مروجہ نظام تعلیم...........دعوت فکر

یہ جمود کیسے ٹوٹے اور یہ تعفن کیسے دور ِہو؟

یہی تو المیہ ہے جناب فلک شیر صاحب۔ جیسا اقبال نے کہا ہے کہ:
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا​
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا​

میں نے کئی بار دوستوں کی توجہ طلب کی، کہ یارو! اپنے منصب کو پہچاننے کا کچھ سامان کرو۔ مگر بھائی، آج کی چکاچوند نے تو اہلِ فکر آنکھیں بھی چندھیا دی ہیں، من و تو کسی حساب میں ہی نہیں۔ یہاں علامہ صاحب، کہ:
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے​
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ​
وہ جو پنپنے کی بات تھی، کہ جھوٹے تفاخر سے بچو اور گروہوں میں نہ بٹو۔ ہم نے انہیں دو چیزوں کو اپنے لئے فخر اور پہچان بنا لیا۔ اس وقت سب بڑا روپیہ ہے، اس کے بعد:​
یوں تو مرزا بھی ہو سید بھی ہو افغان بھی ہو​
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟​
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں​
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں​
مزید پھر سہی!​
 
اللہ اکبر......کیا اجمال ہے..........تو محترم سیدِ من! اس حوالہ سے ڈور کو سلجھانے کا بیڑہ کس کو اٹھانا ہے؟ سیاسی جماعتوں کو یا کسی اور کو ؟ یا کسی معجزے کا انتظار کیا جائے؟
عملی قدم کیسے اٹھایا ِ جائے؟

بھائی جان ہمیں اور آپ کو
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
 
جناب محمدعلم اللہ اصلاحی صاحب، اور جناب فلک شیر صاحب!

قیادت ۔۔۔ کہاں سے آئے گی؟ قیادت کا سبق (1) کتاب اللہ میں ہے، (2) ارشاداتِ نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں ہے، (3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں ہے، (4) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ شاگردانِ رشید کے طرزِ جہاں بانی میں ہے ۔۔۔

ہم نے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر غیروں کی قدم بہ قدم پیروی کو خود پر لازم کر لیا، تو اِس کا حاصل یہی کچھ تو ہونا تھا! خود کردہ را علاجے نیست۔ آج میری آپ کی ترجیحات کچھ ایسی ہیں کہ ہم سرکاری اور اشتہاری مجلسوں اور لفافے والے مشاعروں کے لئے پچیس تیس میل دور جانے میں کوئی تساہل نہیں برتتے مگر نماز کے لئے اپنے محلے کی مسجد بھی ہمیں دور محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو ’’کماؤ‘‘ بنانے پر سولہ سال کا خرچہ برداشت کرتا ہوں مگر اسے کتاب اللہ کا علم منتقل کرنے کے لئے دو تین مہینے کا خرچہ بھی نہیں دے سکتا۔

اور جو کچھ تھوڑا بہت کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں، ان کا بھی یہ عالم ہے کہ:
ع: خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں​
ایک دو ملکوں کی بات نہیں، پورے گلوب پر بڑی تکلیف دِہ صورتِ حال ہے۔​
 
جناب محمدعلم اللہ اصلاحی صاحب، اور جناب فلک شیر صاحب!

قیادت ۔۔۔ کہاں سے آئے گی؟ قیادت کا سبق (1) کتاب اللہ میں ہے، (2) ارشاداتِ نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں ہے، (3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں ہے، (4) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ شاگردانِ رشید کے طرزِ جہاں بانی میں ہے ۔۔۔

ہم نے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر غیروں کی قدم بہ قدم پیروی کو خود پر لازم کر لیا، تو اِس کا حاصل یہی کچھ تو ہونا تھا! خود کردہ را علاجے نیست۔ آج میری آپ کی ترجیحات کچھ ایسی ہیں کہ ہم سرکاری اور اشتہاری مجلسوں اور لفافے والے مشاعروں کے لئے پچیس تیس میل دور جانے میں کوئی تساہل نہیں برتتے مگر نماز کے لئے اپنے محلے کی مسجد بھی ہمیں دور محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو ’’کماؤ‘‘ بنانے پر سولہ سال کا خرچہ برداشت کرتا ہوں مگر اسے کتاب اللہ کا علم منتقل کرنے کے لئے دو تین مہینے کا خرچہ بھی نہیں دے سکتا۔

اور جو کچھ تھوڑا بہت کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں، ان کا بھی یہ عالم ہے کہ:
ع: خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں​
ایک دو ملکوں کی بات نہیں، پورے گلوب پر بڑی تکلیف دِہ صورتِ حال ہے۔​

استاذ محترم پورا بدن زخمی ہے کس کس کا علاج کریں ۔بہت افسوس ناک صورتحال ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں ۔کدھر جائیں۔آپ کی باتیں صد فی صد درست ہیں ۔بس اللہ ہی سے دعا گو ہیں ۔خدا وند تو ہی مدد فرما ۔
 
اللہ کرے جناب محمدعلم اللہ اصلاحی صاحب۔

یہاں ایک بہت اہم بات ہے۔ وہ جو شعر آپ نے اوپر نقل کیا: ’’خدا نے آج تک ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ یہ قرآن شریف ایک آیت کا منظوم ترجمہ ہے۔ اللہ کریم کی سنت ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت کو تب تک نہیں بدلتا جب تک وہ (لوگ) خود کو نہ بدلیں۔
 
پورا بدن زخمی ہے کس کس کا علاج کریں ۔بہت افسوس ناک صورتحال ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں ۔کدھر جائیں۔​

یوں کہئے کہ ’’سمجھ میں نہیں آتا واپس کیسے آئیں‘‘۔
ہمیں چاہئے کہ اللہ کی کتاب کا مطالعہ کریں (محض تلاوت نہیں)، اور دیکھیں کہ ہم کہاں کہاں اس کے مطابق ہیں اور کہاں کہاں نہیں ہیں۔ جہاں اس کے مطابق ہیں وہاں اللہ کا شکر ادا کریں اور اس پر قائم رہیں۔ جہاں مطابق نہیں ہیں، وہاں خود کو بدلیں اور اس کے مطابق بننے کی سعی تو کریں! ارشادِ ربانی ہے: ’’انسان کے لئے وہی کچھ ہے، جس کی اس نے سعی کی‘‘۔
اللہ توفیق عطا فرمائے۔


@محمد علم اللہ اصلاحی
 
یوں کہئے کہ ’’سمجھ میں نہیں آتا واپس کیسے آئیں‘‘۔
ہمیں چاہئے کہ اللہ کی کتاب کا مطالعہ کریں (محض تلاوت نہیں)، اور دیکھیں کہ ہم کہاں کہاں اس کے مطابق ہیں اور کہاں کہاں نہیں ہیں۔ جہاں اس کے مطابق ہیں وہاں اللہ کا شکر ادا کریں اور اس پر قائم رہیں۔ جہاں مطابق نہیں ہیں، وہاں خود کو بدلیں اور اس کے مطابق بننے کی سعی تو کریں! ارشادِ ربانی ہے: ’’انسان کے لئے وہی کچھ ہے، جس کی اس نے سعی کی‘‘۔
اللہ توفیق عطا فرمائے۔


@محمد علم اللہ اصلاحی
بہت شکریہ استاذ محترم
 
عزیزہ مدیحہ گیلانی کی توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
آپ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ ایک نکتہ آپ کے لئے ۔۔۔
آپ کی شاگرد ہیں کوئی دو، چار، دس، بارہ، پندرہ ۔۔ وہ آپ کی بہت تعریفیں کرتی ہیں، آپ کی ہر بات پر ہر کام پر ہر چیز پر ہزار جان سے فدا ہوتی ہیں۔۔۔ مگر ۔۔۔ نوٹس، ہوم ورک، امتحان کی تیاری؟ وہ نہیں کرتیں کہ ہم میڈم کی اتنی تعریف جو کرتے رہے ہیں، پورا سمسٹر! ہمیں پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انہیں اس بات کہ پروا ہی نہیں کہ آپ نے کل کے لیکچر میں کیا کہا تھا۔
ایسی شاگردیں آپ کو کتنی عزیز ہوں گی؟

اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ ہمارا معاملہ ان شاگردوں جیسا ہی تو ہے!!!۔
 
بہت اچّھا مضمون ہے محترم فلک شیر صاحب !
دینی اور دنیوی تعلیم دونوں ہی ایک ساتھ بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے۔
برِّ صغیر میں (شاید) یہ طریقہ عجیب لگے، لیکن عرب ممالک میں یہ رائج ہے۔
کچھ دنوں پہلے مسجد میں ایک شخص سے میری ملاقات ہوئی تھی جو پیشے سے انجینئر تھا۔ وہ حالانکہ ہندوستانی شہری تھا لیکن اس کی پرورش مصر میں ہوئی تھی، اور عربی اس کی مادری زبان تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہاں (ہندوستان) میں تعلیمی نظام درست نہیں، یا تو آپ اسلام کی تعلیم لے سکتے ہیں یا پھر اکیڈمک۔ لیکن وہاں مصر میں ان کے سیلیبس میں دینی اور دنیوی دونوں تعلیم شامل ہوتی ہے۔

ایک اور واضح مثال ہے جسے آسانی سے ویریفائے بھی کیا جا سکتا ہے۔
Assim Al Hakeem
یہ شیخ الحمدُ للہ دین و دنیا دونوں میں کافی عمدہ کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی کمپنی میں HR & PR Director ہیں اور ساتھ ہی اسلام کی درس و تدریس بھی انجام دے رہے ہیں۔

یوسف-2 شمشاد
بھائی جان آپ نے بالکل درست فرمایا
موجودہ دور میں تبدیلی وجود کا لازمہ بن چکی ہے اس لئے حالات کے مطابق کچھ تبدیلیاں نا گزیر ہیں جن میں زبان اور مواد کے معاملہ میں اعتدال اور ان مضامین کو اہمیت دیا جانا شامل ہے جو کہ آج کی دنیا میں اقتصادی اور علمی حوالوں سے ضرورت بن گئے ہیں۔مدارس اسلامیہ کی تمام تر عظمتوں اور اخلاص کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ اب بھی طلبہ کو مدرسہ میں مکمل طور پر آزادانہ علمی و تحقیقی ماحول کما حقہ حاصل نہیں ہے،لہذا مدارس کے ذمہ داران کو بہر حال یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مدارس کے طلباءآئندہ دور میں پوری قوم کی قیادت کی ذمہ داری اٹھائیں گے اس لئے ان طلبا کو ہر قسم کی آزادیاں اساتذہ کی نگرانی میں دی جائیں ۔میں یہ نہیں کہتا کہ جدید فحش انقلاب کے دھارے میں طلباءکو ڈال کر چھوڑ دیا جائے بلکہ ان طلباءکو جدید معلومات و تکنک سے پوری طرح واقف کرانا اشد ضروری ہے ۔
 
عزیزہ مدیحہ گیلانی کی توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
آپ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ ایک نکتہ آپ کے لئے ۔۔۔
آپ کی شاگرد ہیں کوئی دو، چار، دس، بارہ، پندرہ ۔۔ وہ آپ کی بہت تعریفیں کرتی ہیں، آپ کی ہر بات پر ہر کام پر ہر چیز پر ہزار جان سے فدا ہوتی ہیں۔۔۔ مگر ۔۔۔ نوٹس، ہوم ورک، امتحان کی تیاری؟ وہ نہیں کرتیں کہ ہم میڈم کی اتنی تعریف جو کرتے رہے ہیں، پورا سمسٹر! ہمیں پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انہیں اس بات کہ پروا ہی نہیں کہ آپ نے کل کے لیکچر میں کیا کہا تھا۔
ایسی شاگردیں آپ کو کتنی عزیز ہوں گی؟

اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ ہمارا معاملہ ان شاگردوں جیسا ہی تو ہے!!!۔
سب سے پہلے تو آپ کا بہت شکریہ انکل کہ آپ نےایک فکر انگیز موضوع پر ہمیں اظہار خیال کی دعوت دی ۔۔ہم نے اس پرمغز مقالے کو پڑھا اور نہ صرف پڑھا بلکہ اس ضمن میں ہونے والے احباب کے تبصروں میں موجود اہم نکات کا بھی بغور مطالعہ کیا ۔۔۔اور ابھی تو یہ سلسلہ مزید چلے گا اور اسے جاری بھی رہنا چاہیئے تاکہ اس موضوع سے جڑی مزید گرہیں بھی کھل سکیں ۔۔ہمارے خیال میں تمہید بہت ہو گئی اب آتے ہیں آپکے سوال کی جانب ۔۔ استاد شاگرد کا معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ نے کہا ۔۔ ظاہر ہے اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ ہم استاد کیسے ہیں ؟اگر تو ویسے جیسے شاگرد ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمیں بھی وہ شاگرد عزیز ہوں گے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا صورتحال ہو سکتی ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جیسے استاد ہوں شاگرد بھی ویسے ہی ہوتے ہیں ۔۔کیونکہ استاد شاگرد کے دل اور دماغ کو ہی نہیں بلکہ انکے پورے وجود کو متاثر کرتے ہیں ۔۔مگر افسوس کہ فی زمانہ پروفیسر ،ٹیچر اور سبجیکٹ سپیشیلسٹ تو بہت ہیں مگر ''استاد'' بہت کم ہوتے ہیں ۔۔ہم سب اس بات سے بھی بخوبی آشنا ہیں کہ آجکل کے شاگرد استاد کی عزت انکے وقار کا خیال نہیں رکھتے لیکن ہمارا ایمان تو اس بات پر ہے جو صحیح معنوں میں استاد ہے اسکی عزت آج بھی ہوتی ہے ۔۔اور ہمیشہ ہوتی رہے گی ۔
 

شوکت پرویز

محفلین
عزیزہ مدیحہ گیلانی کی توجہ کے لئے ممنون ہوں۔
آپ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ ایک نکتہ آپ کے لئے ۔۔۔
آپ کی شاگرد ہیں کوئی دو، چار، دس، بارہ، پندرہ ۔۔ وہ آپ کی بہت تعریفیں کرتی ہیں، آپ کی ہر بات پر ہر کام پر ہر چیز پر ہزار جان سے فدا ہوتی ہیں۔۔۔ مگر ۔۔۔ نوٹس، ہوم ورک، امتحان کی تیاری؟ وہ نہیں کرتیں کہ ہم میڈم کی اتنی تعریف جو کرتے رہے ہیں، پورا سمسٹر! ہمیں پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ انہیں اس بات کہ پروا ہی نہیں کہ آپ نے کل کے لیکچر میں کیا کہا تھا۔
ایسی شاگردیں آپ کو کتنی عزیز ہوں گی؟

اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ ہمارا معاملہ ان شاگردوں جیسا ہی تو ہے!!!۔
ایک صحیح استاد کو ایسے شاگردان بالکل عزیز نہیں ہوں گے۔ اور اسی لئے اللہ (سبحانہُ و تعالٰی) اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھی ایسے شاگردان قطعی پسند نہیں ہوں گے جو زبانی طور پر تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعریف کریں لیکن عملی طور پر ان کی اتباع نہ کریں۔
کہہ دیجئے ! اگرتم اللہ تعالی کی محبت رکھتے ہوتومیری اتباع واطاعت کرو ، خود اللہ تعالی بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے- (سورۃ آل عمران، آیت 31)

محترمہ مدیحہ گیلانی صاحبہ
 

سید زبیر

محفلین
اقبال ؒدنیا بھر میں احترام انسانیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی سر بلندی کے آرزو مند تھے۔ احترامِ آدمیت اور عدل و انصاف کی اعلیٰ روایات کو بحال کرنے سے ہی دنیا بھر میں امن و سلامتی کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔​
علامہ ؒ کے مطابق جو ملت اْن شرائط کو پورا کر دے جو اس شعر میں بیان ہوئی ہیں وہی کامیاب ہوں گے​
سبق پھر پڑھ صداقت کا' عدالت کا' شجاعت کا​
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا​
اب دعا کریں کہ ملت اسلامیہ کو باپ ، اساتذہ اور رہبروں کی صورت میں ایسے معلم مل جائیں جو ایسے سبق پڑھا سکیں​
 

شوکت پرویز

محفلین
شکریہ شوکت صاحب!.........آپ کی دی گئی امثلہ نظر سے گزریں.........
لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ امت کو اس حوالے سے اجتماعی طور پہ جنگی بنیادوں پہ کام کرنے کی ضرورت ہے یا یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں .........اور اگر ہے تو آغاز کہاں سے ہو اور کیوں کر ہو؟
شکریہ فلک شیر صاحب!
یقینا جماعت میں جتنا اثر ہے اتنا واحد فرد میں نہیں۔
لیکن جب تک کوئی منظم صورت نہیں آتی، ہم ذاتی طور پر کچھ نہ کچھ (بلکہ کافی کچھ) کر ہی سکتے ہیں۔ جیسے:
  • بچہ کو قرآن پڑھنے کی تعلیم،
  • عربی زبان کی تعلیم،
  • مسنون دعائیں،
  • اخلاقی تعلیم،
  • نماز قائم کرنے کی تعلیم (کہ جہاں کہیں ہو وقت پر نماز پڑھ لو، اگر اس میں یہ عادت بچپن سے پڑ جائے گی تو اسے آفس میں مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھنے میں -ان شاء اللہ - کوئی دشواری اور جھجک نہیں ہو گی)
  • اس کے علاوہ ہم بچہ کی دینی ترقی کے لئے خرچ بھی کریں جیسا کہ اس کی دنیا کے لئے خرچ کرتے ہیں، مثلا اسے دینی کتابیں لا کر دیں، اسے پیسہ دے کر غریبوں کو دینے کے لئے کہیں، اسے اسلامی کھلونے لا کر دیں،
  • نیز ان سب چیزوں میں ویسی ہی پنکچوالٹی دکھائیں جو ہم دنیا داری میں دکھاتے ہیں
  • خود ان کے سامنے بہترین مثال قائم کریں، خود دنیا پر دین کو ترجیح دیں
  • روز مرّہ کی زندگی (گفتگو) میں قرآن و احادیث کے حوالہ جات لائیں، مثلا قرآن کی آیتوں اور احادیث کو بر محل پیش کرنے کی عادت (خود بھی ڈالیں اور بچوں کو بھی) ڈلوائیں
بچے الحمد للہ بہت ذہین ہوتے ہیں اور ان شاء اللہ وہ دین و دنیا دونوں آسانی سے "سنبھال" سکتے ہیں۔ ان پر یہ کوئی بوجھ نہیں ہوگا۔

ہم خود اپنی مثال دیکھیں۔ ہم نے بچپن میں اسکول میں کتنی غیر ضروری (یا کم از کم کم ضروری) مضامین سیکھیں ہیں جن کی شاید ہمیں کبھی ضرورت نہ پڑے۔
آپ جانتے ہیں کہ یہاں ہندوستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تقریبا ہر ریاست کی اپنی ایک الگ زبان ہے اور اس ریاست کے طلباء کو وہ زبان لازمی طور پر سیکھنی پڑتی ہے۔ اور انگریزی تو بائے ڈیفالٹ ہے ہی شامل۔ اب اگر وہ بچہ اردو سے پڑھے تو تین زبانیں تو ایسے ہی ہو گئیں (ریاستی، انگریزی، اور اردو) پھر بھی عام طور پر بچے یہ تین زبانیں سیکھ ہی لیتے ہیں اور ان پر کوئی اتنا اضافی بوجھ نہیں ہوتا۔
محمد یعقوب آسی مدیحہ گیلانی محمدعلم اللہ اصلاحی فارقلیط رحمانی الف عین

طوالت کے لئے معذرت:
 
ہمارے ساتھ اصل مسئلہ یہ پیش آیا ہے کہ ہم عملی اور فکری سطح پر ہدایت اور کامیابی کے اصل منبع قرآن و حدیث سے دور ہو چکے ہیں۔ ادھر جب کسی خرابی پر کوئی بات ہوتی ہے تو یار لوگ اسباب و علل کی طویل بحثوں میں پڑ جاتے ہیں اور کسی ایک شخص یا جماعت پر اس خرابی کی ذمہ داری ڈال کر خود فارغ ہو جاتے ہیں۔

اس کی مثال یوں لے لیجئے کہ ایک شخص کو دل کا مرض لاحق ہو گیا، اس کے ٹیسٹ ہوئے (ای سی جی، ایکو، انجیوگرافی، ای ٹی ٹی وغیرہ) اور بیماری کی تشخیص ہو گئی۔ بیماری ہوئی کیونکر؟ وہ زیادہ یا مرغن کھانوں کا عادی ہے، جسمانی مشقت کم کرتا ہے، تفکرات کا شکار ہے، نشہ کرتا ہے؛ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور بس! علاج کو ’’پھر سہی‘‘ پر ٹال دیا یا دوائی تو کھائی مگر پرہیز نہیں کیا، لائف سٹائل کو بدلنے کی سعی نہیں کی، یا کی تو بے دلی سے کی! بیماری جائے کیونکر؟

معاشرتی سطح پر یہ معاملہ (میں اس کو بے سمتی کا نام دیا کرتا ہوں) کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ خود ہمارے ایمان کی کمزوری ہے۔ ہم اللہ کا تصور رکھتے ہیں اُس پر یقین، اعتماد اور بھروسا عام طور پر مفقود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ہر ایک کو ہے مگر آپ کی سنت کا کسی کو پاس نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 
گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بہت چھوٹی سی مثال دوں گا جس میں کچھ کرنا کرانا بھی نہیں پڑتا، وہ ہے داڑھی رکھنا۔ یہاں اللہ کے فضل سے سب پڑھے لکھے لوگ ہیں؛ سب جانتے ہیں کہ تمام انبیائے کرام نے داڑھی رکھی ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی داڑھی رکھی، آپ کے جملہ صحابہ کرام نے بھی، تابعین اور بعد والوں نے بھی۔ یہ سنت متواترہ آج بھی کم از کم اس صورت میں ضرور موجود ہے کہ اگر کہیں کچھ لوگوں کو نماز ’’پڑھنی ہی پڑ جائے‘‘ تو کسی داڑھی والے کو کہا جاتا ہے کہ حضرت امامت کیجئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آج ہم میں داڑھی والے مرد کتنے فی صد ہیں؟۔ اتباعِ سنت کی تعریف یہی ہے نا، کہ وہ کام جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، ہم بھی کریں۔ تو پھر داڑھی بھی رکھیں، سیدھی سی بات ہے کہ داڑھی رکھنا سنت سے ثابت ہے۔ یہاں ہمارا دانشور طبقہ عجیب و غریب حجتیں بنا کر اِس سنت کا ’’عدمِ لزوم‘‘ ثابت کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا دعویٰ اتنا سچا بھی نہیں کہ ہم فطری طور پر اگنے والی اس داڑھی کو تو قائم رہنے دیں جس پر ہمیں نہ کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے نہ کوئی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ ہاں، اس کو روزانہ اکھاڑ پھینکنے میں مشقت اور خرچہ دونوں ہوتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری زبانی کلامی محبت کا ہر شعبۂ زندگی میں ایسا ہی حال ہے۔ عامۃ الناس کے نام اپنی آخری تقریر (خطبۂ حجۃ الوداع) میں آپ نے فرمایا: ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں: ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میرا طریقہ، جب تک ان کو تھام رکھو گے راہ سے نہیں بھٹکو گے‘‘۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے: ’’دین میں داخل ہو جاؤ، مکمل طور پر‘‘ یہاں اللہ کریم نے کافّۃ کا لفظ اتارا ہے۔ میرا سوال ہے (اپنے آپ سے بھی) کہ کیا ہم واقعی کافّہ کی شرط پوری کر رہے ہیں؟ غور فرمائیے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
مضمون واقعی فکر انگیز ہے اور میں بھی اس میں پیش کئے گئے نکات سے کافی حد تک متفق ہوں۔ محمد یعقوب آسی ، سید زبیر انکل اور دیگر اراکین کی آرا سے انتہائی متفق ہوں۔
صورتحال بہت پریشان کن ہے اور حل نکالنا انتہائی ضروری۔ تعلیم پر بات کرنے کے باوجود اس میں تبدیلی لانے کی کوششیں شاید اتنی رِگورس نہیں ہیں جتنی ہونی چاہئیں۔ اس صورت میں ہم اگر اپنی اپنی ذاتی گنجائش میں کچھ کرنے کا سوچ سکیں تو شاید وہ بھی مطلوبہ تبدیلی میں ایک مثبت کردار ادا کر سکے گا۔

اگر مدارس میں صدیوں سے پوری تعلیم دی جارہی تھی تو اب بھی اسی کو جاری رکھنا چاہیے تھا اور ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ یورپ سے آنے والے نئے علوم اور ان کے مختلف شعبوں کو اپنے اندر جذب کر لیتے۔ لیکن اس کے لیے نہ صرف ایسے باصلاحیت عملے کی ضرورت تھی جو قدیم اور جدید مضامین میں مہارت رکھتے ہوں۔​
دیکھا جائے تو اس وقت بھی صورتحال تقریباً ویسی ہی ہے۔ ہم اپنی دینی تعلیمات کو کسی صورت ایک طرف نہیں ڈال سکتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئے علوم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھی اگر ان دونوں کو ساتھ ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ابھی بھی ہمارے پاس ایسے ماہرین تعلیم ، نصاب و تدریس کی کمی ہے جو دینوی اور دنیاوی علوم کے نصاب کو اس طرح ترتیب دے سکیں کہ ان کا ایک دوسرے سے تعلق طالب علموں کے ذہنوں میں واضح ہو اور انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جائے کہ دین اور دنیا زندگی کے دو یکساں اہمیت کے حامل پہلو ہیں اور ہماری دینی تعلیم اور جدید سائنس میں کہیں بھی کوئی مسنگ لنک نہیں ہے۔
 
سب سے پہلے تو شکریہ فلک شیر بھائی کہ مجھے قابل توجہ سمجھا
رسید حاضر ہے
فلحال تو دفتری مصروفیت زیادہ ہے
ذرا فرصت میں پڑھ کر کچھ رائے دوں گا
شاد و آباد رہیں
 
حوصلہ افزائی کے لئے محترمہ فرحت کیانی کا ممنون ہوں۔
مزید بہت کچھ عرض کرنا چاہتا تھا مگر بوجوہ ایسا کر نہیں پایا۔ ادھر بجلی کی صورتِ حال خاصی پریشان کُن ہو چکی ہے۔
پھر حاضر ہوں گا۔ ان شاء اللہ۔
 

فلک شیر

محفلین
حوصلہ افزائی کے لئے محترمہ فرحت کیانی کا ممنون ہوں۔
مزید بہت کچھ عرض کرنا چاہتا تھا مگر بوجوہ ایسا کر نہیں پایا۔ ادھر بجلی کی صورتِ حال خاصی پریشان کُن ہو چکی ہے۔
پھر حاضر ہوں گا۔ ان شاء اللہ۔
اللہ پاک آسانی عطا فرمائیں...........
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

اسلام ! انسان کی ضرورت

دین مبین اسلام نے جہاں یہ کہا کہ خدا نے انسان کو اس لئے خلق فرمایا کہ وہ اس کی عبادت کرے تو مومنین نے خوشنودی خدا کی خاطر عبادتوں کو اپنا روزآنہ کا معمول بنالیا کسی نے اس عبادت کو نماز، روزہ ، حج وغیرہ میں تلاش کیا تو کسی نے اس کو انسانیت کی خدمت میں۔۔۔ مگر اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکواۃ، خمس یا دیگر فروع دین کو جوخدا کیلئے انجام دیتا ہے اور ان عبادات سے خدا کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے کہ خدا کی خدائی میں اس کے نماز و روزہ سے کسی قسم کا اضافہ ہوگا۔ خداوند قدوس کی صمدیت اس بات سے ماوراء ہے ۔ نہ تو صرف نماز، روزہ، حج وغیرہ کی ظاہری شکل خدا کی بارگاہ میں قابل قبول ہے نہ ہی صرف انسانیت کی خدمت کا نعرہ لگا کر نماز ، روزہ وغیرہ کی ظاہری شکل سے دوری اختیار کرکے بندگان خداکے حقوق ادا کرکے فرض پورا ہوتا ہے۔ بلکہ اسلام وہ دین فطرت ہے جو نہ صرف انسان کی فطرت بلکہ اس کائنات کے ارتقاء کا سسٹم و نظام جن رموز پر قائم ہے اس کا کمال صرف دین مبین اسلام پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ چاہے ابتدائے عمر میں وہ ظاہری اعمال پر ہی منحصر ہو اور بعد میں ان اعمال کی تفسیر و توجیہ یا ان اعمال کا کنایہ سمجھ میں آنے پر اعمال گہرائی اور معرفت کے ساتھ انجام پائے جانے لگیں۔عمر کے ہر دور میں ظاہر ی اور باطنی امور میں دلچسپی اور اس پر عمل اس ارتقائی سفر کیلئے ضروری ہے۔

خداوند نے عقائد سے لےکر یعنی اصول دین سے فروع دین تک جتنے بھی اعمال و نظریات اپنانے پر زور دیا ہے وہ انسان کی اپنی بقا ء و ارتقاء کیلئے منظم و با ترتیب زندگی گذارنے کے آلے ہیں۔ جس میں انفرادی یا اندرونی یعنی نفسیاتی نظم و ضبط سے لیکر بیرونی یعنی جسمانی، علمی، معاشی، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی خو دلائی گئ ہے اور انسان سے چاہا گیا ہے کہ اس دنیا کو جنت کے نمونے یا ماڈل کے طور پر پیش کرے۔ خداوند کو نہ ہمارے علم حاصل کرنے سے سروکار ہے نہ اس کو ہمارے نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے یا صلئہ رحمی سے کوئی فائدہ ہے نہ اس کو ہمارے حلال رزق کمانے اور مصرف سے کوئی غرض ہے نہ ہمارے انفاق و فطرہ و زکواۃ کی ادائیگی سے سروکار ہے نہ ہی اس کو ہمارے عادل و منصوص من اللہ رہبر، امام و قائد کے اطاعت سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ فرق پڑتا ہے تو ہمیں ! فائدہ ہے تو ہمارا ! صرف ہمارا یعنی انسان کا ! ان احکامات دین کے ذریعے خدا معاشرہ انسانی کو ، زندگیِ انسانی کو ایک ھمہ گیر آئین ِزندگی و اصول ِ منطقی کے تحت منظم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس نظام کی بدولت تما م شعبہ ء حیات فطرت کے قوانین کے تحت منظم ہوجائیں جس سےعقل انسانی بھی مطمئن ہو، ضمیر انسانی بھی مطمئن ہو اور جذباتی رحجانات کو مثبت راہیں میسر ہوں۔ اس سسٹم اور نظم و ترتیب کی نظریاتی شکل اسلامی تعلیمات ہی ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونا ہی انسان کو سعادت مند بناتا ہےاور ہر شعبہ حیات میں یہ نظریات و احکامات ِفطرت ضمیر انسانی سے پھوٹتے ہیں اور ضمیر انسانی کو مطمئن کرتے ہیں، ان کتابی و نظریاتی باتوں کے ذریعے اسلام کا نظام انسان کو ایک بڑے نیٹورک سے منسلک کرتا ہے اور ایک بین الاقوامی و بین العوالم تربیتی نظام سے منسلک کرتا ہے اور قدم بقدم انسانی زندگی کو آہستہ آہستہ علوم اور پھر عملی شکل میں مختلف نظاموں میں حصہ لینے والا ایک بامعرفت اور متحرک انسان تشکیل دیتا ہے۔ یہ وہ دینی نظریات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر انسان نفس مطمئنہ یعنی تقرب الی اللہ کی منزل پر فائز ہوتا ہے اور یہ وہ مدارج ِعلم و آگاہی و معرفت ہیں جن کے ساتھ مومنین اجتماعی ریاضتوں کے ساتھ قرب الہی میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ پست ، رکیک و گناہ آلود خیالات نہ صرف انسان کے ذہن کو فشار ذہنی میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ ان پر خیالات پر عمل کرنا معاشرہ ھائے انسانی کے مختلف شعبہ جات میں انتشار و ناھم آہنگی ، بے نظمی و بے ترتیبی کے اثرات کو فروغ دیتا ہیں۔ انسانیت کا شرف اعلیٰ اخلاق کی بلند منزلیں ہیں جو اس کو نفس مطمئن عطا کرتی ہیں اور دنیا کے ظاہری نظاموں یعنی معیشت، سیاست ، علوم و فنون ، معاشرت وغیرہ میں ایک سسٹم کا نمونہ پیش کرتی ہیں ! ایساسسٹم جو منطقی نظریات و عاقلانہ روش پر مبنی باترتیب اور منظم کارخانہ حیات کے کل پرزے ہیں۔

اسلامی تعلیمات اس کارخانے کے کل پرزے کی طرح ہیں جو خام مال کو استعمال کے قابل بناتے ہیں جو اشیاء سے فائدہ اٹھانے کیلئے اس کو تیار کرتے ہیں۔ انسان پیدائیش کے بعد اگر سسٹمِ معاشرتی میں منطقی نظم و ضبط نہیں دیکھتا یعنی کفر الحاد و منافقت پر مبنی معاشرہ دیکھتا ہے تو اسلامی تعلیمات پر عمل اس انسان کو اُس منطقی سسٹم سے مربوط کردیتی ہیں جو باقی رہنے والا ہے جس میں خالص شعور کی کارفرمائی ہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل انسان کو بقا کی طرف لیجاتا ہے اس کے معاشرتی نظاموں کو بقاء و ابدی زندگی عطا کرتا ہے اس کے انفرادی اعمال کو منطق، ترتیب، نظم و انضباط اور نفس کو اطمینان عطا کرتا ہے۔

خواہ بیت الخلاء کے آداب و تہذیب کی بات ہو یا کسب ِ روزگار و مصارف معاشی کی بات ہو چاہے مرد و عورت کے روابط یا نونہالان کی تربیت و معاشرے میں روا رکھے جانے والے رویوں کا طریق ہو، خواہ دشمنِ فطرت و منطق سے صلح و صفائی یا جنگ کی بات ہو، چاہے حکومت بنانے اور خلقِ خدا کی خدمت کی روش ہو۔ اسلام ہر شعبہ میں تہذیب زندگی و روش اخلاق یعنی سرخرو و سربلند ہونے کے طریقہ کار بتاتا ہے۔ خدا کمال ہے اور باکمال کو پسند کرتا ہے ۔ پستی و رکیکیت سے نفرت کرتا ہے۔ اسلام نے علم کے حصول کو انسان پر فرض کرکے اُسکی اپنی اٹھان و سربلندی چاہی ہے، اخلاق کے رموز سے معاشرتی روابط کو استحکام عطا کیا ہے اور محبت و امن کی خو دلائی ہے۔ ولایت سے منسلک کرکے باشعور افراد کو حکومت بنانے کا اختیار دے کر نظام ھائے معاشرتی، ثقافتی، معاشی وغیرہ کو درست راہ پر گامزن کیا ہے۔ معیشت میں حلال کے حصول و مصرف سے معاشرے میں مادی ضروریات کی تکمیل و مستضعفوں کے سہارے کا سامان کیا ہے۔ نماز کی کنائی شکل سے برائی کے خلاف عملی میدان میں عادل امام کے پیچھے متحد جماعت کو برسرپیکار ہونے کی طرف راغب کیا ہے، روزےسے کمتر معاشی طبقات کا احساس دلا کر ان کی ضرورتوں کو زکواۃ و فطرہ سے پورا کرنے کیلئے زمینہ فراہم کیا ہے۔ حج سے بین الاقوامی معاشروں کی خوبیوں کو اپنانے اور صلہ ء رحمی اور تعلقات کے فروغ اور ذہن کو بین الاقوامی بنانے کا راستہ دکھایا ہے اور ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور انکے حل کی راہ دکھائی ہے۔

غرض دینِ فطرت یعنی جو نظام و سسٹم خدا نے بنایا ہے اس کو اپنا کر انسانی معاشرے کوارتقاء و کمال پر انسان کو ہی پہنچانا ہے ، انسان اگر سسٹم کے خلاف چل کر کامیابی کی تمنا کرے گا تو فطرت اُسے قریب یا بعید ناکامی کا تمغہ دے گی۔خدا و اولیاء اللہ سےان ارتقائی منزلوں میں آنے والی مشکلات و آزمائشات میں توسل سے ہمت و حوصلہ لینا تو حتمی ہے اور پس پردہ طاقت جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی مگر باطنی بصیرت سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے، خدا وند متعال ہی کی ہے مگر اس ارتقائی سفر کو کمال پر پہنچانے کا ذمہ حضرتِ انسان کا ہی ہے۔ وہ انسان جو اسلام کے فطری قوانین پر عمل پیرا ہوکر معاشرہ انسانی کی معاشی ، علمی، ثقافتی، معاشرتی یا سیاسی ارتقاء کو کمال پر پہنچائے باالفاظ دیگر معاشرہ انسانی کو جنت کے نمونے پر پیش کریں وہی اس جنت میں بھی جانے کے حقدار ہوں گے جو خداوند کریم نے ایسے مومنین کیلئے روز حشر کے بعد تیار کررکھی ہے۔ انشاءاللہ

"اور جس نے بھی کوشش کی اس نے اپنے لئے کوشش کی اور اللہ تو سارے عالمین سے بے نیاز ہے۔"( سورۂ عنکبوت/ ۶)

پروردگار عالم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا عبد خالص بنا کر اپنے بندوں کی خدمت کی ایسی توفیق مرحمت فرمائے جس میں ہمارےدونوں جہانوں کی سعادتوں کی تکمیل ہوسکے۔

اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وعجل فرجھم اجمعین

تحریر: سید جہانزیب عابدی/ کراچی / ۱۴ رمضان المبارک ۱۴۳۱ ھ
 
Top