مسلمان طالبہ کو ہراساں کرنے کی وائرل ویڈیو: ’انھوں نے شری رام کا نعرہ لگایا تو میں نے اللہ اکبر کا‘

جاسم محمد

محفلین

مسلمان طالبہ کو ہراساں کرنے کی وائرل ویڈیو: ’انھوں نے شری رام کا نعرہ لگایا تو میں نے اللہ اکبر کا‘​

4 گھنٹے قبل
zoo_bear

،تصویر کا ذریعہ@ZOO_BEAR
،تصویر کا کیپشن
مسکان کا کہنا ہے کہ ’ہماری ترجیح ہماری تعلیم ہے، کپڑے کے ایک ٹکڑے کے پیچھے وہ ہمیں تعلیم کے حق سے محروم کر رہے ہیں‘
انڈیا کی ریاست کرناٹک میں حجاب پر جاری تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور منگل کو ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں زعفرانی شالیں پہنے طلبا کے ایک گروپ کو ایک برقع پوش طالبہ کو ہراساں کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کو آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر نے ان الفاظ کے ساتھ پوسٹ کیا ہے: ’جب ایک مسلمان لڑکی پی ای ایس کالج پہنچی تو زعفرانی شالیں پہنے بے شمار طلبا اس پر جملے کستے ہوئے ہراساں کرتے رہے۔‘
کرناٹک میں گذشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے کئی کالجوں میں حجاب پر طالبات اور انتظامیہ کے درمیان اختلاف جاری ہے اور یہ معاملہ اب ہائی کورٹ میں ہے۔ لیکن گذشتہ دنوں اس میں نئی چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ حجاب کا مقابلہ اب زعفرانی شالوں سے کیا جا رہا ہے جو انڈین سماج کے مذہبی خطوط پر منقسم ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاہ برقعے میں ملبوس ایک طالبہ سکوٹی چلاتی ہوئی پی ای ایس کالج بنگلور پہنچتی ہیں اور جب وہ عمارت کی جانب جا رہی ہیں تو زعفرانی شالیں لہراتے سینکڑوں طالبِ علموں کا گروہ ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے انھیں ہراساں کرنے لگتا ہے جس کے جواب میں وہ طالبہ ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتی ہے اور مقامی زبان میں کہتی ہے ’کیا ہمیں حجاب پہننے کا حق حاصل نہیں ہے؟‘
دلی میں مسلمان طالب علم کرناٹک حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
دلی میں مسلمان طالب علم کرناٹک حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے
جب وہ طالبہ رک کر کیمرے سے بات کر رہی ہیں اسی وقت زعفرانی شالوں والے طالب علموں کا گروہ نعرے لگاتا ہوا دوبارہ ان کی جانب آ کر انھیں ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے جس پر اساتذہ یا انتظامیہ کے اہلکار طالبہ کو بازو سے پکڑ کر عمارت کی جانب لے جاتے ہیں۔
طالبہ کے عمارت میں چلنے جانے کے بعد بھی زعفرانی شالوں والے طلبا مسلسل ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے ہیں جنھیں اساتذہ یا انتظامیہ کے اہلکار روکنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں مگر روکے جانے پر یہ طلبا مزید جوش و خروش سے نعرے بازی شروع کر دیتے ہیں۔
اس آرٹیکل کی اشاعت تک اس ویڈیو کو 27 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔
کہا جا رہا ہے انڈیا میں حجاب تنازع شروع ہونے کے بعد کچھ سیاسی جماعتوں نے مبینہ طور پر طلبا میں زعفرانی شالیں تقسیم کی ہیں اور وہ اس تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔
انڈین صحافی نویدیتا نرینجن کمار کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں ایم جی ایم کالج کے طلبا کو زعفرانی شالیں اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ نودیتا کے مطابق مبینہ طور پر ہندوتا تنظمیوں نے یہ شالیں تقسیم کی ہیں۔
BombayBombil

،تصویر کا ذریعہ@BOMBAYBOMBIL
نویدیتا نے ایم جی ایم کالج میں حجاب تنازع پر ہونے والے ہنگاموں کی کئی ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں برقعوں اور حجاب کے خلاف سینکڑوں زعفرانی شالیں اور ٹوپیاں پہنے طلبا اور طالبات ’جے شیوا جی‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک اور تصویر میں ایج جی ایم کالج کی اساتذہ حجاب پوش طالبات کو سکول سے باہر نکل جانے کا کہہ رہی ہیں۔

ہراسانی کا نشانہ بننے والی مسلمان طالبہ مسکان خان: ’میں تو صرف اسائنمنٹ جمع کروانے گئی تھی‘​

ریاست کرناٹکا میں زعفرون والی شالیں لہراتے لڑکوں کی جانب سے ہراسانی کا نشانہ بننے والی مسلمان طالبہ کا نام مسکان خان ہے۔
مسکان کے مطابق وہ ہمیشہ سے برقع پہنتی آئی ہیں، مگر کلاس میں جا کر وہ برقع اتار کر صرف حجاب پہن لیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے پرنسپل نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا اور یہ سب ہنگامہ آرائی گذشتہ ہفتے شروع ہوئی ہے۔
انڈین چینل این ڈی ٹی وی کو انٹرویو میں مسکان کا کہنا تھا کہ ’ہماری ترجیح ہماری تعلیم ہے، کپڑے کے ایک ٹکڑے کے پیچھے وہ ہمیں تعلیم کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔‘
NDTV

،تصویر کا ذریعہNDTV
،تصویر کا کیپشن
مسکان خان: ’ہم حجاب کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہ ایک مسلمان لڑکی کی شناخت کا حصہ ہے‘
جب اتنی زیادہ تعداد میں ہراساں کرنے والوں نے انھیں گھیر لیا تو کیا وہ خوفزدہ نہیں ہوئیں؟ مسکان بتاتی ہیں کہ ’نہیں میں بالکل پریشان نہیں ہوئی، میں تو صرف اسائنمنٹ جمع کروانے گئی تھی، لیکن چونکہ میں نے برقع پہن رکھا تھا اس لیے وہ مجھے کالج میں داخل نہیں ہونے دے رہے تھے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے دیکھتے ہی انھوں نے میرا راستہ روکنے اور جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کر دیے، جس کے بعد میں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔‘
مسکان کے مطابق ان کے کالج کے پروفیسر اور پرنسپل نے ان کی حفاظت اور حمایت کی ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ انھیں ہراساں کرنے والے ان طلبا کی اکثریت باہر سے آئی تھی اور صرف 10 فیصد کالج کے طلبا ان میں شامل تھے۔
اس سوال کے جواب میں کیا وہ اس واقعے کے بعد سے پریشان ہیں؟ مسکان کہتی ہیں کہ ’نہیں میں بالکل پریشان نہیں ہوں، صبح سے اب تک پولیس سے لے کر باقی سب لوگ مجھے آ کر بتا رہے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، باکل پریشان نہیں ہونا۔‘
اگر انھیں حجاب پہن کر کالج آنے سے منع کیا جاتا ہے تو کیا وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ پائیں گی؟ اس کے جواب میں مسکان کا کہنا ہے کہ ’حجاب ہماری شناخت کا حصہ ہے۔ پرنسپل نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ یہ سب باہر والوں نے شروع کیا ہے۔ پرنسپل نے ہمیں برقع نہ پہننے کا مشورہ دیا ہے۔ ہم حجاب کے لیے احتجاج جاری رکھیں گے۔ یہ ایک مسلمان لڑکی کی شناخت کا حصہ ہے۔‘

’بھٹکی ہوئی نسل کا ایک بڑا حصہ نفرت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے‘​

BombayBombil

،تصویر کا ذریعہ@BOMBAYBOMBIL
بولی وڈ اداکارہ پوجا بھٹ نے پی ای ایس کالج بنگلور میں حجاب پہنے مسلمان طالبہ کو ہراساں کرنے والی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’ہمیشہ کی طرح ایک عورت کو دھمکانے کے لیے آدمیوں کے جتھے کی ضرورت پڑی ہے۔‘
انھوں نے ان طلبا کی ملامت کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’شالوں کو ہتھیار کے طور پر لہراتے، اپنی کمزوری کو ظلم سے چھپانے کی کوشش کرتے یہ لوگ انسانوں کی توہین ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بھٹکی ہوئی نسل کا ایک بڑا حصہ نفرت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
کرناٹکا میں جاری حجاب تنازع کے حوالے سے امن کی نوبیل انعام یافتہ اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ملالہ یوسفزئی نے کالج کی ایک طالبہ کا بیان ٹویٹ کیا ہے، جس میں لڑکی کا کہنا ہے کہ کالج انھیں حجاب اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔‘
ملالہ یوسفزئی نے اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’لڑکیوں کو حجاب میں سکول آنے سے روکنا خوفناک عمل ہے۔ کم یا زیادہ لباس کی بنا پر عورتوں کو ابھی بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے انڈین رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کو غیر اہم بنانا بند کریں۔

’ایک مسلمان لڑکی کو بنا کسی خوف کے ہراساں کرنے والے غنڈوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے‘​

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کیا ’ایک مسلمان لڑکی کو دن دیہاڑے بنا کسی خوف کے ہراساں کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے غنڈوں کو حکومت میں موجود لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے۔‘
محبوبہ مفتی مزید کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کو محض ایک واقعے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے کیونکہ بی جے پی کو امید ہے کہ ایسے واقعات انھیں یو پی کے انتخابات جیتنے میں مدد دیں گے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی یہ ویڈیو ان الفاظ کے ساتھ شئیر کی ’آج کے انڈیا میں مسلمانوں سے نفرت کو ایک عام سی بات بنا دیا گیا ہے۔ ہم اب وہ قوم نہیں رہے جو متنوع ہونے کا جشن مناتی ہے، اب ہم لوگوں کو الگ کرنا اور انھیں سزا دینا چاہتے ہیں۔‘
@PoojaB1972

،تصویر کا ذریعہ@POOJAB1972
انڈین صحافی رعنا ایوب نے لکھا ’حجاب پہنے ایک عورت کے خلاف ہزاروں سنگھی‘۔ وزیرِاعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرکے رعنا پوچھتی ہیں ’میں سمجھتی تھی آپ خواتین کی آزادی کے حامی ہیں اور انھیں تعلیم دینا چاہتے ہیں؟‘
وہ کہتی ہیں کہ مجھے امید ہے دنیا اس نفرت کو دیکھ رہی ہو گی جو اس ملک نے مسلمان عورتوں کے خلاف بپا کر رکھی ہے۔
انڈیا کے ماہرِ طبعیات اور ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ڈاکٹر این سی آستھانہ کہتے ہیں کہ انگریزی زبان میں اس کی مذمت کرنے کے لیے الفاظ بھی کم ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’چاہے وہ اکیلی ہو یا اس کے ساتھ کوئی ہو، آپ ایک لڑکی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ حکومت یا کالج کے خلاف احتجاج کریں، ایک اکیلی لڑکی پر جملے کستے ہوئے اسے ہراساں کیوں کر رہے ہیں۔‘

’نئے انڈیا کا نیا اور خوفناک چہرہ‘​

خالصہ ایڈ کے بانی رویندر سنگھ نے اسے ’نئے انڈیا کا نیا اور خوفناک چہرہ' قرار دیا ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ 'دائیں بازو کے غنڈے اکیلی مسلمان خاتون کو ہراساں کر رہے اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘
پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بیشتر انڈین مسلمان اس نوجوان لڑکی کو ’شیرنی‘ کا خطاب دینے کے ساتھ ان کی ہمت کو بھی داد دے رہے ہیں۔
پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع نے بھی انھیں شیرنی کہہ کر پکارا ہے۔ جبکہ انڈین اداکارہ سویرا بھاسکر نے اس ویڈیو میں دکھائے گئے طرزِ عمل کو شرمناک قرار دیا۔
BSBommai

،تصویر کا ذریعہ@BSBOMMAI
،تصویر کا کیپشن
کرناٹک میں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے
انڈین میڈیا کے مطابق آج ہونے والوں ہنگاموں کے بعد انڈین ریاست کرناٹک کے تمام سکول و کالج تین دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔
کرناٹک کے وزیرِ اعلی بسواراج ایس بومائی نے تمام طلبا، اساتذہ اور سکولوں اور کالجوں کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ کرناٹک کے لوگوں سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔
یاد رہے رواں ہفتے انڈیا میں حجاب سے متعلق جاری تنازعے کے دوران جنوبی ریاست کرناٹک کی حکومت نے یونیورسٹی، کالجوں میں یونیفارم کو لازمی قرار دینے کا نیا حکم نامہ جاری کیا تھا۔
ریاست میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کی جانب سے یہ حکم کرناٹک ہائی کورٹ میں معاملے کی سماعت سے پہلے آیا۔
کرناٹک میں حجاب پر تنازع

،تصویر کا ذریعہUMESH MARPALLY
کرناٹک ہائی کورٹ اوڈیپی کے ایک سرکاری کالج کی پانچ طالبات کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے، یہ دو درخواستیں ان طالبات کو حجاب پہننے سے روکے جانے کے بعد دائر کی گئی ہیں۔
ان میں کہا گیا ہے کہ انھیں حجاب پہننے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے جو انڈیا کا آئین انھیں فراہم کرتا ہے۔
ہائی کورٹ کل بھی سماعت جاری رکھے گی۔
گذشتہ ماہ سے اوڈیپی کے سرکاری پری یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ کی جانب سے حجاب کے خلاف سخت اقدام کی وجہ سے کالج کی آٹھ طالبات کئی ہفتوں سے کلاسز میں نہیں جا سکی ہیں۔
جب سوشل میڈیا پر سکول کی سیڑھیوں پر بیٹھی ان طالبات کی تصاویر سامنے آئیں تو بہت سے لوگوں نے اسے انڈیا کے آئین میں شہریوں کو حاصل مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا۔

الف عین شکیب م حمزہ
 

علی وقار

محفلین
میرے خیال میں متعلقہ حکام کو اس حوالے سے کوئی قطعی فیصلہ کر لینا چاہیے۔ چہرے کی شناخت کئی طرح سے کی جا سکتی ہے۔اگر کوئی لڑکی حجاب لینا چاہے تو اس پر اعتراض سمجھ سے بالا تر ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مسکان کو جمیعۃ العلماء ہند نے پانچ لاکھ روپیے کے انعام کااعلان کیا ہے
ہمارا سلام ہے مسکان بیٹی کو جیتی رہیں ۔آپ کی ہمت وشجاعت بہادری اور دلیری قابلِ صد احترام و تحسن ہے ۔
اللہ پاک اپنی امان میں رکھے آمین ❤️
زندہ رہنا ہو تو حالات سے ڈرنا کیسا۔۔۔۔۔
‏جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جنگ میں لڑتا ہوا گلاب دیکھا
‏لہو لہان آنکھوں میں خواب دیکھا
‏کہیں گے لوگ یہ فخر سے صدیوں تک
‏کہ ہم نے ⁧‫!نقاب میں انقلاب دیکھا
Ux4mkad.jpg
 
Top