مصطفیٰ زیدی مسافر۔۔۔۔۔مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
مِرے وطن تری خدمت میں لے کے آیا ہوں
جگہ جگہ کے طلسمات دیس دیس کے رنگ
پرانے ذہن کی راکھ، اور نئے دلوں کی امنگ
نہ دیکھ ایسی نگاہوں سے میرے خالی ہاتھ
نہ یوں ہو میر ی تہی دامنی سے شرمندہ
بسے ہوئے ہیں میرے دل میں سینکڑوں تحفے
بہت سے غم ، کَئ خوشیاں ، کَئ انوکھے لوگ
کہیں سے کیف ہی کیف اور کہیں سے درد ہی درد
جنہیں اُ ٹھا نہیں سکتا ہر ایک دشت نوّرد
جو تھیلیوں کے شکم میں سما نہیں سکتے
جو سوٹ کیس کی جیبوں میں آ نہیں سکتے

بچھڑ کے تجھ سے کئ اجنبی دیاروں نے
مجھے گلے سے لگایا ، مجھے تسّلی دی
مجھے بتائے شبِ تیرہ و سیاہ کے راز
مِرے بدن کو سکھائے ہزار استلذ اذ
میں مدتوں یہی سمجھا کیا کہ جسم کا لَمس
اَذل سے تَا بہ ابد ایک ہی مسّرت ہے
کہ سب فریب ہے میرا بدن حقیقت ہے
اور اِس طرح بھی ہوا ہے کہ میری تنہائ
سمندروں سے لپٹ کر ہو ا سے ٹکرا کر
کبھی سمیٹ کے مجھ کو نئے جزیروں میں
کبھی پہاڑ کے جھرنے کی طرح بکھرا کر
کبھی بٹھا کے مجھے آسماں کے دوش بدوش
کبھی زمیں کی تہوں میں جڑوں میں پھیلا کر
کچھ اس طرح میرے احساس میں سمائ ہے
کہ مجھ کو جسم سے باہر نکال لائ ہے
کچھ ایسا خواب سا نا خوابیاں سی طاری تھیں
بدن تو کیا ، مجھے پر چھائیاں بھی بھاری تھیں

مِرے دیار کہاں تھے تِرے تماشائ
کہ دیدنی تھا مِرا جشنِ آبلہ پائ
کچھ ایسے دوست ملے شہرِ غیر میں کہ مجھے
کئ فرشتہ نفس دشمنوں کی یاد آئ
میں سوچتاہوں کہ کم ہوں گے ایسے دیوانے
نہ کوئ قدر ہو جن کی نہ کوئ رسوائ
مجھے بجھا نہ سکی یخ زدہ ہوائے شمال
مجھے ڈبو نہ سکی قلزموں کی گہرائ
نہ جانے کیسا کرّہ تھا مِرا وجود کہ روز
مِرے قریب زمیں گھومتی ہوئ آئ

تلاش کرتے ہوئے گمشدہ خزانوں کو
بہت سے مصر کے فرعون مقبروں میں ملے'
زبانِ سنگ سے جو ہمکلام ہوتے ہیں
کچھ ایسے لوگ پرانے مجسموں میں ملے
بلند بامِ کلیسا میں تھے وہی فنکار
جو خستہ جال مساجد کے گنبدوں میں ملے
مِری تھکی ہوئ خوابیدگی سے نالاں تھے
وہ رَت جگے جو مسائل کی کروٹوں میں ملے
کئ سراغ نظر آئے داستا نو ں میں
کئ چراغ کتابوں کے حاشیوں میں ملے

سناکے اپنے عر و ج و زوال کے قصّے
سبھی نے مجھ سے مِرا رنگِ داستاں پوچھا
دکھا کہ کے برف کے موسم مِرے بزرگوں نے
مزاجِ شعلگئ عصرِ نوجواں پوچھا

مِری جھکی ہوئ آنکھیں تلاش کرتی رہیں
کوئ ضمیرکا لہجہ کوئ اُصول کی بات
گزرگئ مِری پلکوں پہ جاگتی ہوئ رات
ندامتوں کا پسینہ جبیں پہ پھوٹ گیا
مِری زبا ں پہ تر ا نام آ کے ٹوٹ گیا

قبول کر یہ ندامت کے اس پسینے کی
ہر ایک بوند میں چنگاریوں کے سانچے ہیں
قبول کر مِرے چہرے کی جھریاں جن میں
کہیں جنوں کہیں تہذیب کے تمانچے ہیں
سنبھال میرا سّبک ہدیہءِ غمِ اِدراک
جو مجھ کو سات سمندر کا زہر پی کے مِلا
ثقافتوں کے ہر آتش فشاں میں جی مِلا
طلب کیا مجھے یونان کے خداوں نے
جنم لیا میرے سینے میں دیوتاوں نے
فَریب و حِرص کے ہر راستے سے موڑ دیا
اور اُس کے بعد سُپر مارکٹ پہ چھوڑ دیا
جہاں بس ایک ہی معیارِ آدمیت تھا
ہجومِ مرد و زناں محوِ سیرِ وحشت تھا
گھڑی کا حسن ، نئے ریڈیو کی زیبائ
پلاسٹک کے کنول ۔ نائلان کی ٹائ
اطالیہ کے نئے بوٹ ہانگ کانگ کے ہار
کرائسلرکی نئ رینج، ٹوکیو کے سنگار
ہر ایک جسم کو آسودگی کی خواہش تھی
ہر ایک آنکھ میں اسباب کی پرستش تھی
یہ انہماک قیادت میں بھی نہیں ملتا
یہ سوئے نفس عبادت میں بھی نہیں ملتا

مِرے وطن میرے سامان میں تو کچھ بھی نہیں
بس ایک خواب ہے اور خواب کی فصیلیں ہیں
قبول کر میری میلی قمیض کا تحفہ
کہ اس کی خاک میں سجدوں کی سر زمینیں ہیں
نہ دُھل سکے گا یہ دامن کہ اس سینے پر
بیافرا کے مقدس لہو کے چھینٹے ہیں
یہ ویٹ نام کی مٹی ہے جس کے زروں میں
پیمبروں کی دمکتی ہوئ جبینیں ہیں
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم علی فاروقی بھائی
مصطفی زیدی جی کے
بہترین کلام سے نوازنے پر
بہت شکریہ
کئی بار پڑھا ہر بار عجب لطف آیا۔
نایاب
 
Top