مسکراتے ہوئے ماضی کو صدا دی جائے ::: اقبال ماہرؔ

فرقان احمد

محفلین
مسکراتے ہوئے ماضی کو صدا دی جائے
آج کی رات تو یادوں سے سجا دی جائے

بادبانوں کو جنوں خیز ہوا دی جائے
پھر یہ کشتی رہِ منزل پہ لگا دی جائے

قبل اس کے کہ کوئی حادثہ ہم پر گزرے
یہ لرزتی ہوئی دیوار گرا ۔۔۔ دی جائے!

کیا یہاں مصلحتِ وقت کے چوراہے پر
یہ محبت کی امانت بھی لٹا دی جائے!!!

میں افق پر ہوں چمکتا ہوا سورج ماہرؔ
شمع محفل تو نہیں ہوں کہ بجھا دی جائے​
 

فاخر رضا

محفلین
قبل اس کے کہ کوئی حادثہ ہم پر گزرے
یہ لرزتی ہوئی دیوار گرا ۔۔۔ دی جائے!
اس شعر کے حق میں اور خلاف بہت سے دلائل اور بحث ہوسکتی ہے
عام طور پر گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کہا جاتا ہے. دیوار گرانے کی بجائے اسے مضبوط بھی تو کیا جاسکتا ہے، ہوسکتا ہے کسی یتیم کا مال نیچے دفن ہو.
مگر شاعر نے یہ شعر لکھ کر بڑی جرات کا مظاہرہ کیا ہے
 
مسکراتے ہوئے ماضی کو صدا دی جائے
آج کی رات تو یادوں سے سجا دی جائے

بادبانوں کو جنوں خیز ہوا دی جائے
پھر یہ کشتی رہِ منزل پہ لگا دی جائے

قبل اس کے کہ کوئی حادثہ ہم پر گزرے
یہ لرزتی ہوئی دیوار گرا ۔۔۔ دی جائے!

کیا یہاں مصلحتِ وقت کے چوراہے پر
یہ محبت کی امانت بھی لٹا دی جائے!!!

میں افق پر ہوں چمکتا ہوا سورج ماہرؔ
شمع محفل تو نہیں ہوں کہ بجھا دی جائے​
خوب صورت کلام ۔
 
Top