماعی تعلقات اور فکری محصولات جو ان سے پیدا ہوتے ہیں‘ کے سرچشمے کو آشکار کرتی ہے۔“ (تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ‘ ۱:۲۲۳‘ بحوالہ کتاب ”آثار برگزیدہ مارکس و انگلس“، مارکس اور اینجلز کے منتخب افکار)
اب تک مجموعی طور پر جو کچھ کہا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ تاریخی میٹریالزم چند اور نظریوں پر مبنی ہے جن سے بعض علم نفسیات سے‘ بعض عمرانیات سے‘ بعض فلسفے سے اور بعض علم بشریات سے متعلق ہیں۔
”لیکن یہ افراد ایسے نہیں‘ جو اپنے ہی تصور میں ظاہر ہو سکیں… بلکہ ایسے کہ مادی طور پر پیدا کرتے ہیں اور بناتے ہیں یعنی وہ اپنے ارادے سے جدا ہو کر معین مادی اساس‘ شرائط اور حدود کے مطابق عمل کرتے ہیں۔“(تجدید نظر طلبی‘ ص ۱۶۷)
 

صرف علی

محفلین
یا پھر اینجلز کا یہ جملہ کہ
”اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ کام تمام سرمائے کا سرچشمہ ہے لیکن بغیر انتہا کے اس سے زیادہ نہیں۔ کام پوری انسانی زندگی کی پہلی بنیادی شرط ہے۔ اس طرح کہ گویا ایک اعتبار سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ خود انسان بھی کام کی تخلیق ہے۔“
یہ سب اقوال ایک ہی نظریے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ البتہ مارکس اور اینجلز نے اصنافی وجود میں کام کے کردار سے متعلق اس نظریے کو ہیگل سے لیا ہے۔ ہیگل نے پہلی بار یہ کہا تھا:
”انسان کی حقیقی ہستی پہلے درجے میں اس کا عمل ہے۔“
پس مارکس کے نقطہ نظر سے انسان کی انسانی وجودیت اولاً انفرادی نہیں اجتماعی ہے‘ ثانیاً اجتماعی انسان کی وجودیت اجتماعی کام یعنی ایک مجسم کام ہے اور اپنے انفرادی احساس یا احساسات کی طرح ہر انفرادی امر یا پھر فلسفہ‘ اخلاق‘ آرٹ اور مذہب وغیرہ کی طرح کا ہر اجتماعی امر انسان کی حقیقی وجودیت کا مظہر و تجلی ہے‘ اس کی عین حقیقی وجودیت نہیں۔ اس بناء پر ہر انسان کا حقیقی تکامل و ارتقاء عیناً اجتماعی کام کا تکامل ہے‘ لیکن فکری‘ جذباتی اور احساساتی تکامل یا معاشرتی نظام کا تکامل حقیقی تکامل کے مظاہر و تجلیات ہیں‘ عین تکامل نہیں۔ معاشرے کا مادی تکامل اس کے روحانی تکامل کا معیار ہے۔ گویا یہ اسی طرح ہے‘ جس طرح عمل معیار فکر ہے۔ فکر کی صحت و سقم کو عمل سے پرکھنا چاہئے‘ فکری اور منطقی معیاروں سے نہیں۔ روحانی تکامل کا معیار بھی مادی تکامل ہے۔ پس اگر یہ بات پوچھی جائے کہ فلسفہ‘ اخلاق‘ مذہب اور آرٹ میں کون سا مکتب زیادہ ترقی یافتہ ہے‘ تو فکری اور منطقی معیار اس کے جواب سے قاصر ہوں گے‘ صرف اور صرف معیار یہ ہو گا کہ یہ بات پرکھی جائے کہ وہ مکتب اجتماعی کام یعنی پیداواری آلات کے تکامل کے کس درجہ اور کن شرائط کا مولود و مظہر ہے۔
نتائج
تاریخی مادیت کا نظریہ اپنی جگہ چند ایسے نتائج کا حامل ہے‘ جو حکمت عملی اور اجتماعی عملی مقصد میں موثر ہیں۔ تاریخی میٹریالزم محض ایک ایسا فکری اور نظری مسئلہ نہیں‘ جو معاشرتی رفتار و انتخاب میں کوئی تاثیر پیدا نہ کرے۔ آیئے اب ہم دیکھیں کہ ہم اس سے کیا نتائج حاصل کر سکتے ہیں:
۱۔ پہلا نتیجہ‘ معاشرے اور تاریخ کی ”شناخت“ سے متعلق ہے‘ مادیت تاریخ کے نزدیک اجتماعی اور تاریخی واقعات کی شناخت اور ان کے تجزیے کی بہترین اور مطمئن ترین راہ یہ ہے کہ ہم ان کی معاشی بنیادوں کی جانچ پڑتال کریں۔ تاریخی واقعات کی معاشی بنیاد کے بغیر ان کی پوری اور مکمل شناخت میسر نہیں‘ کیوں کہ یہ بات فرض کر لی گئی ہے کہ تمام معاشرتی تبدیلیاں ماہیت کے لحاظ سے معاشی ہیں ہرچند کہ ظاہراً ان کی ماہیت ثقافتی‘ مذہبی یا اخلاقی ہو۔
یعنی یہ تمام چیزیں معلول اور نتیجہ ہیں‘ معاشرے کی اقتصادی اور مادی وضعیت کا۔ پرانے حکماء بھی اس بات کے مدعی تھے کہ اشیاء کی معرفت ان کے ایجاد کے اسباب و علل کے وسیلے سے‘ اعلیٰ ترین اور مکمل ترین طرز معرفت ہے۔ پس یہ فرض کر لینے کے بعد کہ تمام اجتماعی تبدیلیوں کی بنیاد معاشرے کی معاشی ساخت پر ہے۔ تاریخ کی معرفت کا بہترین راستہ اجتماعی و معاشی تجزیہ ہے۔ بعبارت دیگر جس طرح حقیقت اور ثبوت کے مرحلے میں علت کو معلول پر تقدم اور ترجیح حاصل ہے‘ معرفت اور اثبات کے مرحلے میں بھی اسے تقدم اور ترجیح حاصل ہے۔ پس اقتصادی بنیاد کی ترجیح عینی اور وجودی ترجیح نہیں بلکہ ذہنی‘ معرفتی اور اثباتی بھی ہے۔
”تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ“ میں اس مفہوم کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
”سماجی انقلابات کے تجزیے میں سماجی کشمکشوں کو ان کی سیاسی‘ قانونی اور مکتبی شکل کو سامنے رکھ کر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اس کے برعکس پیداواری طاقتوں اور پیداواری تعلقات کے درمیان تناقض کے رشتے سے ان کی وضاحت کرنی چاہئے۔“
مارکس نے حقیقتاً ہمیں اس طرح کے فیصلوں سے باز رکھا ہے‘ کیونکہ اولاً یہ حقیقت بینی پر مبنی نہیں ہوتے اور ان میں معلول یعنی سیاسی‘ قانونی اور مکتبی شکلوں کو علت کی جگہ دے دی جاتی ہے‘ جو دراصل اقتصادی تناقضات اور تغیرات ہیں۔
ثانیاً سطحی ہوتے ہیں کیوں کہ وہ معاشرے کی گہرائی میں اترنے اور حقیقی اسباب کو تلاش کرنے کے بجائے اس کی سطح پر رہ جاتے ہیں اور اسی چیز پر اکتفا کر لیتے ہیں جو فوری ان کے سامنے آتی ہے۔
ثالثاً وہم کی بنیاد پر ہوتے ہیں کیوں کہ عمارات جو تمام تر مکتبی ہوتی ہیں‘ سوائے توہم یعنی نادرست تصویر کے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں‘ لیکن موضوع کے حقیقی تجزیے کے بجائے اس کی غلط تصویر سے وابستہ ہو جانا یقیناً ہمیں گمراہی کی طرف لے جائے گا۔
اس کے بعد کتاب ”مارکس و اینجلز کے منتخب آثار) سے اس طرح نقل کیا گیا ہے:
”جس طرح کسی فرد کے بارے میں اپنے بارے میں اس کی اپنی سوچ کے اعتبار سے فیصلہ نہیں کرتے‘ اسی طرح انسان کی اپنے بارے میں آگاہی کے دور پریشانی کے بارے میں بھی حکم نہیں لگانا چاہئے۔“(تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ‘ ص ۱۵۵)
مارکس کوشش کرتا ہے کہ آگہی‘ فکر اور جدت پسندی کے کردار کو جو عام طور پر وجود تکامل و ارتقاء سمجھاتا ہے‘ ختم کر دے مثلاً ”سن سیمن“ جس کے بہت سے افکار سے مارکس نے استفادہ کیا ہے۔ تکامل میں جبلتی جدت پسندی کے کردار کے بارے میں لکھتا ہے:
”معاشرے دو طرح کی اخلاقی قوتوں کے تابع ہیں اور یہ دونوں قوتیں یکساں شدت اثر کی حامل ہیں اور باری باری اپنا اثر دکھاتی ہیں۔ ان میں سے ایک قوت عادت ہے اور دوسری جدت پسندی۔ کچھ عرصے کے بعد عادتیں حتمی طور پر بری ہو جاتی ہیں اور یہی وہ وقت ہے‘ جب نئی چیزوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ ضرورت حقیقی انقلابی کیفیت کی تشکیل کرتی ہے۔“(تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ‘ ۱:۱۸۱)
یا پھر مارکس کا دوسرا استاد پروڈن معاشروں کے تکامل میں عقائد و افکار کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے:
”قوموں کی سیاسی صورتیں ان کے عقائد کا مظہر رہی ہیں۔ ان صورتوں کا تحرک‘ ان کا تغیر اور ان کا زوال وہ عظیم الشان تجربات ہیں‘ جو ان افکار کی قدر و قیمت کو ہمارے لئے واضح کرتے ہیں اور بتدریج ان سے متعلق ابدی اور ناقابل تغیر حقیقت رونما ہوتی ہے‘ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تمام سیاسی ادارے لازماً حتمی موت سے بچنے کے لئے معاشرتی شرائط کو ہموار بنانے کے لئے اس کی طرف جھکتے ہیں۔“(تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ‘ ص ۱۹۸)
ان سب کے باوجود مارکس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ
”ہر سماجی انقلاب تمام چیزوں سے بڑھ کر ایک معاشی سماجی ضرورت ہے‘ جو معاشرے کی ماہیت و شکل اور پیداواری قوتوں اور اجتماعی روابط کی متضاد اور غیر ہم آہنگ کیفیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔“
(تجدید نظر طلبی از مارکس تا ماؤ‘ ص ۱۸۳)
مارکس یہ کہنا چاہتا ہے کہ
”یہ جدت پسندی کی جبلت یا ایمان و عقائد کی ولولہ خیزی نہیں جو سماجی انقلابات کو جنم دیتی ہے بلکہ معاشی‘ سماجی ضرورت جدت پسندی کے رجحان یا عقائد اور ایمان کی ولولہ انگیزی کو پیدا کرتی ہے۔“
پس مادیت تاریخ سے اس طرح کا نتیجہ اخذ کر کے اگر ہم مثلاً یہ چاہیں کہ ایران و یونان کی لڑائی یا صلیبی جنگوں یا اسلامی فتوحات یا مغرب کے صنعتی انقلاب یا پھر ایران کے دستوری انقلاب کا تجزیہ کریں تو یہ غلط ہو گا کہ ہم واقعات کی ظاہری صورتوں کو جو سیاسی‘ مذہبی اور ثقافتی ہوتی ہیں‘ کا مطالعہ کرنے لگیں اور ان پر حکم لگانے لگیں اور یا حتیٰ انقلاب لانے والے افراد کے احساس کو معیار قرار دیں‘ جو اسے سیاسی‘ مذہبی یا ثقافتی تحریک سمجھتے تھے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ان تحریکوں کی اس حقیقی ماہیت اور ہویت پر توجہ دیں‘ جو معاشی اور مادی ہے‘ تاکہ حقیقت کا اصلی رخ ہمارے سامنے آئے۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دور حاضر کے مارکسٹ بونے جس تاریخی تحریک کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں‘ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی ادھر ادھر سے چند جملے لے کر اس تحریک کے دور کے معاشی پہلو پر بحث فرمانے لگتے ہیں۔
۲۔ تاریخ پر تسلط رکھنے والا قانون ایک جبری‘ حتمی اور انسان اور انسان کے ارادے سے ماوراء قانون ہے۔ ہم پچھلے ابواب میں اس موضوع پر گفتگو کر چکے ہیں کہ کیا تاریخ پر قوانین کی علت حکم فرما ہے؟ جس کا لازمہ ایک لحاظ سے علت و معلول کا ناگزیر ہونا ہے‘ ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ بعض نے اتفاق کے عنوان سے اور بعض نے اس عنوان سے کہ انسان ایک آزاد اور خود مختار مخلوق ہے۔ قانون علیت کی حکمرانی کا انکار ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے اور تاریخ کے لئے اس قانون اور ناقابل تغیر ضوابط کی نفی کی ہے‘ لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ یہ نظریہ بے بنیاد ہے اور قانون علیت اور اس کے نتیجے میں معاشرے اور تاریخ پر علت و معلول کی ضرورت اسی طرح حکم فرما ہے جیسے دیگر امور پر۔ دوسری طرف ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ معاشرے اور تاریخ پر لاگو قوانین‘ ضروری اور کلی ہوتے ہیں کیوں کہ ان میں حقیقی وحدت ہوتی ہے تو یہ حقیقی وجود کے حامل ہیں۔ پس گذشتہ بیان کے مطابق معاشرے اور تاریخ پر ”ضروری“ اور ”کلی“ قوانین حکم فرما ہیں۔ ہم اس نوعیت کی ضرورت کو اصطلاحاً فلسفی ضرورت کہتے ہیں۔ یہ ضرورت تاریخی عمل کو قطعی اور ضروری قوانین کے تحت جاری رہنے کا حکم دیتی ہے۔
 
Top