مزاح برائے تاوان

سیما علی

لائبریرین
میرے ہسبنڈ کبھی سال بعد اگر کسی انتہائی مجبوری میں اپنی ہی شرٹ پریس کرنے کھڑے ہو جائیں تو اس پہ پہلےمل کر موقع پہ سین کری ایٹ ہوتا ہے اور پھر چند دن اس اہم واقعے کا ذکر!!
😆😆😆😆😆😆😆😆
سارا قصور اماں بہنوں کا ہے
رضا جب بہنوں سے لاڈ میں شرٹ پھینکتا اور کہتا پریس کرنا تو ہم نے ہمیشہ کہا اسوقت تم خود کرو گے کیونکہ یہ برابری کا سلوک گھر سے شروع ہوتا ہے ۔۔۔یہی وجہ ہے اب بیوی کی بھی پوری مدد ہوتی وہ برتن دھونا ہوں استری کرنا ہو بچوں کے کام ہوں آفس سے آ کے پورے کام دیکھ لیتا ہے ۔۔۔آپکو بتانا ہوتا ہے کام کوئی بڑا چھوٹا اور تقسیم نہیں ہے اس سے کوئی چھوٹا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔
 
😆😆😆😆😆😆😆😆
سارا قصور اماں بہنوں کا ہے
رضا جب بہنوں سے لاڈ میں شرٹ پھینکتا اور کہتا پریس کرنا تو ہم نے ہمیشہ کہا اسوقت تم خود کرو گے کیونکہ یہ برابری کا سلوک گھر سے شروع ہوتا ہے ۔۔۔یہی وجہ ہے اب بیوی کی بھی پوری مدد ہوتی وہ برتن دھونا ہوں استری کرنا ہو بچوں کے کام ہوں آفس سے آ کے پورے کام دیکھ لیتا ہے ۔۔۔آپکو بتانا ہوتا ہے کام کوئی بڑا چھوٹا اور تقسیم نہیں ہے اس سے کوئی چھوٹا نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔
جی جی۔ ہماری جانب بھی فی الحال یہی صورتحال رہی ہے۔ اگرچہ بھائیوں کی شادیاں ابھی نہیں ہوئی ہیں تاہم سبھی اپنے ذاتی کام تو خود کرتے ہی ہیں، کچن اور گھر کے بقیہ کاموں میں بھی تقریبا برابر مدد کرتے ہیں۔ ابا بھی مکمل گھر سنبھالنے جتنے سگھڑ واقع ہوئے ہیں۔ شاید مجھے اسی لیے یہ باتیں آگے زیادہ محسوس ہوتی ہیں۔۔۔کاموں کا ویسے اتنا مسئلہ کبھی نہیں ہوا، محنت میں عظمت وغیرہ ہے۔ لیکن بس یہ جو فیمیلز بھی patriarchy کی علمبرداری میں صبح سے شام کرتی رہتی ہیں، یہ کافی عجیب سی شے ہے۔ میں نے اسی ویمنز ڈے پہ ایک اور تحریر لکھی تھی صرف انہی خواتین پہ جو patriarchy کے جھنڈے دور دور تک گاڑ رہی ہیں اور چین ری ایکشنز وغیرہ شروع کرتی ہیں جو ان کے بعد تک جاری رہتے ہیں۔

آج ہی محفل پہ کسی جگہ پڑھا کہ یہ نئی نسل کی لڑکیاں حقوق نسواں کی علمبردار اور بدتمیز وغیرہ۔۔۔اور یہ سوچا کہ جب تک حقوق کی بات نہ کرو تب تک یہ سارا رویہ جسٹیفائیبل ہے؟ کیا مرد سمجھتے ہیں کہ حقوق دیں گے بھی وہی اور ہمارے حقوق کی بات بھی وہی کریں گے؟ اور مزید یہ کہ خواتین بھی ہاں میں ہاں وغیرہ ملا رہی ہوتی ہیں، پتہ نہیں مصلحتا یا حقیقتا۔ لیکن میں نے زندگی میں بڑے بڑے واقعات دیکھ لیے ہیں خواتین کو سرے سے انسان ہی نہ سمجھنے کے اور میں نے نہیں دیکھا کہ اس کی وجہ ان کی بے پردگی، بے باکی، نا اہلی اور بدتمیزی وغیرہ تھی۔ اس کی وجہ ہمیشہ وہی تھی اور وہی ہے۔ آدمی کے دماغ کا کیڑا ! مذہب و اخلاقیات کے دائرے سے باہر کا۔۔۔اور متعدد عورتیں اس پہ بظاہر خوشی خوشی بلی دے رہی ہوتی ہیں تاکہ گڈ بکس میں رہیں۔ اور یہ سارا نظام بڑھتا اس لیے ہے کہ ظلم جب کم ہوتا ہے تبھی اس پہ ری ایکشن نہیں دیا جاتا اور اگلے کو پتہ لگتا ہے کہ وہ یہ کر سکتا ہے آپ کے ساتھ! میں یہ نہیں کہتی کہ ہم مکمل طور پہ ایونٹس کو روک سکتے ہیں، لیکن ہم کم از کم less-wrong سائیڈ پہ کھڑا تو ہو سکتے ہیں اور کیوں نہ ہوئیں؟ پیپل پلیزنگ کے لیے؟ اور کن لوگوں کی پلیزنگ؟ جو خود کو خود بھی کبھی خوش نہ کر پائے۔۔۔۔ان کی؟
 
آخری تدوین:
شاید زیادہ سنجیدہ ہوگیا۔ بس آج کل ایسا اتنا کچھ بہت قریب سے نظر سے گزر رہا ہے کہ محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہوگئی اور ہم بڑی بیسک سی باتیں بڑے بڑے نام نہاد بڑوں کو سمجھانے میں لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے؟ جب تک ابن صادق وغیرہ اپنی ہی صف میں نہ ہوں گے۔ خدا کے قوانین سے انکار قطعا نہیں مگر اس دور فتنہ خیز میں پونا قانون خدائی فوجدار کا ہے اور جو ذہن سوچتے نہیں بس پیروکاروں کی بھیڑ میں لگے رہتے ہیں، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ "نہیں کوئی معبود مگر اللہ" کا مطلب کیا ہے!
یہ ساری بت پرستی جو غالبا حضرت شیث علیہ السلام کے دور میں شروع ہوئی تھی؟ (کوریکٹ می اف آئی ایم رونگ) یہ ساری اصل میں شخصیت پرستی تھی۔۔۔حتی کہ کعبے کے کچھ بتوں کے پیچھے بھی انسانوں کی عظمت تھی جن کے وہ بت بنا کر رکھے گئے!
یہاں ہم کسی ایک ہستی کو جو پسند ہے یا جس پہ انحصار ہی کرتے ہیں، اٹھ کے نارمل سے انداز میں بنا لڑائی کیے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کی ہر بات صحیح نہیں ہو سکتی اور یہ بات جو اس نے کی یہ غلط ہے! اور اس طرح یہ طاقتیں بڑھتئ رہتی ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے یہ ایسا مزید کر سکتی ہیں جیسا کر رہی ہیں۔کیونکہ آپ خود اپنی سائیڈ پہ کھڑا ہونے کی بجائے ان کی سائیڈ پہ کھڑے ہو!
 
آخری تدوین:
میڈیا بھی ایسا ہے اور ہم خود بھی سارے بس یہی کر رہے ہیں کہ کسی خاتون کے ساتھ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو خبر اس سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ ایسا ہوا یا کیا گیا اور مزید اس خبر کی تفصیل میں وکٹم بلیمنگ کا کوئی نہ کوئی عنصر ہوتا ہے کہ ایسا کرتی تو ایسا نہ ہوتا، آئندہ خواتین فلاں چیز کر لیا کریں تاکہ بچ سکیں۔ حالانکہ دنیا میں اب کوئی بچہ بھی اتنا بے وقوف نہیں ہوگا جسے نہ پتہ ہو کہ دماغ کے کیڑے والے آدمیوں نے نہ کسی چھوٹی بچی کو چھوڑا نہ قبر میں پڑی لاشوں کو، نہ مکمل ڈھکی ہوئی مذہب کے لیے وقف عورتوں کو اور نہ ہی کوئی نوبل پروفیشن ایسا رہ گیا ہے جہاں ایسا نہ ہوا ہے اور تو اور گھروں میں کتنی عورتیں محفوظ ہیں وہی ہاتھ کھڑا کردیں۔ پھر بھی وکٹم کے قصور پہ بات کیے جانی ہے؟ ابھی تک ایک خبر نظر سے نہیں گزری جو مرد سے شروع ہوتی ہو کہ فلاں نے آج ایک عورت کے ساتھ یہ کیا۔ کیوں نہیں شروع ہوتی؟ چاہے وہ بڑے واقعات ہوں اور چاہے چھوٹے، ان مردودوں کو اتنا ذلیل ہونا چاہیے کہ آئندہ آنے والوں کے لیے مثال بنیں۔۔نہ کہ عورتوں کو جو کہ پہلے ہی راہ راست پر ہیں مزید سانس بند کیے جاؤ۔ میں تو حضرت خدیجہ کی مثال دیکھتی ہوں، جنہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نکاح کے لیے پسند کیا تھا۔ کیا انڈیپینڈنٹ اور مضبوط عورت تھیں اور معاشرے میں پورے قد سے کھڑی تھیں!!! یہاں حضرت خدیجہ جیسی عورتیں بنانے والے کتنے مرد ہیں؟ اور کتنے ہیں جو کہتے ہیں کہ گھٹ جاؤ، دب جاؤ، مر جاؤ مگر اپنی بات بھی نہ کہو، وہ بھی ہم کہیں گے! اس طرح کی باتیں کرنے والوں کا کیڑا اور بھی الگ لیول کا ہے لیکن مجھے ان کے کانفیڈینس پہ زیادہ حیرانی ہوتی ہے کہ ان کو کیسے پتہ لگتا ہے کہ یہ یہ کہہ سکتے ہیں دوسروں کو اور بعد میں سارا دن کہیں نہ کہیں بیٹھ کے وائف جوکس کرتے نظر آتے ہیں اور واہ واہ کیا زندہ دلی ہے کہ چار لوگ اور ایسے پکڑے ہوئے ہیں جن کا بھی وہی ذوق ہو!
 

یاز

محفلین
اور متعدد عورتیں اس پہ بظاہر خوشی خوشی بلی دے رہی ہوتی ہیں تاکہ گڈ بکس میں رہیں۔
یہ اس ادراک یا احساس کی بدولت ہوتا ہے کہ بات وہی کرو جو معاشرے کے طاقتور طبقے کو پسند ہو۔ اسی نظریے کی بدولت ماریہ بی جیسیاں بھی حقوقِ مرداں کی پرچارک بن بیٹھتی ہیں کہ اگر مرد مار پیٹ کرتا ہے تو عورتوں کو چاہئے کہ مار کھا لیں۔ خود بزنس کرتے ہوئے بھی خواتین کے گھر بیٹھنے کے فضائل پہ روشنی۔
اسی طرح مرد روبوٹ نہیں ہوتے کہ وہ پرووک نہ ہوں، وغیرہ ۔۔۔ بس یہی کہوں گا کہ یہ ہمارے معاشرے کی علتیں ہیں۔
 
آپ سے متفق ہوں۔
یہ اس ادراک یا احساس کی بدولت ہوتا ہے کہ بات وہی کرو جو معاشرے کے طاقتور طبقے کو پسند ہو۔
اسی لیے تو مظلوم بنے رہنا خود ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ اپنا تو فلسفہ یہی ہے کہ نہ کسی پہ ظلم کرو اور نہ خود پہ ہونے دو۔ اب جس کا جو بھی ہوگا وہ اس پہ عمل تو کر ہی رہا ہوگا، تاہم ظالم کی سائیکولوجی مجھے تو یہی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ بھانپ لیتا ہے کہ کس پہ زد و کوب میں کس حد تک جایا جا سکتا ہے کیونکہ اگلے انسان میں کوئی کمزوری نظر آتی ضرور ہے۔ ورنہ کسی کو پتہ ہو کہ آگے سے اس کے ساتھ بھی بدترین ہو سکتا ہے یا ہو جائے گا تو وہ اس لیول پہ جائے گا ہی نہیں۔ معاشرے میں انصاف نہیں ہے جس کی بنیاد پہ معاشرے کھڑے ہوا کرتے ہیں۔۔۔اور انسانوں میں ایک نارمل سے انداز میں بھی اپنی بات پہنچا دینے کی ہمت نہیں ہے۔ یا تو دنگے فساد اور یا پھر اپنا خانہ برباد وغیرہ (ایکسیپشنز آر آلویز دئیر)
اسی طرح مرد روبوٹ نہیں ہوتے کہ وہ پرووک نہ ہوں، وغیرہ ۔۔۔ بس یہی کہوں گا کہ یہ ہمارے معاشرے کی علتیں ہیں۔
بالکل ایسا ہی ہے۔ نہ مرد روبوٹس ہیں نہ عورتیں۔ ہم بھی تو پرووکڈ ہی ہیں نا اس لیول پہ فیمیسائیڈز اور ہراسمنٹس دیکھ دیکھ کے اور پھر نام نہاد بڑوں کے اس پہ اس طرح کے بیان سن سن کے جس کی شاید ان کو بھی سمجھ نہیں یا پھر ممکن ہے وہ بھی کسی مزید طاقتور طبقے کو ہی خوش کر رہے ہوں۔۔۔ہم سب پرووک ہوتے ہیں،ہم سب کو ہی پرووک نہ کیا جاوے اور جہاں تک معاشرے کی علتوں کی بات ہے تو معاشرے تو غالبا ڈائینامک ہی ہوتے ہیں۔ ہر وقت تبدیلی آ رہی ہوتی ہے، بس اپنی صف ٹھیک چوز کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 

سیما علی

لائبریرین
لیکن میں نے زندگی میں بڑے بڑے واقعات دیکھ لیے ہیں خواتین کو سرے سے انسان ہی نہ سمجھنے کے اور میں نے نہیں دیکھا کہ اس کی وجہ ان کی بے پردگی، بے باکی، نا اہلی اور بدتمیزی وغیرہ تھی۔ اس کی وجہ ہمیشہ وہی تھی اور وہی ہے۔ آدمی کے دماغ کا کیڑا ! مذہب و اخلاقیات کے دائرے سے باہر کا۔۔۔اور متعدد عورتیں اس پہ بظاہر خوشی خوشی بلی دے رہی ہوتی ہیں تاکہ گڈ بکس میں رہیں۔ اور یہ سارا نظام بڑھتا اس لیے ہے کہ ظلم جب کم ہوتا ہے تبھی اس پہ ری ایکشن نہیں دیا جاتا اور اگلے کو پتہ لگتا ہے کہ وہ یہ کر سکتا ہے آپ کے ساتھ! میں یہ نہیں کہتی کہ ہم مکمل طور پہ ایونٹس کو روک سکتے ہیں، لیکن ہم کم از کم less-wrong سائیڈ پہ کھڑا تو ہو سکتے ہیں اور کیوں نہ ہوئیں؟ پیپل پلیزنگ کے لیے؟ اور کن لوگوں کی پلیزنگ؟ جو خود کو خود بھی کبھی خوش نہ کر پائے۔۔۔۔انکی
بس ضرورت اسی کی ہے کہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہا جائے ۔ہمارے ابا جان اور بھائیوں کو ہمیشہ۔ سے شوق تھا کام کرنے کا اور وہ بھی بلا تفریق کہ یہ خواتین کا کام ہے اور یہ مردوں کام ہے تو پھر وہی تربیت آپ بچوں کی کر رہے ہوتے ہیں زمانہ کوئی بھی
Parenting Matters
 

سیما علی

لائبریرین
یہ اس ادراک یا احساس کی بدولت ہوتا ہے کہ بات وہی کرو جو معاشرے کے طاقتور طبقے کو پسند ہو۔ اسی نظریے کی بدولت ماریہ بی جیسیاں بھی حقوقِ مرداں کی پرچارک بن بیٹھتی ہیں کہ اگر مرد مار پیٹ کرتا ہے تو عورتوں کو چاہئے کہ مار کھا لیں۔ خود بزنس کرتے ہوئے بھی خواتین کے گھر بیٹھنے کے فضائل پہ روشنی۔
اسی طرح مرد روبوٹ نہیں ہوتے کہ وہ پرووک نہ ہوں، وغیرہ ۔۔۔ بس یہی کہوں گا کہ یہ ہمارے معاشرے کی علتیں ہیں۔
✅✅✅✅✅✅✅✅✅✅
 

سیما علی

لائبریرین
بالکل ایسا ہی ہے۔ نہ مرد روبوٹس ہیں نہ عورتیں۔ ہم بھی تو پرووکڈ ہی ہیں نا اس لیول پہ فیمیسائیڈز اور ہراسمنٹس دیکھ دیکھ کے اور پھر نام نہاد بڑوں کے اس پہ اس طرح کے بیان سن سن کے جس کی شاید ان کو بھی سمجھ نہیں یا پھر ممکن ہے وہ بھی کسی مزید طاقتور طبقے کو ہی خوش کر رہے ہوں۔۔۔
افسوسناک صورتحال ہے سب سے زیادہ افسوس تو جب ہوتا ہے
جب نام نہاد بڑے صرف بیانات کی حد تک محدود ہیں اُنُمیں اہلِ اقتدار خواتین اور مر د دونوں شامل ہیں
امتیازی رویے برتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے پاکستان آخری نمبروں پر ہے ۔یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے۔
 
فہیم بھائی اس دھاگے میں فقط ہنسنا نہیں ہوتا بلکہ مقابلے میں ٹھنڈی جگت لگانی ہوتی ہے۔
اگر ٹھنڈی جگت کے بارے میں مزید جانکاری چاہیے ہو تو یہ وہ والی جگت ہے جس میں لگانے والے اور لگنے والے دونوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اس پہ ہنسی نہیں آنی، اور دونوں بالکل نہیں ہنستے، نہ ہی ایک دوسرے کا دل رکھتے ہیں۔ اور جیسے ہی اس سلسلہ کلام میں کسی کو ہنسی آ گئی، وہ کھیل کے میدان سے آؤٹ ہو کے بیک ٹو پیویلئین وغیرہ!!
 
عندلیب اپیا آپ کا ذکر ہورہا ہے۔

اور دوسرا مصرع کچھ یوں ہوجائے!
تو آکر بریانی پکا، میں بناؤں دہی پھلکی
واہ واہ۔۔۔مکرر مکرر۔
اور آپ لوگ تھوڑا زیادہ بنا لینا، کچھ مہمان اور اسی لڑی میں آنے والے ہیں۔ تب تک میں شعروں کا ایک اور ٹانکہ لگاؤں!!

آ عندلیب کھولیں مل کے بوہے باریاں
تو ہائے گھٹا پکار میں چلاؤں ہائے مٹئ

(نیزاس شعر میں شاعر نے ڈسٹنگ کرنے کی ٹھانی ہے!)
 

یاز

محفلین
اس لڑی کو کل پرسوں تک کے لئے فریز کرنا پڑے گا کہ فی الحال ٹھنڈ بہت
1000031795.jpg
 
Top