فرخ منظور
لائبریرین
مزاحمتی تحریکیں اور ان کے سماج پر اثرات – تحریر: ڈاکٹر مبارک علی
تاریخ کے ہر دور میں مزاحمتی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں ۔ ان میں سے کچھ کامیاب ہوئی اور اکثر ناکام ، مگر اس کے باوجود لوگوں میں مزاحمت کے جذبات کم نہیں ہوئے ۔ اس لیے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر لوگ کیوں مزاحمت کرتے رہے ہیں، اور ناکامیوں و شکستوں کے باوجود یہ تحریکیں کیوں پیدا ہوتی رہی ہیں؟ اس کی وجہ ایک تو انسان کی فطرت ہے کہ وہ ظلم و استحصال کو ایک خاص حد تک برداشت کرتا ہے اور جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو وہ اس نظام، روایت اور قدروں سے بغاوت کرتا ہے جو کہ اس کی راہ میں حائل ہوتے ہیں ۔
مزاحمتی تحریکوں کے مقاصد: مزاحمتی تحریکوں میں ہم کئی مقاصد کارفرما دیکھتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تحریکیں ظلم و استحصال کے خاتمہ ، انصاف و مساوات اور عام لوگوں کی خوشحالی اور حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہیں ۔ یہ سماج کے پورے نظام کو تبدیل کرکے اس کی جگہ ایسا متبادل نظام لانے کی خواہشمند ہوتی ہے کہ جس میں طبقاتی فرق یا تو کم ہوجائیں یا پھر ختم ہوجائیں اور عام آدمی کو اس کے حقوق مل سکیں ۔ کچھ مزاحمتی تحریکیں اشرافیہ کے خلاف ہوتی ہیں اور اس کی جگہ بورژوا یا متوسط طبقے کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرتی ہیں ۔ ان کے منشور میں عام لوگوں کے لیے زیادہ جگہ نہیں ہوتی ۔ وہ ایک استحصالی نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ دوسرا استحصالی نظام لانا چاہتے ہیں ۔ کچھ مزاحمتی تحریکیں فرد اور اس کے ذاتی مفادات تک محدود رہتے ہیں ۔ ان ہی میں سے چند ایسی مزاحمتی تحریکیں بھی رہی ہیں کہ جو ماضی کے گمشدہ سنہری دور کو واپس لانا چاہتی تھیں ، اور جو کسی مہدی یا نجات دہندے کی آمد پر تحریک کا آغاز کرکے جدوجہد کرتی تھیں کہ ایک مثالی معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ لہذا مزاحمتی تحریکوں میں ہمیں کئی مقاصد پنہاں نظر آتے ہیں مگر ایک چیز جو ان سب میں مشترک رہی ہے وہ یہ کہ یہ سماج کو تبدیل کیا جائے اور فرسودہ نظام کی جگہ ایک نئے اور توانا نظام کو نافذ کیا جائے۔ مزاحمتی تحریکیں اور ان کی اقسام: مزاحمتی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں ، ایک وہ جو مسلح جدوجہد اور تشدد کے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ دوسری وہ جو جمہوری اور دستوری طریقے سے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی کوشش کرتی ہے ۔ مسلح مزاحمت اس وقت ہوتی ہے جب گفت و شنید کے تمام دروازے بند کردیے جائے اور ریاست کا جبر اس قدر بڑھ جائے کہ مسلح جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہ رہے ۔ یہ صورتحال بادشاہت ،اور آمرانہ دور حکومت میں ہوتی ہے۔کیونکہ اس میں تمام اختیارات سمٹ کر فرد واحد کے پاس آجاتے ہیں جو کسی تنقید اور مخالفت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے مطالبات کو تسلیم کروانے یا حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے مفادات اور مسلح جدوجہد کے علاوہ اور کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہتی ہے ۔یہی صورتحال اس وقت پیش آتی ہے جب کسی ملک پر حملہ کرکے کوئی دوسرا طاقت ور ملک قابض ہوجائے ، لہذا اس قبضہ کے خلاف مسلح مزاحمتی تحریک اٹھتی ہے ۔ جو حملہ آوروں اور قابض طاقتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ قابض طاقتوں کے خلاف اس قسم کی مزاحمتی تحریکیں تاریخ کے ہر دور میں رہی ہیں ۔ بادشاہت کے زمانہ میں مزاحمتی تحریکوں کو بغاوت سے موسوم کیا جاتا تھا۔ بادشاہ باغیوں کو اپنا مجرم سمجھتا تھا اور یہ لوگ سخت سزائوں کے مستحق سمجھے جاتے تھے ۔ انہیں سبق آموز سزائیں دی جاتی تھیں ، ان کے جسم کے اعضا کاٹے جاتے تھے ۔ زندہ آگ میں جلایا جاتا تھا۔ ہاتھی کے پیروں تلے کچلہ جاتا تھا اور سرعام پھانسی دی جاتی تھی تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور آئندہ بغاوت کی جرت نہ کریں ۔ لیکن ان سخت سزائوں کے باوجود لوگ ظلم اور جبر کے خلاف برابر مزاحمت کرتے رہے اور خاموش ہوکر نہیں بیٹھے ۔ مزاحمی تحریکیوں میں اس وقت ایک تبدیلی آئی جب جمہوری ادارے اور روایات کو فروغ ہوا۔ دستور اور قانون میں اس کی گنجائش پیدا ہوئی کہ لوگ اپنے حقوق کے لیے پرامن مزاحمت کرسکیں ۔ لہذا اب مطالبات کو تسلیم کروانے کے لیے مظاہرے ، ایجی ٹیشن ، جلسے جلوس اور تحریر و تقریر کے ذریعہ اہل اقتدار پر دبائو ڈالا جانے لگا۔ اگر ریاست پرامن طریقوں اور ذرائع سے لوگوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی تو اس صورت میں پُر امن تحریکیں بھی تشدد کا راستہ اختیار کرلیتی تھیں۔
مزاحمت کرنے والے : جن طبقات نے مزاحمتی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں خاص طور سے کسان شامل ہیں ۔ انہوں نے حکمرانوں اور جاگیرداروں کے خلاف مسلسل مزاحمت کی کیونکہ یہ ان کے ستائے ہوئے تھے جو ان سے ان کی پیداوار بھی ہتھیا لیتے تھے اور ان پر بھاری ٹیکس اور جرمانے بھی عائد کرتے تھے ۔ اگرچہ ان کے ہتھیار بمقابلہ اپنے مخالفین کمتر ہوتے تھے ۔ مگر اس کے باوجود تربیت یافتہ اور مسلح افواج سے مقابلہ کرتے تھے ۔ دوسرا طبقہ غلاموں کا تھا ۔ اگرچہ یہ بے انتہا مجبور اور بے بس ہوا کرتے تھے ، مگر ایک وقت وہ آتا تھا کہ اپنے آقائوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ غلاموں کی بغاوتوں نے بڑی سلطنتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مزدوروں کی مزاحمتی تحریکیں خاص طور پر صنعتی انقلاب کے بعد ابھریں جب فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے متحد ہوئے اور اپنے حالات کی بہتری کے لیے آواز اٹھائی ۔ ان کے دستکار، ہنر مند اور شہر کے غریب لوگ بھی وقتا، فوقتاً حکمرانوں کے خلاف تحریکیں چلاتے رہے ہیں ۔ جب بھی کھانے پینے کی اشیائ مہنگی ہوئیں اور امن و امان کی صورتحال بگھڑی تو اس صورت میں یہ مزاحمتی تحریکیں اچانک اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں اور گلی کوچوں اور شاہراہوں پر لوگ جمع ہوکر احتجاج کرتے تھے ۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئی تو ان کے رہنمائوں کو اس کا پورا اندازہ تھا کہ ان کے مخالف ان سے زیادہ طاقتور اور منظم ہیں ۔ ان کے پاس ان کے مقابلہ میں زیادہ اسلحہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ مزاحمت کرنے پر تیار رہتے تھے۔ ان کے پاس مقصد کے حصول کا جذبہ تھا جو انہیں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رکھتا تھا۔ انہیں اس بات کا بھی احساس رہتا تھا کہ وہ ریاست اور اس کے اداروں سے جنگ ہار جائیں گے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ مزاحمتی تحریکوں کے ذریعہ ظلم و نا انصافی کو لوگوں کے سامنے لاتے تھے اور ان میں تبدیلی کی خواہش کو پیدا کرتے تھے ۔ اس طرح ان کی شکست ان کی فتح ہوتی تھی۔ ان تمام مزاحمتی تحریکوں کی ایک خاص بات رہی کہ مزاحمت کرنے والے کسی خاص مقصد کے لیے جب آواز اٹھاتے تو اس ان میں اتحاد و یکانگت کے جذبات پیدا ہوجاتے تھے ۔ یہی اتحاد و یکجہتی تحریک کا سب سے موثر ہتھیار تھا جو انہیں مزاحمت پر آمادہ کرتا تھا اور وہ مقصد کے حصول کے لیے جان دینے پر تیار ہوجاتے تھے۔ تاریخ اور مزاحمتی تحریکیں: تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ روایتی مورخوں نے مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ منفی ہے ۔ وہ ان تحریکوں کو ملک و قوم دشمن قرار دیتے ہیں جو سماج کے استحکام کو کمزور کرتی ہیں انتشار اور بے چینی کا باعث بنتی ہیں ۔ تاریخ کے اس پروپیگنڈے کی وجہ سے مزاحمتی تحریکوں کے مقاصد اور ان کے سماج پر اثرات لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور یہ تحریکیں تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوگئیں۔ موجودہ دور میں مورخوں کی ایک جماعت کوشش کررہی ہے کہ تاریخ کو روایتی مورخوں کے چنگل سے نکال کر اس کی از سر نو تشکیل کریں۔ اس سلسلہ میں مزاحمتی تحریکیں ان کا اہم موضوع ہیں ۔ وہ ان تحریکوں کی تاریخ کو ماضی سے نکال کرنئے سرے سے ان کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ ان تحریکوں کے راہنمائوں کی شخصیتوں کو منظر عام پر لارہے ہیں کہ جنہوں نے تحریکوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جانیں دیں اور اپنے خون سے انہیں زندہ رکھا۔ وہ ان تحریکوں کے سماج پر اثرات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی انقلابی اور کبھی خاموشی سے معاشرہ پر اثرات ڈالے اور تبدیلی کی راہیں ہموار کیں۔
کولونیل دور کی مزاحمتی تحریکیں: یوں تو مزاحمتی تحریکیں عہد وسطی کے ہندوستان میں بھی تھیں۔ مگر انگریزی اقتدار کے بعد ہندوستان میں جو سیاسی ، معاشی اور سماجی تبدیلیاں آئیں ان کی وجہ سے کسانوں ، سنیاسیوں اور ادی واسیوں نے کی کئی تحریکیں اٹھیں ۔ کسانون کی تحریکوں کے پس منظر میں انگریزوں کا نیاریونیو سسٹم تھا ۔ جس میں کسانوں پر اس قدر مالی بوجھ پڑا کہ انہوں نے اس کے خلاف بار بار بغاوتیں کی ۔ بنگال میں جب سترہ سو پینسٹھ تا پندرہ سو ترانوے کے درمیان حکومت نے نئے نئے زرعی ٹیکس لگائے تو اس کے نتیجہ میں بنگال اور بہار میں کسانوں اور سنیاسیوں نے مل کر بغاوت کی ۔ وارن ہنگز گورنر جنرل نے ان بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا۔ ہندوستان میں اٹھارہ سو سات سے اٹھارہ سو ننانوے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ادی واسیوں نے مزاحمتی تحریکیں شروع کیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ادی واسی جنگلوں میں رہتے تھے جہاں وہ درختوں اور جڑی بوٹیوں کے استعمال میں صدیوں سے آزاد تھے ۔ ان کے ہاں نجی جائیداد کا تصور نہ تھا۔ مشترکہ کھتی باڑی کرتے تھے اور جنگلات کی پیداوار سے دست کاری کی کئی طرح کے خبصورت چیزیں بناتے تھے ۔ اب تک کسی حکمران نے ان سے نہ تو ریونیو وصول کیا تھا اور نہ ہی ان پر ٹیکس لگایا تھا۔ جب انگریز حکومت نے جنگلات اور اس کے زمینوں کو نجی ملکیت قرار دے دیا تو اب ان پر ریونیو کا اطلاق بھی ہونے لگا اور کئی طرح کے ٹیکس بھی ان پر لگائے جانے لگے ۔ اٹھارہ سو تیس میں ایک قانون کے ذریعے جنگلات کی لکڑی حکومت کی ملکیت ہوگئی ۔ لہذا اس نئے بندوبست نے جو مسائل ییدا کئے اس کے نتیجہ میں انہوں نے مزاحمت کی ، جسے حکومت ، ساہو کار اور جاگیرداروں نے مل کر ہمیشہ کے لیے دبا دیا۔ ادی واسیوں کے علاوہ اٹھارہ سوتیس سے اٹھارہ سو انسٹھ میں بنگال میں نئیل کاشت کرنے والے کسانوں نے مزاحمتی تحریکیں چلائیں ۔ بنگال میں قبضہ کے بعد انگریزی حکومت نے افیم پٹ سن اور نیل کی کاشت کو فروغ دیا۔ کسانوں کو قانوناً پابند کیا گیا کہ وہ اپنی ساری فصل مل کے مالکان کو دے دیا کریں ۔ افیم کی تجارت پر حکومت کی اجارہ داری تھی ۔ نیل کاشت کرنے والے کسان ، کوئی اور فصل پیدا نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ کاشت کار مختلف ٹیکسوں اور زمینداروں اور مل مالکان کے جبر کے ہاتھوں انتہائی غربت اور مفلسی کا شکار رہتے تھے ۔ اس ظلم کے خلاف انہوں نے مسلسل آواز اٹھائی ۔ مگر حکومت کی طاقت کے آگے ان کی تحریکیں ناکام ہوئیں۔ اگرچہ یہ تحریکیں کچل دی گئیں مگر انہوں نے کسانوں میں شعور کو پیدا کیا، جس کا اندازہ اٹھارہ سو تیس میں اس اعلان میں ہوتا ہے کہ خدا نے یہ زمین سب کے لیے بنائی ہے ، اس کا کرایہ وصول کرنا اس کے اصول کے خلاف ہے ۔ کولونیل دور کی اہم مزاحمتی تحریکوں میں مویلائوں کی تحریکیں بہت اہم ہیں ۔ موپلا مالا بار کے مسلمان تھے کہ مقامی آبادی کا بتیس فیصد ہے ۔ ان کی مادری زبان زمین ملیالم تھی اور پیشہ کے اعتبار سے یہ کاشت کار تھے ۔ ان کے علاقے پر حید علی اور ٹیپو سلطان کا قبضہ رہا تھا۔ جس دوران ان کی معاشی حالت بہتر ہوئی تھی اور انہوں نے خود کو ہندو زمینداروں کے استحصال سے آزاد کرایا۔ ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں یہ زمیندار اپنی زمینیں چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے ۔ سترہ سو ننانوے میں ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد یہ ہندو زمیندار سے واپس آگئے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ان کی مدد کی اور ان کی چھوڑی ہوئی زمینوں پر قبضہ کرایا۔ اس کے خلاف موپلا کسانوں نے اٹھارہ سو اور اٹھارہ سو دو میں بغاوت کی ۔ لہذا ان کی مزاحمت کمپنی کی حکومت اور ہندو زمینداروں کے خلاف تھی ۔ کمپنی کی حکومت نے موپلائوں کو بدترین قوم کہا ، اس کے بعد ان کے لیے انتہا پسندوں کی اصطلاح استعمال ہونے لگی ۔ موپلائوں نے حکومت کے جبر اور زمینداروں کے خلاف بار بار مزاحمتی تحریکیں چلائیں ان میں اٹھارہ سو چھتیس اور اٹھارہ سو انہتر کی تحریکیں مشہور ہیں ۔ لیکن ان میں سب سے اہم تحریکیں انیس سو اکیس اور انیس سو بائیس کی تھیں ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان میں خلاف اور عدم تعاون کی تحریکیں جاری تھیں ۔ یہ مزاحمتی تحریکیں اس قدر طاقتور تھیں کہ برطانوی حکومت اس قدر ہل کر رہ گئی تھیں۔
مزاحمتی تحریکیں اور طبقات: اگر مزاحمتی تحریکوں کا تعلق خاص طبقات سے ہوتا ہے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے طبقاتی مفادات پورے ہونے کے بعد تحریک کو ختم کردیا جائے ۔ اس کی مثال مارٹن لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک تھی جس کی حمایت جرمن ریاستوں کے حکمرانوں نے کی جس کی وجہ سے پوپ اور کیتھولک چرچ کا مقابلہ کرسکی ۔ لیکن جب جرمنی کے کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے بغاوت کی تو لوتھر نے اس کی سخت مخالفت کی اور جرمنی کے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ اس تحریک کو سختی سے کچلا جائے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ وہی کچھ فرانس کے اٹھارہ سو اناسی کے انقلاب میں ہوا۔ جب بورژوا طبقے کے مفادات پورے ہوگئے تو انقلابی حکومت نے کسانوں اور عوام کی مزاحمتی تحریکوں کو سختی سے کچل دیا۔ حکمران طبقے نہیں چاہتے کہ ایک تحریک کی کامیابی دوسری مزاحمتی تحریکوں کو جنم دے ۔ اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ سلسلہ ایک کے بعد ختم ہوجائے ۔ اس لیے اگر تحریک بورژوا طبقہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس میں عوام کی شمولیت کی اجازت تو دیں مگر رہنمائی ان ہی کے پاس رہے ۔ تاکہ وہ جس طرح سے چاہیں تحریک کا رخ موڑ دیں ۔
مزاحمتی تحریک اور نظریات:۔ مزاحمتی تحریکوں کی بنیاد کسی نظریہ اور فکر پر ہوتی ہے ۔ ان کے پیش نظر کوئی منصوبہ ہوتا ہے کہ جس کی تکمیل ان کا مقصد ہوتا ہے ۔ اگر تحریک سامراجی طاقت کے خلاف ہوتی ہے تو اس کا مقصد ملک کی آزادی ہوتا ہے۔ اگر ریاست اور حکومت کے خلاف ہو تو اس کی پالیسیوں کو تبدیل کرنا اور ان کی جگہ کوئی اور متبادل نظام قائم کرنا ہو۔ لیکن اگر مزاحمتی تحریک کسی ایسے ایشو پر اپنی بنیاد رکھے جو سماج کو ترقی کی بجائے اور پسماندہ کردے تو اس صورت میں اس کے منفی نتائج ہوتے ہیں ۔مثلاً برصغیر ہندوستان میں خلافت تحریک اور اس کے ساتھ ہجرت تحریک ۔ دونوں مزاحمتی تحریکیں تھیں ، مگر ان تحریکوں کے راہنمائوں نے یہ نہیں سوچا کہ خلاف ایک فرسودہ نظام جو کہ ختم ہورہا تھا۔ اس کے احیا کے لیے جدوجہد کرنا اپنی توانائی ضائع کرنا تھا۔ اس طرح سے ہندوستان کو دار عرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنا ایک افسوسناک عمل تھا جس کا نقصان ہندوستان کے مسلمانوں کو اٹھانا پڑا، اور ان دونوں تحریکوں نے ان میں سیاسی شعور و آگہی پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں مزید گمراہ کردیا۔ اس لیے اگر مزاحمتی تحریکوں کا بہائو پس ماندہ خیالات و افکار پر ہوتی ہے تو اس کے نتائج بھی اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں موجودہ دور میں طالبان کی تحریک کی مثال دی جاسکتی ہے ۔ جو ایک طرف تو غیر ملکی قبضہ گیر کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں مگر دوسری طرف ان کا مقصد ایسے شرعی نظام کا نفاذ ہے جو ان کے پسماندہ ذہنوں کی پیداوار ہے ۔ ان کی مزاحمت نہ صرف جدیدیت بلکہ جمہوریت ، انسانی حقوق اور رواداری کے خلاف بھی ہے ۔
سماج پر اثرات:۔ مزاحمتی تحریکیں کامیاب ہوں یا ناکام ۔ ان کے سماج پر گہرے اثرات ہوتے ہیں ۔ اول یہ سماج کے جمود کو توڑ کر مایوسی کا خاتمہ کرتی ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب لوگ تبدیلی سے نا امید ہوجاتے ہیں ایسے ماحول میں یہ اس احساس کو دور کرتی ہیں۔ حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ یا ظلم و نا انصافی کی جڑیں اسی طرح سے سماج کے نظام میں پیوست رہیں گی ۔ مزاحمتی تحریکیں لوگوں میں حوصلہ ،جذبہ اور جوش پیدا کرتی ہیں ۔ ان کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مسائل جن کے بارے میں لوگوں کی معلومات یا تو کم ہوتی ہیں ۔ یا بالکل نہیں ہوتی تحریک کے ذریعہ وہ مسائل سامنے آتے ہیں ۔ لوگ ان کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں ۔ان مسائل کے حل کا شعور آتا ہے ۔ اس طرح تحریک عوام میں ایک نئی طاقت اور توانائی پیدا کردیتی ہے جو اس ریاست کے جب اور استحصال کے خلاف جدوجہد پر تیار کرتا ہے ۔ ہر مزاحمتی تحریک کسی نظیہ اور فلسفہ کی بنیاد پر ابھرتی ہے ۔ جیسے جیسے تحریک آگے بڑھتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ اور تجربہ کی روشنی میں اس کے خیالات و افکار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ اگر تحریک ناکام ہوجاتی ہے تو اس کی ناکامی پر غور و فکر کیا جاتا ہے ۔اس لیے بعض اوقات ناکامی کے نتیجہ میں ایک اور توانا تحریک جنم لیتی ہے ۔اس کے مثال ہمارے سامنے زار روس کی ہے کہ جہاں مزاحمتی تحریکوں کو بار بار سختی سے کچلا گیا، مگر ایک کے بعد ایک اور تحریک جنم لیتی رہی جو بالآخر روس کے انقلاب پر ختم ہوئی ۔ لیکن اس کا دارومدار سماج کے رویوں اور دانشوروں کے تازہ افکار و خیالات اور دانائوں کی ثابت قدمی پر ہوتا ہے ۔ جو تحریکوں کو ناکامیوں کے باوجود دید و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھاتے رہتے ہیں ۔ ایران مں بھی شاہ کے خلاف کئی مزاحمتی تحریکیں تھیں جو برابر اٹھتی رہیں ، مگر وہاں تبدیلی نے سماج کوآگے بڑھانے کی بجائے اور پس ماندہ بنا دیا۔ اور اس میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑوں کو گہرا کردیا۔ مزاحمتی تحریکوں کے نتیجہ میں ایشیا و افریقہ سے کولونیل ازم کا خاتمہ ہوا۔ ملک آزاد ہوئے اور آزادی کے بعد ان ملکوں میں جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہوئیں وہاں ایک مرتبہ پھر مزاحمتی تحریکوں کا آغاز ہوا جنہیں آزاد ملکوں کے اہل اقتدار نے سختی سے کچلا۔ مگر اس کے باوجود یہ تحریکیں بار بار ابھرتی ہیں ، اور عوام کی آزادی اور حقوق کے لیےبلند کرتی ہیں ۔ ہمارے سامنے برما کی مثال ہے ، کہ یہاں فوجی حکومت جمہوری اور آزادی کے جذبہ کو ختم نہیں کرسکی ۔ ایک ملک کی مزاحمتی تحریک ، دوسرے ملکوں کے لوگوں میں نہ صرف آگہی دستور پیدا کرتی ہے بلکہ ان میں جذبہ و جوش پیدا کرتی ہیں کہ وہ اپنے ملکوں میں آزادی کی جدوجہد کو شروع کریں ۔ آض کے دور میں یہ تحریکیں چاہے لاطینی امریکہ میں ہوں یا ایشیا و افریقہ میں ، یہ کچلے ہوئے اور پسے ہوئے عوام کو ایک نئی توانائی اور طاقت دیتی ہیں ۔ ماضی کی مزاحمتی تحریکیں تاریخ میں زنہ رہتی ہیں ۔ اور آنے والے نسلوں کے لیے ماڈل بن جاتی ہیں ، وہ انہیں تاریخ کے صفحات سے نکال کر حال میں لے آتی ہیں ، اور ان کی روشنی میں جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہیں ۔ وہ راہنما کے جنہوں نے تحریکوں کے لیے جانیں دی ایک بار پھر بطور ہیرو سامنے آتے ہیں ۔ اسپارٹیکس کہ جس نے سلطنت روم کے خلاف غلاموں کے بغاوت کی رہنمائی کی ۔ وہ انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستھر کی دہائیوں میں یورپ کی مزاحمتی تحریکوں کا ہیرو بن گیا۔ اور ان کے نام سے قائم تنظیم نے سماج میں انقلابی خیالات کا پرچار کیا۔ چے گویرا ، پوری دنیا میں انقلاب کی علامت کے طور پر ابھرا، آج بھی چے گویرا کا نام لوگوں میں جذبہ و جوش اور انقلاب کی لگن پیدا کرتا ہے ۔ بھگت سنگھ ایک دہشت گرد کی بجائے کولونیل تاریخ سے باہر آیا اور برصغیر کے لوگوں کے لیے باعث فخر ہوگیا۔ یہ راہنما اپنی تحریکوں کو، اپنے دور اور وقت میں تو کامیاب نہیں کرسکے ، مگر آج وہ دنیا بھر میں ہزار ہا لوگوں کے لیے انقلاب اور تبدیلی کی علامت ہیں ۔ مزاحمتی تحریکوں کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو مایوس نہیں ہونے دیتی بلکہ ان میں امید اور تبدیلی کی خواہش کو زندہ رکھتی ہے اور انہیں تبدیلی لانے کے لیے اتحاد و یکجہتی کا درس دیتی ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں مزاحمتی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں ۔ ان میں سے کچھ کامیاب ہوئی اور اکثر ناکام ، مگر اس کے باوجود لوگوں میں مزاحمت کے جذبات کم نہیں ہوئے ۔ اس لیے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آخر لوگ کیوں مزاحمت کرتے رہے ہیں، اور ناکامیوں و شکستوں کے باوجود یہ تحریکیں کیوں پیدا ہوتی رہی ہیں؟ اس کی وجہ ایک تو انسان کی فطرت ہے کہ وہ ظلم و استحصال کو ایک خاص حد تک برداشت کرتا ہے اور جب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو وہ اس نظام، روایت اور قدروں سے بغاوت کرتا ہے جو کہ اس کی راہ میں حائل ہوتے ہیں ۔
مزاحمتی تحریکوں کے مقاصد: مزاحمتی تحریکوں میں ہم کئی مقاصد کارفرما دیکھتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تحریکیں ظلم و استحصال کے خاتمہ ، انصاف و مساوات اور عام لوگوں کی خوشحالی اور حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہیں ۔ یہ سماج کے پورے نظام کو تبدیل کرکے اس کی جگہ ایسا متبادل نظام لانے کی خواہشمند ہوتی ہے کہ جس میں طبقاتی فرق یا تو کم ہوجائیں یا پھر ختم ہوجائیں اور عام آدمی کو اس کے حقوق مل سکیں ۔ کچھ مزاحمتی تحریکیں اشرافیہ کے خلاف ہوتی ہیں اور اس کی جگہ بورژوا یا متوسط طبقے کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرتی ہیں ۔ ان کے منشور میں عام لوگوں کے لیے زیادہ جگہ نہیں ہوتی ۔ وہ ایک استحصالی نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ دوسرا استحصالی نظام لانا چاہتے ہیں ۔ کچھ مزاحمتی تحریکیں فرد اور اس کے ذاتی مفادات تک محدود رہتے ہیں ۔ ان ہی میں سے چند ایسی مزاحمتی تحریکیں بھی رہی ہیں کہ جو ماضی کے گمشدہ سنہری دور کو واپس لانا چاہتی تھیں ، اور جو کسی مہدی یا نجات دہندے کی آمد پر تحریک کا آغاز کرکے جدوجہد کرتی تھیں کہ ایک مثالی معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ لہذا مزاحمتی تحریکوں میں ہمیں کئی مقاصد پنہاں نظر آتے ہیں مگر ایک چیز جو ان سب میں مشترک رہی ہے وہ یہ کہ یہ سماج کو تبدیل کیا جائے اور فرسودہ نظام کی جگہ ایک نئے اور توانا نظام کو نافذ کیا جائے۔ مزاحمتی تحریکیں اور ان کی اقسام: مزاحمتی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں ، ایک وہ جو مسلح جدوجہد اور تشدد کے ذریعہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ دوسری وہ جو جمہوری اور دستوری طریقے سے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی کوشش کرتی ہے ۔ مسلح مزاحمت اس وقت ہوتی ہے جب گفت و شنید کے تمام دروازے بند کردیے جائے اور ریاست کا جبر اس قدر بڑھ جائے کہ مسلح جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہ رہے ۔ یہ صورتحال بادشاہت ،اور آمرانہ دور حکومت میں ہوتی ہے۔کیونکہ اس میں تمام اختیارات سمٹ کر فرد واحد کے پاس آجاتے ہیں جو کسی تنقید اور مخالفت کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ اس لیے مطالبات کو تسلیم کروانے یا حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے مفادات اور مسلح جدوجہد کے علاوہ اور کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہتی ہے ۔یہی صورتحال اس وقت پیش آتی ہے جب کسی ملک پر حملہ کرکے کوئی دوسرا طاقت ور ملک قابض ہوجائے ، لہذا اس قبضہ کے خلاف مسلح مزاحمتی تحریک اٹھتی ہے ۔ جو حملہ آوروں اور قابض طاقتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ قابض طاقتوں کے خلاف اس قسم کی مزاحمتی تحریکیں تاریخ کے ہر دور میں رہی ہیں ۔ بادشاہت کے زمانہ میں مزاحمتی تحریکوں کو بغاوت سے موسوم کیا جاتا تھا۔ بادشاہ باغیوں کو اپنا مجرم سمجھتا تھا اور یہ لوگ سخت سزائوں کے مستحق سمجھے جاتے تھے ۔ انہیں سبق آموز سزائیں دی جاتی تھیں ، ان کے جسم کے اعضا کاٹے جاتے تھے ۔ زندہ آگ میں جلایا جاتا تھا۔ ہاتھی کے پیروں تلے کچلہ جاتا تھا اور سرعام پھانسی دی جاتی تھی تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور آئندہ بغاوت کی جرت نہ کریں ۔ لیکن ان سخت سزائوں کے باوجود لوگ ظلم اور جبر کے خلاف برابر مزاحمت کرتے رہے اور خاموش ہوکر نہیں بیٹھے ۔ مزاحمی تحریکیوں میں اس وقت ایک تبدیلی آئی جب جمہوری ادارے اور روایات کو فروغ ہوا۔ دستور اور قانون میں اس کی گنجائش پیدا ہوئی کہ لوگ اپنے حقوق کے لیے پرامن مزاحمت کرسکیں ۔ لہذا اب مطالبات کو تسلیم کروانے کے لیے مظاہرے ، ایجی ٹیشن ، جلسے جلوس اور تحریر و تقریر کے ذریعہ اہل اقتدار پر دبائو ڈالا جانے لگا۔ اگر ریاست پرامن طریقوں اور ذرائع سے لوگوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی تو اس صورت میں پُر امن تحریکیں بھی تشدد کا راستہ اختیار کرلیتی تھیں۔
مزاحمت کرنے والے : جن طبقات نے مزاحمتی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں خاص طور سے کسان شامل ہیں ۔ انہوں نے حکمرانوں اور جاگیرداروں کے خلاف مسلسل مزاحمت کی کیونکہ یہ ان کے ستائے ہوئے تھے جو ان سے ان کی پیداوار بھی ہتھیا لیتے تھے اور ان پر بھاری ٹیکس اور جرمانے بھی عائد کرتے تھے ۔ اگرچہ ان کے ہتھیار بمقابلہ اپنے مخالفین کمتر ہوتے تھے ۔ مگر اس کے باوجود تربیت یافتہ اور مسلح افواج سے مقابلہ کرتے تھے ۔ دوسرا طبقہ غلاموں کا تھا ۔ اگرچہ یہ بے انتہا مجبور اور بے بس ہوا کرتے تھے ، مگر ایک وقت وہ آتا تھا کہ اپنے آقائوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ غلاموں کی بغاوتوں نے بڑی سلطنتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مزدوروں کی مزاحمتی تحریکیں خاص طور پر صنعتی انقلاب کے بعد ابھریں جب فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے متحد ہوئے اور اپنے حالات کی بہتری کے لیے آواز اٹھائی ۔ ان کے دستکار، ہنر مند اور شہر کے غریب لوگ بھی وقتا، فوقتاً حکمرانوں کے خلاف تحریکیں چلاتے رہے ہیں ۔ جب بھی کھانے پینے کی اشیائ مہنگی ہوئیں اور امن و امان کی صورتحال بگھڑی تو اس صورت میں یہ مزاحمتی تحریکیں اچانک اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں اور گلی کوچوں اور شاہراہوں پر لوگ جمع ہوکر احتجاج کرتے تھے ۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جب مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئی تو ان کے رہنمائوں کو اس کا پورا اندازہ تھا کہ ان کے مخالف ان سے زیادہ طاقتور اور منظم ہیں ۔ ان کے پاس ان کے مقابلہ میں زیادہ اسلحہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ مزاحمت کرنے پر تیار رہتے تھے۔ ان کے پاس مقصد کے حصول کا جذبہ تھا جو انہیں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رکھتا تھا۔ انہیں اس بات کا بھی احساس رہتا تھا کہ وہ ریاست اور اس کے اداروں سے جنگ ہار جائیں گے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ مزاحمتی تحریکوں کے ذریعہ ظلم و نا انصافی کو لوگوں کے سامنے لاتے تھے اور ان میں تبدیلی کی خواہش کو پیدا کرتے تھے ۔ اس طرح ان کی شکست ان کی فتح ہوتی تھی۔ ان تمام مزاحمتی تحریکوں کی ایک خاص بات رہی کہ مزاحمت کرنے والے کسی خاص مقصد کے لیے جب آواز اٹھاتے تو اس ان میں اتحاد و یکانگت کے جذبات پیدا ہوجاتے تھے ۔ یہی اتحاد و یکجہتی تحریک کا سب سے موثر ہتھیار تھا جو انہیں مزاحمت پر آمادہ کرتا تھا اور وہ مقصد کے حصول کے لیے جان دینے پر تیار ہوجاتے تھے۔ تاریخ اور مزاحمتی تحریکیں: تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ روایتی مورخوں نے مزاحمتی تحریکوں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ منفی ہے ۔ وہ ان تحریکوں کو ملک و قوم دشمن قرار دیتے ہیں جو سماج کے استحکام کو کمزور کرتی ہیں انتشار اور بے چینی کا باعث بنتی ہیں ۔ تاریخ کے اس پروپیگنڈے کی وجہ سے مزاحمتی تحریکوں کے مقاصد اور ان کے سماج پر اثرات لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور یہ تحریکیں تاریخ کے اندھیروں میں گم ہوگئیں۔ موجودہ دور میں مورخوں کی ایک جماعت کوشش کررہی ہے کہ تاریخ کو روایتی مورخوں کے چنگل سے نکال کر اس کی از سر نو تشکیل کریں۔ اس سلسلہ میں مزاحمتی تحریکیں ان کا اہم موضوع ہیں ۔ وہ ان تحریکوں کی تاریخ کو ماضی سے نکال کرنئے سرے سے ان کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ ان تحریکوں کے راہنمائوں کی شخصیتوں کو منظر عام پر لارہے ہیں کہ جنہوں نے تحریکوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جانیں دیں اور اپنے خون سے انہیں زندہ رکھا۔ وہ ان تحریکوں کے سماج پر اثرات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی انقلابی اور کبھی خاموشی سے معاشرہ پر اثرات ڈالے اور تبدیلی کی راہیں ہموار کیں۔
کولونیل دور کی مزاحمتی تحریکیں: یوں تو مزاحمتی تحریکیں عہد وسطی کے ہندوستان میں بھی تھیں۔ مگر انگریزی اقتدار کے بعد ہندوستان میں جو سیاسی ، معاشی اور سماجی تبدیلیاں آئیں ان کی وجہ سے کسانوں ، سنیاسیوں اور ادی واسیوں نے کی کئی تحریکیں اٹھیں ۔ کسانون کی تحریکوں کے پس منظر میں انگریزوں کا نیاریونیو سسٹم تھا ۔ جس میں کسانوں پر اس قدر مالی بوجھ پڑا کہ انہوں نے اس کے خلاف بار بار بغاوتیں کی ۔ بنگال میں جب سترہ سو پینسٹھ تا پندرہ سو ترانوے کے درمیان حکومت نے نئے نئے زرعی ٹیکس لگائے تو اس کے نتیجہ میں بنگال اور بہار میں کسانوں اور سنیاسیوں نے مل کر بغاوت کی ۔ وارن ہنگز گورنر جنرل نے ان بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا۔ ہندوستان میں اٹھارہ سو سات سے اٹھارہ سو ننانوے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ادی واسیوں نے مزاحمتی تحریکیں شروع کیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ادی واسی جنگلوں میں رہتے تھے جہاں وہ درختوں اور جڑی بوٹیوں کے استعمال میں صدیوں سے آزاد تھے ۔ ان کے ہاں نجی جائیداد کا تصور نہ تھا۔ مشترکہ کھتی باڑی کرتے تھے اور جنگلات کی پیداوار سے دست کاری کی کئی طرح کے خبصورت چیزیں بناتے تھے ۔ اب تک کسی حکمران نے ان سے نہ تو ریونیو وصول کیا تھا اور نہ ہی ان پر ٹیکس لگایا تھا۔ جب انگریز حکومت نے جنگلات اور اس کے زمینوں کو نجی ملکیت قرار دے دیا تو اب ان پر ریونیو کا اطلاق بھی ہونے لگا اور کئی طرح کے ٹیکس بھی ان پر لگائے جانے لگے ۔ اٹھارہ سو تیس میں ایک قانون کے ذریعے جنگلات کی لکڑی حکومت کی ملکیت ہوگئی ۔ لہذا اس نئے بندوبست نے جو مسائل ییدا کئے اس کے نتیجہ میں انہوں نے مزاحمت کی ، جسے حکومت ، ساہو کار اور جاگیرداروں نے مل کر ہمیشہ کے لیے دبا دیا۔ ادی واسیوں کے علاوہ اٹھارہ سوتیس سے اٹھارہ سو انسٹھ میں بنگال میں نئیل کاشت کرنے والے کسانوں نے مزاحمتی تحریکیں چلائیں ۔ بنگال میں قبضہ کے بعد انگریزی حکومت نے افیم پٹ سن اور نیل کی کاشت کو فروغ دیا۔ کسانوں کو قانوناً پابند کیا گیا کہ وہ اپنی ساری فصل مل کے مالکان کو دے دیا کریں ۔ افیم کی تجارت پر حکومت کی اجارہ داری تھی ۔ نیل کاشت کرنے والے کسان ، کوئی اور فصل پیدا نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ کاشت کار مختلف ٹیکسوں اور زمینداروں اور مل مالکان کے جبر کے ہاتھوں انتہائی غربت اور مفلسی کا شکار رہتے تھے ۔ اس ظلم کے خلاف انہوں نے مسلسل آواز اٹھائی ۔ مگر حکومت کی طاقت کے آگے ان کی تحریکیں ناکام ہوئیں۔ اگرچہ یہ تحریکیں کچل دی گئیں مگر انہوں نے کسانوں میں شعور کو پیدا کیا، جس کا اندازہ اٹھارہ سو تیس میں اس اعلان میں ہوتا ہے کہ خدا نے یہ زمین سب کے لیے بنائی ہے ، اس کا کرایہ وصول کرنا اس کے اصول کے خلاف ہے ۔ کولونیل دور کی اہم مزاحمتی تحریکوں میں مویلائوں کی تحریکیں بہت اہم ہیں ۔ موپلا مالا بار کے مسلمان تھے کہ مقامی آبادی کا بتیس فیصد ہے ۔ ان کی مادری زبان زمین ملیالم تھی اور پیشہ کے اعتبار سے یہ کاشت کار تھے ۔ ان کے علاقے پر حید علی اور ٹیپو سلطان کا قبضہ رہا تھا۔ جس دوران ان کی معاشی حالت بہتر ہوئی تھی اور انہوں نے خود کو ہندو زمینداروں کے استحصال سے آزاد کرایا۔ ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں یہ زمیندار اپنی زمینیں چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے ۔ سترہ سو ننانوے میں ٹیپو سلطان کی شکست کے بعد یہ ہندو زمیندار سے واپس آگئے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ان کی مدد کی اور ان کی چھوڑی ہوئی زمینوں پر قبضہ کرایا۔ اس کے خلاف موپلا کسانوں نے اٹھارہ سو اور اٹھارہ سو دو میں بغاوت کی ۔ لہذا ان کی مزاحمت کمپنی کی حکومت اور ہندو زمینداروں کے خلاف تھی ۔ کمپنی کی حکومت نے موپلائوں کو بدترین قوم کہا ، اس کے بعد ان کے لیے انتہا پسندوں کی اصطلاح استعمال ہونے لگی ۔ موپلائوں نے حکومت کے جبر اور زمینداروں کے خلاف بار بار مزاحمتی تحریکیں چلائیں ان میں اٹھارہ سو چھتیس اور اٹھارہ سو انہتر کی تحریکیں مشہور ہیں ۔ لیکن ان میں سب سے اہم تحریکیں انیس سو اکیس اور انیس سو بائیس کی تھیں ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان میں خلاف اور عدم تعاون کی تحریکیں جاری تھیں ۔ یہ مزاحمتی تحریکیں اس قدر طاقتور تھیں کہ برطانوی حکومت اس قدر ہل کر رہ گئی تھیں۔
مزاحمتی تحریکیں اور طبقات: اگر مزاحمتی تحریکوں کا تعلق خاص طبقات سے ہوتا ہے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے طبقاتی مفادات پورے ہونے کے بعد تحریک کو ختم کردیا جائے ۔ اس کی مثال مارٹن لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک تھی جس کی حمایت جرمن ریاستوں کے حکمرانوں نے کی جس کی وجہ سے پوپ اور کیتھولک چرچ کا مقابلہ کرسکی ۔ لیکن جب جرمنی کے کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے بغاوت کی تو لوتھر نے اس کی سخت مخالفت کی اور جرمنی کے حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ اس تحریک کو سختی سے کچلا جائے کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ وہی کچھ فرانس کے اٹھارہ سو اناسی کے انقلاب میں ہوا۔ جب بورژوا طبقے کے مفادات پورے ہوگئے تو انقلابی حکومت نے کسانوں اور عوام کی مزاحمتی تحریکوں کو سختی سے کچل دیا۔ حکمران طبقے نہیں چاہتے کہ ایک تحریک کی کامیابی دوسری مزاحمتی تحریکوں کو جنم دے ۔ اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ سلسلہ ایک کے بعد ختم ہوجائے ۔ اس لیے اگر تحریک بورژوا طبقہ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس میں عوام کی شمولیت کی اجازت تو دیں مگر رہنمائی ان ہی کے پاس رہے ۔ تاکہ وہ جس طرح سے چاہیں تحریک کا رخ موڑ دیں ۔
مزاحمتی تحریک اور نظریات:۔ مزاحمتی تحریکوں کی بنیاد کسی نظریہ اور فکر پر ہوتی ہے ۔ ان کے پیش نظر کوئی منصوبہ ہوتا ہے کہ جس کی تکمیل ان کا مقصد ہوتا ہے ۔ اگر تحریک سامراجی طاقت کے خلاف ہوتی ہے تو اس کا مقصد ملک کی آزادی ہوتا ہے۔ اگر ریاست اور حکومت کے خلاف ہو تو اس کی پالیسیوں کو تبدیل کرنا اور ان کی جگہ کوئی اور متبادل نظام قائم کرنا ہو۔ لیکن اگر مزاحمتی تحریک کسی ایسے ایشو پر اپنی بنیاد رکھے جو سماج کو ترقی کی بجائے اور پسماندہ کردے تو اس صورت میں اس کے منفی نتائج ہوتے ہیں ۔مثلاً برصغیر ہندوستان میں خلافت تحریک اور اس کے ساتھ ہجرت تحریک ۔ دونوں مزاحمتی تحریکیں تھیں ، مگر ان تحریکوں کے راہنمائوں نے یہ نہیں سوچا کہ خلاف ایک فرسودہ نظام جو کہ ختم ہورہا تھا۔ اس کے احیا کے لیے جدوجہد کرنا اپنی توانائی ضائع کرنا تھا۔ اس طرح سے ہندوستان کو دار عرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنا ایک افسوسناک عمل تھا جس کا نقصان ہندوستان کے مسلمانوں کو اٹھانا پڑا، اور ان دونوں تحریکوں نے ان میں سیاسی شعور و آگہی پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں مزید گمراہ کردیا۔ اس لیے اگر مزاحمتی تحریکوں کا بہائو پس ماندہ خیالات و افکار پر ہوتی ہے تو اس کے نتائج بھی اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں موجودہ دور میں طالبان کی تحریک کی مثال دی جاسکتی ہے ۔ جو ایک طرف تو غیر ملکی قبضہ گیر کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں مگر دوسری طرف ان کا مقصد ایسے شرعی نظام کا نفاذ ہے جو ان کے پسماندہ ذہنوں کی پیداوار ہے ۔ ان کی مزاحمت نہ صرف جدیدیت بلکہ جمہوریت ، انسانی حقوق اور رواداری کے خلاف بھی ہے ۔
سماج پر اثرات:۔ مزاحمتی تحریکیں کامیاب ہوں یا ناکام ۔ ان کے سماج پر گہرے اثرات ہوتے ہیں ۔ اول یہ سماج کے جمود کو توڑ کر مایوسی کا خاتمہ کرتی ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب لوگ تبدیلی سے نا امید ہوجاتے ہیں ایسے ماحول میں یہ اس احساس کو دور کرتی ہیں۔ حالات کبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ یا ظلم و نا انصافی کی جڑیں اسی طرح سے سماج کے نظام میں پیوست رہیں گی ۔ مزاحمتی تحریکیں لوگوں میں حوصلہ ،جذبہ اور جوش پیدا کرتی ہیں ۔ ان کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مسائل جن کے بارے میں لوگوں کی معلومات یا تو کم ہوتی ہیں ۔ یا بالکل نہیں ہوتی تحریک کے ذریعہ وہ مسائل سامنے آتے ہیں ۔ لوگ ان کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں ۔ان مسائل کے حل کا شعور آتا ہے ۔ اس طرح تحریک عوام میں ایک نئی طاقت اور توانائی پیدا کردیتی ہے جو اس ریاست کے جب اور استحصال کے خلاف جدوجہد پر تیار کرتا ہے ۔ ہر مزاحمتی تحریک کسی نظیہ اور فلسفہ کی بنیاد پر ابھرتی ہے ۔ جیسے جیسے تحریک آگے بڑھتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ اور تجربہ کی روشنی میں اس کے خیالات و افکار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ اگر تحریک ناکام ہوجاتی ہے تو اس کی ناکامی پر غور و فکر کیا جاتا ہے ۔اس لیے بعض اوقات ناکامی کے نتیجہ میں ایک اور توانا تحریک جنم لیتی ہے ۔اس کے مثال ہمارے سامنے زار روس کی ہے کہ جہاں مزاحمتی تحریکوں کو بار بار سختی سے کچلا گیا، مگر ایک کے بعد ایک اور تحریک جنم لیتی رہی جو بالآخر روس کے انقلاب پر ختم ہوئی ۔ لیکن اس کا دارومدار سماج کے رویوں اور دانشوروں کے تازہ افکار و خیالات اور دانائوں کی ثابت قدمی پر ہوتا ہے ۔ جو تحریکوں کو ناکامیوں کے باوجود دید و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھاتے رہتے ہیں ۔ ایران مں بھی شاہ کے خلاف کئی مزاحمتی تحریکیں تھیں جو برابر اٹھتی رہیں ، مگر وہاں تبدیلی نے سماج کوآگے بڑھانے کی بجائے اور پس ماندہ بنا دیا۔ اور اس میں مذہبی انتہا پسندی کی جڑوں کو گہرا کردیا۔ مزاحمتی تحریکوں کے نتیجہ میں ایشیا و افریقہ سے کولونیل ازم کا خاتمہ ہوا۔ ملک آزاد ہوئے اور آزادی کے بعد ان ملکوں میں جہاں آمرانہ حکومتیں قائم ہوئیں وہاں ایک مرتبہ پھر مزاحمتی تحریکوں کا آغاز ہوا جنہیں آزاد ملکوں کے اہل اقتدار نے سختی سے کچلا۔ مگر اس کے باوجود یہ تحریکیں بار بار ابھرتی ہیں ، اور عوام کی آزادی اور حقوق کے لیےبلند کرتی ہیں ۔ ہمارے سامنے برما کی مثال ہے ، کہ یہاں فوجی حکومت جمہوری اور آزادی کے جذبہ کو ختم نہیں کرسکی ۔ ایک ملک کی مزاحمتی تحریک ، دوسرے ملکوں کے لوگوں میں نہ صرف آگہی دستور پیدا کرتی ہے بلکہ ان میں جذبہ و جوش پیدا کرتی ہیں کہ وہ اپنے ملکوں میں آزادی کی جدوجہد کو شروع کریں ۔ آض کے دور میں یہ تحریکیں چاہے لاطینی امریکہ میں ہوں یا ایشیا و افریقہ میں ، یہ کچلے ہوئے اور پسے ہوئے عوام کو ایک نئی توانائی اور طاقت دیتی ہیں ۔ ماضی کی مزاحمتی تحریکیں تاریخ میں زنہ رہتی ہیں ۔ اور آنے والے نسلوں کے لیے ماڈل بن جاتی ہیں ، وہ انہیں تاریخ کے صفحات سے نکال کر حال میں لے آتی ہیں ، اور ان کی روشنی میں جدوجہد کو آگے بڑھاتی ہیں ۔ وہ راہنما کے جنہوں نے تحریکوں کے لیے جانیں دی ایک بار پھر بطور ہیرو سامنے آتے ہیں ۔ اسپارٹیکس کہ جس نے سلطنت روم کے خلاف غلاموں کے بغاوت کی رہنمائی کی ۔ وہ انیس سو ساٹھ اور انیس سو ستھر کی دہائیوں میں یورپ کی مزاحمتی تحریکوں کا ہیرو بن گیا۔ اور ان کے نام سے قائم تنظیم نے سماج میں انقلابی خیالات کا پرچار کیا۔ چے گویرا ، پوری دنیا میں انقلاب کی علامت کے طور پر ابھرا، آج بھی چے گویرا کا نام لوگوں میں جذبہ و جوش اور انقلاب کی لگن پیدا کرتا ہے ۔ بھگت سنگھ ایک دہشت گرد کی بجائے کولونیل تاریخ سے باہر آیا اور برصغیر کے لوگوں کے لیے باعث فخر ہوگیا۔ یہ راہنما اپنی تحریکوں کو، اپنے دور اور وقت میں تو کامیاب نہیں کرسکے ، مگر آج وہ دنیا بھر میں ہزار ہا لوگوں کے لیے انقلاب اور تبدیلی کی علامت ہیں ۔ مزاحمتی تحریکوں کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ لوگوں کو مایوس نہیں ہونے دیتی بلکہ ان میں امید اور تبدیلی کی خواہش کو زندہ رکھتی ہے اور انہیں تبدیلی لانے کے لیے اتحاد و یکجہتی کا درس دیتی ہے۔