السلام علیکم و رحمۃاللہ ،
دوستانِ عزیز ، پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال پر عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے ساتھ ساتھ مشرف صاحب کی ہٹ دھرمی اور ماورائے قانون اقدامات کی اصل حقیقت اور اسباب کیا ہیں؛ اپنے اس مضمون میں مَیں نے ان کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
مایوسی ہے کہ پھیلتی جا رہی ہے اور اس مایوسی کا سبب جان کر ہی ہم صورت حال کی بہتری کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔
عرض ہے کہ آمرانہ حکومتوں میں کہ جہاں عوام کے حقوق اور آزادیاں سلب کی جاتی ہیں وہاں اس کا صرف ایک مثبت پہلو ہوتا ہے کہ اقتصادیات عارضی طور پر مضبوط ضرور ہو جاتی ہیں اور اس کا مشاہدہ ہم پاکستان میں جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کے دور میں کر چکے ہیں اور مشرف کے دور میں بھی صورت حال یہی ہے۔ لیکن یاد رکھئیے کہ اس عارضی اقتصادی بہتری کی قیمت عوام کو ہی چکانا پڑتی ہے کیوں کہ یہ حقیقی ترقی نہیں بلکہ چند ممالک کے مفادات کے تحفظ کے عوض ملنے والی رعایتوں کا ثمر ہوتا ہے۔ یہاں اس سے زیادہ اس موضوع پر لکھنے کی گنجائش نہیں اس لئیے اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔
مشرف صاحب کے خلاف کوئی بھی سیاسی یا مذہبی تحریک منظم کیوں نہیں ہو پا رہی؟؟؟ جب ہم اس سوال کا جواب تلاش کر لیں گے تب ہم بہتر جان سکیں گے کہ ان کا اقتدار طوالت کیوں اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اختصار سے یہ کہوں گا کہ مشرف صاحب ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی منافقت اور دو عملی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔
اب تو جنرل صاحب اس مضبوط پوزیشن میں ہیں کہ وہ ان پارٹیوں اور گروپوں کو جب چاہیں بلیک میل بھی کر سکتے ہیں۔ ایمانداری سے تجزیہ کرتا ہوں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت مشرف سے چھٹکارا پانا ہی نہیں چاہتی۔ ان سیاسی اور مذہبی لیڈروں کو اپنے اپنے مفادات کی فکر ہے۔ ایک آمر سے سودے بازی کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا ان لوگوں کے لئیے بہت آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ اقتدار میں رہ کر اپنے کرتوتوں کے لئیے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔
بہتری نہ تو سیاستدان لا سکتے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ اپنے طور پر یہ کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اگر یہ کام ہو گا تو عوام کے ہاتھوں ہی ہو گا۔
نام کوئی بھی ہو اور پالیسی کیسی بھی ہو ، اس وقت پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت گھٹنوں گھٹنوں کرپشن اور لوٹ مار میں لتھڑی ہوئی ہے۔ جب تک ہم انہی جماعتوں کے مداری قسم کے لیڈروں کے مضحکہ خیز دعووں اور بیانات کے پیچھے لگ کر ان کو ووٹ دیتے رہیں گے یہ ہماری اس سے بھی بری درگت بناتے رہیں گے۔اور بار بار فوج کو بھی دخل اندازی کا معقول بہانہ ملتا رہے گا۔ یعنی یہ شیطانی چکر پاکستان کے عوام کی جان نہیں چھوڑے گا۔
اب چہروں کو نہیں نظام کو بدلنے کے نعرے پر عملی کام کی ضرورت ہے اور اس کام کا آغاز آنے والے انتخابات سے کیا جانا چاہئیے۔ ان آزمائے ہوئے لٹیروں اور ڈیلروں کو اپنے ووٹ سے محروم کر کے ہم پاکستان میں جاری لوٹ مار ، قانون شکنی اور تشددکے ذمہ دار اہم عناصر کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کریں گے۔
آج کل عام پاکستانی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ انتخابات کے بعد نئی اسمبلی بننے اور مشرف کے فوج چھوڑ دینے کے وعدے پر عمل کرنے سے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ جی نہیں ، ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ جب تک وہی لوگ بار بار اسمبلی میں پہنچیں گے کہ جو خود کرپشن کا حصہ ہیں تب تک ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے ، مشرف کے رہنے یا جانے کی بحث میں پڑنے کی بجائے ہمیں ان لٹیروں کا محاسبہ کرنا ہو گا جو آمروں کا ساتھ دیتے ہیں اور جمہوریت کے نعرے لگانے کے باوجود ڈکٹیٹروں سے سودے بازیاں کرتے ہیں تا کہ اپنی کرپشن پر پردہ ڈال سکیں۔
ہمیں اب ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ان لوگوں کو سپورٹ کرنا چاہئیے کہ جو پاکستان کا درد رکھتے ہیں اور ڈرامہ بازیوں سے ہٹ کر عملی طور پر اس ملک کے مسائل کو سلجھانے کی آرزو اور جذبہ رکھتے ہوں۔ فرشتوں کو تلاش مت کیجئیے بس یہ دیکھئیے کہ آپ جس کو ووٹ دے رہے ہیں اس کا ماضی کیسا ہے۔
ہم نے اس بار اگر اپنی ذمہ داری سے انصاف نہ کیا تو حالات کی بہتری کا عمل کئی برسوں کے لئیے موقوف ہو جائے گا۔
دوستانِ عزیز ، پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال پر عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے ساتھ ساتھ مشرف صاحب کی ہٹ دھرمی اور ماورائے قانون اقدامات کی اصل حقیقت اور اسباب کیا ہیں؛ اپنے اس مضمون میں مَیں نے ان کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
مایوسی ہے کہ پھیلتی جا رہی ہے اور اس مایوسی کا سبب جان کر ہی ہم صورت حال کی بہتری کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔
عرض ہے کہ آمرانہ حکومتوں میں کہ جہاں عوام کے حقوق اور آزادیاں سلب کی جاتی ہیں وہاں اس کا صرف ایک مثبت پہلو ہوتا ہے کہ اقتصادیات عارضی طور پر مضبوط ضرور ہو جاتی ہیں اور اس کا مشاہدہ ہم پاکستان میں جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کے دور میں کر چکے ہیں اور مشرف کے دور میں بھی صورت حال یہی ہے۔ لیکن یاد رکھئیے کہ اس عارضی اقتصادی بہتری کی قیمت عوام کو ہی چکانا پڑتی ہے کیوں کہ یہ حقیقی ترقی نہیں بلکہ چند ممالک کے مفادات کے تحفظ کے عوض ملنے والی رعایتوں کا ثمر ہوتا ہے۔ یہاں اس سے زیادہ اس موضوع پر لکھنے کی گنجائش نہیں اس لئیے اصل موضوع کی طرف پلٹتا ہوں۔
مشرف صاحب کے خلاف کوئی بھی سیاسی یا مذہبی تحریک منظم کیوں نہیں ہو پا رہی؟؟؟ جب ہم اس سوال کا جواب تلاش کر لیں گے تب ہم بہتر جان سکیں گے کہ ان کا اقتدار طوالت کیوں اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اختصار سے یہ کہوں گا کہ مشرف صاحب ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی منافقت اور دو عملی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔
اب تو جنرل صاحب اس مضبوط پوزیشن میں ہیں کہ وہ ان پارٹیوں اور گروپوں کو جب چاہیں بلیک میل بھی کر سکتے ہیں۔ ایمانداری سے تجزیہ کرتا ہوں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت مشرف سے چھٹکارا پانا ہی نہیں چاہتی۔ ان سیاسی اور مذہبی لیڈروں کو اپنے اپنے مفادات کی فکر ہے۔ ایک آمر سے سودے بازی کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا ان لوگوں کے لئیے بہت آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ اقتدار میں رہ کر اپنے کرتوتوں کے لئیے عوام کے سامنے جواب دہ ہوں۔
بہتری نہ تو سیاستدان لا سکتے ہیں اور نہ ہی سپریم کورٹ اپنے طور پر یہ کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اگر یہ کام ہو گا تو عوام کے ہاتھوں ہی ہو گا۔
نام کوئی بھی ہو اور پالیسی کیسی بھی ہو ، اس وقت پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت گھٹنوں گھٹنوں کرپشن اور لوٹ مار میں لتھڑی ہوئی ہے۔ جب تک ہم انہی جماعتوں کے مداری قسم کے لیڈروں کے مضحکہ خیز دعووں اور بیانات کے پیچھے لگ کر ان کو ووٹ دیتے رہیں گے یہ ہماری اس سے بھی بری درگت بناتے رہیں گے۔اور بار بار فوج کو بھی دخل اندازی کا معقول بہانہ ملتا رہے گا۔ یعنی یہ شیطانی چکر پاکستان کے عوام کی جان نہیں چھوڑے گا۔
اب چہروں کو نہیں نظام کو بدلنے کے نعرے پر عملی کام کی ضرورت ہے اور اس کام کا آغاز آنے والے انتخابات سے کیا جانا چاہئیے۔ ان آزمائے ہوئے لٹیروں اور ڈیلروں کو اپنے ووٹ سے محروم کر کے ہم پاکستان میں جاری لوٹ مار ، قانون شکنی اور تشددکے ذمہ دار اہم عناصر کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کریں گے۔
آج کل عام پاکستانی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ انتخابات کے بعد نئی اسمبلی بننے اور مشرف کے فوج چھوڑ دینے کے وعدے پر عمل کرنے سے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ جی نہیں ، ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ جب تک وہی لوگ بار بار اسمبلی میں پہنچیں گے کہ جو خود کرپشن کا حصہ ہیں تب تک ہمیں کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے ، مشرف کے رہنے یا جانے کی بحث میں پڑنے کی بجائے ہمیں ان لٹیروں کا محاسبہ کرنا ہو گا جو آمروں کا ساتھ دیتے ہیں اور جمہوریت کے نعرے لگانے کے باوجود ڈکٹیٹروں سے سودے بازیاں کرتے ہیں تا کہ اپنی کرپشن پر پردہ ڈال سکیں۔
ہمیں اب ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ان لوگوں کو سپورٹ کرنا چاہئیے کہ جو پاکستان کا درد رکھتے ہیں اور ڈرامہ بازیوں سے ہٹ کر عملی طور پر اس ملک کے مسائل کو سلجھانے کی آرزو اور جذبہ رکھتے ہوں۔ فرشتوں کو تلاش مت کیجئیے بس یہ دیکھئیے کہ آپ جس کو ووٹ دے رہے ہیں اس کا ماضی کیسا ہے۔
ہم نے اس بار اگر اپنی ذمہ داری سے انصاف نہ کیا تو حالات کی بہتری کا عمل کئی برسوں کے لئیے موقوف ہو جائے گا۔