مرجیہ

طالوت

محفلین
تاریخ اسلام قران کی روشنی میں (حافظ اسلم جیراج پوری)
(صفحہ 107 سے )
مرجیہ
عہد صحابہ میں جب فتنہ برپا ہوا اور مصریوں اور عراقیوں نے مدینہ آ کر حضرت عثمان کو قتل کر ڈالا اور حضرت علی ہاتھ پر بیعت کر لی اس وقت امت میں دو مختلف الخیال جماعتیں ہو گئیں۔ جن کو سیاسی فرقے کہنا زیادہ مناسب ہے۔ مگر اس زمانہ میں دینی جذبہ اسقدر قوی تھا کہ ہر اختلاف دینی اختلاف بن جاتا تھا چناچہ شیعہ علی اور شیعہ عثمان کے دو متحارب گروہ ہو گئے۔
حضرت علی کو پہلے بصرہ میں اصحاب جمل سے لڑنا پڑا پھر حضرت معاویہ سے صفین کے میدان میں ۔ اسی تحکیم کے موقع پر خود ان کے مخلص حامیوں میں سے ایک جماعت ان سے منحرف ہو گئی یعنی خوارج ان کو اور ان کے شیعوں کو کافر کہنے لگے نہروان میں ان کے ساتھ مقابلہ پیش آیا ان مخالفتوں سے شیعہ خلفاء ثلاثہ بلکہ سوائے چند صحابہ کے جملہ صحابہ کو خوارج حضرت علی اور ان کے شیعوں اور دونوں گروہ بنی امیہ کو کافر کہنے لگے ، ہر فریق صرف اپنے آپ کو حق پرست سمجھتا اور دوسروں کو باطل پرست سمجھتا تھا۔
اس باہمی مخالفت اور تکفیر کو امت کے ارباب بصیرت اور حقیقت شناس لوگوں نے حقیقت کی نظر سے دیکھا وہ خلفہ ثلاثہ کی تکفیر کیسے سن سکتے تھے جن کے ایمان اور اسلامی کارنامے سورج سے زیادہ روشن تھے ۔ نہ صحابہ کرام خاص کر ام المومنین حضرت عائشہ ، طلحہ و زبیر نیز امیر معاویہ کے ایمانوں میں شک کر سکتے تھے نہ خوارج اور شعیہ کو جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتے تھے اسلام سے خارج کر سکتے تھے اور نہ بنی امیہ کو جو ملت اسلامیہ کا عَلم اپنے کندھوں پر سنبھالے ہوئے تھے باطل پرست کہہ سکتے تھے اسلئے انھوں نے سب کو مسلمان قرار دیا اور ان کے اعمال کے محاسبہ کو حشر کے دن پر موخر کر کے اللہ کے حوالے کیا ۔ ارجاء کے معنی تاخیر کے ہیں اسی وجہ سے یہ مذہب ارجاء کے نام سے موسوم ہوا اور اس کے پیرو مرجیہ کہلائے۔
صحابہ کبار میں سے بھی بعض حضرات مثلاً عبداللہ ابن عمر ، سعد بن ابی وقاص اور عمران بن حصین وغیرہ ہم کو نظر آتے ہیں جو نہ صرف خود ان فتنوں سے کنارہ کش رہے بلکہ لوگوں کو تلقین کرتے رہے کہ ان سے الگ تھلگ رہیں۔ یہی وہ نمونہ تھا جس پر مرجیہ کی جماعت قائم ہوئی۔
بنیادی بحث​
خارجیوں نے "لا حکم الا للہ" کا نعرہ لگا کر اپنے سوا تمام مسلمانوں کوجو حکومت کے لئے تلوار نہ اٹھائیں یا گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں کافر کہا ۔ معتزلہ نے بھی گناہ کبیرہ کے مرتکب اگر کافر نہیں تو فاسق ٹھہرایا ۔ شیعہ نے امام کی معرفت اور اطاعت کو ایمان کا جزو بنا دیا اس لئے ان کے نزدیک ائمہ اہل بیت پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ مرجیہ نے ان تمام باتوں کو غلو قرار دیا انھوں نے ایمان کی بنیاد صرف "لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ" پر رکھی اور اعمال کو اس سے خارج کر دیا۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص جو کلمہ گو ہے مسلمان ہے۔ خواہ نیکو کار ہو خواہ گناہ گار ، اعمال کا محاسبہ قیامت کے دن اللہ کے ذمہ ہے۔ انھوں نے خارجی ، شیعہ اور بنی امیہ سب کو ہی مسلمان قرار دیا اور کسی کی تکفیر کر کے اس کو امت سے نکال دینا روا نہ رکھا۔ یہاں تک کہ بعض مرجیہ نے اس سے بھی آگے قدم بڑھایا اور کہہ دیا کہ دل سے ایمان لانے کے بعد کوئی زبا ن سے خواہ یہودی ہو جائے یا بت پرستی کرے یا صلیب پوجے اور اسی پر مر جائے تب بھی اس کا حشر مسلمانوں کے ساتھ ہی ہو گا۔ الغرض دوسرے فرقوں نے ایمان اور اسلام کے دائرے کو جس قدر تنگ کر دیا تھا مرجیہ نے اسی قدر اس کو وسیع کر دیا انھوں نے امت پر رحمت اور شفقت کی نظر ڈالی۔ اور آپس میں لڑ لڑ کر فنا ہو جانے اس کو بچانے کی کوشش کی۔
مرجیہ میں بھی دو فرقے تھے۔ ایک صرف دلی تصدیق کو ایمان قرار دیتا تھا دوسرا تصدیق بالجنا ن کے ساتھ باللسان کو بھی جزو سمجھتا تھا مگر عمل بالارکان دونوں کے نزدیک ایمان سے خارج تھا۔ یہ مسئلہ بساط بحث پر آیا اور معتزلہ اور خوارج نے جو اعمال کو اجزاء ایمانی شمار کرتے تھے سختی کے ساتھ مخالفت کی فریقین نے اپنے اپنے دعوے پر آیات و روایات سے استدلال کیا۔ میں یہاں ان کو چھڑوں تو اپنے موضوع سے باہر نکل جاؤں گا اگر کوئی اس بحث کو دیکھنا چاہے تو ابو الحسن اشعری کی مقالات الا سلامیین کا مطالعہ کرے۔
تجدید ایمان کے بعد اس سے دوسرے مسائل بھی پیدا ہوئے مثلاً وہ گھٹتا بڑھتا ہے یا نہیں اعمال کو خارج کر دینے کے بعد مرجیہ عام طور پر اسی کے قائل ہو ئے کہ ایمان میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی۔ مرتکب کبیرہ کو معتزلہ اور خوارج جہنمی سمجھتے تھے مرجیہ نے اس سے انکار کیا وہ بڑے سے بڑے گنہگار کو بھی کافروں کی طرح مخلد فی النار نہیں قرار دیتے بلکہ اس کی بخشش کی امید رکھتے ہیں۔
متکلمین نے اس عقیدے کی اہمیت کا پورا اندازہ کیا لیکن ان کے دل میں یہ بات کھٹکتی تھی کہ اس سے اعمال شرعیہ کی حیثیت کم ہو جائے گی اور عوام جب سن پائیں گے کہ بلا عمل بھی نجات کی امید ہے تو اسی پر بھروسہ کر کے سستی کرنے لگیں گے اگرچہ خواص کو اس سے ضرر نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ شرعی فرائض ہیں جن کے اوپر سخت محاسبہ ہو گا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا اس وجہ سے سورہ زمر کی آیت
"کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے اوپر( گناہ کر کے) زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو وہ سارے گناہ بخش دے گا بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے"
کا سہارا لے کر اسی راہ پر چل پڑے لیکن جو اندیشہ تھا وہ صحیح نکلا یعنی امت سے ذوق عمل جاتا رہا اور جب عمل نہیں تو نجات کہاں سورہ اعراف میں ہے
"اور ان سے پکار کہہ دیا جائے گا کہ یہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے اعمال کے بدلے"
دراصل دین کا مقصود عمل ہی ہے خود ایمان بھی عمل ہے اعمال قلوب میں سے زیادہ قریب الفہم الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ایمان اساس ہے جس پر تعمیر عمل صالح سے ہوتی ہے اگر عمارت نہ ہو تو بنیاد کیا کام دے سکتی ہے۔
مگر امت کی بے عملی محض ارجاء نہیں ہے بلکہ لا مرکزیت اور مذہبی انفرادیت کو بھی اس میں دخل ہے۔ مرکز نہ ہونے کی وجہ سے اجتماعی عمل مفقود ہوا اور جب کوئی قوت مطالبہ کرنے والی نہ رہی تو انفرادی عمل بھی رضاکارانہ رہ گیا۔
اس مذہبی انفرادیت میں بہت سے لوگوں نے جب ظاہری مہمات ملت کو سلاطین و امراء کے ہاتھوں میں دیکھا اور اپنے اوپر ان کے دروازے بند پائے تو باطن کی طرف رخ کیا اور درود و وظیفہ اور ذکر وفکر سے اس کے تزکیہ میں مصروف ہو گئے اس راہ میں آگے بڑھ کر عجمی تصوف سے دلچسپی پیدا ہوئی جس کا اثر رفتہ رفتہ ملت کے بڑے حصہ پر چھا گیا ۔ گوشہ نشینی اور عزلت گزینی نے کانقاہی ذہنیت پیدا کی جس سے عملی قوت اور بھی مسلوب ہو گئی اور رضائے الہٰی اور حصول جنت کا مدار صرف چند انفرادی اعمال پر رکھ لیا گیا۔
مرجیہ اور سیاست​
مرجیہ صلح پسند جماعت تھی کسی مسلم کو کافر قرار نہ دیتی تھی نہ کسی پر تلوار اٹھانا جائز سمجھتی تھی اس وجہ سے غیر ارادی طور پر وہ سیاست کی خدمت گزار تھی۔ عہد صحابہ و نیز اس کے بعد کے متحارب گروہوں کے متعلق اس کا یہ قول تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک نے اجتہاد میں غلطی کھائی ہے جس کی تنقیح ہمارے ذمہ نہیں ہے ہر فریق اپنا وجو رکھتا تھا جن کو وہ اللہ کے سامنے پیش کرے گا اور وہاں فیصلہ ہو گا۔
خلفاء بنی امیہ کو مومن اور ان کے ساتھ تعاون کو صحیح سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی طرف سے کبھی کوئی گرفت نہ ہوئی۔ عباسیہ کے ساتھ بھی ان کا رویہ یہی رہا۔ مامون الرشید کہا کرتا تھا کہ "الارجاء دین الملوک" یعنی ارجاء بادشاہوں کا مذہب ہے۔ غالباً اس کا مقصد یہ تھا کہ بادشاہوں کو ایسا صلح کل مذہب پسند ہے۔ اس لئے یہ جماعت پھیلی مجھے ان مورخوں کے بیان پر تعجب ہے جو کہتے ہیں کہ مرجیہ بلاآخر ختم ہو گئے۔ حالانکہ وہ ختم نہیں ہوئے تھے بلکہ جملہ اہلسنت نے ان کے اکثر عقائد قبول کر لئے اس لئے یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ امت نے ان کو اپنے اندر جذب کر لیا اور اس نام سے کوئی مخصوص فرقہ باقی نہیں رہا۔
امام ابو حنیفہ​
امام ابو الحسن اشعری نیز شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ متعدد بزرگوں نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب مرجیہ تھے۔ لیکن اس الزام سے امام موصوف اور ان کے اصحاب کو ضرر کیا ہے ؟ وہ یہی تو کہتے تھے "لا تکفر اہل القبلہ" یعنی ہم کسی قبلہ رخ ہونے والے مسلمان کو کافر نہیں کہتے ۔ علماء اہلسنت میں سے کون ایسا صاحب بصیرت ہے جو اس سے انکار کر سکے ہاں ایمان کے نہ گھٹنے بڑھنے کا مسئلہ جو مذہب ارجاء نے پیدا کیا تھا اس کی نسبت جو ائمہ حنفیہ کی طرف جاتی ہے وہ مزید ثبوت کی محتاج ہے ۔ کم از کم امام اعظم کے متعلق میں اس قول کو صحیح نہیں سمجھتا کیونکہ آیات میں جابجا ایمان کی کمی اور زیادتی کا ذکر ہے۔ اور امام ابو حنیفہ سے بڑھ کر کون قران کا رازداں ہو گا۔

وسلام
 
Top