مصرعے پر گرہ لگائیے!

دائم

محفلین
السلام علیکم!
اساتذہ کرام کی خدمت میں۔۔۔
ایک مصرعہ ہے

اپنا ہی نقشِ پا بن گیا نقشِ کفِ پائے یار

الف عین
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی
محمد وارث
دائم
سید عاطف علی


اس پر گرہ لگائیے۔۔۔۔۔
بندہ ممنون ہو گا۔۔۔۔۔
مصرعہ کسی بھی معروف بحر پر منطبق نہیں ہے
 
مصرعہ کسی بھی معروف بحر پر منطبق نہیں ہے
دائم بھائی، ایک گزارش ہے کہ جو فرد بھی اصلاحِ سخن میں پوسٹ کر رہا ہے، وہ سیکھنے کی غرض سے ہی کر رہا ہے۔ کچھ غلط لکھا ہے تو اس کی اصلاح ضرور کی جائے، البتہ منفی ریٹنگ سے گریز کیا جائے۔ یہ اچھا تاثر نہیں چھوڑتی۔ :)
 

منذر رضا

محفلین
محمد تابش صدیقی

یہ تو مجھے نہیں معلوم حضور۔۔۔۔
تاہم جگر نے بھی ایک جگہ نشہ کو نشّہ کہا ہے۔۔۔۔
تجزیہ کو تجزّیہ کہا ہے۔۔۔۔
سید تقی عابدی نے رموزِ شاعری میں اسے جائز کہا ہے۔۔۔
باقی اساتذہ رہنمائی فرمائیں گے۔۔۔
 

دائم

محفلین
دائم بھائی، ایک گزارش ہے کہ جو فرد بھی اصلاحِ سخن میں پوسٹ کر رہا ہے، وہ سیکھنے کی غرض سے ہی کر رہا ہے۔ کچھ غلط لکھا ہے تو اس کی اصلاح ضرور کی جائے، البتہ منفی ریٹنگ سے گریز کیا جائے۔ یہ اچھا تاثر نہیں چھوڑتی۔ :)

جی بہتر سر!
 
محمد تابش صدیقی


یہ تو مجھے نہیں معلوم حضور۔۔۔۔
تاہم جگر نے بھی ایک جگہ نشہ کو نشّہ کہا ہے۔۔۔۔
تجزیہ کو تجزّیہ کہا ہے۔۔۔۔
سید تقی عابدی نے رموزِ شاعری میں اسے جائز کہا ہے۔۔۔
باقی اساتذہ رہنمائی فرمائیں گے۔۔۔
کسی بھی حرف کو اپنی مرضی سے مشدد نہیں کیا جا سکتا ہاں البتہ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں کسی ایک مشدد حرف کو غیر مشدد باندھنا جائز ہو مثلاً نشہ، نظارہ وغیرہ
 

دائم

محفلین
نشہ اور نظارہ کے علاوہ دیگر الفاظ جو جو بھی مشدد کیے جا سکتے ہیں، انھیں یہاں جمع کر دینا چاہیے
 

حسان خان

لائبریرین
کسی بھی حرف کو اپنی مرضی سے مشدد نہیں کیا جا سکتا ہاں البتہ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں کسی ایک مشدد حرف کو غیر مشدد باندھنا جائز ہو مثلاً نشہ، نظارہ وغیرہ
«نشہ» کی اصل «نَشْئَه» ہے، اور فارسی شاعری میں یہ عموماً اِسی طرح استعمال ہوا ہے۔
"نشئه را چون باده نتْوان در دلِ پیمانه ریخت"
(بیدل)


اردو میں گُفتاری تلفُّظ چونکہ 'نَشَہ' ہے، اِس لیے شاعری میں شعری ضرورتوں کے تحت ش کو مُشدَّد کر کے 'نشّہ' کر لیا جاتا ہے، جو لفظ کے اصل تلفُّظ سے نزدیک تر ہے۔
 

دائم

محفلین
«نشہ» کی اصل «نَشْئَه» ہے، اور فارسی شاعری میں یہ عموماً اِسی طرح استعمال ہوا ہے۔
"نشئه را چون باده نتْوان در دلِ پیمانه ریخت"
(بیدل)


اردو میں گُفتاری تلفُّظ چونکہ 'نَشَہ' ہے، اِس لیے شاعری میں شعری ضرورتوں کے تحت ش کو مُشدَّد کر کے 'نشّہ' کر لیا جاتا ہے، جو لفظ کے اصل تلفُّظ سے نزدیک تر ہے۔

بہت خوب پیارے!
 
Top