مستانہ ہیجڑا ۔ ساقی فاروقی

فاتح

لائبریرین
آج ہمارے دوست طالب سحر نے ساقی فاروقی کی نظم "مستانہ ہیجڑا" کا ایک حصہ محفل میں ارسال کیا تو میں نے سوچا کہ یہ مکمل نظم پیش کی جانی چاہیے، سو۔۔۔
ساقی فاروقی کی خوبصورت نظم "مستانہ ہیجڑا" پیش ہے:

مستانہ ہیجڑا

مولا تری گلی میں
سردی برس رہی تھی
شاید اسی سبب سے
مستانہ ہیجڑا بھی
بُسکی پہن کے نکلا

ٹینس کے بال
کستی انگیا میں
گھُس گھُسا کے
پستان بن گئے تھے
شہوت کے سرخ ڈورے
سرمہ لگانے والی
آنکھوں میں تن گئے تھے

اک دم سے
چلتے چلتے
اس نے کمر کے جھٹکے سے
راہ چلنے والے
شُہدوں، حرام خوروں
سے التفات مانگا
اور دعوتِ نظر دی
اس کے ضخیم
کولھوں نے
آگ اور لذت
خالی دلوں میں بھر دی

اس نے ہتھیلیوں کے گدّے
رگڑ رگڑ کے
وہ تالیاں اڑائیں
مہندی کے رنگ
تتلی بن کے ہوا میں
اپنے پر تولنے لگے تھے
پھر جان دار ہونٹوں
سے پان دار بوسے
چھن چھن چھلک چھلک کے
ہر منچلی نظر میں
رس گھولنے لگے تھے
وہ آج لہر میں تھا
مسّی کی چھب دکھا کے
نتھنے پھلا پھلا کے
انگلی نچا نچا کے
اس نے مزے میں آ کے
ہنس کر کہا کہ "سالو
میں تو جنم جنم سے
اپنے ہی آنسوؤں میں
ڈوبا ہوا پڑا ہوں
شاید ضمیرِ عالم کے
تنگ مقبرے میں
زندہ گڑا ہوا ہوں"

(ساقی فاروقی)​
 
Top