مرزا تمیزالدین

فیضان قیصر

محفلین
مرزا تمیزالدین
مصّنف: ڈاکٹرفیضان قیصر

مرزا تمیزالدین کا شمار ہمارے سابقہ دوستوں میں ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہینگے کہ اللہ انکو جیتا رکھے کیونکہ انھوں نے تو ہمارا جینا حرام کر رکھا ھے اگر وہ جیتے رہے تو مجبوراً ہمیں ہی اپنے مرنے کی دعا مانگنی پڑیگی ۔ مرزا صاحب سے ہماری ملاقات اک ادبی محفل میں ہوئی تھی۔انھیں با ادب سمجھ کے ھم نے ان سے راہ رسم بڑھا لی تھی۔اگرچہ اب ہم اپنی اس غلطی پہ پشیمان ہیں اور اگر مرزا صاحب خود ہمارے لیے سزا نہ بن گئے ھوتے تو ہم خود کو اس غلطی کی سزا ضرور دیتے۔ یوں تو مرزا صاحب کا نام تمیزالدین ہے۔ مگر ھم سمجھتے ہیں کہ انکے نام میں اک کمی ھے جسکی وجہ سے یہ مرزا صاحب کی شخصیت کی صیح طرح عکاسی نہیں کرتا اس لیے بہتر یہ ھوگا کہ انکے نام کے شروع میں’ بد‘ کا اضافہ کر دیا جائے۔مرزا صاحب کے بارے میں مزید جاننے کے بعد ھمیں پورا یقین ھے کہ آپ بھی ہمارے موقف کی تائید کرینگے۔
مرزا صاحب کو شاعری کا بہت شوق ہے۔جناب شاعری لکھتے تو بہت ھیں مگر شاعری پڑھتے بھی ہیں کہ نہیں اس کا کوئی ثبوت ہمیں تو آج تک نہیں ملا ۔ شاعری سے جناب کی واقفیت کا عالم تو یہ ہے کہ ردیف سمجھتے ہیں نہ قافیہ،نہ تو بحر کا پتہ ہے اور نہ وزن کی کچھ خبر ھے اس پہ طرہّ یہ کہ یا تو خود کو شاعر مانتے ہیں یا پھر غالب کو۔ غالب کو بھی غا لباً اس لیے شاعر مانتے ہیں تاکہ لوگوں سے اپنی شاعری کی اہمیت کو منوا سکیں کیونکہ محترم کو اپنی لکھی ہر غزل غالب کی لکھی کسی غزل کی ھم پلہ نظر آتی ہے اور بعض دفعہ تو موصوف اپنی غزل کو غالب کی غزل سے بھی افضل قرار دے دیتے ہیں ہمیں پورا یقین ہے مرزا کی اس حرکت پہ غالب کی روح بھی قبر میں بے چین تو ضرور ہوتی ہوگی مگر جب ہم زندہ ہی مرزا صاحب کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے تو وہ بیچاری بھی سوائے تڑپنے کے اور کیا کر سکتی ھے!!!!
مرزا کو مشاعرہ پڑھنے کا بھی بہت شوق ہے۔ان کا خیال ہے کہ وہ ھر مشاعرے کی جان ہوتے ہیں حلانکہ آج تک مرزا کے اس خیال کی کسی نےبھی حوصلہ افضائی نہیں کی ہے۔ تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ھے کہ مرزا صاحب کے کلام کو دیکھنے کے بعد انھیں اکثر تو مشاعرہ پڑھنے کی اجازت تک نہیں ملتی اور کبھی کوئی مرزا صاحب کو ترس کھا کے مشاعرہ پڑھوا بھی دے تو سامعین کی طرف سے خوب خوب بھپتیاں کسی جاتی ہیں۔ دو ایک بار تو موصوف مشاعرے میں زبردستی کلام پڑھنے کی ضد میں حوالات کی ہوا بھی کھا چکے ہیں مگر پھر بھی مرزا صاحب بجائے اپنی اصلاح کرنے کے لوگوں کو ہی برا بھلا کہتے ہیں۔اکثر انکی زبان پہ یہ جملہ ہوتا ہے۔’عظیم شعرا کے ساتھ ہرزمانے میں ہمیشہ ایسا ہی سلوک روا رکھا گیا ہے،غالب کو بھی انکی زندگی میں لوگوں نے عزت نا دی تھی،تم دیکھنا میری عظمت کا بھید بھی میرے مرنے کے بعد ہی کھلے گا‘۔مرزا صاحب کی یہ بات سن کہ ہم ہمیشہ اپنے دل میں کہتےہیں چلیں اسی بہانے سہی آپ مریے تو!!!!!
مرزا کوئی نئی غزل لکھے اور ہمیں نہ سنائے ہمیں تو حسرت ہی رہی کہ کبھی ایسا بھی ہو۔ کمبخت سے جتنا چھپیں ہمیں ڈھونڈھ ہی لیتا ہے۔ اور اپنی غزل سنا کے ھی دم لیتا ہے۔ مرزا صاحب غزل سنانے کے بعد اس پہ بے لاگ تبصرے کی فرمائش بھی کرتے ہیں اس پہ طرہّ یہ کہ تبصرہ مبالغے کی حد تک تعریفی ہونا چاہیے جہاں آپ نے کوئی تنقیدی جملہ کہا وہیں حضرت پٹری سے اتر جاتے ہیں اور پھر مزرا صاحب کی بد تمیزی سے خود کو محفوظ رکھنا محال ہوجاتا ہے۔ابھی کچھ روز پہلے ہی مرزا صاحب غزل لکھ کے ہمارے پاس آ دھمکے۔غزل ہمیں سننی پڑی پھر مرزا صاحب نے حسب عادت تبصرے کی فرمائش بھی کردی مگر مرزا صاحب اس روز غزل کی اتنی ٹانگیں توڑ کے لائے تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم نے غزل پہ تنقید کر ہی دی۔ہم نے کہا مرزا صاحب آپ کی اس غزل میں نا ردیف کی خبر پڑتی ہے اور نا قافیے کی۔ انتہائی بے وزن غزل ہے۔ ہر شعر کے پہلے مصرے کا دوسرے مصرے سے کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا جبکہ موضوع شعر کی بھی کچھ خبر نہیں پڑتی۔ یہ سنتے ہی مرزا صاحب کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوگیا،قریباً ڈھارنے کے سے انداز میں ھم سے کہا۔ ’اچھاّ تو اب تم ایسا جاہل،شعر و شاعری سے نابلد شخص مجھے ردیف قافیہ سمجھائے گا۔ میاں یہ ردیف قافیہ کی قید تو تم ایسے ٹٹوّ شعرا کے لیے ہے۔عظیم شعرا کے اشعار ردیف قافیے کے محتاج نہیں ہوتے‘۔ پھر حقارت سے ہماری جانب ’ہوں‘ کہ کر چلے گئے ھم پیچھے دانتوں سے بس اپنے ہونٹ کاٹتے رہ گئے حالانکہ حق تو یہ تھا کہ تمیزالدین کا گلا کاٹ دیتے بد تمیز کہیں کا!!!!
مرزا صاحب کی بری عادتوں میں سے اک بری عادت پیسے ادھار لینا بھی ہے مگر اس سے بھی بری عادت ادھار لی رقم واپس نہ دینے کی ھے۔ ہر مہینے کی آخری تاریخوں میں مرزا صاحب ہمارے پاس ادھار لینے کی اک نئی وجہ کے ساتھ آموجود ہوتے ہیں۔ ہر مہینے ھی یہ جملہ انکی زبان پہ ھوتا ھے۔’ میاں مجبوری ھے جو تم سے قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔مگر ہم خاندانی لوگ ہیں۔ زیادہ دن خود پہ کسی کا قرض برداشت نہیں کرتے۔ پہلی ھو لینے دو تنخواہ ملتے ہی تم سے لی رقم تمھیں لوٹا دونگا‘۔ پھر نیا مہینہ بھی آتا ہے اور پہلی تاریخ بھی مگر نہیں آتے تو مرزا صاحب نہیں آتے۔ مہینے کی ۱۵ یا ۱۶ تاریخ کو موصوف کا دوبارہ ظہور ھوتا ہے ھم سے لیا قرض چکانے کے بجائے اپنے غائب ہونے کی کوئی بھی نامعقول وجہ بیان کر دیتے ہیں جو ہمیں طوعاً کراہاً ماننی پڑتی ہے۔ یہ سلسہ ہر مہینے یوں ہی جاری رہتا ہے۔ اک روز ھم نے مرزا سے خود ھی روپوں کا تقاضہ کرلیا جواباً مرزا صاحب ہم پہ برس پڑے کہنے لگے ’دھت تیرے کی!!!اک تو تم ایسے چھوٹے آدمی سے قرض لینا بھی گویا اپنی پگڑی اچھلوانے کے مترادف ہے،ارے ہمیں تم سے قرض لیے بھلا دن ھی کتنے ہوئے ہیں جو تم تقاضہ کرتے ہو،گویا شریف آدمیوں کے لیے تو اب یہ دنیا جیسے رہی ہی نہیں،خاندانی لوگوں کو بھی یوں ذلیل و خوار ہونا پڑ رہا ہے‘۔ ۔جانے مرزا خود کو کہاں کا خاندانی سمجھتا ہے لاکھ تحقیق کے با وجود مرزا کا تعلق نہ تو کسی مغل شہنشاہ کے خاندان کے ساتھ ثابت ہوتا ہے،نہ مرزا صاحب سیّد ہیں،اور نہ مرزا صاحب کے خاندان میں کسی عالم،فاضل،یا کسی قابل شخصیت کے پیدا ہونے کا ہی کوئی ثبوت ہے،۔جی تو اس روز ہمارا بہت جلا مگر ہم نے مرزا کی بدتمیزی کو درگزر کرنا ہی افضل جانا اور خون کے گھونٹ پیتے اپنے گھر لوٹ آئے!!!
مرزا پرلے درجے کے مفت خور بھی واقع ہوئے ہیں،مفت کی دعوتیں کھانے کے لیے بس موقعے کی طاق میں رہتے ہیں،شادی اپنوں کی ہو یا پرائے کی مرزا کا شرکت کرنا لازمی ہوتا ہے اس کے لیے مرزا صاحب دعوت کا ملنا بھی ضروری نہیں سمجھتے پوری شادی کی تقریب میں مرزا کو جس چیز کا شدّت سے انتظار ہوتا ہے وہ دیگوں کے ڈھکن اٹھنے کا انتظار ہوتا ہے۔اک روز ہم اپنے دوست کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے گھر سے نکلے رستے میں مرزا صاحب مل گئے۔ جھٹ ہمیں روک لیا اور کہا۔’کیوں صاحب آج اتنے تیار لگ رہے ہو کہاں کا ارادہ ہے‘۔ ہم نے مرزا کو ٹالنے کی بہتیرا کوشش کی مگر مرزا صاحب ٹلنے کا نام نہ لیتے تھے۔مجبوراً بتانا پڑا کہ آج ہمارے دوست کی بارات ہے وہیں جارہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا مرزا کی مفت خوری کی رگ پھڑک اٹھی ہمارے لاکھ سمجھانے کے باوجود ہمارے ساتھ ساتھ ھی چلے آئے۔ دوست کے گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ جناب تو ابھی دولہا بننے میں مصروف ھیں ھم بھی اپنے دوست کے پاس اس کے کمرے میں آگئے۔ دوست کو دیکھا تو وہ کچھ پریشان لگا ھم نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا۔’یار تمہیں تو پتہ ھے یہ آج کل بارات کے آگے اک گاڑی میں بڑےبڑے اسپیکر لگا کے شادی بیاہ کے گانے بجائے جاتے ھیں میری بارات کے لیے بھی احباب نے ایسا ہی انتظام کیا ہے،تم تو جانتے ھو مجھے اس طرح کی کوئی چیز پسند نہیں مگر گھر والوں کی ضد کے آگے ھتیار ڈالنے پڑے ہیں،مگر میں چاھتا ہوں اس گاڑی میں کوئی معقول قسم کا بندہ ساتھ ھو تاکہ کھلنڈرے قسم کےنو جوان بھونڈے اور بیہودہ قسم کے گانے نا چلایئں‘۔ اس نے پہلے ہمیں ہی یہ ذمےداری نبہانے کا کہا مگر ہم نے معذرت کرلی مرزا صاحب جو ہمارے پیچھے دولھا کے کمرے میں آگئے تھے اور ہمارے ساتھ ہی کھڑے تھے انھوں نے ہمارے کان میں سرگوشی کی کہ وہ یہ ذمےداری احسن طریقے سے نبہا سکتے ہیں۔ ہمارے کہنے پہ ہمارے دوست نے مرزا صاحب کو یہ زمےداری سونپ دی۔ خیر صاحب بارات چلی۔ھم دولہا کے ساتھ اس کی گاڑی میں سوار تھے اور مرزا صاحب گانوں والی گاڑی میں۔ تمام رستے مرزا صاحب نے چن چن کے خوب معیاری گانے چلائے،ہم مسرور تھے کہ آج مرزا ہمارے کچھ تو کام آئے۔جب بارات شادی ھال کے قریب پہنچی تو دلہن والے بھی بارات کو دیکھنے کے لیے ہال سے باہر نکل آئے۔ چند دوست احباب دولہا کی گاڑی کے آگے رقص کے ارادے سے جمع ھوگئے۔مرزا صاحب کو اشارہ کیا گیا کہ وہ کوئی دھماکے دار گانا چلا دیں۔مرزا صاحب نے اشارہ پاتے ہی ایک گانا چلا دیا۔پہلے تو بنا میوزک کے اک آواز بلند ہوئی گانے کے بول کچھ یوں تھے۔

آج خوشی کا دن ہے ٓا یا نکلا مہورت چنگا
سوٹ پین کے بن گیا دولہا کل تک تھا جو ننگا
گھر والوں کا نام نہ لینا بچے ڈر جائینگے
پیٹ پیٹ کے چھاتی سیاپہ پائنگے،

اور پھر بےہنگم موسیقی کا طوفان بلند ھئا اور گانے کے بول کچھ یوں سنائی دے رہے تھے۔
تینو گھوڑی کینے چڑھایا بھوتنی کے
تینو دولہا کینے بانایا بھوتنی کے
بھوتنی کے بھوتنی کے
تینو گھوڑی کینے چڑھایا بھوتنی کے
بس جناب پھر کیا تھا قہقوں کا وہ طوفان اٹھا جو تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے منہ سے بلند ھونے والے قہقے کو ہم بھی قابومیں نہ رکھ سکے تھے۔ ہمارے دوست نے انتہائی غصے میں بڑی خوں خوار نظروں سے ہمیں گھورا پہلے تو فوری طور پہ ہمیں گاڑی سے اتر جانے کو کہا اور پھر خود بھی گاڑی سے اتر کر سیدھا مرزا صاحب کی جانب بڑھا۔ مرزا صاحب تو سب سے بے نیازانہ رقص میں مصروف تھے۔ ہمارے دوست نے مرزا کے قریب پہنچ کے مرزا کو گریبان سے پکڑ لیا۔ پھر وہ گھمسان کا رن پڑا کہ ال امان ال حفیظ۔ ۔ مختصر یہ کہ اس روز مرزا صاحب خوب پٹے اور ہمیں بھی پٹوایا۔ خیر جیسے تیسے ماملہ رفع دفع ہوا۔ ہم مرزا کو لیکر وہاں سے بھاگے۔ تمام رستے مرزا ھمارے دوست کو اور ھم مرزا کو لعنت ملامت کرتے رہے۔ مرزا اب بھی قائل نہ ہوتے تھے کہ انھوں نے کچھ غلط کیا ہے!!!!
آج کل ہم نے مرزا سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کر رکھا ھے۔ گھر وہ آتے ہیں تو ہم اندر سے منع کروا دیتے ھیں ،اپنا نمبر تبدیل کر لیا ہے،ھر نماز میں دعا مانگتے ہیں کہ یا اللہ مرزا کی یاداشت ضبط کرلے کچھ ایسا کردے کہ مرزا ہمارا پیچھا چھوڑ دیں۔ دل کے ہم نرم ہیں اس لیے مرزا کے مرنے کی دعا نہیں مانگتے ہاں مگر یہ دعا ضرور کرتے ہیں کہ اگر کوئی اور مرزا کے مرنے کی دعا مانگتا ہوتو یاالہی مرزا کے حق میں اس کی دعا قبول فرما لے۔آمین ثم آمین!!!!
 
Top