معارف القرآن - مفتی محمد شفیع

الف عین

لائبریرین
سورۂ فاتحہ
یہ مکّی سورت ہے جس میں سات آیتیں ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۂ فاتحہ کے فضائل اور خصوصیات:
سورۂ فاتحہ کو قرآن کریم میں بہت سی خصوصیات حاصل ہیں ۔ اول یہ کہ قرآن اسی سے شروع ہوتا ہے، نماز اسی سے شروع ہوتی ہے اور نزول کے اعتبار سے بھی سب سے پہلی سورت جو مکمل طور پر نازل ہوئی یہی سورت ہے ۔سورۂ اقراء ، مزمل اور مدثر کی چند آیات ضرور اس سے پہلے نازل ہوچکی تھیں مگر مکمل سورت سب سے پہلے فاتحہ ہی نازل ہوئی ہے ۔جن حضرات صحابہ سے سورۂ فاتحہ کا اول مانزل یعنی نزول میں سب سے پہلی سورۃ ہونا منقول ہے ، ان کا مطلب غالباً یہی ہے کہ پوری سورت اس سے پہلے اور کوئی نازل نہیں ہوئی ، شاید اسی وجہ سے اس سورت کا نام بھی فاتحہ الکتاب رکھا گیا ہے ۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ سورۃ ایک حیثیت سے پورے قرآن کا متن اور سارا قرآن اس کی شرح ہے ،خواہ اس وجہ سے کہ پورے قرآن کے مقاصد ایمان اور عمل صالح میں دائر ہیں اور ان دونوں چیزوں کے بنیادی اصول اس سورت میں بیان کردیئے گئے ہیں ،تفسیر روح المعانی اور روح البیان میں اس کا تفصیلی بیان ہے ، اسی وجہ سے سورۂ فاتحہ کا نام ام القرآن ، ام الکتاب اور قرآنِ عظیم بھی احادیثِ صحیحہ میں آئے ہیں ۔(قرطبی)
یا اس وجہ سے کہ اس سورت میں اس شخص کے لئے جو قرآن کی تلاوت یا مطالعہ شروع کرے ایک خاص ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو اپنے تمام پچھلے خیالات اور نظریات سے خالی الذہن ہوکر خاص طلبِ حق اور راہِ راست کی جستجو کے لئے پڑھے اور دیکھے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرے کہ صراطِ مستقیم کی ہدایت عطا ہو ،اور شروع سورت میں اس ذات کی حمد وثنا کا بیان ہے جس کی بار گاہ میں یہ درخواستِ ہدایت پیش کرتا ہے، اور اسی درخواست کا جواب پورا قرآن ہے ، جو الم ذلک الکتاب سے شروع ہوتا ہے گویا انسان نے جو اللہ تعالیٰ سے راہِ راست طلب کی تھی اس کے جواب میں ذلک الکتاب فرماکر اشارہ کردیا گیا کہ جو تم مانگتے ہو وہ کتاب میں موجود ہے۔
رسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ سورۂ فاتحہ کی نظیر نہ تورات میں نازل ہوئی نہ انجیل اور زبور میں اور نہ خود قرآن کریم میں کوئی دوسری سورت اس کی مثل ہے (رواہ الترمذی عن ابی ہریرہؓ وقال حسن صحیح و الحاکم وقال صحیح علیٰ شرط مسلم ، من لمظہری)
اور آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۂ فاتحہ ہر بیماری کی شفاء ہے ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان بسند صحیح ، مظہری)
سورۂ فاتحہ کا ایک نام حدیث میں سورۂ شفاء بھی آیا ہے (قرطبی) اور صحیح بخاری میں بروایت انس ؓ مذکور ہے کہ رسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم کی سب سورتوں میں عظیم ترین الحمد اللہ رب العلمین ہے (قرطبی)
 

الف عین

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں
بسم اللہ قرآن کریم کی ایک ہی آیت ہے:
اس پر تمام اہلِ اسلام کا اتفاق ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن میں سورۂ نمل کا جزو ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سوائے توبہ کے ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ لکھی جاتی ہے ۔اس میں ائمہ مجہتدین کا اختلاف ہے کہ بسم اللہ سورۂ فاتحہ کا یا تمام سورتوں کا جزو ہے یا نہیں ؟امامِ اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہبجز سورۂ نمل کے اور کسی سورت کا جز نہیں ، بلکہ ایک مستقل آیت ہے ، جو ہر سورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل اور امتیاز ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے۔
تلاوتِ قرآن اور ہر مہم کام کو بسم اللہ سے شروع کرنے کا حکم:
اہلِ جاہلیت کی عادت تھی کہ اپنے کاموں کو بتوں کے نام سے شروع کیا کرتے تھے ۔اس رسمِ جاہلیت کو مٹانے کے لئے قرآن کی سب سے پہلی آیت جو جبرئیل امین لے کر آئے اس میں قرآن کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ،اقراء با سم ربک،
علامہ سیوطی نے فرمایا کہ قرآن کے سوا دوسری تمام آسمانی کتابیں بھی بسم اللہ سے شروع کی گئی ہیں اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن اور امتِ محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہیں ۔دونوں قول کی تطبیق یہ ہے کہ اللہ کے نام سے شروع کرنا تو تمام آسمانی کتابوں میں مشترک ہے مگر الفاظ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کی خصوصیت ہے ، جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم بھی ابتداء میں ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کے لئے باسمک اللھم کہتے اور لکھتے تھے ، جب آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی تو انھیں الفاظ کو اختیار فرمالیااور ہمیشہ کے لئے یہ سنّت جاری ہوگئی۔(قرطبی و روح المعانی)
قرآن کریم میں جا بجا اس کی ہدایت ہے کہ ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کیا جائے اور رسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مہم کام بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے ، وہ بے برکت رہتا ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ گھر کا دروازہ بند کرو تو بسم اللہ کہو ، چراغ گل کرو تو بسم ا للہ کہو ،برتن ڈھکو تو بسم ا للہ کہو ، کھانا کھانے ، پانی پینے ، وضو کرنے ، سواری پر سوارہونے اور اترنے کے وقت بسم اللہ پڑھنے کی ہدایات قرآن و حدیث میں بار بار آئی ہیں ۔(قرطبی)
ہر کام کو بسم اللہ سے شروع کرنے کی حکمت:
اسلام نے ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت دے کر انسان کی پوری زندگی کا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح پھیر دیا ہے کہ وہ قدم قدم پر اس حلف وفاداری کی تجدید کرتا رہے ، کہ میرا وجود اور میرا کوئی کام بغیر اللہ تعالیٰ کی مشیّت و ارادے اور اس کی امداد کے نہیں ہوسکتا ، جس نے اس کی ہر نقل و حرکت اور تمام معاشی اور دینوی کاموں کو بھیایک عبادت بنادیا۔
عمل کتنا مختصر ہے نہ اس میں کوئی وقت خرچ ہوتا ہے نہ محنت ، اور فائدہ کتنا کیمیاوی اور بڑا ہے کہ دنیا بھی دین بن گئی ۔ ایک کافر بھی کھاتا پیتا ہے اور ایک مسلمان بھی ،مگر مسلمان اپنے لقمے سے پہلے بسم اللہ کہہ کر یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ لقمہ زمین سے پیدا ہونے سے لے کر پک کر تیار ہونے تک آسمان و زمین اور سیاروں اور ہواو فضائی مخلوقات کی طاقتیں ، پھر لاکھوں انسانوں کی محنت صَرف ہوکر تیار ہوا ہے ، اس کا حاصل کرنا میرے بس میں نہ تھا ۔ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے ان تمام مراحل سے گزار کر یہ لقمہ یا گھونٹ مجھے عطا فرمایا ہے ۔ مومن و کافر دونوں سوتے جاگتے بھی ہیں ، چلتے پھرتے بھی ہیں مگر ہر مومن سونے سے پہلے اور بیدار ہونے کے وقت اللہ کا نام لے کر اللہ کے ساتھ اسی طرح اپنے رابطے کی تجدید کرتا ہے جس سے یہ تمام دنیا وی معاشی ضرورتیں ذکرِ خدا بن کر عبادت میں لکھی جاتی ہیں۔مومن سواری پر سوار ہوتے ہوئے بسم اللہ کہہ کر گویا یہ شہادت دیتا ہے کہ اس سواری کا پیدا کرنا یا مہیاء کرنا پھر اس کو میرے قبضے میں دے دینا انسان کی قدرت سے باہر ہے ،رب العزت کے بنائے ہوئے نظامِ محکم کا کام ہے کہ کہیں کی لکڑی،کہیں کا لوہا ، کہیں کی مختلف دھاتیں ، کہیں کے کاریگر ، کہیں کے چلانے والے سب کے سب میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔چند پیسے خرچ کرنے سے اتنی بڑی خلقِ خدا کی محنت کو ہم اپنے کام میں لاسکتے ہیں اور وہ پیسے بھی ہم اپنے ساتھ کہیں سے نہیں لائے تھے بلکہ اس کے حاصل کرنے کے تمام اسباب بھی اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ غور کیجئے کہ اسلام کی صرف اسی ایک ہی مختصر سی تعلیم نے انسان کو کہاں کہاں پہنچادیا ۔ اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ بسم اللہ ایک نسخۂ اکسیر ہے جس سے تانبے کا نہیں بلکہ خاک کا سونا بنتا ہے ۔فلللہ الحمد علی دین الاسلام و تعلیماتہ ،
مسئلہ:
قرآن کی تلاوت شروع کرنے کے وقت اول اعوذو باللہ من الشیطان الرجیم اور پھربسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا سنّت ہے اور درمیان تلاوت بھی سورۂ براء ت کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا سنّت ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اس تمہید کے بعد آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تفسیر دیکھئے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تفسیر :
بسم اللہ یہ کلمہ تین لفظوں سے مرکب ہے ۔ ایک حرف باء ، دوسرے اسم تیسرے اللہ ، حرف باء عربی زبان میں بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتی ہے ، جن میں سے تین معنی مناسب مقام ہے ، ان میں سے ہر ایک معنی اس جگہ لئے جاسکتے ہیں :
اول؛ مصاحبت، یعنی کسی چیز کا کسی چیز سے متصل ہونا ، دوسرے؛ استعانت ، کسی چیز سے مدد حاصل کرنا ، تیسرے ؛ تبرّک ، کسی چیز سے برکت حاصل کرنا ۔
لفظ اسم میں لغوی اور علمی تفصیلات بہت ہیں جن کا جاننا عوام کے لئے ضروری نہیں ،اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ اردو میں اس کا ترجمہ نام سے کیا جاتا ہے ۔
لفظ اللہ ، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سب سے بڑا اور سب سے جامع نام ہے اور بعض علماء نے اس کو اسمِ اعظم کہا ہے ، اور یہ نام اللہ کے سوا کسی دوسرے نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے اس لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتے کیونکہ اللہ واحد ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نام ہے اس موجودِ حق کا جو تمام صفاتِ کمال کا جامع اور صفاتِ ربوبیت کے ساتھ متصف ، یکتا اور بے مثال ہے ۔
اس لئے کلمہ بسم اللہ کے معنی حرفِ باء کے مذکورہ تین معنی کی ترتیب سے یہ ہوئے:
اللہ کے نام کے ساتھ
اللہ کی نام کی مدد سے
اللہ کے نام کی برکت سے
لیکن تینوں صورتوں میں یہ ظاہر ہے کہ یہ کلام نا مکمل ہے ، جب تک اس کام کا ذکر نہ کیا جائے جو اللہ کے نام کے ساتھ یا اس کی برکت سے کرنا مقصود ہے ، اس لئے نحوی قاعدے کے مطابق یہاں کوئی فعل مناسب مقام محذوف ہوتا ہے ، مثلاً ’’شروع کرتا ہوں یا پڑھتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ‘‘۔
اور مناسب یہ ہے کہ یہ فعل بھی بعد میں محذوف مانا جائے تاکہ حقیقتاً شروع اسمِ اللہ ہی سے ہو ، وہ فعل محذوف بھی اسمِ اللہ سے پہلے نہ آئے ، صرف باء کا اسمِ اللہ سے پہلے آنا عربی زبان کے لحاظ سے ضروری و ناگریز ہے ۔اس میں بھی مصحفِ عثمانی میں با جماع صحابہ یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ حرفِ باء رسم الخط کے قاعدے سے ہمزہ کے ساتھ ملا کر لکھنا چاہئیے تھا اور لفظ اسم الگ، جس کی صورت ہوئی باسم اللہ ، لیکن مصحفِ عثمانی کے رسم الخط میں حرف حمزہ کو حذف کرکے حرفِ باء کو سین کے ساتھ ملا کر صورۃً اسم کا جز بنادیا تاکہ شروع اسم اللہ سے ہوجائے۔
یہی وجہ ہے کہ دوسرے مواقع میں یہ حرف الف حذف نہیں کیا جاتا ، جیسے اقراء بسم ربک میں ب کو الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے ، یہ صرف بسم اللہ کی خصوصیت ہے کہ حرفِ باء کو سین کے ساتھ ملادیا گیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
الرحمن الرحیم ، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ۔ رحمن کے معنی عام الرحمتہ کے اور رحیم کے معنی تام الرحمتہ کے ہیں ۔ عام الرحمتہ سے مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کی رحمت سارے عالم اور ساری کائنات اور جو کچھ اب تک پیدا ہوا ہے اور جو کچھ ہوگا سب پر حاوی اورت شامل ہو ، اور تام الرحمتہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رحمتِ کامل و مکمل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ لفظ رحمن اللہ جل شانہُ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ کسی مخلوق کو رحمن کہنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسا ہو نہیں سکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے ، سب کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرنے کا تصوّر کیسے ہوسکتا ہے ۔ اسی لئے جس طرح لفظ اللہ کا جمع اور تثنیہ نہیں آتا لفظ رحمن کا بھی جمع وتثنیہ نہیں آتا کیونکہ وہ ایک ہی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال ہی نہیں ۔ (تفسیر قرطبی) بخلافِ لفظ رحیم کے کہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا پایا جانا مخلوق میں ناممکن ہو کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کسی شخص پر پوری پوری رحمت کا معاملہ کرے۔
اسی لئے لفظ رحیم انسان کے لئے بالا جاسکتا ہے ۔ قرآنِ کریم میںرسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال فرمایا ہے ۔با لمومنین رؤف رحیم،
مسئلہ:
س سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آج کل عبدالرحمن ، فضل الرحمن وغیرہ ناموں میں تخفیف کرکے رحمن کہتے ہیں اور اس شخص کو اس لفظ سے خطاب کرتے ہیں یہ ناجائز و گناہ ہے ۔
حکمت:
بسم اللہ میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اور صفاتِ کمال میں سے صرف دو صفتیں ذکر کی گئی ہیں اور وہ دونوں لفظ رحمت سے مشتق ہیں اور وسعتِ رحمت اور کمالِ رحمت پر دلالت کرنے والی ہیں ، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تخلیقِ عالم اور آسمان و زمین اور تمام کائنات کے پیدا کرنے اور ان کوپالنے وغیرہ کا منشاء اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمت ہے ، نہ اس کو ان چیزوں کی خود کوئی ضرورت تھی نہ کوئی دوسرا ان چیزوں کے پیدا کرنے پر مجبور کرنے ولا تھا ۔ صرف اسی کی رحمت کے تقاضے سے یہ ساری چیزیں اور ان کی پرورش کے سارے انتظامات وجود میں آئے ہیں ؂
ما نبودیم و تقا ضا ما نبود لطفِ تو ناگفتۂ مامی شنود
 

الف عین

لائبریرین
احکام و مسائل
مسئلہ تعوذ:
تعوذ کے معنی ہے اعوذو باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا ۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے فاذقرأ ت القران فاستعذ با للہ من الشیطن الرجیم’’یعنی جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو اللہ سے پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے‘‘
قرأتِ قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا با جماعِ امّت سنّت ہے ، خواہ تلاوتر نماز کے اندر ہو یا خارجِ نماز (شرح منتیہ)تعوذ پڑھنا تلاوتِ قرآن کے ساتھ مخصوص ہے ، علاوہ تلاوت کے دوسرے کاموں میں کے شروع میں صڑف بسم اللہ پڑھی جائے ، تعوذ مسنون نہیں ۔ (عالمگیری، باب رابع ،من الکراہیتہ)
جب قرآن کی تلاوت کی جائے اس وقت اعوذو باللہ اور بسم اللہ دونوں پڑھی جائیں ، درمیانِ تلاوت میں جب ایک سور ت ختم ہوکر دوسری شروع ہو تو سورۂ برأت کے علاوہ ہر سور کے شروع میں مکرر بسم اللہ پڑھی جائے ، اعوذو باللہ نہیں اور سورۂ برأت اگر درمیانِ تلاوت میں آجائے تو اس پر بسم اللہ نہ پڑھے اور اگر قرآن کی تلاوت سورۂ برأت ہی شروع کررہا ہے تو اس کے شروع میں اعوذوباللہ اور بسم اللہ پڑھنا چاہئیے ۔ (عالمگیر یہ عن الحیط)
 

الف عین

لائبریرین
احکامِ بسم اللہ :
بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن مجید میں سورۂ نمل میں آیت کا جز ہے اور دو سورت کے درمیان مستقل آیت ہے ۔ اس لئے اس کا حترام قرآن مجید ہی کی طرح واجب ہے ۔ اس کا بے وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں ( علی مختار الکر خی و صاحب الکافی والہدایہ ، شرح منیہ ) اور جنابت یاحیض و نفاس کی حالت میں اس کو بطور دعا پڑھنا ہر حال میں جائز ہے (شرح مینہ کبیر)
مسئلہ:
پہلی رکعت کے شروع میں اعوذو باللہ کے بعد بسم اللہ پڑھنا باتفاق ائمہ واجب ہے ۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ ااواز سے پڑھا جائے یا آہستہ ، امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ اور بہت سے دوسرے ائمہ آہستہ پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
پہلی رکعت کے بعد دوسری رکعت کے شروع میں بھی بسم اللہ نہیں پڑھنا چاہئیے ، اس کے مسنون ہونے پر سب کا اتفاق ہے اور بعض روایات میں ہر رکعت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کو واجب کہا گیا ہے (شرح منیہ)
مسئلہ:
نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھنا چاہئیے، خواہ چہری نماز ہو یا سرّی ۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خؒفائے راشدین ؓ سے ثابت نہیں ہے ۔ شرح منیہ میں اسی کو امامِ اعظم ؒ اور ابو یوسفؒ کا قول لکھا ہے اور شرح منیہ ، درمختار برہان وغیرہ میں اسی کو ترجیح دی ہے ، مگر امامِ محمدؒ کا قول یہ ہے کہ سرّ ی نمازوں میں پڑھنا بہتر ہے ۔ بعض رتوایات میں یہ قول ابوحنیفہ ؒ کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے اور شامی نے بعض فقہاء سے اس کی ترجیح بھی نقل کی ہے ۔ ’’بہشتی زیور‘‘ میں بھی اس کو اختیار کیا گیا ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ کوئی پڑھ لے تو مکروہ نہیں ۔ (شامی)
 

الف عین

لائبریرین
سورۂ فاتحہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد اللہ رب العلمین ۔ الرحمن الرحیم ۔ ملک یوم الدین ۔ ایاک نعبدوایاک نستعین ۔ اھد نا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم ۵ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین ۔ آمین۔
خلاصۂ تفسیر
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیں (الحمد اللہ رب العلمین ) سب تعریفیں اللہ کو لائق ہیں جو مربیّ ہیں ہر ہر عالم کے ( مخلوقات الگ الگ جنس ایک ایک عالم کہلاتا ہے ، مثلاً عالمِ ملائکہ، عالمِ انساں ، عالمِ جن) الرحمن الرحیم جو بڑے مہربان نہایت رحم کرنے والے ہیںملک یوم الدین جو مالک ہیں روزِ جزا کے (مراد قیامتے کا دن ہے جس میں ہر شخص اپنے عمل کا بدلہ پاوے گا )ایاک نعبدوایاک نستعین ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کرتے ہیں ،اھد نا الصراط المستقیم بتلادیجیؤ ہم کو رستہ سیدھا (مراد دین کا راستہ ہے) صراط الذین انعمت علیھم راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ( مراد دین کا انعام ) غیر المغضوب علیھم ولا الضالین نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب ہوا ، اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو راستے سے گم ہوگئے ( راہِ ہدایت چھوڑنے کی دو وجہ ہوا کرتی ہیں ، ایک تو یہ کہ اس کی پوری تحقیق نہ کی جائے ضالین سے ایسے لوگ مراد ہیں ، دوسری وجہ یہ ہے کہ تحقیق پوری ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرے ، مغضوب علیھم سے ایسے لوگ مراد ہیں ، کیونکہ جان بوجھ کلر خلاگ کرنا زیادہ ناراضی کا سبب ہوتا ہے )۔
 

الف عین

لائبریرین
معارف ومسائل
سورۂ فاتحہ کے مضامین:
سورۂ فاتحۃ سات آیتوں پر مشتمل ہے، جن میں سے پہلی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہے اور آخری تین آیتوں میں انسان کی طرف سے دعا ودرخواست کا مضمون ہے، جو رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے ، اور درمیانی ایک آیت میں دونوں چیزیں مشترک ہیں ،کچھ حمد و ثنا کا پہلو ہے کچھ دعا و درخواست کا ۔
صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابو ہریرہ ؓ منقول ہے کہ رسولِ کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالی نے فرمایا ہے کہ نماز (یعنی سورۂ فاتحہ ) میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسایم کی گئی ہے ، نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ، اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا ۔پھر ر سول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب کہتا ہے الحمد اللہ رب العلمین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی ہے ، اور جب وہ کہتا ہے الرحمن الرحیم تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف وثنا بیان کی ہے ، اور جب بندہ کہتا ہے ملک یوم الدین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے ، اور جب بندہ کہتا ہے ایاک نعبدوایاک نستعین تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے، کیونکہ اس میں ایک پہلو حق تعالیٰ کی حمدو ثنا کا ہے اور دوسرا پہلو بندے کی دعا و درخواست کا ، اس کے ساتھ بھی یہ ارشاد ہوا ہے کہ:’’ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی ‘‘ پھر جب بندہ کہتا ہے : اھد نا الصراط المستقیم(آخر تک)تو حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ یہ سب میرے بندے کے لئے ہے ، اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی (مظہری )
الحمداللہ کے معنی یہ ہیں کہ سب تعریفیں اللہ کے ہی لئے ہیں ، یعنی دنیا میں جہاں کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے کیونکہ اس جہانِ رنگ و بو میں جہاں ہزاروں حسین مناظر اور لاکھوں دل کش نظارے اور کروڑوں نفع بخش چیزیں انسان کے دامنِ دل کو ہر وقت اپنی طرف کھینچتی رہتی ہیں اور اپنی تعریف پر مجبور کرتی ہیں ۔ اگر ذرا نظر کو گہرا کیا جائے تو ان سب چیزوں کے پردے میں ایک ہی دستِ قدرت کار فرما نظر آتا ہے اور دنیا میں جہاں کہیں کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں جیسے کسی نقش و نگار کی یا تصویر کی یا کسی صنعت کی تعریف کی جائے کہ یہ سب تعریفیں در حقیقت نقّقش یا مصّور کی یا صنّاع کی ہوتی ہیں ،اس جملے نے کثرتوں کے طلاطم میں پھنسے ہوئے انسان کے سامنے ایک حقیقت کا دروازہ کھول کر دکھلادیا کہ یہ ساری کثرتیں ایک ہی وحدت سے مربوط ہیں ، اور ساری تعریفیں درحقیقت اسی ایک قدرِ مطلق کی ہیں ، ان کو کسی دوسرے کی تعریف سمجھنا نظر و بصیرت کی کوتاہی ہے ؂
حمد رابا تو نسبتے است در ست
بردرِ پر کہ رفت بر درِ ست
اور یہ ظاہر ہے کہ جب ساری کائنات میں لائقِ حمد درحقیقت ایک ہی ذات ہے تو عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے ، اس معلوم ہوا کہ الحمداللہ اگرچہ حمد و ثنا کے لئے لایا گیا ہے لیکن اس ضمن میں ایک معجزانہ انداز سے مخلوق پرستی کی بنیا د ختم کردی گئی ، اور دل نشین طریق پر توحید کی تعلیم دی گئی ہے ۔
غور کیجئے کہ قرآن کا اس مختصر سے ابتدائی جملے میں ایک طرف تو حق تعالیٰ کی حمدو ثنا کا بیان ہوا ،اسی کت ساتھ مخلوقات کی رنگینوں میں الجھے ہوئے دل ودماغ کو ایک حقیقت کی طرف
متوجہ کرکے مخلوق پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی ،اور معجزانہ انداز سے ایمان کے سب سے پہلے رکن توحیدِ باری کا نقش اس طرح جمادیا گیا کہ جو دعویٰ ہے اسی میں گور کرو تو وہی اپنی دلیل بھی ہے ، فتبارک اللہ احسن اخالقین،
 
Top