مزاحیہ غزل : ''شگفتہ' شبانہ یا شہناز دینا'' از نوید ظفرکیانی

شگفتہ' شبانہ یا شہناز دینا
مرے کورے جیون کو رنگساز دینا


اے بیگم میں پہلے ہی تھلے لگا ہوں
عبث ہے ترا رعبِ ان لاز دینا


کوئی پوچھتا ہے قیامت کی بابت
ذرا اپنے بچے کو آواز دینا


عدو پر بڑی ''دیدے افزائیاں'' ہیں
اِدھر کو بھی دیدہء غماز دینا


مری ''دُڑکیاں'' دیکھنے والی ہوں گی
کہیں دور سے مجھ کو آواز دینا


کرادے گا سارے محلے میں رسوا
پڑوسن کو گھر کا کوئی راز دینا


مقدر کی فیاضیاں توبہ توبہ
جو در مجھ کو دینا وہی باز دینا


کٹی عمر ذکرِ پری زاد کرتے
پر اب شاعری کو کوئی کاز دینا

نویدظفرکیانی
 

الف عین

لائبریرین
دلچسپ، اگرچہ کئی الفاظ میری سمجھ میں نہیں آ سکے۔
اصلاح سخن میں ہوتی تو رنگساز کے گاف کے اسقاط اور ’دیدائے‘ تلفظ کی غلطی کی طرف متوجہ کرتا
 
Top