مرقعِ یادگارِ شہادت از علامہ ضیاء القادری بدایونی (چند اشعار)

تذکرہِ سیّدنا امام حُسین بن علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم و رضی اللہ عنہ


عجب تھی فرخ و مسعود چوتھی سال ہجری کی
خوشی تھی رات دن دونی جنابِ فاطمہ بی کی

طرب افروز تھا دن پانچ شعبان المعظم کا
کہ قصرِ سیّدہ زہرہ سے خورشیدِ شرف چمکا

حُسین ابنِ علی تشریف لائے بزمِ ہستی میں
مئے جامِ نجف آنکھوں سے ٹپکی جوشِ مستی میں

ولادت کی خبر گوشِ رسولِ پاک تک پہونچی
زمیں سے عیشِ سرمد کی صدا افلاک تک پہونچی

شفق پھولی فضائے چرخ پر انوارِ قدرت کی
ہوئی پھولوں سے سرخی رونما رنگِ شہادت کی

عروسِ فتح نے دُرِّ نجف کا مینہہ برسایا
پھریرا نصرتِ حق کا زمانہ بھر میں لہرایا

فرشتے خیر مقدم کے لئے زہرا کے گھر آئے
مدینہ کی زمیں پہ عرش کے تارے نظر آئے

تجمل دیکھ کر نُورِ نظر کے روئے روشن کا
رسول اللہ نے بوسہ لیا بچہ کی گردن کا

مبارکباد دی روح الامیں نے عرش سے آکر
سُرور اندوز تھے ہمراہ سلطانِ رسل حیدر

لبِ جبریل سے حق کا سنا پیغام سرور نے
حُسین اس چاند سے بیٹے کا رکھا نام سرور نے

رہے شبّیر بطنِ والدہ میں چھ مہینے تک
کفِ پا سے تھے ہمشکلِ رسولِ پاک سینے تک

سراپا نور تھے، نورِ نبی تھے نور کی صورت
جبینِ پاک روشن تھی چراغِ طور کی صورت

ازل سے آپ تھے ظلِ جمالِ حضرتِ یحیٰی
ہر اِک خو آپکی تھی ہم خیالِ حضرتِ یحیٰی

رہے چھ ماہ وہ بھی اور یہ بھی بطنِ مادر میں
ہوئے دونوں شہید، اللہ اکبر راہِ داور میں

سکون و صبر و تسلیم و رضا دونوں میں یکساں تھے
وہ پیغمبر تھے سچے اور یہ سچے مسلماں تھے

حُسین پاک آئینہ دارِ حُسنِ مُصطفائی تھے
حُسین اِک مطلعِ انوارِ ذاتِ کبریائی تھے

علی کے لختِ دل، زہرا کے نور العین درپردہ
تھے محبوبِ خدا کی گودیوں کے نازپروردہ

حُسین ابنِ علی کا اوج و رفعت کوئی کیا جانے
حَسن جانے، علی جانے، نبی جانے، خدا جانے
 
مزارِ مصطفٰے ﷺ پر امام حُسین رضی اللہ عنہ کا آخری سلام



مزارِ مصطفٰے پر شام ہوتے ہی امام آئے
اجازت کی غرض سے آخری کرنے سلام آئے

کہا رو کر سلام اے تاجدارِ عالَمِ امکاں
سلام اے سیّدِ عالَم اے سرورِ ذیشاں

سلام اے ہادیِ اسلام اے محبوبِ ربّانی
سلام اے صاحبِ لولاک نُورِ ذاتِ یزدانی

ذرا دیکھو تو چہرہ سے اٹھا کر گوشہِ داماں
حُسین ابنِ علی پر تنگ ہیں طیبہ کی اب گلیاں

ذرا حجرہ سے نکلو اے مکینِ گنبدِ خضرا
ذرا دیکھو تو اہلِ بیت پر ہیں سختیاں کیا کیا

یزیدی دور ہے اسلام ہے سرکار خطرے میں
نواسہ آپ کا اس وقت ہے دشمن کے نرغے میں

یزیدِ فاسق و فاجر مخالف ہے شریعت کا
نہیں احساس اسکو احترامِ دین و ملت کا

اسے ضد ہے حُسین اس کی اطاعت پر ہو آمادہ
مگر توہینِ مذہب کیوں روا رکھے نبی زادہ

میں قرباں اے مجھے ناز و نعم میں پالنے والے
مصائب آنیوالے دم زدن میں ٹالنے والے

دُہائی آپکی اے داد رس اپنے نواسوں کے
دُہائی آپکی اے آسرا بھوکے پیاسوں کے

مدد اے التجا میں سننے والے آلِ اطہر کی
مدد اے آرزو بر لانے والے سائلِ در کی

مراقب ہوگئے یہ کہہ کے فرزندِ رسول اللہ
اُٹھایا سر تو نکلا بے ارادہ منھ سے وااسفا

نگاہِ یاس و حسرت سے درودیوار کو دیکھا
بچشمِ اشک افشاں مرقدِ سرکار کو دیکھا

گذارش کی لگا کر قبرِ نُورانی کو سینے سے
حُسینِ خانماں برباد جاتا ہے مدینے سے

مگر یہ التجا ہے یا نبی یا رحمتِ عالم
قدم سے آپ کے جب دور ہوں ناکامِ الفت ہم

ہماری بیکسی درماندگی کی لاج رکھ لینا
ہمیں نظروں مین اپنی صاحبِ معراج رکھ لینا

کہیں پیدا نہ ہو جب تک ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا
نہو پرساں کوئی جب تک ضعیفوں ناتوانوں کا

ہمیں مکے میں بھی رہنے نہ دے جب دشمنِ خود سر
خدا کے گھر سے بھی ہوں جب وطن آوارگاں بے گھر

ہمیں جب کربلا میں سامنا کرب و بلا کا ہو
ہمیں جب تیرِ بیدادِ اجل نے چلکے تاکا ہو

خیامِ اہلیبیتِ پاک ہوں جب نصب ریتی پر
تصرف جب خزاں کا ہو بہارِ باغِ گیتی پر

نبی زادے علی زادے ہوں جب تلوار کی زد پر
یزیدی ہنستے ہوں جب کشتگانِ حق کے مشہد پر

عدو کے ہاتھ سے جب قتل ہو لشکر نواسوں کا
بیاباں میں لٹے جب قافلہ بھوکے پیاسوں کا

سکوں برباد، اہلیبیت پر جب بند ہو پانی
حُسینِ تشنہ لب پر ہوتی ہو جب تیرِ بارانی

پئے تسکیں مرے سرکار اس وقت آجانا
سکون و صبر کی تلقین دل افگاروں کو فرمانا

بس اب اے قبلہِ دیں مجھ کو جانے کی اجازت ہو
لبِ اطہر سے فرمادو، حُسین اب جاؤ رخصت ہو

مدینے سے شہِ کونین کا نورِ نظر نکلا
وطن سے بے وطن ہو کر وطن کا تاجور نکلا

قضا لے کر چلی ذوقِ شہادت نے سلامی دی
درِ فردوس سے حورانِ جنت نے سلامی دی
 
امامِ عالیمقام رضی اللہ عنہ کی کعبہ سے سوئے کربلا روانگی


ابھی تک حجِ بیت اللہ میں مشغول تھی دنیا
حرم کے گلشنوں سے چن رہی کچھ پھول تھی دنیا

مناسک حجِ کعبہ کے ادا ہوتے تھے ہر جانب
زمیں بوسِ حرم سب باخدا ہوتے ھے ہر جانب

کہیں سعیِ صفا مروا پہ تھی مخلوق آمادہ
منٰی میں تھے کہیں اللہ والے زیب سجادہ

کہیں صحنِ حرم میں مائلِ سجدہ نمازی تھے
کہیں صرفِ عبادت مصری و شامی و حجازی تھے

کہیں تھا شور و غل تہلیل و تسبیحِ الہٰی کا
اجالا تھا کہیں مجروں میں نورِ صبح گاہی کا

فضاؤں میں یکایک ایک درد افزا صدا گونجی
ہوئی گم مرکزِ السلام سے اسلام کی پونجی

دل وجانِ خلیل اللہ کی کعبہ سے رخصت ہے
شہیدِ فی سبیل اللہ کی کعبہ سے رخصت ہے

امانت حق کی دامانِ حرم سے نکلی جاتی ہے
متاعِ دین و دنیا آج ہم سے نکلی جاتی ہے

قدومِ قبلہِ کون و مکاں کعبہ سے جاتے ہیں
ہمیشہ کو امامِ دو جہاں کعبہ سے جاتے ہیں

ہُوا معلوم کعبہ سے گئے فرزندِ پیغمبر
نبی زادوں سے گویا ہوگیا خالی خدا کا گھر

اداسی چھا گئی کالی گھٹائیں گم کی منڈلائیں
فضائے دہر پر رنج و الم کی بدلیاں چھائیں

درو دیوارِ کعبہ نے لباسِ ماتمی پہنا
عروسِ گل نے پھولوں کا اتارا جسم سے گہنا

جگر پر فرطِ غم سے سنگِ اسود نے رکھا پتھر
صفا مروہ بھی اس اندوہ میں کھانے لگے چکر

بنی شکلِ حطیمِ دل شکستہ صورتِ ماتم
بشکلِ چشمِ نم تھا اشک افشاں چشمہِ زمزم

مثالِ اشکِ غم دریا بہے میزابِ رحمت سے
ہر اِک سجدہ نے سر ٹکرایا محرابِ عبادت سے

اڑائی خاک ارضِ مکہ نے فرطِ کدورت سے
پریشانی عیاں تھی وادیِ بطحا کی صورت سے

حریمِ کعبہ سے جس دن سواری آپ کی نکلی
تھہ ذوالحجہ کی دس تاریخ اور سن ساٹھ ہجری تھی

امامِ پاک کے ہمراہ تھے سب خانداں والے
چلے جاتے تھے یہ سب کوفہ کی جانب قدم ڈالے

شہادت کا تھا جذبہ عورتوں میں اورمردوں میں
بیاسی آدمی تھے قافلہ کے رہ نوردوں میں

خدا کی راہ میں گھر سے خدا کا مہماں نکلا
خود اپنے کارواں کو لیکے میرِ کارواں نکلا

شہادت فی الحقیقت معرکہ سر کرکے ملتی ہے
حیاتِ جاوداں راہِ خدا میں مر کے ملتی ہے
 
امامِ عالیمقام رضی اللہ عنہ کی کربلا آمد


تھی عنوانِ قیامت ابتدائے ششت ویک ہجری
ہوئی بنیاد قائم انقلابِ بزمِ عالم کی

تھا روزِ پنجشنبہ دوسری ماہِ محرم تھی
سواری کربلا میں سیّدِ کونین کی پہونچی

امامِ پاک نے اس سرزمیں کا جب پتہ پوچھا
کہا اِک شخص نے ہے نام دشتِ کربلا اس کا

کہا شہ نے یہی ہے منزلِ کرب و بلا شاید
یہیں پر آلِ زہرا کا لٹے گا قافلہ شاید

یہیں پر چڑھتے سورج فتنہِ محشر بپا ہوگا
یہیں پر قتل جیشِ اہلِ بیتِ مُصطفٰے ہوگا

یہ صحرا بے گیاہ و آپ وحشتناک صحرا تھا
مکمل محشرستانِ خش و خاشاک صحرا تھا

بجز ریتی کے ٹیلوں کے کہیں سایہ نہ تھا اس میں
قدم یمن و سعادت کا کبھی آیا نہ تھا اس میں

ازل کے روز سے آثارِ محشر اس میں پنہاں تھے
بجائے خارِ صحرا، تیر و نشتر اس میں پنہاں تھے

ہر اِک ذرّے سے اس کے تھی عیاں خشکی و بے آبی
لکھی تھی اس کی قسمت میں نہ سرسبزہ نہ شادابی

یہاں ذرّے بھی آبِ چشمہِ خور کو ترستے تھے
سحابِ خشک سے ہر روز انگارے برستے تھے

یہاں آتے ہوئے پر طائرِ سدرہ کے جلتے تھے
بچا کر آہوانِ دشت بھی دامن نکلتے تھے

ازل سے آج تک یہ دشت رسوائے زمانہ تھا
یہاں مثلِ عدم ناپید ذکرِ آب و دانہ تھا

خدا کی شان کہ اس صحرا میں وہ جنّت مکیں پہونچے
کہ جن کے جدِّ امجد تا سرِ عرشِ بریں پہونچے

ہوئے اس خشک ریگستان میں وہ خیمہ زن آکر
فدا جن پر ازل سے تھی بہارِ جنّت و کوثر

انہیں تپتی ہوئی ریتی پہ ٹھہرایا گیا لاکر
سمجھتے تھے جنہیں آنکھوں کی ٹھنڈک ساقیِ کوثر

بظاہر کربلا کا دشت جنگل تھا بیاباں تھا
بباطن صبر و تسلیم و رضا کا خاص میداں تھا

یہاں از خود ہوئے تھے کب شہِ والا خیام افگن
برائے امتحاں لائی تھی قدرت کھینچ کر دامن

یہاں اس کارواں کو سعیِ اہلِ کیں نہیں لائی
مقدر ہوچکی مٹی جہاں کی تھی، وہیں لائی
 
شبِ عاشور (دو مختلف لشکر)

شبِ عاشورہ دشتِ کربلا کا تھا عجب منظر
یہاں تھے خیمہ زن دو سمت میں دو مختلف لشکر

لبِ نہرِ فرات افواجِ کوفہ خیمہ افگن تھیں
چٹانیں خشک ابنِ ساقیِ کوثر کا مسکن تھیں

مقابل تھا صفِ اسلام سے اشرار کا لشکر
اِدہر تھا نور کا لشکر اُدہر تھا نار کا لشکر

اِدھر تھی شام سے تا صبح نورِ قدس کی بارش
اُدہر تھی شامیوں پر ظلمتِ شب صرفِ آرائیش

اِدہر خیموں پہ رحمت عرشِ اعظم سے برستی تھی
پرستارانِ دوزخ کی اُدھر آباد بستی تھی

چراغِ دشتِ ایمن تھا اِدہر صحرا کا ہر ذرّہ
اُدہر دیتا تھا شیطاں ناریوں کو جنگ کا بہرہ

اِدہر کیفِ شہادت کی تھی سرمستی و سرجوشی
اُدہر تھی شامیوں میں بادہ آشامی و مے نوشی

بلند اِس سمت تھا خیموں میں شور اللہ اکبر کا
اُدہر ہنگامہِ حشر آفریں غوغا تھا لشکر تھا

اِدہر ذوقِ رکوع و سجدہ و شورِ نوافل تھا
اُدہر بدمستیوں کی نیند سے ہر شخص غافل تھا

اِدہر تقدیس وتسبیح و تلاوت تھی عبادت تھی
اُدہر سر پر اجل آنکھوں میں تصویرِ ہزیمت تھی

صداؤں میں اِدہر تھی گونج آیاتِ الٰہی کی
اُدہر تھی روح لرزاں خوفِ جاں سے ہر سپاہی کی

امامِ تشنہ کام اِس وقت مصروفِ عبادت تھے
اُدہر سب افسرانِ جنگ محوِ استراحت تھے

اِدہر ہر لحظہ ارمانِ شہادت میں ترقی تھی
اُدہر ساعت بہ ساعت خوابِ غفلت میں ترقی تھی

اِدہر جوشِ جہادِ حریّت تھا ہر نفس تازہ
اُدہر تھا منتشر سرجوشیِ لشکر کا شیرازہ

اِدہر تھا بےنیازِ اسلحہ و آلات ہر غازی
اُدہر تھا مشق خنجر آزمائی نیمچہ بازی

اِدہر تھا سلسلہ ورد و وظائف کا ابھی جاری
اُدہر ہونے لگی لشکر کشی کی خاص تیاری

اِدہر مسرؔوق نے بڑھ کر اذاں دی نور کے تڑکے
اُدہر شعلے نفاق و دشمنی کی آگ کے بھڑکے

تیمم کرکے خیموں سے اِدہر غازی نکل آئے
اُدہر میداں میں دستے فوج کے مثلِ اجل آئے

ستارے چھپتے جاتے تھے فلک کے جیب و داماں میں
طلوعِ صبح کے آثار ظاہر تھے بیاباں میں

ہوئے فارغ نمازِ باجماعت سے شہِ والا
گلیمِ شب کو سورج نے نکل کر چاک کرڈالا

بجا نقارہ طبلِ جنگ کی ہر جا صدا گونجی
ہوائے جنگ نے امن و ماں کی لوٹ لی پونجی

صفیں آراستہ جب ہوگئیں افواجِ شامی کی
ہوئیں تلواریں عریاں سرفروشانِ گرامی کی

رواں ہونے لگی نہریں نئی خونِ شہیداں میں
ہوئی برپا قیامت کربلا کے ہر بیاباں میں
 
امامِ عالیمقام کا خطبہ


امامِ دوسرا، نورِ نگاہِ فاطمہ زہرا
حُسین ابنِ علی شاہِ شہیداں سیّدِ والا

عمامہ صاحبِ معراج کا باندھے ہوئے سر پر
ہوئے خیمہ سے ہمراہِ دلیرانِ عرب باہر

زرہ حمزہ کی پہنی جسمِ اطہر میں سرِ میداں
کیا ناقہ کو افواجِ عدو کے سامنے جولاں

قریبِ فوج آکر فوج سے ارشاد فرمایا
مسلمانوں کہو ہے کون تم میں میرا ہم پایہ

بلند آواز میں اس زور سے تقریر فرمائی
سپاہِ شام پر ہیبت شہِ ذی جاہ کی چھائی

پسِ حمد و ثنا، نعتِ رسولِ حق بجا لائے
حقوقِ عبدیت اللہ کے بندوں کو سمجھائے

کہا اے فوج والوں میں جو کہتا ہوں سنو اس کو
نہیں یہ مدعا جو میں کہوں تم مان لو اس کو

مجھے اتمامِ حجت کے لئے کچھ تم سے کہنا ہے
کہ تبلیغِ امورِ دینِ حق فرضِ کفایہ ہے

اگر منظور احکامِ خدا کو کرلیا تم نے
نہ گر الزامِ جور و ظلم اپنے سر لیا تم نے

خدا شاہد جزائے اخروی کے مستحق تم ہو
عطائے کبریا لطفِ نبی کے مستحق تم ہو

تمہارا دین ہے اسلام امت ہو محمد کی
قیامت ہے اگر تم میں نہ الفت ہو محمد کی

مرے نانا محمد ہیں مری ماں فاطمہ زہرا
مرے بھائی حَسن ہیں راحتِ جاں ہوں میں حیدر کا

بتاؤ تو پیمبر کا نواسہ کیا نہیں ہوں میں
مظالم سے تمہارے بھوکا پیاسا کیا نہیں ہوں میں

خدارا سچ کہو میں نے تمہاری کیا خطا کی ہے
کبھی سختی کسی پر یا کبھی تم پر جفا کی ہے

کسی کو کردیا ہے ذبح تم میں سے کبھی میں نے
کبھی کی ہے تمہاری اپنے منھ سے یا بدی میں نے

کسی کی سلطنت چھینی کسی کا ملک چھینا ہے
تصرف میں مرے دولت کسی کی یا خزینہ ہے

عزیزو میں یہاں لشکر کشی کر کے نہیں آیا
بلایا تم نے خط لکھ کر تو مغموم و حزیں آیا

کسی کا چاہیے ہے سچ کہو کیا خوں بہا مجھ پر
نہیں کچھ بھی تو پھر جور وجفا ہے کیوں روا مجھ پر

کیا ہو ارتکابِ جرم اے لوگوں اگر میں نے
نہ کی ہو خدمتِ دینِ نبی گر عمر بھر میں نے

مجھے تعزیر دو وقفِ درِ محبس مجھے کردو
وگرنہ جانبِ ارضِ حرم واپس مجھے کردو

بلا جرم و خطا کیوں قتل پر تم میرے مائل ہو
زمانہ کیا کہے گا تم کو کیسے بد خصائل ہو

امامِ پاک کی تھی پُراثر یہ گفتگو ساری
ہوئی ٹھنڈی یکایک آتشِ جورِ عدو ساری

عجب سکتہ کا عالَم چھا گیا افواج و لشکر پر
ہوئے مبہوط و صرفِ خامشی بیداد کے خوگر

جواب اصلا کسی کو اس بیاں کا جب نہیں آیا
تو پھر قیس و حجاز و زید سے حضرت نے فرمایا

بتاؤ سچ نہ لکھے تم نے خط کیا دوستو مجھ کو
بلایا بھیج کر قاصد نہ کیا اے کوفیو مجھ کو

ہوئے کاذب یہ سب خط بھیجنے سے صاف انکاری
نظر آئیں جو تحریریں حقیقت کھل گئی ساری

کہا بےغیرتی سے قیس بن اشعث نے شرما کر
اطاعت کیوں نہیں کرتے عبید اللہ کے سرور

یہ فقرہ سن کے چہرہ پر شہِ دیں کے جلال آیا
کمینوں کی بداخلاقی کا رہ رہ کے خیال آیا

نگاہِ غیظ ڈالی قیس پر غصہ سے فرمایا
کروں میں ملحدِ بے دیں کی طاعت اے فرومایا

گوارا فاسق و فاجر کی طاعت کی نہیں جاتی
اہانت ملتِ اسلام کی دیکھی نہیں جاتی

مری یہ التجا ہے بندگانِ کبریا سب سے
اماں میں چاہتا ہوں اپنے رب سے آپ کے رب سے

مکمل وعظ اِک عنوان تھا رشد و ہدایت کا
کیا حق آپ نے پورا ادا تمامِ حجت کا

مقابل فوج کے جب فوجِ خون آشام آتی ہے
زبانی گفتگو وقتِ وغا کب کام آتی ہے
 
یومِ عاشور ۔ منظرِ دشتِ کربلا


وہ منظر عرصہ گاہِ جنگ کا العظمۃ لللہ
بلا شک تبصرہ ہے غیر ممکن جس پہ خاطر خواہ

شکستہ چند خیمے ایک جانب ہیں سرِ میداں
ہیں اِک جانب سپاہ و خیمہ وخرگاہِ بے پایاں

پھٹیکل ریت کے جلتے ہوئے ٹیلے پہ اِک لشکر
درختوں کے تلے اِک سمت شامی فوج کے بستر

غضب اِک سمت کچھ بھوکے پیاسے ناز کے پالے
صراحی در بغل اِک سمت مے آشام متوالے

وہ ریگستاں وہ جوشِ تشنگی وہ دھوپ کی شدت
ہوا وہ گرم سورج کی تپش وہ دھوپ کی حدت

جفاؤں پر جفا وہ تین دن کے بھوکے پیاسوں پر
علی کے بیٹے پوتوں پر پیمبر کے نواسوں پر

فقط وہ قتل پر قائم امیدیں ناامیدوں کی
نظر کے سامنے وہ میتیں باون شہیدوں کی

پھر ایسے میں لڑائی اور لڑائی دشمنِ دیں سے
خیالِ صلح گویا نقشِ باطل فوجِ پُرکیں سے

مگر صَلِ علٰی اس ہمتِ مردانہ کے صدقے
توکل کے تصدق صولتِ شاہانہ کے صدقے

رضائے حق میں خویش و اقربا قربان کر ڈالے
یہ جوشِ ملت و ایثار دیکھیں دیکھنے والے

ابد تک پھول برسیں خلد سے ان نونہالوں پر
الٰہی رحمتوں کی ہو نچاور مرنے والوں پر

لڑے اس سرفروشانِ تحمل سے جلالت سے
اٹھا غل مرحبا کا آسمانِ فتح و نصرت سے

یہ شانِ حُرّیت ہے جوشِ صادق اس کو کہتے ہیں
ہے یہ پاسِ شریعت عہدِ واثق اس کو کہتے ہیں

(یہ چند اشعار علامہ ضیا القادری بدایونی علیہ الرحمہ کی تصنیفِ لطیف، نظمِ طویل ’مرقعِ یادگارِ شہادت‘ سے لئے گئے ہیں)
 

اکمل زیدی

محفلین
فضاؤں میں یکایک ایک درد افزا صدا گونجی
ہوئی گم مرکزِ السلام سے اسلام کی پونجی
شہادت فی الحقیقت معرکہ سر کرکے ملتی ہے
حیاتِ جاوداں راہِ خدا میں مر کے ملتی ہے
تھا روزِ پنجشنبہ دوسری ماہِ محرم تھی
سواری کربلا میں سیّدِ کونین کی پہونچی
خدا کی شان کہ اس صحرا میں وہ جنّت مکیں پہونچے
کہ جن کے جدِّ امجد تا سرِ عرشِ بریں پہونچے
مقابل تھا صفِ اسلام سے اشرار کا لشکر
اِدہر تھا نور کا لشکر اُدہر تھا نار کا لشکر
اِدہر خیموں پہ رحمت عرشِ اعظم سے برستی تھی
پرستارانِ دوزخ کی اُدھر آباد بستی تھی
امامِ دوسرا، نورِ نگاہِ فاطمہ زہرا
حُسین ابنِ علی شاہِ شہیداں سیّدِ والا
مرے نانا محمد ہیں مری ماں فاطمہ زہرا
مرے بھائی حَسن ہیں راحتِ جاں ہوں میں حیدر کا

بتاؤ تو پیمبر کا نواسہ کیا نہیں ہوں میں
مظالم سے تمہارے بھوکا پیاسا کیا نہیں ہوں میں
مکمل وعظ اِک عنوان تھا رشد و ہدایت کا
کیا حق آپ نے پورا ادا تمامِ حجت کا

مقابل فوج کے جب فوجِ خون آشام آتی ہے
زبانی گفتگو وقتِ وغا کب کام آتی ہے
رضائے حق میں خویش و اقربا قربان کر ڈالے
یہ جوشِ ملت و ایثار دیکھیں دیکھنے والے
یہ شانِ حُرّیت ہے جوشِ صادق اس کو کہتے ہیں
ہے یہ پاسِ شریعت عہدِ واثق اس کو کہتے ہیں
حق ہے ۔ ۔ ۔ ۔
خدا ضیا القادری بدایونی پر اپنی رحمتوں کا سایہ دراز کرے ۔ ۔ اور جوار معصومین میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔الٰہی آمین۔
 
Top