مرزا غالب سنہ 1857 کے حوالے سے شمیم طارق کی دو اہم کتابیں - محمد شعیب کوٹی

علمی ادبی دنیا میں شمیم طارق کی پہچان مختلف حیثیت کی حامل ہے۔ شاعری، تنقید، تحقیق، صحافت اور تصوف ان کے خاص میدان ہیں۔ اس وقت ان کی دو کتابیں پیش نظر ہیں اور دونوں کا تعلق غالبیات 'تحقیق' سے ہے۔ پہلی کتاب ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' ہے جس کا دوسرا ایڈیشن سنہ 2007 میں شائع ہوا تھا۔ پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں جو سنہ 2002 میں شائع ہوا تھا، اس دوسرے ایڈیشن میں 30 صفحات کا اضافہ ہے۔ یہ اضافہ پرانے ابواب کی عبارتوں اور ''توقیتِ غالب'' 'سنہ 1857ء سے وفات تک' ''1857ء کے بعد کی غالب کی مطبوعات'' کے عنوان سے دو نئے ابواب کی شکل میں ہے۔ کتاب 9 ابواب اور ضخیمے کے طور پر مولانا فضل حق خیر آبادی کے قصیدہ ''الشورہ الہندیہ'' ''قصیدہ ہمزیہ'' اور ''قصیدہ دالیہ'' کے ترجموں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب تو میں نے بعد میں پڑھی، اس پر تبصرہ پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ چہ میگوئیاں بھی علم میں تھیں۔ کتاب پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ 9 میں سے 8 ابواب پر گفتگو کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ''توقیت غالب'' کے عنوان کے تحت 28جنوری سنہ 1857ء سے ''جب مرزا فخرو نے غالب کا تلمذ اختیار کیا'' 15 فروری سنہ 1869ء تک کے حالات کو تاریخ وار چن دیا گیا ہے۔

''سنہ 1857 کے بعد غالب کی مطبوعات'' کے عنوان سے یہ اطلاع فراہم کرنے کے ساتھ کہ غالب کی کل 33 کتابیں شائع ہوئیں، یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ 33 میں سے 8 مطبوعات سنہ 1857 سے پہلے اور 1857 کے بعد شائع ہوئیں۔ ہر کتاب کا نام اور سن اشاعت درج ہے۔ ضخیمے میں جو کچھ شامل ہے ان کی اہمیت اور اندازہ پروفیسر سید عبدالباری کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے کہ ''انہوں'شمیم طارق' نے بعض ایسے نوادر اس کتاب میں شامل کردئیے ہیں جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں''۔ ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' کے عنوان کے تحت انہوں نے جو باب قائم کیا ہے اس میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:

ان ''غالب'' کے ذاتی کردار سے یقینا صرفِ نظر ضروری ہے کہ کسی کی خوابگاہ میں جھانکنا اخلاقی گناہ ہے مگر قومی امور میں کسی فرد واحد کے کردار کی ایسی توجیہ جس سے وطن عزیز پر جان دینے والے لاکھوں وطن دوستوں کی قربانیوں پر حرف آتا ہو اخلاقی گناہ کے ساتھ قومی گناہ بھی ہے۔'' 'ص:116-117'

''غالب اور سرسید'' کے عنوان سے جو باب قائم کیا گیا ہے اور میں غالب کے مذہب و عقیدہ پر روشنی ڈالنے کے بعد غالب اور سرسید کے نظریات کا موازنہ کرتے ہوئے، واضح کیا گیا ہے کہ غالب کو صرف اپنا مفاد عزیز تھا اور سرسید کو پوری ملت کا۔ یہ بہت اہم باب ہے اور برسہا برس کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے۔ یہی خوبی پوری کتاب کی ہے جو حوالوں اور حواشی سے مزین ہے۔ اس باب میں شمیم طارق نے جو سوالات قائم کئے ہیں یا جو انکشافات کئے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ماہرین غالبیات نے بہت سی باتوں کو یونہی فرض کرلیا تھا۔

شمیم طارق نے غالب کی نظم و نثر کے حوالے سے ان کی نفی کی ہے۔ انہوں نے حوالے سے واضح کیا ہے کہ:

''نظم و نثر دونوں میں غالب نے اپنے عقیدہ و مذہب کے متعلق بھی جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کا حنفی، صوفی، تفصیلی، اثناعشری، نیم مسلمان و مطلقا کافر ہونا سب ثابت ہوتا ہے اور قطع نظر اس سے کہ حالی سے کالی داس گپتا رضا تک غالب کے مذہب کے متعلق کس نے کیا لکھا ہے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم الحروف یہ سمجھتا ہے کہ وقت و حالات کے تحت ہی نہیں مخاطب و مکتوب الیہم کی رعایت سے بھی غالب کے اظہار عقیدہ میں فرق آتا گیا ہے۔'' 'ص:130-131'

اس کے بعد غالب کے خطوط اور اشعار سے ثبوت فراہم کئے گئے ہیں لیکن نتیجہ اخذ کرنے میں حسن ظن کا مظاہرہ کیا گیا ہے:

بسوز غالب آزادہ را و باک مدار
بشرطِ آں کہ تواں گفت نا مسلمانانش

''اور جو مسلمان ہونے کی مدعی ہوں ہم انہیں مسلمان ہی کہیں گے۔'' 'ص:123

''دستنبو پر ایک نظر'' کے عنوان سے انہوں نے غالب کی تحریروں کی روشنی میں ہی ان کے متعدد اکاذیب کی نشاندہی کی ہے۔

غالب کی قصیدہ گوئی سے انہوں نے واضح کیا ہے کہ: وہ شہنشاہ دلی کی موجودگی میں ان کے علاوہ دوسرے نوابوں اور مہاراجوں کی شان میں بھی قصیدے کہا کرتے تھے حتی کہ انہوں نے انگریزون کی قصیدہ خوانی بھی شروع کردی تھی۔

ان کے متعدد فیصلے ایسے بھی ہیں جو اولا کسی اور کی مدح میں لکھے گئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے قدرے تغیر کے ساتھ ان کے ممدوح بدل دئے گئے۔

وہ قصیدہ لکھنے اور ممدوح کے پاس بھیجنے کے بعد خاموش نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ممدوح کو یاد دہانی بھی کراتے تھے کہ وہ انعام سے نوازیں۔

یاد دہانی کے ساتھ وہ اپنے ممدوح سے اس خواہش کا اظہار کرنے میں بھی ججھک محسوس نہیں کرتے کہ قصیدہ کا صلہ اس قدر ملے۔

قصیدوں اور خطوں میں ترمیم و تنسیج کرنے کے ساتھ انہوں نے اپنے نسب کے اظہار میں بھی تضاد بیانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 'ص: 150'

''ایک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خاموش ہے'' کے عنوان سے انہوں نے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر باور کرایا ہے کہ سنہ 1857 کے المناک حوادث و واقعات غالب کے شعری تجربے میں نہیں ڈھل سکے، بعد والوں نے سنہ 1857 سے 35 تا 41 سال پہلے کہے ہوئے شعروں کو سنہ 1857 کے واقعات پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔

آخری باب میں غالب کے خطوط پر مجموعی تبصرے کے ساتھ غالب کے سنہ 1857 سے متعلق خطوط کے اقتباسات کو تاریخی ترتیب سے یکجا کردیا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ پہلا خط 5ڈسمبر سنہ 1857 کا اور آخری خط 15 فروری سنہ 1867 کا ہے۔ ان خطوط کی روشنی میں غالب کے دل کی کیفیت کے ساتھ دلی کی پوری کیفیت بھی سامنے آجاتی ہے۔ شمیم طارق کے لفظوں میں:

''انہیں تسلسل سے پڑھنے اور ان میں بیان کئے ہوئے واقعات و حالات کا ہم عصر روز نامچوں، تذکروں، حکام کی خفیہ اور انتظامی رپورٹوں اور مؤرخین کی بیان کی گئی شہادتوں سے موازنہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ غالب سے کہاں سہو ہوا ہے، کہاں انہوں نے قصدا جھوٹ کا سہارا لیا ہے اور کہاں انہوں نے انگریزوں کے بے پناہ مظالم کے حوالے مصلحتا حذف کردئے ہیں۔'' 'ص:180'

مندرجہ بالا تعارف و تجزیہ دوسرے سے آخری باب تک کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان ابواب میں جو نتائج اخذ کئے گئے یا جو شواہد پیش کئے گئے ہیں ان سے اختلاف کرنا ممکن نہیں ہے اور اس کی دو اہم وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ غالب ہی کے بیانات و اعترافات پر مبنی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے والوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ:

غالب کو احساس تھا کہ ان کے انتقال '78برس' اور سنہ 1857 کے 90 برس بعد انگریزوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔

دستنبو میں انہوں نے جھوٹ کا سہارا نہیں لیا ہے۔

ایک کے قصیدے کو دوسرے کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے یا قصیدہ پیش کرنے کے بعد صلہ کا بھی تقاضہ نہیں کرتے تھے۔

سنہ 1857 کے بعد ان کی شعر گوئی پر زوال نہیں آیا تھا اور انگریزوں کے مظالم کے حوالے انہوں نے حذف نہیں کئے تھے۔ لیکن مندرجہ بالا باتوں میں کسی ایک کو بھی ثابت کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے اس لئے شمیم طارق کے اخذ کئے ہوئے نتائج سے اختلاف شاید ممکن نہیں ہے۔ پہلے باب میں البتہ کچھ باتوں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب کے عہد میں سیاسی بے یقینی ہی نہیں تھی، مذہبی تہذیبی اور معاشی انار کی کا بھی دور دورہ تھا، کچھ جماعتیں اگر احیاء مذہب اور ملکی استحکام کے لئے سرگرم عمل تھیں تو زیادہ تر لوگ صرف اپنے لئے جی رہے تھے۔ اس عہد کے بارے میں تاریخ دانوں میں بھی بہت اختلاف رہا ہے۔ شمیم طارق نے مجموعی طور پر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس بے یقینی کے دور میں بھی یقین والے لوگ موجود تھے اور ان کی کوششوں کے سبب ہی سنہ 1803 سے ہی جب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا ہندوستان انگریزوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کررہا تھا۔ سنہ 1857 اس کا نقطہ عروج تھا۔ اس جنگ میں صرف دو قسم کے لوگ شامل نہیں تھے۔ ایک وہ جو نئے نئے زمیندار ہوئے تھے اور دوسرے روشن خیال لوگ جن کی دولت و سماجی حیثیت کا تمام تر انحصار انگریزوں کی عطا پر تھا۔ غالب دوسری قسم کے لوگوں میں تھے۔ شمیم طارق کے لفظوں میں:

''ان کی نگاہیں کلکتہ اور بنگال کے چہرے پر انگریزوں کے ملے ہوئے غازے سے آگے نہیں دیکھ سیکیں۔ وہ انقلابی بنگال کی اس روح کو بھی نہیں پہچان سکے جو بنگال کی انقلابی اور قومی تحریکوں کی محرک بنی۔ نہ ہی انہوں نے سنہ 1857 کے خاکستر میں چھپی چنگاریوں کی گرمی محسوس کی جو بعد میں ریشمی رومال، دیوبند اور دوسری قومی و انقلابی تحریکوں کی صورت میں شعلہ جوالہ بن کر غلامی کی زنجیروں کو پگھلا دینے کا سبب بنیں۔'' 'ص: 27'

اس باب کا ایک اہم نتیجہ جو انہوں نے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ غالب کے قریبی دوست مولانا فضل حق خیر آبادی اور غالب کی گرفتاری پر خوشی سے بغلیں بجانے والے مولوی باقر ایسے علما میں تھے جن کا انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنا ثابت نہیں ہے۔ مولانا فضل حق کے فتوی کی بڑی تشہیر کی گئی ہے ایک مسلک کے لوگ اس سلسلے میں بڑے جذباتی ہیں لیکن شمیم طارق نے مولانا فضل حق خیر آبادی کے علم و فضل کے اعتراف کے باوجود ان کے جہاد کا فتوی دینے کی روایت کو مطبوعہ تحریروں اور دستاویزوں کی بنیاد پر مسترد کیا ہے۔ انہی کے لفظوں میں:

مولانا امتیاز علی خان عرشی اور مالک رام نے نواب یوسف علی خان والی رام پور کے نام لکھتے ہوئے غالب کے ایک خط اور اصل مقدمہ کے کوائف اور دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر ثابت کردیا ہے کہ:
مولانا نے کبھی کوئی ایسا فتوی دیا ہی نہیں تھا جس میں مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔

غلط فہمی کی بنیاد پر انگریزوں نے انہیں گرفتار کرکے جو مقدما چلایا اس کے دوران وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ میں نے بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا اور فتوی جہاد پر جن علما کے دستخط ہیں ان میں میرا نام نہیں ہے۔

مولانا نے اپنی پیرانہ سالی، اولاد کی کمسنی اور عسیر الحالی کی دہائی دے کر انگریزوں سے رحم کی پرزور التجا بھی کی۔'' 'ص:33-32'

انگریزوں کو غلط فہمی ہوئی کیوں؟ اس سلسلے میں شمیم طارق کا کہنا ہے کہ مولانا سید فضل حق شاہجہاں پوری ثم رامپوری ایک دوسرے عالم تھے جو شہزادہ فیروز بخت کے ساتھ انگریزوں سے جنگ کررہے تھے نام کی مشابہت کی بنیاد پر انگریزوں کو دھوکہ ہوا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے دوسرے شخص کو گرفتار کرلیا ہے تو انہوں نے پروانہ رہائی جاری کیا لیکن جب مولانا کے صاحب زادے پروانہ رہائی لے کر اندمان پہنچے تو مولانا کا جنازہ لے جایا جارہا تھا۔ اس باب میں بھی جو کچھ ہے مدلل ہے۔ حوالوں کے ساتھ ہے اس لئے حیرت ہونے کے باوجود قبول کرنا پڑتا ہے۔ کتاب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر سید عبدالباری، جناب کالی داس گپتا، رضا اور ڈاکٹر شمس بدایونی کی آرا شامل ہیں اور یہ تمام صاحبان قلم اردو تحقیق و غالبیات میں مستند حوالے کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے آراء کے باوجود اگر کوئی کہے کہ اس کتاب سے مجھے اتفاق نہیں ہے تو اس کی اس سادگی پر مسکرانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کتاب غالب کی شخصیت اور سنہ 1857 کے نتائج میں اس کے مطالعے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حوالے کی کتاب کا بھی درجہ رکھتی ہے۔

علمی تحقیق سے اختلاف سے نئی تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں اس لئے اختلاف کو اگر وہ مدلل ہو برا نہیں سمجھا جاتا، مگر شمیم طارق کی اس کتاب کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والوں کا اصل سرمایہ علیمی استدلال نہیں محض کٹ حجتی محسوس ہوتی ہے۔

دوسری کتاب '' غالب: بہادر شاہ ظفر اور سنہ 1857'' سنہ 1857 کے 150ویں سال میں غالب کے 210ویں یوم ولادت کے موقع پر غالب اکیڈمی دہلی میں دیا گیا شمیم طارق کا خطبہ ہے۔ خطبہ کو کیسٹ کی مدد سے کتاب میں منتقل کیا گیا ہے۔ خطبے اور کتاب میں فرق صرف یہ ہے کہ خطبے میں طویل اقتباسات کی طرف صرف اشارے تھے، کتاب میں اقتباسات شامل کردئے گئے ہیں۔ اس سے کتاب اور زیادہ مستند ہوگئی ہے۔ موضوع جتنا اہم ہے شمیم طارق نے اس پر روشنی بھی اتنی ہی محنت سے ڈالی ہے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے ایک اہم سوال قائم کیا ہے:

''موضوع بہت وسیع ہے اور اس موضوع کا حق تبھی ادا ہوسکتا ہے جب موضوع کے سبھی اجزاء کا احاطہ کیا جائے اور وہ بھی مختلف زاویوں سے۔ لیکن اس سے بھی زیاہ اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ گفتگو ہو کن بنیادوں پر؟ غالب اور بہادر شاہ ظفر تاریخی شخصیتیں ہیں، سنہ 1857 تاریخ کا ایک ورق ہے، مکمل تاریخ ہے اور تاریخ حکایات و قصص کا نام نہیں ہے۔'' 'ص: 10'

اس کتاب میں انہوں نے تاریخی ماخذ کو 5/قسموں میں تقسیم کرکے ان پر روشنی ڈالی ہے۔

1۔پہلی قسم ان تاریخوں اور تذکروں کی ہے جو انگریز دوستوں کے لکھے ہوئے ہیں۔

2۔دوسری قسم کارل مارکس کی کتاب The Indian war of independence 1857-8 جیسی کتابوں پر مشتمل ہے۔

3۔تیسری قسم اس زمانے کے اخبارات و رسائل پر مشتمل ہے۔

4۔چوتھی قسم ملفوضات ادب کی ہے۔ اور بہت اہم ہے۔ اردو میں اس موضوع پر نہیں لکھا گیا تھا۔ شمیم طارق نے اردو والوں کو تاریخ کے ایک بہت اہم ماخذ سے واقف کرایا ہے۔

5۔پانچویں قسم انگریزوں کی رپورٹوں، ڈائریوں، یادداشتوں، ٹریبونل کے فیصلوں اور انتظامی امور کے متعلق جاری کئے گئے حکم ناموں پر مشتمل ہے۔

ماخذ کی ان پانچ قسموں پر گفتگو کرنے کے بعد شمیم طارق نے ماخذ کی روشنی میں جو اہم نکات بیان کئے ہیں یا جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ یہ ہیں:

الف۔''غالب اگر چہ اس معنی میں خوش نصیب شاعر تھے کہ انہیں بہت اچھے سوانح نگار ملے مثلا مولانا الطاف حسین حالی۔

زبردست مداح ملے مثلا عبدالرحمن بجنوری جنہوں نے مقدس وید اور دیوان غالب کو ہم پلہ قرار دے دیا۔

بدترین نکتہ چین ملے مثلا یاس یگانہ چنگیزی جن کی غالب شکنی کی روش نے غالب کو اور زیادہ محبوب بنا دیا۔

بہت اچھے اور بڑی تعداد میں شارح ملے کہ غالب کے کلام کی مکمل، نامکمل شرح کرنے والوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہے مگر اس معنی میں وہ بدقسمت بھی تھے کہ انہیں اچھے نقاد نہیں ملے۔'' 'ص: 35'

ب۔ ''بہادر شاہ ظفر کو وہ شاہانہ وقار ایک پل کے لئے بھی نصیب نہیں ہوا جو باہر سے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر تک ہر مغل بادشاہ کو حاصل تھا مگر وہ بادشاہ اس لئے کہے جاتے تھے کہ دادودہش، اہل علم اور اہل ہند کی قدردانی اور رعایا پروری جیسے شاہانہ اوصاف ان کے مزاج و کردار کا حصہ تھے۔'' 'ص:10'

ج۔ ''سنہ 1857 ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسی خونیں لکیر کانام ہے جو وقت کے ساتھ مدہم ہونے بجائے نمایاں ہوتی جارہی ہے اس کو ایک عہد کا خاتمہ کہیں تو درست اور ایک عہد کا آغاز کہیں تو درست۔ ایک عہد کا آغاز اس لئے کہ اس کے صرف 90 سال بعد انگریز آزادی کی متعین تاریخ سے پہلے ہی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔'' 'ص:10'

نئے ماخذ کی نشاندہی، ان پر بحث اور واقعات کی تاریخ وار ترتیب پیش کرنے کے بعد شمیم طارق نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ کتاب کا حاصل ہے۔

''سنہ 1857 کے سوسال پہلے ہی سے ہندوستان لاشعوری طور پر انگریزوں کے خلاف جنگ کی تیاری کررہا تھا۔
''سنہ 1857 میں افراتفری تھی اس کے باوجود ہندوستان کے طول و عرض میں ہی نہیں دلی کے محاذ پر بھی انگریزوں کو شکست ہورہی تھی اس شکست کو انگریزوں کے ہندوستانی جاسوسوں اور ایجنٹوں نے فتح میں تبدیل کیا اور وہ اس طرح کے انہوں نے کبھی پُل اڑا کر، کبھی بارود خانوں اور توپوں کو تباہ کرکے، کبھی حملے کی پیشگی خبر سے انگریزوں کو خبردار کرکے اور کبھی مسلح مزاحمت کرنے والوں میں اختلاف پیدا کرکے انگریزوں کی مدد کی۔'' 'ص:64'

یہ کتاب نہایت جامع اور پراز معلومات ہے، حوالوں حاشیوں سے سجی ہوئی ہے، انداز بیان اتنا پر اثر ہے کہ ایک بار ہاتھ میں آجائے تو ختم کئے بغیر نہیں رہا جاتا۔ قاری جگہ جگہ چونکتا ہے۔ یہی اس کتاب کا کمال ہے کہ قاری جہاں چونکتا ہے وہاں بھی مصنف سے اختلاف نہیں کر پاتا کیونکہ چونکا دینے والا ہر انکشاف یا اخذ کیا گیا ہر نتیجہ نہ صرف مدلل بلکہ متوازن بھی ہے۔

مختصر لفظوں میں شمیم طارق کی دونوں کتابیں غالبیات میں نئے دریچے واکرتی ہیں۔ ان کی حیثیت ایک مصدر و مرجع کی ہے۔ شمیم طارق پر پتھراؤ کرنے سے ان کتابوں کی اہمیت کم نہ ہوگی۔ وقت کے ساتھ ان کی اہمیت بھی بڑھے گی اور مقبولیت بھی۔ یہ پیشن گوئی گزشتہ 6 برسوں کے تجربات کا خاصہ ہے جن میں : ''غالب اور ہماری تحریک آزادی'' کو اہم کتاب تسلیم کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔
تحریر: محمد شعیب کوٹی
بشکریہ فیس بک
 
اس باب کا ایک اہم نتیجہ جو انہوں نے اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ غالب کے قریبی دوست مولانا فضل حق خیر آبادی اور غالب کی گرفتاری پر خوشی سے بغلیں بجانے والے مولوی باقر ایسے علما میں تھے جن کا انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنا ثابت نہیں ہے۔ مولانا فضل حق کے فتوی کی بڑی تشہیر کی گئی ہے ایک مسلک کے لوگ اس سلسلے میں بڑے جذباتی ہیں لیکن شمیم طارق نے مولانا فضل حق خیر آبادی کے علم و فضل کے اعتراف کے باوجود ان کے جہاد کا فتوی دینے کی روایت کو مطبوعہ تحریروں اور دستاویزوں کی بنیاد پر مسترد کیا ہے۔ انہی کے لفظوں میں:​
مولانا امتیاز علی خان عرشی اور مالک رام نے نواب یوسف علی خان والی رام پور کے نام لکھتے ہوئے غالب کے ایک خط اور اصل مقدمہ کے کوائف اور دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر ثابت کردیا ہے کہ:​
مولانا نے کبھی کوئی ایسا فتوی دیا ہی نہیں تھا جس میں مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔​
غلط فہمی کی بنیاد پر انگریزوں نے انہیں گرفتار کرکے جو مقدما چلایا اس کے دوران وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ میں نے بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا اور فتوی جہاد پر جن علما کے دستخط ہیں ان میں میرا نام نہیں ہے۔​
مولانا نے اپنی پیرانہ سالی، اولاد کی کمسنی اور عسیر الحالی کی دہائی دے کر انگریزوں سے رحم کی پرزور التجا بھی کی۔'' 'ص:33-32'​
انگریزوں کو غلط فہمی ہوئی کیوں؟ اس سلسلے میں شمیم طارق کا کہنا ہے کہ مولانا سید فضل حق شاہجہاں پوری ثم رامپوری ایک دوسرے عالم تھے جو شہزادہ فیروز بخت کے ساتھ انگریزوں سے جنگ کررہے تھے نام کی مشابہت کی بنیاد پر انگریزوں کو دھوکہ ہوا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے دوسرے شخص کو گرفتار کرلیا ہے تو انہوں نے پروانہ رہائی جاری کیا لیکن جب مولانا کے صاحب زادے پروانہ رہائی لے کر اندمان پہنچے تو مولانا کا جنازہ لے جایا جارہا تھا۔ اس باب میں بھی جو کچھ ہے مدلل ہے۔ حوالوں کے ساتھ ہے اس لئے حیرت ہونے کے باوجود قبول کرنا پڑتا ہے۔ کتاب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر سید عبدالباری، جناب کالی داس گپتا، رضا اور ڈاکٹر شمس بدایونی کی آرا شامل ہیں اور یہ تمام صاحبان قلم اردو تحقیق و غالبیات میں مستند حوالے کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے آراء کے باوجود اگر کوئی کہے کہ اس کتاب سے مجھے اتفاق نہیں ہے تو اس کی اس سادگی پر مسکرانے کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کتاب غالب کی شخصیت اور سنہ 1857 کے نتائج میں اس کے مطالعے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حوالے کی کتاب کا بھی درجہ رکھتی ہے۔​
علمی تحقیق سے اختلاف سے نئی تحقیق کے دروازے کھلتے ہیں اس لئے اختلاف کو اگر وہ مدلل ہو برا نہیں سمجھا جاتا، مگر شمیم طارق کی اس کتاب کے متعلق چہ میگوئیاں کرنے والوں کا اصل سرمایہ علیمی استدلال نہیں محض کٹ حجتی محسوس ہوتی ہے۔​
سید شہزاد صاحب شمیم طارق نے جنگ آزادی 1857ء کے حوالے سے علامہ فضل حق خیرآبادی کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پر ناچیز کا ایک مضمون ملاحظہ کریں​


دارالسلطنت دہلی زمانۂ قدیم سے ہی علم و فن اور شعر وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ مغلیہ حکومت کے اخیر دور میں انقلاب ۱۸۵۷ء سے قبل دہلی کی علمی و ادبی دنیا میں جن حضرات کا غلغلہ بپا تھا ان میں علامہ فضل حق خیرآبادی(م۱۲۷۸ھ)،مفتی صدرالدین آزردہؔ(م۱۲۸۵ھ)،مرزا اسدا للہ خان غالبؔ(م ۱۲۸۵ھ) اور حکیم مومن خان مومنؔ کا شمار صفِ اول کے ممتاز ترین شعرا و ادبا میں ہوتا ہے۔ ’’غالبؔ نام آورم ‘‘ کے مصنف نادمؔ سیتا پوری لکھتے ہیں :​
’’انقلاب سنہ ستاون سے پہلے دہلی کی ادبی فضا جن عناصرِ اربعہ سے ترتیب پارہی تھی وہ یہی چار ہستیاں تھیں۔ مولانا خیرآبادی،مفتی صدرالدین آزردہؔ،مرزا غالبؔ اور حکیم مومنؔ۔‘‘(نادم سیتاپوری: غالب نام آورم ،ص ۸۱)​
علامہ فضل حق خیرآبادی(ولادت ۱۲۱۲ھ/۱۷۹۷ئ) اور ان کے والدِ ماجد مولانا فضل امام خیرآبادی علیہم الرحمہ(وفات ۱۲۴۴ھ/۱۸۲۹ئ) دونوں اپنے عہد کے جید عالم اور مشاہیر میں شمار کیے جاتے تھے اور مرجع العلماء والادباء تھے۔ دونوں کی شخصیت حکمت و دانش کے اعتبار سے یگانۂ روزگار تھی ان حضرات کو معقولات میں جو تبحّر حاصل تھا ؛ اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ وہ یونانی اور اسلامی دورِ عروج کے مفکرین اور حکما کی صف میں شامل کیے جانے کے بلاشبہ قابل ہیں۔سر سید احمد خان علامہ فضل حق خیرآبادی سے سیاسی و دینی لحاظ سے مختلف الخیال اور جدا جدا عقیدہ رکھتے تھے بل کہ بعض معاملات میں شدید مخالفت بھی کی؛ لیکن ملاحظہ فرمائیے کہ سر سید کے ذہن و قلب پر علامہ فضل حق خیرآبادی کی حکمت و دانش کے اثرات کتنے گہرے تھے ، سر سید لکھتے ہیں :​
’’جمیع علوم و فنون میں یکتاے روزگار ہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انھیں کی فکرِ عالی نے بِنا ڈالی ہے بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانۂ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا،دعواے کمال کو فراموش کرکے نسبتِ شاگردی کو اپنا فخر سمجھا،بہ ایں کمالات علم و ادب میں ایسا عَلمِ سرفرازی بلند کیا ہے کہ فصاحت کے واسطے ان کی شستۂ محضر عروجِ معارج ہے اور بلاغت کے واسطے ان کی طبعِ رسا دست آویز بلندیِ معارج ہے۔ سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایۂ خوش بیانی اورامراء القیس کو ان کے افکارِ بلند سے دست گاہِ عروج و معانی،الفاظ پاکیزہ ان کے رشکِ گوہرِخوش آب اور معانی رنگین ان کے غیرتِ لعلِ ناب، سرو ان کی سطورِ عبارت کے آگے پابہ گِل،اور گُل ان کی عبارتِ رنگیں کے سامنے خجل،نرگس ان کے سواد سے نگاہ ملا دیتی۔ مصحفِ گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی۔ اور سوسن اگر ان کی عبارتِ فصیح سے زبان کو آشنا کرتی،صفتِ گویائی سے عاری نہ ہوتی۔‘‘(سر سید: آثارالصنادید،ص ۲۸۱)​
اس تاریخی حقیقت سے ہر اہل فہم اور ذی علم واقف ہے کہ سرزمین ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی تحریک کے قائدِ اعظم کی حیثیت علامہ فضل حق خیرآبادی کو ہی حاصل ہے، علامہ کی تصنیف ’’الثورۃ الہندیہ اور’’ قصائد فتنۃ الہند‘‘ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے نہایت قابلِ قدر ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چوں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے محمد بن عبدالوہاب نجدی کی ’’کتاب التوحید‘‘ کے اردو چربہ ’’تقویۃ الایمان ‘‘ مولفہ مولوی اسماعیل دہلوی کے ساتھ ساتھ دیگر عقائدِ وہابیہ کی تردید میں کلیدی کردار ادا کیا ، بہ ایں سبب آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں؛ چناں چہ تاریخی حقائق و شواہد پر پردہ ڈالنے اور جنگِ آزادی کے مسلمہ رہِ نماوں کے خلاف فضا پیدا کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ علامہ فضل حق خیرآبادی نے نہیں دیا۔ اس ضمن میں مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ رام پوری اور مالک رام کواوّلیت حاصل ہے جنہوں نے اپنا سارا’’زورِ تحقیق‘‘ نا معلوم کن ’’جذبات‘‘ سے سرشار ہوکر اس بات پر صرف کرنے کی ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ کوشش کی کہ انگریزوں کے خلاف فتویٰ پر علامہ کے دستخط نہیں تھے۔ ان صاحبان کے مضامین ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ دہلی میں اگست ۱۹۵۷ء اور جون ۱۹۶۰ء میں علی الترتیب شائع ہوئے ۔ عرشیؔ صاحب کے بارے میں تو معلوم ہے کہ وہ سید احمد راے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے افکار و نظریات کے پیرو تھے ،بہ ایں سبب جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد کے سلسلے میں آپ نے ’’محققانہ فیصلہ‘‘ صادر کرنے میں جانب داری کا ’’بہترین مظاہرہ‘‘ کیا ، مالک رام کے بارے میں پتا نہیں؛ کہ وہ کن جذبات سے مغلوب ہوکر تاریخی حقائق کو جھٹلا رہے تھے ؟علاوہ ازیں پروفیسر محمد ایوب قادری (پاکستان) نے بھی اپنا’’اشہبِ تحقیق‘‘ ان ہی دونوں شخصیات کے تتبع میں اسی میدان میں دوڑایا ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کا جنگِ آزادی میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ویسے کہیں کہیں ان کے قلم سے سچائی بے ساختہ ٹپک پڑی ہے۔ واضح ہونا چاہیے کہ ایوب صاحب کے ساتھ جو ’’قادری‘‘ لگا ہے اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ بھی وہابی مسلک کے پیرو تھے اورموصوف پر ان کے بڑے بھائی ابو معاویہ نعمت اللہ قادری صاحب کا گہرا اثر تھا جو مسلک وہابیہ کے بہت بڑے مبلغ گذرے ہیں۔​
سید احمد راے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے محض ان چند ہم نوا مورخین کو چھوڑ کران ہی کے ماننے والے بیش تر حضرات نے اس حقیقت کا کسی نہ کسی طورپر اعتراف کیا ہے کہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء میں علامہ فضلِ حق خیرآبادی کے فتواے جہاد نے ہی روح پھونکی اور تحریک ِآزادی نے زور پکڑا۔ ان میںجناب حسین احمدمدنی ٹانڈوی ، غلام رسول مہرؔ، شکور احسنؔ، مفتی انتظام اللہ شہابیؔ،محمد اسماعیل پانی پتی، خلیل احمد نظامی وغیرہم نمایاں ہیں۔​
علامہ فضل حق خیرآبادی سے مذہبی طور پرمخالفانہ ومعاندانہ رویہ رکھنے والے چند مورخین کو چھوڑ کر ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ علامہ ہی کی ذات وہ پہلی متحرک شخصیت ہے جس نے انگریزوں کے خلاف علَمِ جہاد بلند کرنے کا فتویٰ عام فرمایا اور جس کے نتیجے میں سرزمین ہند کے مختلف بلاد و امصار میں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت و شورش برپا ہوئی جسے ہم ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کے نام سے جانتے ہیں ۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کو اس زمانے میں گرفتار کرکے ان پر انگریزی حکومت سے بغاوت کرنے کی پاداش میں جزائرِ انڈومان سزاے کالا پانی کے طور پر بھیج دیا گیا۔جہاں عالمِ اسیری میں ۱۲؍صفر المظفر ۱۲۷۸ھ/ ۱۸۶۱ء کو آپ نے دارِ بقا کی طرف رحلت فرمائی ۔​
جیسا کہ اس امر کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد سے متعلق علامہ فضل حق خیرآبادی کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ اور مالک رام نے شروع کی ۔ واضح ہونا چاہیے کہ ان حضرات سے قبل کے جتنے بھی مورخین ہیں خواہ وہ علامہ کے عقائد و نظریات کے حامی ہوں یا مخالف سب نے اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ فتواے جہاد پر علامہ کے دستخط بھی ہیں اور یہ فتویٰ انہوں نے ہی مرتب کیا اور یہ کہ آپ نے جنگِ آزادی میں عملاً حصہ لیا اور مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے سزاے کالا پانی کو قبول بھی کیا۔اسی طرح یہ بھی ذہن نشین رہے کہ کتبِ تواریخ میں تین فتوے کا ذکر ملتا ہے ایک فتویٰ جس کا علامہ فضل حق نے خوداپنی کتاب ’’الثورۃ الہندیہ‘‘ میں ذکر کیا ہے، دوسراجنرل بخت خاں کی تحریک پر خود علامہ نے مرتب کیا اور تیسرا جس کا ذکر سر سید احمد خاںنے ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ میں کیا ہے جو کہ عدم وجوبِ جہاد پر مشتمل تھا۔​
مولانا عرشی اورمالک رام کے مضامین کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مولانا عبدالشاہد خاںشیروانی اسسٹنٹ لائب ریرین ، شعبۂ مخطوطات ، مولانا آزاد لائب ریری ، مسلم یونی ورسٹی ، علی گڈھ(ولادت جنووری ۱۹۱۵ئ/ وفات ۱۹۸۴ئ)نے ایک تحقیقی مقالہ بہ عنوان…’’ مقدمۂ بغاوت اور اس کے متعلقات ‘‘… قلم بند فرما کر حقِ تحقیق ادا کردیاجو کہ ’’باغی ہندوستان‘‘ (اردو ترجمہ الثورۃ الہندیہ از : علامہ فضل حق خیرآبادی ) کے صفحہ ۲۴۷سے ۲۸۱تک پھیلا ہوا ہے ۔ مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی کے مذکورہ مقالہ کی اشاعت کے بعد جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے فتواے جہاد کے سلسلے میں علامہ کی مخالفت کرنے والوں کا ناطقہ بند ہوگیا تھا ۔ ایک طویل عرصہ تک خاموشی کے بعد فی زمانہ جب کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کے وصال کو ۱۵۰؍برس مکمل ہونے والے ہیں معروف صحافی و شاعر شمیم طارق نے اپنی ایک کتاب ’’غالبؔ اور ہماری تحریکِ آزادی‘‘ میں جہاں علامہ فضل حق خیرآبادی کی علمی حیثیت کو تسلیم کیا وہیں آپ کے فتواے جہاد کو مسترد کرنے کی سعیِ نا مشکوربھی کی ہے لیکن اس ضمن میں کوئی نئی تحقیق پیش نہ کرتے ہوئے؛ مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی کے ذریعہ محققانہ و انتقادانہ انداز میں ردّکی جاچکی مولانا عرشیؔ اور مالک رام ہی کی روایتوں کو بنیاد بنایا اور وہی نتیجہ نکالا ہے جسے عرشی ؔصاحب اور مالک رام نے ماہ نامہ ’’تحریک‘‘ دہلی میں اگست ۱۹۵۷ء اور جون ۱۹۶۰ء میں علی الترتیب شائع شدہ اپنے مضامین میں کیاتھاکہ :​
’’٭مولانا نے کبھی کوئی ایسا فتویٰ دیا ہی نہیں تھا جس میں مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دی گئی ہو۔​
٭غلط فہمی کی بنیاد پر انگریزوں نے انہیں گرفتار کرکے جو مقدمہ چلایا اس کے دوران وہ بار باریہی کہتے رہے کہ میں نے بغاوت میں کوئی حصہ نہیں لیا اور فتویٰ ِ جہاد پر جن علما کے دستخط ہیں ان میں میرا نام نہیں ہے۔​
٭مولانا نے اپنی پیرانہ سالی ، اولاد کی کم سِنی اور عسیر الحالی کی دُہائی دے کر انگریزوں سے رحم کی پُرزور التجا بھی کی۔‘‘(شمیم طارق:غالب اور ہماری تحریکِ آزادی،ص ۳۲/۳۳)​
شمیم طارق کی اس کتاب پر جانب دارانہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے محمد شعیب کوٹی نے لکھا ہے کہ :​
’’مولانا فضل حق کے فتواے جہاد کی بڑی تشہیر کی گئی ہے۔ ایک مسلک کے لوگ اس سلسلے میں بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں ۔‘‘(اردو بک ری ویو، دہلی اکتوبر تادسمبر ۲۰۰۸ء ، ص ۲۵)​
شمیم طارق صاحب کی اس’’ تقلیدی تحقیق‘‘(وہ بھی جس کے تارو پود بکھیرے جا چکے ہیں ) کے منظر عام پر آنے کے بعدضروری ہوجاتا ہے کہ ایک بار پھرعلامہ فضل حق خیرآبادی کے فتواے جہاد کی باز گشت سنائی جائے ۔ واضح ہونا چاہیے کہ صرف ایک مسلک ہی کے نہیں بل کہ بڑے بڑے اصحابِ تحقیق اور منصف مزاج مورخین نے علامہ فضل حق خیرآبادی کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔ حتیٰ کہ شمیم طارق صاحب کی’’ تحقیق‘‘ کو جس’’ مسلک‘‘ کے لوگ فخر و مباہات سے لیے گھوم رہے ہیں خوداس کے شیخ الاسلام مولوی حسین احمد مدنی نے اپنی کتاب ’’تحریکِ ریشمی رومال ‘‘ میں تو قضیہ ہی صاف کردیا ہے اور علامہ فضل حق جیسے جنگِ آزادی کے شیرِ حق کی شانِ استقلال پر قربا ن ہورہے ہیں اور اس مفروضے کی سختی سے نفی کررہے ہیں کہ علامہ فضل حق کے فتواے جہاد سے متعلق صرف ایک مسلک کے لوگ ہی بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں ۔ موصوف راقم ہیں :​
’’مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی کو جو کہ تحریک کے بہت بڑے رکن تھے اور بریلی، علی گڑھ اور اس کے ملحقہ اضلاع کے دورانِ تحریک میں گورنر تھے، آخر ان کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ جس مخبر نے ان کو گرفتار کرایاتھا اس نے انکار کردیا کہ مجھے معلوم نہیں ، فتویِٰ جہاد پر جس نے دستخط کیے ہیں وہ یہ فضل حق ہیں یا کوئی اور ہیں؟……مولانا نے فرمایا:’ مخبر نے پہلے جو رپورٹ لکھوائی تھی وہ بالکل صحیح تھی کہ فتویٰ میرا ہے۔ اب میری شکل و صورت سے مرعوب ہوکر یہ جھوٹ بول رہا ہے۔‘​
قربان جائیے علامہ کی شانِ استقلال پر؛ خدا کا شیر گرج کر کہہ رہا ہے کہ میرا اب بھی وہی فیصلہ ہے کہ انگریز غاصب ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے ۔​
خدا کے بندے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ۔ وہ جان کی پروا کیے بغیر سر بہ کف ہوکر میدان میں نکلتے ہیں اور لومڑی کی طرح ہیر پھیر کرکے جان نہیں بچاتے بل کہ شیروں کی طرح جان دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔‘‘​
(حسین احمد مدنی: تحریکِ ریشمی رومال ، مطبوعہ کلاسیک ،لاہور، ۱۹۶۰ئ، ص ۶۴/۶۵)​
علامہ فضل حق خیرآبادی اور مولوی اسماعیل دہلوی کے سیاسی کردار پر راجا غلام محمد (صدرادارۂ ابطالِ باطل، لاہور ) نے ’’امتیازِ حق‘‘ کے نام سے ایک بڑی خوب صورت اور تحقیقی کتاب تصنیف کی ہے جس میں انہوں نے علامہ فضل حق پر جنگِ آزادی کے حوالے سے کیے جانے والے جملہ اعتراضات کے تحقیقی جوابات دیے ہیں۔ اسی کتاب کے صفحہ ۲۶تا ۵۰، پانچواں ایڈیشن المجمع الاسلامی مبارک پور ۱۴۲۵ھ/۲۰۰۴ء پر پھیلے ہوئے دو ابواب… ’’انگریزوں کے خلاف فتواے جہاد‘‘ … اور…’’ جنگِ آزادی میں فضلِ حق کا عمومی کردار‘‘ …علامہ فضل حق کے فتواے جہاد اور جنگِ آزادی میں آپ کی شرکت کی مخالفت کرنے والوں کے لیے انتہائی چشم کشا ہے ۔​
۲۰۱۱ء علامہ فضل حق خیرآبادی کے سنِ وصال کے ۱۵۰؍ویں سال کے طور پر منایا جارہا ہے۔ لہٰذا علامہ کی بارگاہ میں خراجِ محبت پیش کرنے کے لیے اس کتاب کی اشاعت عمل میں لائی جارہی ہے ۔جاننا چاہیے کہ محترم راجا غلام محمد صاحب کے متذکرۂ بالا ’’امتیازِ حق‘‘ کے دونوں ابواب … ’’انگریزوں کے خلاف فتواے جہاد‘‘ … اور…’’ جنگِ آزادی میں فضلِ حق کا عمومی کردار‘‘ …کا خلاصہ بہ عنوان…’’جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کا فتواے جہاداور علامہ فضل حق خیرآبادی کا قائدانہ کردار‘‘… علاحدہ سے کتابی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ شمیم طارق صاحب نے جن حضرات کی’’ تحقیق ‘‘ کو اپنا رہِ نما بنایا ہے یعنی مولانا امتیاز علی خاں عرشیؔ اور مالک رام کے مضامین کاتنقیدی و تحقیقی جواب جسے حضرت مولانا عبدالشاہد خاںشیروانی نے قلم بند کیا تھا اُسے بھی جزوی تلخیص کے ساتھ پیشِ نظر کتاب میں شامل کیا جارہا ہے ۔​
ادارۂ دوستی، کمال پورہ کے ارکان قابل مبارک باد ہیں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں دل چسپی کا مظاہرہ کیا راقم ان تمام کا ممنون و متشکر ہے۔ اور دعا گو ہے کہ اللہ عزوجل رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے کے صدقہ و طفیل ان کے علم و عمراوررزق میں برکتیں نازل فرمائے۔ (آمین)​
محمد حسین مُشاہدؔ رضوی​
۲۸؍صفر المظفر۱۴۳۲ھ/ ۲؍فروری ۲۰۱۱​
مزید تفصیل کے لیے کتابیں دیکھیں​
 
سید شہزاد صاحب شمیم طارق نے جنگ آزادی 1857ء کے حوالے سے علامہ فضل حق خیرآبادی کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس پر ایک اور مضمون ملاحظہ کریں​

جناب شمیم طارق کے اعتراضات اورہماری معروضات
by Khushtar Noorani (Notes) on Wednesday, May 30, 2012 at 9:57pm
اردو بک ریویو دہلی کے تازہ شمارے میں راقم کے نام محترم شمیم طارق کا مراسلہ پڑھا،جس میں انھوں نے میری کتاب ”علامہ فضل حق خیرآبادی:چند عنوانات“کے حوالے سے چند سوالات اٹھائے ہیں،اس لیے آپ(ایڈیٹر) کے توسط سے ان کے جوابات حاضر کررہا ہوں-
خط کے پہلے پیراگراف کو پڑھ کر مجھ پر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ساڑھے تین سال قبل بھیونڈی کے کسی صاحب نے شمیم طارق صاحب کو جس کتاب(علامہ فضل حق خیرآبادی:چند عنوانات)کے لکھنے کی اطلاع دی،اس کتاب کا موضوع بھی فروری ۲۰۱۱ء تک میرے ذہن کے کسی گوشے میں نہیں تھا،جس کا اظہار بھی کتاب کے آغاز میں کیا گیا ہے-ایسے میں اطلاع دینے یا پھر ان سطور کو لکھنے والے کے ”مکاشفات غیبیہ“پرایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا-بالفرض اگر یہ اطلاع صحیح بھی ہوتی تو شمیم طارق صاحب کی خیر خبر لینے کا کوئی جواز نہیں بنتا، کیوں کہ علامہ خیرآبادی کی معرکہٴ ستاون میں عدم شرکت کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے اپنی کتاب ”غالب اور ہماری تحریک آزادی“ میں جو کچھ لکھا ہے،ان کی حیثیت محض ایک مقلد یا ناقل کی ہے،در اصل یہ موقف تو مولانا عرشی یا مالک رام کا ہے،اسی لیے میری کتاب کے اصل مخاطب بھی یہی دونوں بزرگ ہیں، شمیم طارق صاحب کا ذکر ضمناً صرف اس لیے کردیا گیا تاکہ دنیائے علم و ادب کو یہ باور کرایا جاسکے کہ تحقیق کا معیار آج کل تلاش و جستجو کے بجائے تقلید پر استوار ہوگیا ہے،جس کی وجہ سے بے شمار اساطین امت کی خدمات اور ایثار کو احسان فراموشی اور رد وانکار کی سان پر چڑھا دیا گیا-
تمہیدی پیراگراف کے بعد شمیم طارق صاحب نے میری کتاب سے تین عبارتیں نقل کی ہیں-پہلی حکیم محمود برکاتی کی عبارت،دوسری راقم اور تیسری اسپیشل کمشنر کی اور اس کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے:”تاریخ تیسری بات کو تسلیم اور پہلی دو باتوں کو رد کرتی ہے-“
حالاں کہ پہلی دونوں باتوں کا تعلق ایک ہی مسئلے سے ہے اور وہ ہے” جج کے سامنے خلاف واقعہ بیان دے کر اپنی رہائی کی کوشش کرنا یا خلاف عزیمت فعل کا مرتکب ہونا،کاش ایسا نہ ہوتا تو ان کی فاضلانہ اور مجاہدانہ کتاب زندگی کا یہ ورق بھی سیاہ نہ ہوتا-“دونوں عبارتوں میں صرف تعبیر کا فرق ہے،مگر شمیم صاحب نے ان کو علیحدہ علیحدہ بیان کرکے اور دونوں اقتباسات میں سے اپنے مطلب کے چند الفاظ خط کشیدہ کرکے صرف مسئلے کو الجھانے کی کوشش کی ہے-پھر بھی عرض کرتا ہوں کہ تاریخ صرف تیسری بات کو ہی نہیں ،پہلی دو باتوں کوبھی تسلیم کرتی ہے- شمیم طارق صاحب تو اپنی ادعائیت (علامہ نے عدالت کے سامنے غلط بیانی نہیں کی تھی) پرتاریخ سے کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے،لیکن یہاں میں اپنے موقف(علامہ کاجج کے سامنے خلاف واقعہ بیان دے کر اپنی رہائی کی کوشش کرنا) کے ثبوت میں تاریخ سے صرف دو شواہد پیش کرتا ہوں-
علامہ کے مقدمے کے ”نقل فیصلہ“ میں عدالت نے علامہ کے تعلق سے جو تفصیل لکھی ہے،وہ یہ ہے:
(۱)”وہ(مولوی فضل حق)۱۸۵۷ء اور ۱۸۵۸ء کے دورا ن بغاوت کا سرغنہ رہا اور دہلی اور اودھ اور دوسرے مقامات پر اس نے لوگوں کو بغاوت اور قتل کی ترغیب دی-“
(مسل مقدمہ مولوی فضل حق)
اسی بنیاد پر انھیں کالا پانی کی سزا بھی سنائی گئی جہاں ان کا انتقال ہوا-
(۲)انگریزوں کے ایک مخبر تراب علی نے ۲۸/اگست ۱۸۵۷ء کو رپورٹ دی:
”مولوی فضل حق جب سے دہلی آیا ہے شہریوں اور فوج کو انگریزوں کے خلاف اکسانے میں مصروف ہے“
اسی خط کے آخری حصے میں یہ بھی ذکر ہے:
”مولوی فضل حق کے کہنے پر شاہزادے اب حملہ کرنے والی فوج کے ساتھ محاذ پر جاتے ہیں اور عموماً سبزی منڈی کے پل پر لڑتے ہیں“-(۱۸۵۷ء کے غداروں کے خطوط،ص: ۵۹ ۱ )
رہی تیسری بات کہ وہ(علامہ فضل حق) کبھی صاحب سیف رہے ہی نہیں-ہمیں بھی یہ قبول ہے کہ تاریخ اس بات کو تسلیم کرتی ہے - مگراس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ علامہ نے معرکہ ٴ ستاون میں حصہ نہیں لیا تھا؟شمیم طارق صاحب نے اس بات کو پیش کرکے یہ تاثر دینا چاہاکہ جب علامہ صاحب سیف تھے ہی نہیں تو جنگ آزادی میں ان کی شرکت کیسے ہوگی؟حالاں کہ صرف راقم ہی نے نہیں بلکہ علامہ کے کسی بھی مستند سوانح نگار نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ وہ صاحب سیف تھے-تمام سوانح نگاروں اور محققین نے یہی لکھا کہ ان کی حیثیت ہمیشہ صاحب رائے اور مشیر و مدبر کی رہی ہے-انھوں نے جنگ میں تلوار نہیں چلائی ،جنگ کا نقشہ تیار کیا اور مجاہدین کی رہنمائی کی-تاریخ کا اس سے اہم ثبوت کیا ہوگا کہ جس اسپیشل کمشنر کا حوالہ شمیم صاحب نے علامہ کے صاحب سیف نہ ہونے کے ثبوت میں پیش کیا ہے،اس میں بھی مذکور ہے کہ” اس کی ہمیشہ صاحب رائے و مشورہ کی حیثیت رہی ہے“ اسی حیثیت میں انھوں نے معرکہ ٴ ستاون میں اپنے مشوروں، مواعظ ، فتویٴ جہاد اور تدبر و ذہانت سے پورے جوش و ولولے کے ساتھ حصہ لیا،تاریخ میں ان کا ثبوت یوں فراہم ہوتا ہے:
(۱)ہمسایہ والیان ریاست کو جنگ میں اعانت و شرکت کی دعوت کے حوالے سے بہادر شاہ ظفر کے وزیر اعظم حکیم احسن اللہ خاں نے اپنے روزنامچے میں لکھا ہے:
”بادشاہ نے حکم دیا کہ مولوی(فضل حق)صاحب کی تجویز کے مطابق والیان ریاست کو پروانے لکھے جائیں اور بعجلت روانہ کردیے جائیں“- (میمووائرس آف حکیم احسن اللہ خاں، ص:۲۳/۲۴)
(۲) حکیم احسن اللہ خاں نے اپنے روزنامچے میں یہ بھی لکھا ہے:
”مولوی(فضل حق) صاحب جب بھی بادشاہ سے ملتے وہ بادشاہ کو مشورہ دیتے کہ جنگ کے سلسلے میں رعایا کی ہمت افزائی کریں اور ان کے باہر(محاذپر)نکلیں اور دستوں کو جس حد تک ممکن ہو بہتر معاوضہ دیں“(میمووائرس آف حکیم احسن اللہ خاں، ص: ۲۳)
(۳)بہادر شاہ ظفر کے ایک درباری چنی لال کا بیان ہے:
”مولوی فضل حق اپنے مواعظ سے عوام کو مسلسل بھڑکا رہے ہیں-“ (اخبار دہلی از چنی لال،ص:۲۷۳،فائل:۱۲۷)
معرکہ ٴ ستاون میں حصہ داری کا مطلب اگر”صاحب سیف“ ہی ہونا ہے جیسا کہ شمیم طارق صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے تو پھر علامہ ہی کیوں؟بشمول بہادر شاہ ظفر ایسے بہت سے ”مجاہدین آزادی“ ملیں گے جنھوں نے اس معرکے میں سیف و سناں کے ذریعے حصہ نہیں لیا- شمیم طارق صاحب کو ان کے لیے بھی یہی فیصلہ سنانا چاہیے-
شمیم طارق صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میری کتاب اور استدلال میں تضادات بہت ہیں وہ گنانا شروع کریں گے تو ایک کتاب تیار ہوجائے گی،اپنے اس دعوے کے ثبوت میں انھوں نے ایک مثال دی ہے،وہ یہ ہے:
ایک طرف تو آپ نے حکیم سید محمود احمد برکاتی کی یہ عبارت نقل کی ہے کہ
”کاش مولانا فضل حق اپنے شاگرد کے شاگرد مولانا معین الدین اجمیری کی طرح اپنے جرم کا اعتراف فرما لیتے-“ (ص: ۶۲)
اور دوسری طرف یہ لکھا ہے کہ
”معرکہ ستاون کے جتنے بھی مجاہدین گرفتار کیے گئے ان میں سے کسی نے بھی انگریزی ظلم و بربریت کے خوف سے یہ اقرار نہیں کیا کہ میں ۱۸۵۷ء کی جنگ میں سرکار انگریزی کے خلاف باغیانہ کردار ادا کر رہا تھا-“ (ص: ۷۳)
یہ جان کر آپ کو حیرت ہوگی کہ شمیم طارق صاحب کو مذکورہ دونوں عبارتوں میں جو تضاد نظر آیا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ علامہ فضل حق خیرآبادی اور مولانا معین الدین اجمیری ایک ہی عہد کے تھے نیز علامہ خیرآبادی ہی کی طرح مولانا معین الدین اجمیری پر بھی معرکہٴ ستاون میں حصہ لینے کے جرم کی پاداش میں مقدمہ چلا یاگیا جس میں انھوں نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا-ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ مولانا معین الدین اجمیری کی ولادت ۱۲۹۹ھ/۱۸۸۱ء کو ہوئی جب کہ علامہ خیر آبادی کا انتقال(۱۸۶۱ء)کو بیس برس گزر چکے تھے،علامہ کے صاحبزادے مولانا عبدالحق خیرآبادی کے شاگرد مولانا حکیم سید برکات احمد ٹونکی سے آپ کو خصوصی تلمذ تھا،آپ کے ذریعے برصغیر میں سلسلہٴ خیرآباد کو بہت وسعت ملی- ۲۱/نومبر ۱۹۲۱ء کو مولانا نے اجمیر میں برطانوی حکومت کے خلاف ایک باغیانہ تقریر کی جس میں برطانیہ کی فوج اور پولیس میں ملازمت کی حرمت کا فتویٰ دیا اور ۲۹/نومبر کو گرفتار کرلیے گئے-مقدمہ چلا تو آپ نے اپنے جرم کا اعتراف کیا، چنانچہ ۱۳/ فروری ۱۹۲۲ء کو منصف نے فیصلہ سنایا اور مولانا کو ۱۸/ماہ کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی-اسی مقدمے اور مولانا کی سلسلہٴ خیرآباد سے نسبت کی وجہ سے حکیم محمود برکاتی صاحب نے لکھا کہ ”کاش مولانا فضل حق اپنے شاگرد کے شاگرد مولانا معین الدین اجمیری کی طرح اپنے جرم کا اعتراف فرما لیتے“ جسے میں نے اپنی کتاب میں نقل کیا-
دوسری طرف میں نے ذکر کیا کہ معرکہ ستاون کے جتنے بھی مجاہدین گرفتار کیے گئے ان میں سے کسی نے بھی انگریزی ظلم و بربریت کے خوف سے اپنے جرم کا اقرار نہیں کیا -ان دونوں عبارتوں میں کون سا تضاد ہے؟
شمیم طارق صاحب کے بیان کردہ تضادات کی جب اس ایک مثال کا یہ حال ہے ،ظاہر ہے جسے بڑے جتن اور غور وفکر کے ساتھ پیش کیا گیا ہوگا تو وہ بہت سارے مفروضہ تضادات جو ان کے ذہن و فکر میں ہیں ان کا اندازہ قارئین کر سکتے ہیں-
افسوس کہ شمیم طارق صاحبعلامہ خیرآباد ی کو جس حیثیت میں وہ دیکھنا چاہتے ہیں اس کے لیے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا کے معاصر مآخذ سے ان تمام شواہد کو کھرچ کر مٹادیا جائے جو معرکہٴ ستاون میں علامہ کے ایثار اور وطن کے لیے قربانی کا اعلان کرتے ہیں۔
بہ حوالہ : http://www.facebook.com/notes/khush...-کے-اعتراضات-اورہماری-معروضات/162567257208030
 

راشد اشرف

محفلین

بھائی مشاہد
آپ نے "‘‘نادم سیتاپوری: غالب نام آورم ،ص ۸۱
کا حوالہ دیا ہے۔ نادم صاحب کی یہ کتاب اسکین کرکے بھیج سکتےہیں ؟ اس کی اشد ضرورت ہے۔ ای میل میں اگر سرورق اور فہرست ابتدائی طور پو بھیج دیں تو ممنون رہوں گا۔ نیز سن اشاعت اور ناشر کا نام بھی درکار ہے
مجھے ای میل کردیجیے، انتظار رہے گا
 
Top