مسئلہ تو یقینا ہے لیکن کیا؟

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے مرزا غالب کی غزل نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کی زمین میں ایک غزل کہی۔۔۔ اس میں ایک شعر تھا جس کا مصرع اولی نثر ہوگیا
جھوٹ تم بولو، غلط تم لکھو، کھائو تم حرام
کیوں گلہ کرتے ہو پھر الفاظ میں تاثیر کا۔۔۔
جناب من ۔۔۔ یہ میں نے درست کر لیا۔۔۔ اس طرح
جرم اظہار صداقت تم سے ہو سکتا نہیں
کیوں گلہ کرتے ہو پھر الفاظ میں تاثیر کا؟
اب میرا سوال یہ ہے کہ جو پہلے مصرع لکھا تھا اس کو دوبارہ پڑھنے سے مجھے وہ نثر کہیں سے نہیں لگتا۔۔۔ صرف غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ شاید لکھو اور کھائو پر جا کر اٹک رہا ہے۔۔۔
تقطیع کے رموز سے بالکل آگاہ نہیں ہوں۔۔۔ میری گزارش ہے کہ یہ غلطی تفصیلی طور پر مجھے سمجھائی جائے۔۔ ممنون رہوں گا۔۔۔۔ شکریہ۔۔
 
میں بہتر سمجھونگا کہ دوسرا (ترمیم شدہ) مصرع ہی صحیح سمجھا جائے.
سابقہ مصرع بھی ناچیز کی عقل کے مطابق ٹھیک ہی. وزن وغیرہ کے حوالے سے بھی کوئی غلطی نہیں.
لیکن "لکھو" اور "کھاؤ" ایک ساتھ اچھا نہیں جب لکھو سے "و" کا اسقاط ہو. اصطلاح میں اسے عیب تنافر کہا جاتا ہے. یعنی پہلے لفظ کا آخری اور دوسرے لفظ کا پہلا حرف ایک ہی ہو. ان کی تکرار مصرع کی روانی کو مجروح کرتی ہے.
اب آپ کا مصرع "لکھکھاؤ" پڑھنے میں آئے گا. یہی عیب تنافرہے.
 

الف عین

لائبریرین
لیکن روانی میں پہلا مصرع ہی بہتر ہے، بس تنافر کا عیب دور کر دیا جائے۔
جھوٹ بولو تم، غلط لکھو تم، اور کھاؤ حرام
کر دیں
 

فاتح

لائبریرین
مجھے پہلا مصرع زیادہ خوبصورت لگ رہا ہے کیونکہ وہ سہل ممتنع ہے۔ تنافر لفظی سے بچنے کو کہا ضرور جاتا ہے لیکن یہ کوئی بہت بڑا عیب نہیں اور ہر بڑے چھوٹے شاعر کے اشعار میں تنافر موجود ہے، اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگر مضمون کی قربانی دے کر تنافر دور کرنا پڑے تو اس کا موجود رہنا بہتر ہے۔ یوں بھی اعجاز صاحب کے مشورے کے مطابق تنافر بھی دور ہو رہا ہے اور مضمون بھی وہی قائم ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نہیں کہ تجھ سے بچھڑنے کا حوصلہ ہے ہمیں۔۔۔ تو ساتھ رہ نہ سکے گا، یہ بس پتہ ہے ہمیں۔۔۔۔ کیا اس میں بھی تنافر موجود ہے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہے۔۔۔۔ اب میں نے اس ہمیں کو مجھے کرنے کا سوچا ہے ۔۔۔ کیا یہ درست ہے؟؟ اور جناب الف عین صاحب۔۔۔ آپ نے میری بہت بڑی مشکل حل کردی۔۔۔ آپ کی یہ تصحیح بجائے خود قابل داد ہے کہ میں نے باوجود اوریجنل شاعر ہونے کے، اسی کو درست کرنے کی سوچی مگر نہیں کرسکا۔ یہ بتا دینا یہاں ضروری ہے کہ میرے ذہن میں مضامین کی آمد کچھ زیادہ ہی ہے۔۔۔ اتنی کہ فی البدیہہ بھی کہہ سکوں لیکن اغلاط نے پریشان کر رکھا ہے۔۔۔ اورفاتح بھائی مجھے آپ کی رائے سے اتفاق ہے۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
نہیں کہ تجھ سے بچھڑنے کا حوصلہ ہے ہمیں۔۔۔ تو ساتھ رہ نہ سکے گا، یہ بس پتہ ہے ہمیں۔۔۔ ۔ کیا اس میں بھی تنافر موجود ہے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہے۔۔۔ ۔ اب میں نے اس ہمیں کو مجھے کرنے کا سوچا ہے ۔۔۔ کیا یہ درست ہے؟؟ اور جناب الف عین صاحب۔۔۔ آپ نے میری بہت بڑی مشکل حل کردی۔۔۔ آپ کی یہ تصحیح بجائے خود قابل داد ہے کہ میں نے باوجود اوریجنل شاعر ہونے کے، اسی کو درست کرنے کی سوچی مگر نہیں کرسکا۔ یہ بتا دینا یہاں ضروری ہے کہ میرے ذہن میں مضامین کی آمد کچھ زیادہ ہی ہے۔۔۔ اتنی کہ فی البدیہہ بھی کہہ سکوں لیکن اغلاط نے پریشان کر رکھا ہے۔۔۔ اورفاتح بھائی مجھے آپ کی رائے سے اتفاق ہے۔۔۔
ارے جناب ایسے تنافر کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں امثال موجود ہیں اور تمام اساتذہ کے کلام میں۔۔۔ میر، درد، سودا وغیرہ کی تو بات کیا کیجیے کہ غالب جیسے عظیم شاعر کے ہاں بھی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں، مثلاً:​
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا​
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا​
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا​
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب​
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع​
آزادیِ نسیم مبارک کہ ہر طرف​
سوائے حسرتِ تعمیر گھر میں خاک نہیں​
 
مجھے فاتح بھائی سے کوئی اختلاف نہ ہے نہ ہوسکتا ہے. لیکن کسی خامی کے ہوتے ہوئے اگر ایسا مضمون حاصل ہو جو اس عیب سے بہت برتر ہو تو اس خامی کو دور کرنا کوئی ضروری نہیں. اور بہر حال اہل فن اساتذہ نے ایسا کیا بھی ہے.
یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کے اب اس عیب سے بچا جائے تو بہتر ہے اور خاص اس وقت کہ جب ایک بہتر صورت بنا کسی سقم کے دستیاب ہو. جیسا کے الف عین صاحب نے بتا ہی دیا.
مضامین کو مد نظر رکھتے ہوئے تو اساتذہ نے وزن سے خارج مصرعوں کو بھی ضرورت حسن کے باندھا ہے.
لیکن بات وہی ہے کے بچنا بہتر ہے.
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
فاتح صاحب کی امثال اور مزمل شیخ بسمل آپ کا استدلال اچھا لگا لیکن آپ اس مسئلے کے بیچ کیا فرماتے ہیں جو ہے ہمیں اور ہے مجھے کے مابین واقع ہوا ہے۔۔۔ (نہیں کہ تجھ سے بچھڑنے کا حوصلہ ہے مجھے درست ہے یا مجھے کو ہمیں ہی رہنے دیا جائے)؟؟
 

فاتح

لائبریرین
فاتح صاحب کی امثال اور مزمل شیخ بسمل آپ کا استدلال اچھا لگا لیکن آپ اس مسئلے کے بیچ کیا فرماتے ہیں جو ہے ہمیں اور ہے مجھے کے مابین واقع ہوا ہے۔۔۔ (نہیں کہ تجھ سے بچھڑنے کا حوصلہ ہے مجھے درست ہے یا مجھے کو ہمیں ہی رہنے دیا جائے)؟؟
بارے اس مسئلہ کے ہی تو ہم نے غالب کے چار مصرعے بطور مثال لکھے تھے کہ غالب نے بعینہ اسی ہ ہ کے تنافر کو ایسے ہی رہنے دیا ہے۔
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا​
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا​
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا​
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب​
اب آپ کی مرضی کہ آپ ہے ہمیں رہنے دیں یا ہے مجھے۔۔۔ ہمیں تو "ہے ہمیں" بھی قباحت نہیں لگ رہی۔
 

الف عین

لائبریرین
قہی میرا بھی خیال ہے کہ اگر آسانی سے بچا جا سکے تو بہتر ہے تنافر سے، لیکن اس کے لئے زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں
 
Top