مصرعے پر گرہ لگائیے!

دائم

محفلین
اپنا ہی نقشِ پا بن گیا نقشِ کفِ پائے یار
مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن مفعولاتُ
اپ+نا+ہِ+نَق = مُس+تف+عِ+لن
شے+پا+بن+گَ = مَف+عو+لا+تُ
یا+نَق+شِ+کَ(×××××××)
یہاں سے آگے تقطیع متاثر ہو رہی ہے!
"گیا" کی الف اور ی دونوں کا سقوط بالکل بھی جائز نہیں!!
انیس جان بیٹا! لفظِ "گیا" کی ی گرانا بھی سخت قبیح ہے، چہ جائیکہ ساتھ الف بھی گرا دی جائے، اور اس پر مستزاد یہ کہ اسے جائز سمجھنا، یہ تو اور بھی معیوب عَمَل ہے!
لہٰذا اس سے احتراز برتیے!

مزید راہنمائی محترم الف عین صاحب یا یاسر شاہ صاحب فرمائیں شاید! ، ان کا انتظار کر لیجئے
 

الف عین

لائبریرین
گیا کی ی تو قطعی نہیں گرائی جا سکتی۔ اگر الف گرایا جائے تو سخت معیوب ہے، اور اگر دونوں گرا دیے جائیں تو شعر ہی کیا شاعر کی صحت بھی متاثر ہو سکتی ہے
 

انیس جان

محفلین
گیا کی ی تو قطعی نہیں گرائی جا سکتی۔ اگر الف گرایا جائے تو سخت معیوب ہے، اور اگر دونوں گرا دیے جائیں تو شعر ہی کیا شاعر کی صحت بھی متاثر ہو سکتی ہے
لیکن استادِ محترم صاحب میں نے تو سنا تھا کہ،۔۔ی الف و،، ۔پر شاعر کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ انہیں گرا دے
تھوڑا سا بتا دیجیے گا تاکہ ہماری معلومات میں اضافہ ہوجائے
 
لیکن استادِ محترم صاحب میں نے تو سنا تھا کہ،۔۔ی الف و،، ۔پر شاعر کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ انہیں گرا دے
تھوڑا سا بتا دیجیے گا تاکہ ہماری معلومات میں اضافہ ہوجائے
جتنا اختیار آپ دینا چاہ رہے ہیں، اس میں تو پھر ہر جملہ موزوں کیا جا سکتا ہے۔ :)

تفنن برطرف
ہر جگہ گرا دینا جائز نہیں ہے۔
اور جہاں جائز ہے، وہاں بھی اکٹھے دو حروف گرانا درست نہیں۔
عربی، فارسی الفاظ میں گرانا درست نہیں۔ اور اتنے زیادہ گرانا بھی درست نہیں کہ مصرع میں روانی ہی نہ رہے۔
اتنا ہی گرائیں کہ پڑھنے میں برا نہ لگے۔ :)
 

دائم

محفلین
انیس جان بھائی


کوئی بھی حرف کہاں ساقط کیا جا سکتا ہے اور کہاں نہیں؟
اس بارے اپنی ایک مختصر تحریر فیس بک سے کاپی کر کے یہاں لگا رہا ہوں




حروفِ علت :
ان سے مراد تین حروف ہیں ، واؤ ، الف ، یاء
انگریزی میں انہیں واولز کہا جاتا ہے ۔اردو میں یہ زبر ،پیش اور زیر کی حرکات کے قائم مقام ہیں۔


-----------------

الف کا بیان:-

*الف بطورِ پہلا حرف:-*

الف سے شروع ہونے والا کوئی ایسا لفظ جو مصرع کے آغاز میں نہ ہو تو وہاں تقطیع کرتے وقت الف کا گرانا جائز ہے ۔اور ایسی صورت میں اسے الف موصولہ کہا جاتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مصرع کے آغاز میں آنے والی کوئی الف الف موصولہ نہیں ہو سکتی۔

مثلا:-
*ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا*

اس الف کو "س" کے ساتھ ملا کر یوں بھی پڑھ سکتے ہیں ، ہمُس کے ۔۔۔۔۔۔۔ الخ

اس گر جانے والے الف کو الف موصولہ کہتے ہیں ۔اور توجہ سے دیکھئے کہ یہ دوسرے لفظ کا پہلا حرف ہے

ہم نے اس سے پہلے یہ طے کیا ہے کہ الف اگر شروع کلمہ یا لفظ میں آئے بشرطیکہ وہ مصرع کا پہلا لفظ نہ ہو تو اسے گرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود گر کر اپنی حرکت اپنے سے پہلے حرف کو منتقل کر دیتا ہے ۔جیسے کہ "ہم" کی ساکن میم کے ساتھ ہوا
۔



*الف بطورِ درمیانی حرف:-*
سب سے اہم بات اس سلسلے میں یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اگر الف کسی لفظ کے درمیان یا وسط میں واقع ہو تو اسے ماسوائے چند الفاظ کے ہرگز ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اس لفظ کی شکل اس طرح بدل سکتی ہے کہ اس کے معنی ہی بدل جائیں ۔۔ ذرا تصور کریں کہ اگر لفظِ "حال" کا وسطی الف گرا دیا جائے تو وہ لفظِ "حل" میں تبدیل ہو جائے گا اور شعر یا تو مہمل ہو جائے گا یا اس کے معانی ہی بدل جائیں گے. اسی طرح لفظِ جان ، سال ، دال ، وغیرہ ہیں

صرف کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں وسطی الف کو ساقط کرنے سے ان کے معانی نہیں بدلتے اور وہ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔
گناہ سے گنہ
سیاہ سے سیَہ
راہ سے رہ
تباہ سے تبہ
اور
سپاہ سے سپہ پڑھا اور لکھا بھی جاتا ہے

بہر حال کسی بھی لفظ کے درمیانی الف کو گرانے کے سلسلے میں بنیادی اصول یہ یاد رکھیے کہ اگر اس الف کو گرانے سے لفظ کی شکل و صورت اس طرح بدلتی ہو کہ اس کے معنی بدل جائیں تو اس کی قطعا اجازت نہیں ۔۔ مثلاً ایک لفظ ہے "کاہ" جس کا مطلب گھاس کا تنکا ہوتا ہے اس کا الف گرا دیا جائے تو وہ لفظ "کہ" میں تبدیل ہوجائےگا جو وضاحت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔ اس طرح کی صورت حال میں درمیانی الف کا گرانا ممنوع ہے۔

اوپر کچھ امثال درمیانی الف گرانے کی دی گئی ہیں ان میں ایک بات نوٹ کیجئے کہ رہ ، گنہ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں جہاں الف گرایا گیا ہو ، وہاں ”ہ“ کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔


*الف بطور آخری حرف:-*
اس مقام پر آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مصدر کیا ہوتا ہے اور فعل کسے کہتے ہیں ۔۔ تب ہی آپ اس الف کو گرانے یا نہ گرانے کے بارے میں سمجھ سکیں گے۔

*مصدر:-*
کسی لفظ کی اصل بنیاد کو کہتے ہیں ۔۔ جس سے اس لفظ کے افعال اور دیگر صیغے نکلتے ہیں۔۔ اردو میں اس کی پہچان یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ”نا“ آئے وہ مصدر کہلاتا ہے مثلا ً :
کرنا ، ہونا ، جانا ، کھانا ، پینا وغیرہ

*فعل:-*
اس کلمے کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کا ہونا ، کرنا یا سہنا بہ اعتبارِ وقت پایا جائے مثلاً :
کِیا ، کرتا ہے ، کرے گا ، کرے ، وغیرہ

مصدر اور فعل کی تعریف جان لینے کے بعد اب آپ آخری الف کے بارے میں یہ سمجھ لیں کہ یہ گر تو سکتا ہے مگر اس کا گرانا ناگوار اور ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔۔ مگر جب آپ مشق کریں تو بے شک گرا لیں مگر ایسا کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا -۔ اسے ان امثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

مصدر میں الف بطور آخری حرف کی مثالی یہ دیکھیں کہ

*خاک بھی ہوتا تو خاکِ درِ جاناں ہوتا*


اس مثال میں پہلا والا "ہوتا" مصدری لفظ ہے جس کے آخر کا الف گرایا گیا ہے اور جو اب پڑھنے میں اگلے حرف کے ساتھ مل کر "تتو" کی آواز دے کر ناگوار فضا پیدا کر رہا ہے۔یعنی :

*خاک بھی ہو تَ تو خاکِ در جاناں ہوتا*
یعنیٰ ہو تَتو --- بن جاتا ہے



*فعل میں الف بطور آخری حرف:-*
مثلاً یہ جملہ دیکھیں کہ

*اس نےبھیجا ہے مرے خط کا جواب*

اس میں بھیجا کا لفظ فعل کو ظاہر کر رہا ہے مگر جب بھیجا کا الف ساقط ہو گا تو اس کی آواز کچھ ایسے نکلے گی *اس نےبھیجَ ہے مرے خط کا جواب*

میرا خیال ہے کہ اب آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ مصادر و افعال کا آخری حرف گرانا کیوں معیوب ہے


---------


*"واؤ" کا بیان:-*
یہ حرف بنیادی طور پر پیش *( ُ )* کی حرکت کا قائم مقام ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسا حرف ہے ۔جس کی کئی اقسام ہیں ۔اس لئے سب سے پہلے ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ اس ایک حرف کی کئی اقسام کیوں ہیں ۔اگر ہم اس الجھن کا شکار ہو گئے کہ ایک حرف کی کئی اقسام کیسے ہو سکتی ہیں تو پھر ہم اس کے بارے میں ہماری سمجھ کسی ٹھکانے نہیں لگنے والی تو اقسام سے مراد یہ ہے کہ یہ حرف ہماری زبان کے جس لفظ میں استعمال ہو ۔وہاں اس کی آواز کسی دوسرے لفظ سے مختلف ہوتی ہے ۔کیونکہ ہماری زبان بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔اس لئے جس زبان سے بھی ایک لفظ حرفِ "واؤ" کے ساتھ اردو میں آیا ہے ۔وہ اُس زبان کے لہجے کے مطابق یا تو اپنی آواز ساتھ لایا ہے یا پھر مقامی سطح پر اس نے اپنی الگ آواز اختیار کر لی ہے۔ان آوازوں میں امتیاز کرنے کے لئے علماے اردو نے ان کے لئے پانچ اصطلاحیں وضع کی ہیں ۔عمومی دلچسپی کے لئے میں ان اصطلاحوں یا اقسام کے نام لکھ دیتا ہوں :-
1- واؤ معدولہ
2واؤ معروف
3۔واؤمجہول
4۔واؤ لین
5۔واؤ عاطفہ
6۔واؤ مخلوط

چھ اقسام کے یہ واؤ بارہ طریقوں سے استعمال میں آتے ہیں۔ لیکن آپ کو اس ابتدائی سطح پر اس جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں- آپ فی الحال وہ سیکھئیے جو میں سکھا رہا ہوں۔

1--اگر واؤ سے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ واؤ نہیں گر سکتا ورنہ لفظ ہی غلط ہو جائے گا یا اس کے معنی بدل جائیں گے ۔مثلا اگر وقت کا واؤ ساقط کر دیا جائے تو کچھ نہیں بچے گا ۔اسی طرح لفظِ "وہم " کو لیجئے ۔اگر واؤ ساقط کر دیا جائے تو *ہم* بچے گا ۔جس کا وہم کے معنی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس لئے یہ سمجھ لیجئے کہ جو لفظ حرفَ واؤ سے شروع ہو اس کا پہلا واؤ کسی صورت نہیں گر سکتا

2--اسی طرح اگر حرفِ واؤ کسی لفظ کے وسط میں آئے تو اسے بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً :
اگر قوم ، یوم ، بول کا درمیانی واؤ ساقط کر دیا جائے تو ان الفاظ کے معانی ہی بدل جائیں گے

3-- کسی لفظ کے درمیان موجود صرف وہی واؤ تقطیع میں گرتا ہے جو لکھنے میں تو آئے مگر بولنے میں نہ آئے ۔جیسے لفظِ *خوشبو* میں، لفظِ *ہوئے* میں ، یا لفظِ *اور* میں جبکہ یہ عطف کے لیے ہو

4-- آخر کلمہ یا لفظ کے ہر واؤ کو ساقط کیا جاسکتا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ وہ کہاں معیوب ہے یا ناگوار ہے۔ لیکن اصول یہی سامنے رہنا چاہئے کہ اسے گرایا جا سکتا ہے ۔علما نے فارسی الفاظ مثلاً خوشبو اور گفتگو جیسے الفاظ کو گرانے کی سخت ممانعت کی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو وہ بے معنی ہو جاتے ہیں یا ان کے معانی بدل جاتے ہیں۔ مگر یہ ایک طویل بحث ہے ۔آُپ عروض میں مہارت حاصل کرنے تک اور اس سطح پر صرف یہ یاد رکھیں کہ آخری واؤ کو گرایا جا سکتا ہے ۔

5-- اسی طرح اگر کسی لفظ میں جس میں واؤ نون غنہ سے پہلے ہو ۔ جو عام طور پر جمع الجمع کی شکل میں ہوتا ہے۔۔جیسے *لوگوں*
عام طور پر اسے گرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ پھر لوگوں کا لفظ *لوگُ* میں بدل جائے گا ۔مگر لوگوں چونکہ جمع الجمع ہے اس لئے اسے گرانے پر کوئی پابندی نہیں۔


--------

*حرفِ "یاء" کا بیان:-*

حروف علت میں آخری حرف "ی" ہے۔ جس کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ اس حرف کی اقسام کے لئے بھی علما نے اصطلاحات وضع کر رکھی ہیں۔جنہیں جاننا قطعی لازم نہیں مگر اُن کی آوازوں کو پہچاننا ضروری ہے۔ بہر حال میں عمومی دلچسپی کے پیش نظر ان میں سے کچھ کے نام لکھ دیتا ہوں:-

1--یائے معروفی
2--یائے مجہول
3--یائےلین
4--یائے مخلوطی
5--یائے ہندی

حرفِ ی کے سلسلے میں ایک بہت اہم بات جان لیجئے کہ ایک مصرعے میں ی کو لمبی آواز دے کر یعنی پورے رکن کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے اورچھوٹی آواز سے بھی ۔ یہ شعر یا مصرع کی بحر طے کرتی ہے کہ اسے کس طرح پڑھا جائے۔


اب آئیے اس کو سقوط کی طرف، یعنی گرانے کے قواعد کی طرف.

1--یہ طے ہے کہ اگر کوئی لفظ ی سے شروع ہوگا تو اس کی ی نہیں گرائی جا سکتی۔
2--ہندی کے علاوہ دوسرے الفاظ کی درمیانی ی گرانے سے اگر اس لفظ کے معنی پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو تو بلا کھٹکے گرائی جا سکتی ہے
3-- ہندی اسماء کی درمیانی ی کو گرانا لازم نہیں مگر مستحسن ہے۔
4--افعال کی ی کو گراتے ہوئے بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں وہ معنی پر اثر انداز تو نہیں ہو رہی۔
5--ہر لفظ کی آخری ی کو بلا خطر گرایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ معانی کو متاثر نہ کرے۔
6-- *بے* بمعنی *بغیر* کی ی گرانا درست نہیں اسی طرح حرف ندا جیسے "اے" کی ی کو گرانا ممنوع ہے۔
7۔مرکب افعال، جیسے، پی گیا ، سی لیا--- ان کی بھی ی گرانے سے احتراز کرنا چاہئے۔

--------
 

الف عین

لائبریرین
انیس جان بھائی


کوئی بھی حرف کہاں ساقط کیا جا سکتا ہے اور کہاں نہیں؟
اس بارے اپنی ایک مختصر تحریر فیس بک سے کاپی کر کے یہاں لگا رہا ہوں




حروفِ علت :
ان سے مراد تین حروف ہیں ، واؤ ، الف ، یاء
انگریزی میں انہیں واولز کہا جاتا ہے ۔اردو میں یہ زبر ،پیش اور زیر کی حرکات کے قائم مقام ہیں۔


-----------------

الف کا بیان:-

*الف بطورِ پہلا حرف:-*

الف سے شروع ہونے والا کوئی ایسا لفظ جو مصرع کے آغاز میں نہ ہو تو وہاں تقطیع کرتے وقت الف کا گرانا جائز ہے ۔اور ایسی صورت میں اسے الف موصولہ کہا جاتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مصرع کے آغاز میں آنے والی کوئی الف الف موصولہ نہیں ہو سکتی۔

مثلا:-
*ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا*

اس الف کو "س" کے ساتھ ملا کر یوں بھی پڑھ سکتے ہیں ، ہمُس کے ۔۔۔۔۔۔۔ الخ

اس گر جانے والے الف کو الف موصولہ کہتے ہیں ۔اور توجہ سے دیکھئے کہ یہ دوسرے لفظ کا پہلا حرف ہے

ہم نے اس سے پہلے یہ طے کیا ہے کہ الف اگر شروع کلمہ یا لفظ میں آئے بشرطیکہ وہ مصرع کا پہلا لفظ نہ ہو تو اسے گرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود گر کر اپنی حرکت اپنے سے پہلے حرف کو منتقل کر دیتا ہے ۔جیسے کہ "ہم" کی ساکن میم کے ساتھ ہوا
۔



*الف بطورِ درمیانی حرف:-*
سب سے اہم بات اس سلسلے میں یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اگر الف کسی لفظ کے درمیان یا وسط میں واقع ہو تو اسے ماسوائے چند الفاظ کے ہرگز ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔۔ کیونکہ ایسا کرنے سے اس لفظ کی شکل اس طرح بدل سکتی ہے کہ اس کے معنی ہی بدل جائیں ۔۔ ذرا تصور کریں کہ اگر لفظِ "حال" کا وسطی الف گرا دیا جائے تو وہ لفظِ "حل" میں تبدیل ہو جائے گا اور شعر یا تو مہمل ہو جائے گا یا اس کے معانی ہی بدل جائیں گے. اسی طرح لفظِ جان ، سال ، دال ، وغیرہ ہیں

صرف کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں وسطی الف کو ساقط کرنے سے ان کے معانی نہیں بدلتے اور وہ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔
گناہ سے گنہ
سیاہ سے سیَہ
راہ سے رہ
تباہ سے تبہ
اور
سپاہ سے سپہ پڑھا اور لکھا بھی جاتا ہے

بہر حال کسی بھی لفظ کے درمیانی الف کو گرانے کے سلسلے میں بنیادی اصول یہ یاد رکھیے کہ اگر اس الف کو گرانے سے لفظ کی شکل و صورت اس طرح بدلتی ہو کہ اس کے معنی بدل جائیں تو اس کی قطعا اجازت نہیں ۔۔ مثلاً ایک لفظ ہے "کاہ" جس کا مطلب گھاس کا تنکا ہوتا ہے اس کا الف گرا دیا جائے تو وہ لفظ "کہ" میں تبدیل ہوجائےگا جو وضاحت کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔ اس طرح کی صورت حال میں درمیانی الف کا گرانا ممنوع ہے۔

اوپر کچھ امثال درمیانی الف گرانے کی دی گئی ہیں ان میں ایک بات نوٹ کیجئے کہ رہ ، گنہ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں جہاں الف گرایا گیا ہو ، وہاں ”ہ“ کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔


*الف بطور آخری حرف:-*
اس مقام پر آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مصدر کیا ہوتا ہے اور فعل کسے کہتے ہیں ۔۔ تب ہی آپ اس الف کو گرانے یا نہ گرانے کے بارے میں سمجھ سکیں گے۔

*مصدر:-*
کسی لفظ کی اصل بنیاد کو کہتے ہیں ۔۔ جس سے اس لفظ کے افعال اور دیگر صیغے نکلتے ہیں۔۔ اردو میں اس کی پہچان یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ”نا“ آئے وہ مصدر کہلاتا ہے مثلا ً :
کرنا ، ہونا ، جانا ، کھانا ، پینا وغیرہ

*فعل:-*
اس کلمے کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کا ہونا ، کرنا یا سہنا بہ اعتبارِ وقت پایا جائے مثلاً :
کِیا ، کرتا ہے ، کرے گا ، کرے ، وغیرہ

مصدر اور فعل کی تعریف جان لینے کے بعد اب آپ آخری الف کے بارے میں یہ سمجھ لیں کہ یہ گر تو سکتا ہے مگر اس کا گرانا ناگوار اور ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔۔ مگر جب آپ مشق کریں تو بے شک گرا لیں مگر ایسا کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا -۔ اسے ان امثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

مصدر میں الف بطور آخری حرف کی مثالی یہ دیکھیں کہ

*خاک بھی ہوتا تو خاکِ درِ جاناں ہوتا*


اس مثال میں پہلا والا "ہوتا" مصدری لفظ ہے جس کے آخر کا الف گرایا گیا ہے اور جو اب پڑھنے میں اگلے حرف کے ساتھ مل کر "تتو" کی آواز دے کر ناگوار فضا پیدا کر رہا ہے۔یعنی :

*خاک بھی ہو تَ تو خاکِ در جاناں ہوتا*
یعنیٰ ہو تَتو --- بن جاتا ہے



*فعل میں الف بطور آخری حرف:-*
مثلاً یہ جملہ دیکھیں کہ

*اس نےبھیجا ہے مرے خط کا جواب*

اس میں بھیجا کا لفظ فعل کو ظاہر کر رہا ہے مگر جب بھیجا کا الف ساقط ہو گا تو اس کی آواز کچھ ایسے نکلے گی *اس نےبھیجَ ہے مرے خط کا جواب*

میرا خیال ہے کہ اب آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ مصادر و افعال کا آخری حرف گرانا کیوں معیوب ہے


---------


*"واؤ" کا بیان:-*
یہ حرف بنیادی طور پر پیش *( ُ )* کی حرکت کا قائم مقام ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسا حرف ہے ۔جس کی کئی اقسام ہیں ۔اس لئے سب سے پہلے ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ اس ایک حرف کی کئی اقسام کیوں ہیں ۔اگر ہم اس الجھن کا شکار ہو گئے کہ ایک حرف کی کئی اقسام کیسے ہو سکتی ہیں تو پھر ہم اس کے بارے میں ہماری سمجھ کسی ٹھکانے نہیں لگنے والی تو اقسام سے مراد یہ ہے کہ یہ حرف ہماری زبان کے جس لفظ میں استعمال ہو ۔وہاں اس کی آواز کسی دوسرے لفظ سے مختلف ہوتی ہے ۔کیونکہ ہماری زبان بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔اس لئے جس زبان سے بھی ایک لفظ حرفِ "واؤ" کے ساتھ اردو میں آیا ہے ۔وہ اُس زبان کے لہجے کے مطابق یا تو اپنی آواز ساتھ لایا ہے یا پھر مقامی سطح پر اس نے اپنی الگ آواز اختیار کر لی ہے۔ان آوازوں میں امتیاز کرنے کے لئے علماے اردو نے ان کے لئے پانچ اصطلاحیں وضع کی ہیں ۔عمومی دلچسپی کے لئے میں ان اصطلاحوں یا اقسام کے نام لکھ دیتا ہوں :-
1- واؤ معدولہ
2واؤ معروف
3۔واؤمجہول
4۔واؤ لین
5۔واؤ عاطفہ
6۔واؤ مخلوط

چھ اقسام کے یہ واؤ بارہ طریقوں سے استعمال میں آتے ہیں۔ لیکن آپ کو اس ابتدائی سطح پر اس جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں- آپ فی الحال وہ سیکھئیے جو میں سکھا رہا ہوں۔

1--اگر واؤ سے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ واؤ نہیں گر سکتا ورنہ لفظ ہی غلط ہو جائے گا یا اس کے معنی بدل جائیں گے ۔مثلا اگر وقت کا واؤ ساقط کر دیا جائے تو کچھ نہیں بچے گا ۔اسی طرح لفظِ "وہم " کو لیجئے ۔اگر واؤ ساقط کر دیا جائے تو *ہم* بچے گا ۔جس کا وہم کے معنی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس لئے یہ سمجھ لیجئے کہ جو لفظ حرفَ واؤ سے شروع ہو اس کا پہلا واؤ کسی صورت نہیں گر سکتا

2--اسی طرح اگر حرفِ واؤ کسی لفظ کے وسط میں آئے تو اسے بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً :
اگر قوم ، یوم ، بول کا درمیانی واؤ ساقط کر دیا جائے تو ان الفاظ کے معانی ہی بدل جائیں گے

3-- کسی لفظ کے درمیان موجود صرف وہی واؤ تقطیع میں گرتا ہے جو لکھنے میں تو آئے مگر بولنے میں نہ آئے ۔جیسے لفظِ *خوشبو* میں، لفظِ *ہوئے* میں ، یا لفظِ *اور* میں جبکہ یہ عطف کے لیے ہو

4-- آخر کلمہ یا لفظ کے ہر واؤ کو ساقط کیا جاسکتا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ وہ کہاں معیوب ہے یا ناگوار ہے۔ لیکن اصول یہی سامنے رہنا چاہئے کہ اسے گرایا جا سکتا ہے ۔علما نے فارسی الفاظ مثلاً خوشبو اور گفتگو جیسے الفاظ کو گرانے کی سخت ممانعت کی ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو وہ بے معنی ہو جاتے ہیں یا ان کے معانی بدل جاتے ہیں۔ مگر یہ ایک طویل بحث ہے ۔آُپ عروض میں مہارت حاصل کرنے تک اور اس سطح پر صرف یہ یاد رکھیں کہ آخری واؤ کو گرایا جا سکتا ہے ۔

5-- اسی طرح اگر کسی لفظ میں جس میں واؤ نون غنہ سے پہلے ہو ۔ جو عام طور پر جمع الجمع کی شکل میں ہوتا ہے۔۔جیسے *لوگوں*
عام طور پر اسے گرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ پھر لوگوں کا لفظ *لوگُ* میں بدل جائے گا ۔مگر لوگوں چونکہ جمع الجمع ہے اس لئے اسے گرانے پر کوئی پابندی نہیں۔


--------

*حرفِ "یاء" کا بیان:-*

حروف علت میں آخری حرف "ی" ہے۔ جس کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ اس حرف کی اقسام کے لئے بھی علما نے اصطلاحات وضع کر رکھی ہیں۔جنہیں جاننا قطعی لازم نہیں مگر اُن کی آوازوں کو پہچاننا ضروری ہے۔ بہر حال میں عمومی دلچسپی کے پیش نظر ان میں سے کچھ کے نام لکھ دیتا ہوں:-

1--یائے معروفی
2--یائے مجہول
3--یائےلین
4--یائے مخلوطی
5--یائے ہندی

حرفِ ی کے سلسلے میں ایک بہت اہم بات جان لیجئے کہ ایک مصرعے میں ی کو لمبی آواز دے کر یعنی پورے رکن کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے اورچھوٹی آواز سے بھی ۔ یہ شعر یا مصرع کی بحر طے کرتی ہے کہ اسے کس طرح پڑھا جائے۔


اب آئیے اس کو سقوط کی طرف، یعنی گرانے کے قواعد کی طرف.

1--یہ طے ہے کہ اگر کوئی لفظ ی سے شروع ہوگا تو اس کی ی نہیں گرائی جا سکتی۔
2--ہندی کے علاوہ دوسرے الفاظ کی درمیانی ی گرانے سے اگر اس لفظ کے معنی پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو تو بلا کھٹکے گرائی جا سکتی ہے
3-- ہندی اسماء کی درمیانی ی کو گرانا لازم نہیں مگر مستحسن ہے۔
4--افعال کی ی کو گراتے ہوئے بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں وہ معنی پر اثر انداز تو نہیں ہو رہی۔
5--ہر لفظ کی آخری ی کو بلا خطر گرایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ معانی کو متاثر نہ کرے۔
6-- *بے* بمعنی *بغیر* کی ی گرانا درست نہیں اسی طرح حرف ندا جیسے "اے" کی ی کو گرانا ممنوع ہے۔
7۔مرکب افعال، جیسے، پی گیا ، سی لیا--- ان کی بھی ی گرانے سے احتراز کرنا چاہئے۔

--------
اس نےبھیجا ہے مرے خط کا جواب
میں بھیجا کا الف مکمل تقطیع ہو رہا ہے البتہ 'کا' کا الف ساقط ہے 'کَجواب' تقطیع ہوتا ہے
ابتدائی اور درمیانی حروف علت کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں، مسئلہ صرف آخری حرف کے گرانے کے ساتھ ہوتا ہے
 

دائم

محفلین
اس نےبھیجا ہے مرے خط کا جواب
میں بھیجا کا الف مکمل تقطیع ہو رہا ہے البتہ 'کا' کا الف ساقط ہے 'کَجواب' تقطیع ہوتا ہے
ابتدائی اور درمیانی حروف علت کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں، مسئلہ صرف آخری حرف کے گرانے کے ساتھ ہوتا ہے
مفید سمجھا کہ مکمل پوسٹ ہی لگا دوں، ورنہ میرا اپنا پہلے یہی خیال تھا کہ متعلقہ مقام کاپی کر دیتا ہوں.......
 
Top