سید عمران

محفلین
ہمارے معاشرے میں بد امنی، کرپشن، دہشت گردی، چور بازاری، اخلاقی پستی اور اس طرح کی ہزار ہا برائیاں عام ہیں جو کہ ثبوت ہیں کہ ہم اپنے رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے قابل تقلید اسوہ سے بہت دور ہیں۔
بات تبلیغ کی ہورہی تھی۔۔۔
آپ بے عملی کی لے آئے!!!
 

امن وسیم

محفلین
سورۃ احزاب میں اسوۃ حسنۃ والی آیت نازل ہوئی ہے ۔ آپ کو چاہئے کہ پہلے اس سورۃ کی تفسیر پڑھ لیں۔ سورۃ کا موضوع اور شانِ نزول پڑھ لیں۔ اسوۃ حسنۃ والی آیت جس رکوع میں ہے اس رکوع کو غور سے پڑھیں۔ آپ کو سمجھ آئے گا کہ اسلام بس زبان سے دعوت دینے کا ہی نام نہیں ہے۔ وہاں قتال کا بھی ذکر ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ میں نہیں کہتا کہ بس قتال ہی قتال کرنا ہے۔ سب سے اولیٰ تو زبان سے دعوت ہی دینا ہے۔ لیکں یہ بات صحیح نہیں ہے کہ "صرف دعوت ہی کا حکم ہے بس"۔
عزیمت کے لیے نمونہ اور اس کے حصول کی تدبیر: یہ ان بزدلوں کو غیرت دلائی ہے کہ تمہارے اندر ہی محاذ پر خدا کا رسول بھی موجود تھا اور تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس نے کس عزم و ہمت کے ساتھ تمام خطرات کا مقابلہ کیا تو آخر تم نے اس بہترین نمونے کی پیروی کیوں نہ کی، اس قدر بزدل اور ڈرپوک کیوں بنے رہے۔
’لِمَنۡ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا‘۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ رسول کے اسوہ کی پیروی ہر مدعی کا کام نہیں ہے۔ اس راہ کی آزمائشوں سے وہی لوگ عہدہ برآ ہو سکتے ہیں جو اللہ کی ملاقات اور روز آخرت کے منتظر و متوقع اور اللہ کی یاد سے ہر وقت اپنے دل کو آباد و شاداب رکھنے والے ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ راہ حق میں عزیمت و استقامت انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن کے اندر خدا اور آخرت پر مضبوط ایمان ہو اور وہ برابر اپنے اس ایمان کو خدا کی یاد سے تازہ رکھیں۔ نیز اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ ان منافقین کے اندر نہ خدا اور آخرت پر ایمان تھا اور نہ یہ خدا کو یاد رکھنے والے تھے اس وجہ سے ان کے خوف کا یہ حال ہے کہ دشمنوں کے پسپا ہو جانے کے بعد بھی ان کے دلوں پر سے ان کی ہیبت نہیں گئی۔
 

امن وسیم

محفلین
میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ابھی آپ ذرا اور تیاری کریں۔۔۔
تبلیغ دین ہر شخص کے ذمہ واجب نہیں۔۔۔
ابھی تو مقام ادب پر ہی قدم لڑکھڑا رہے ہیں۔۔۔
آپ کے قول کے برعکس اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے نبی کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔۔۔
اللہ کے عذاب کی صورت چنگیز خان تو ہوسکتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔۔۔
عذاب تو جب ہوتا جب آپ مشرکین کو تہس نہس فرمادیتے۔۔۔
حالاں کہ مشرکین میں سے صرف وہی قتل ہوا جو تلوار اٹھا کر مسلمانوں کو قتل کرنے آیا!!!
ہم نے جنگ بدر کو اس لیے عذاب الٰہی قرار دیا ہے کہ خود قرآن مجید نے سورۂ انفال میں قریش کے اس انجام کو آل فرعون کے انجام سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح فرعون اور اس کے اعیان و اکابر موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے غرق دریا ہو گئے تھے۔ اسی طرح قریش کے نمایاں سردار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرتے ہوئے بدر میں مارے گئے۔ فرمایا:

کَدَأْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَفَرُوْا بِاٰیَاتِ اللّٰہِ فَأَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِہِمْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.(الانفال۸: ۵۲)

’’اُن کے ساتھ وہی ہوا جو آل فرعون کے ساتھ ہوا اور جو ان سے پہلے تھے۔ انھوں نے آیات الٰہی کا انکار کیا تو اللہ نے ان کو ان کے جرائم کے بدلے میں پکڑ لیا۔ اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

پھر فرمایا:

کَدَأْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَذَّبُوْا باٰیَاتِ رَبِّہِمْ فَأَہْلَکْنَاہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَأَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوْا ظَالِمِیْنَ.(الانفال۸: ۵۴)

’’ان کے ساتھ وہی ہوا جو آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہوا۔ انھوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا تو ہم نے انھیں ان کے جرائم کے بدلے میں ہلاک کر دیا اور آل فرعون کو (دریا میں) غرق کر دیا۔ اور یہ سب کے سب ظالم تھے۔‘‘


سورہ توبہ کی تیسری آیت

پھر حج کا موقع آئے تو اِس سرزمین کے) سب لوگوں تک پہنچانے کے لیے بڑے حج کے دن اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان عام کر دیا جائے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اُس کا رسول بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ سے بھاگ نہیں سکتے۔ (اے پیغمبر)، اِن منکروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔

آیت کی تفسیر

اِس سے مراد حج ہی ہے۔ اہل عرب عمرے کو حج اصغر اور اِس کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہتے تھے۔
مطلب یہ ہے کہ چارماہ کی جو مہلت اوپر دی گئی ہے، اُس کے گزر جانے کے بعد اُن لوگوں کی داروگیر شروع کر دی جائے جن تک اعلان براء ت کی اطلاع پہنچانا ممکن ہو۔ اِس کے بعد حج کے دن کا انتظار کیا جائے۔ اِس میں ملک کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوں گے جن کی وساطت سے یہ اطلاع سرزمین عرب کے باقی سب لوگوں تک بھی پہنچا دی جائے کہ اللہ و رسول نے مشرکین سے براء ت کا اعلان کر دیا ہے۔ خدا کی طرف سے جو مہلت اُنھیں ملی ہوئی تھی، اُس کی مدت پوری ہو گئی ہے۔وہ اب عذاب کی زد میں ہیں۔ چنانچہ تمام معاہدات ختم کر دیے گئے ہیں اور آیندہ بھی اُن کے ساتھ کسی معاہدے کا امکان باقی نہیں رہا۔ اِس میں ضمناً یہ بشارت بھی ہے کہ عنقریب وہ موقع آنے والا ہے، جب مسلمان حج بھی کریں گے اور منکرین پر ایسا غلبہ بھی حاصل کر لیں گے کہ حج کے موقع پر اِس طرح کا اعلان کر سکیں۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ۹ ہجری میں اِس حج سے سعادت اندوز ہوئے۔ یہ حج سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امارت میں کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائیں جس سے پورے عرب کے مشرکین تک اطلاع پہنچانے کا اہتمام کر دیا گیا۔*
_____
* تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۲/ ۴۳۶۔
 

امن وسیم

محفلین
کسی کو کم علمی کا طعنہ دینا تکبر کی نشانی ہے۔ اور تکبر ٱللَّه کو شدید ناپسند ہے۔ میں تو خود اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں کوئی عالم نہیں۔ بلکہ اس فورم کو جوائن کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ یہاں موجود اہل علم سے سیکھنے کا موقع ملے۔ اور میرے خیال میں سیکھنے کا بہترین طریقہ ہی یہی ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھا جائے۔ اس میں کوئی غلطی ہو تو وہ اصلاحی انداز میں واضح کی جائے نہ کہ طنزیہ انداز میں۔ غلطی کی نشاندہی کرنے کے باوجود دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ غلطیوں کو ماننے کا حوصلہ پیدا ہو ناکہ حوصلہ شکنی کہ وہ غلطی ماننے سے ہی انکار کر دے۔
 

امن وسیم

محفلین
اب بات اختلافی مسائل کی طرف جا رہی ہے جو عنوان کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔ اس مراسلے میں صرف اسی بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہمیں اپنی توجہ آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے قائم کردہ اخلاقی اقدار اور آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے متعین کردہ حقوق و فرائض پر زیادہ کرنی چاہیے۔ بلکہ یوں کہ لیں کہ ایک توازن قائم کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے کو اس کی بہت ضرورت ہے خاص کر آج کے معاشرے میں۔ کیونکہ ان باتوں پر ہماری توجہ کم ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر اخلاقی بگاڑ اور دوسری معاشرتی برائیاں زیادہ ہوئی ہیں۔ اگر ہم اپنی تبلیغ اور اپنے خطبوں اور وعظوں میں اس چیز کو زیادہ سے زیادہ بیان کریں اور اس کو اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کریں تو یقینا بہتر بتائج برآمد ہوں گے۔

باقی رہی بات اختلافی مسائل کی۔ تو اختلافات تو رہیں گے۔ لیکن ان پر بحث اگر ان کے مناسب عنوان کے تحت ہو تو باقی قاری حضرات کو بھی آسانی رہتی ہے۔ تو انشاءاللہ کر لیں پھر کبھی بات۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔
 

م حمزہ

محفلین
ہمیں اپنی توجہ آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے قائم کردہ اخلاقی اقدار اور آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے متعین کردہ حقوق و فرائض پر زیادہ کرنی چاہیے۔ بلکہ یوں کہ لیں کہ ایک توازن قائم کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے کو اس کی بہت ضرورت ہے خاص کر آج کے معاشرے میں۔ کیونکہ ان باتوں پر ہماری توجہ کم ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر اخلاقی بگاڑ اور دوسری معاشرتی برائیاں زیادہ ہوئی ہیں۔ اگر ہم اپنی تبلیغ اور اپنے خطبوں اور وعظوں میں اس چیز کو زیادہ سے زیادہ بیان کریں اور اس کو اپنی عملی زندگی میں شامل کرنے کی کوشش کریں تو یقینا بہتر بتائج برآمد ہوں گے۔
متفق۔ بالکل صحیح۔
 

م حمزہ

محفلین
کسی کو کم علمی کا طعنہ دینا تکبر کی نشانی ہے۔ اور تکبر ٱللَّه کو شدید ناپسند ہے۔ میں تو خود اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں کوئی عالم نہیں۔ بلکہ اس فورم کو جوائن کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ یہاں موجود اہل علم سے سیکھنے کا موقع ملے۔ اور میرے خیال میں سیکھنے کا بہترین طریقہ ہی یہی ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھا جائے۔ اس میں کوئی غلطی ہو تو وہ اصلاحی انداز میں واضح کی جائے نہ کہ طنزیہ انداز میں۔ غلطی کی نشاندہی کرنے کے باوجود دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ غلطیوں کو ماننے کا حوصلہ پیدا ہو ناکہ حوصلہ شکنی کہ وہ غلطی ماننے سے ہی انکار کر دے۔
محترم! آپ کو کسی نے طعنہ نہیں دیا ہے۔ بلکہ یا تو مشورہ دیا گیا یا پھر مخلصانہ نصیحت کی گئی کہ یہ دونوں چیزیں بھی عبادات اور اخلاقی فرائض میں شامل ہیں۔ آپ خاطر جمع رکھیں یہاں آپ کو کوئی طنز نہیں کرتا بلکہ حوصلہ افزائی ہی کی جائے گی۔ تاہم اس بات کا خیال رکھنا لازمی ہے کہ اگر آپ کی باتوں سے کسی کو اختلاف ہوگا، خاص طور سے دینی مسائل میں تو آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جائے گی۔ یہ ایک پبلک فورم ہے۔ یہاں آپ کو مختلف مزاج کے افراد ملیں گے۔کوئی آپ کی تحریر پڑھ کر اس سے اختلاف ہونے کے باوجود نظر انداز کردے گا۔ کوئی ردِ عمل دکھائے گا ، کوئی نصیحت کریگا ۔ کسی کا ردعمل آپ کے مزاج سے میل کھائے گا یا پھر آپ پر بارِ گراں بھی ہوسکتا ہے۔ ان باتوں سے آپ کو حوصلہ شکست نہیں ہوجانا چاہیے۔ بلکہ آپ دوسروں کی تنقید کا مثبت پہلو اختیار کرکے اپنی تحریر میں مزید نکھار لانے کی کوشش کریں۔ بس ایک بات ذہن میں رہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کی ہر بات سے اتفاق کیا جائے بلکہ آج کل زیادہ اختلاف ہی کیا جاتا ہے کبھی حق پر اور کبھی ناحق بھی۔ اسلئے ہمت ہارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے اندر ایک قابلِ تعریف جذبہ ہے اسے برقرار رکھیں۔
 
Top