مشرف کے لیے نوشتہ دیوار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Muhammad Naeem

محفلین
پاکستان کے صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں سیکورٹی فورسز کے مزید ساٹھ اہلکاروں نے مقامی طالبان کے سامنے مبینہ طورپر ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو اسلحہ سمیت ان کے حوالے کردیا ہے۔
سوات میں مقامی عسکریت پسندوں کے ترجمان سراج الدین نے بی بی سی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مٹہ تحصیل کے علاقے دروش میں قائم فرنٹیر کانسٹبلری کی ایک پوسٹ پر تعینات ساٹھ اہلکاروں نے کئی گھنٹوں کے کامیاب مذاکرات کے بعد مقامی طالبان کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا اسلحہ بھی ان کے حوالے کردیا۔

ان کے مطابق اہلکاروں نے اس شرط پر ہتھیار ڈالے ہیں کہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ سراج الدین نے مزید بتایا کہ ایف سی اہلکاروں کو معاہدے کے مطابق کچھ نہیں کہا جائے گا اور انہیں جلد ہی غیر مشروط طورپر آزاد کرکے ان کے گھروں تک بحفاظت پہنچا دیا جائے گا۔

سوات میں سرکاری ذرائع نے بھی ایف سی اہلکاروں کے ہتھیار ڈالنے کے واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ہتھیار ڈالنے والے اہلکاروں میں اکثریت دو ماہ کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے تھے۔ تاہم سرکاری اہلکار نے مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا۔

سوات میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے دو سو سے زائد اہلکاروں نے مقامی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔ ان میں فرنٹیر کور کے اڑتالیس اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں تقریباً ایک ہفتہ قبل چارباغ کے علاقے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا۔

یاد رہے کے سوات میں عسکریت پسندوں کے خلاف حکومتی کاروائی شروع ہونے کے کچھ روز بعد مقامی طالبان نے سکیورٹی فورسز کے آٹھ اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا۔

ادھر دوسری طرف سوات میں گزشتہ دو دنوں سے حالات پرسکون ہیں اور کسی علاقے سے فائرنگ کی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔
 

ساجد

محفلین
پیارے بھیا ، محفل کے اراکین کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ طالبان کے ہاتھوں ذبح ہونے والے مزید 3 فوجیوں کی سر بریدہ لاشیں آج ہی ایک گندے نالے سے ملی ہیں۔ اور ایک ابھی تک لاپتہ ہے۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
بھائی اگر طالبان کو آپ مارو گے تو جوابی طور پر بھی تو مار کی توقع رکھنی چاہیئے۔ آپ کی منطق تو ویسے نرالی ہی ہے کی طالبان کو تو آپ کچھ کہتے رہو لیکن وہ آپ کو کچھ نہ کہیں ۔
اس منطق پر میری طرف سے مبارکباد قبول کیجیئے۔
 

ساجد

محفلین
نعیم صاحب ،
جس منطق پر آپ کی بحث کا دارو مدار ہے وہ بجائے خود بہت نرالی ہے ، اب اس کے آگے کیا دلیل پیش کی جائے جب آپ خود اپنی آنکھیں بند کر کے کنویں میں چھلانگ لگانے اور دوسروں کو بھی اس کا سبق دینے کی کوشش کریں تو آپ کی ہدایت کے لئیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
آپ کو چاہئیے پہلے اسلام کے پیش کردہ نظامِ حیات اور افراد کی معاشرتی ذمہ داریوں کا مطالعہ کریں ،پھر اس موضوع پر بحث کریں۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ کے ساتھ بحث کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ جن نظریات اور خیالات کا اظہار آپ نے اپنی ابتدائی تحاریر میں فرمایا ہے اس کو مد نظر رکھ کر کم سے کم یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ جنگل کے قانون کے مبلغ ہیں اور اسی کو اسلام کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اگر آپ کا بس چلے تو آپ خوارج کو بھی مسلمانوں کا نجات دہندہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ کیوں کہ وہ بھی تو اسی خونخواری کے مبلغ اور لاکھوں مسلمانوں کے قاتل تھے کہ جو اسلام کے نام پہ طالبان نے شروع کر رکھی ہے ۔
آخر میں صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ان طالبان کا اسلام اس وقت کہاں تھا جب امریکی اسلحہ ، ٹاپ کلاس جاپانی گاڑیوں اور خلیجی دولت سے ان کو نوازا جا رہا تھا ؟اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ نوازنے والا کوئی اور نہیں امریکہ ہی تھا۔ کیا اس وقت کافروں سے ہاتھ ملانا اور ان کی مدد سے جہاد کرنا جائز تھا؟ اور آج امریکہ اس لئیے کھٹکتا ہے کہ اس نے ان پر سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
آخر میں صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ان طالبان کا اسلام اس وقت کہاں تھا جب امریکی اسلحہ ، ٹاپ کلاس جاپانی گاڑیوں اور خلیجی دولت سے ان کو نوازا جا رہا تھا ؟اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ نوازنے والا کوئی اور نہیں امریکہ ہی تھا۔ کیا اس وقت کافروں سے ہاتھ ملانا اور ان کی مدد سے جہاد کرنا جائز تھا؟ اور آج امریکہ اس لئیے کھٹکتا ہے کہ اس نے ان پر سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔

مجھے تو اس نادر اطلاع کا ابھی آپ سے علم ہوا۔ دنیا تو یہی سمجھتی رہی کہ طالبان تحریک 1996 میں شروع ہوئی۔ حیرانگی والی بات نہیں ہے کہ دنیا کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے کہ ملا عمر نے اپنے لیئے امریکہ سے اسلحہ مانگا تھا۔ کم بخت امریکی صدر بھی ابھی تک اس دریافت سے آگاہ نہیں ہوا ہو گا۔
آپ اپنی ایسی مزید دریافتیں جاری رکھیئے ۔
 
Top