سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یال میں گیسوئے حورانِ جناں کا سا بناؤ
چال میں سیل سُبک سیر اجل کا سا بہاؤ
خُمِ گردن میں حسینوں کی جوانی کا تناؤ
ہنہناتا ہے کہ ہمت ہے اگر سامنے آؤ
سَر کیے سینکڑوں میدان وہ غازی ہوں میں
ناز ہے مرکبِ سلطانِ حجازی ہوں میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دَبدبہ کہتا ہے اے موجِ ہوا پیچھے ہٹ
طنطنہ کہتا ہے اے دشت کے پھیلاؤ سمٹ
ولولہ کہتا ہے میداں کی بدَل دُوں کروٹ
حَوصلہ کہتا ہے یہ معرکہ سَر ہو جھٹ پٹ
بن کے ایک قوسِ اجل رزم میں مُڑنا اس کا
دیکھ لے تختِ سلیمان بھی اُڑنا اس کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ضرب ہے قلبِ زمیں کے لیے اِس کی ٹھوکر
قہر ہیں فوجِ عدو کے لیے اس کے تیور
مثلِ سیماب ٹھہرتا نہیں اک جا پل بھر
ابھی دیکھا تو ادھر تھا ابھی دیکھا تو اُدھر
جس طرف اُڑ کے گیا حشر اٹھاتا گزرا
صاف دیوار مفاسد کو گراتا گزرا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ایسا مرکب ہے تو راکب ہے امامِ عالم
پسرشیر خدا، سبطِ نبی عرش حشم
لا فتا اِلّا علی، باپ کے رتبے میں رقم
اور نانا کے لیے عرشِ بریں زیر قدم
فوج اعدا اسی ہیبت سے مری جاتی ہے
موت جاں لینے کی زحمت سے بچی جاتی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شمر، وہ دشمنِ سلطانِ امامت، وہ ذلیل
قتلِ شبیر کی ملتی ہی نہ تھی جس کو سبیل
چاہتا تھا کہ ہو سَر معرکہ با صد تعجیل
رہ گئی فتح کی اب اس کو بھی امید قلیل
جا کے بھاگی ہوئی فوجوں کو بلا کر لایا
طمع کے دام میں لوگوں کو پھنسا کر لایا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جنگِ مغلویہ کا منصُوبہ بنایا اس نے
کچھ کمانداروں کو گوشوں میں بٹھایا اس نے
نیزہ بازوں کو کسی سمت جمایا اس نے
جعل طفرت میں جو تھا جال بچھایا اس نے
گو ہوئے تیروں کی بوچھار سے غربال حسین
پسر حیدر صفدر تھے بہر حال حسین
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کھینچ لی نیام سے حضرت نے حسام حیدر
خشک تھے پیاس سے لب جسم ہوا خون میں تر
جنگ کے اب جو حریفوں کو دکھائے جوہر
کٹ کے جسموں پہ گرے جسم ، سروں پہ گرے سر
ایک اک ہاتھ میں سو، سو، کے گلے کاٹ دیے
رخنے میدان کے لاشوں سے سبھی پاٹ دیے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفت برق چلی ابنِ عَلی کی تلوار
لگ گئے جنگ کے میداں میں سروں کے انبار
لشکرِ ظُلم کو لینا ہی پڑی راہِ فرار
چند ساعت جو ملا جنگ سے حضرت کو قرار
پُشتِ مرکب سے اُتر آئے زمیں پر شبیر
آئے سجادے پہ یوں چھوڑ کے منبر شبیر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جھک گیا بارگہِ خالقِ کونین میں سر
ہٹ گئی جانبِ دنیا سے مُجاہد کی نظر
جھک کے سجدے میں پڑھی حمد خدائے اکبر
آ گیا جنگ کے میداں میں پلٹ کر لشکر
ظلم کیا کیا نہ کئی روز کے پیاسے پہ ہوئے
سینکڑوں وار محمد کے نواسے پہ ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شمر پھر آ کے ہوا سینہ اطہر پہ سوار
ہنس کے بولا کہ چلاتے نہیں اب کیوں تلوار
آخرش بھول گئے سارے علی بند کے وار
دیکھتے کیا ہو مری شکل کو یُوں آئینہ وار
شاہ بولے ترا انجام ہے صورت تیری
تیرے چہرے سے برستی ہے نحوست تیری
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دیکھ اس جنگ سے جاگا ہے ضمیر اسلام
اب نئے سر سے لیا جائے گا اللہ کا نام
نیندیں ہو جائیں گی راتوں کی لعینوں کو حرام
ہم تو سردار جناں ہیں ہمیں سر سے کیا کام
کر دیا آج ادا فرض امامت ہم نے
پائی ہے مرضئ مولا کی شہادت ہم نے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شمر پر خطبہ شبیر کا کیا ہوتا اثر
دشمن آل محمد جو تھا وہ بانئ شر
دیدہ کُور پہ لٹکا ہوا تھا پردہ زر
جلوہ حق اسے اس وقت بھی آیا نہ نظر
جھک کے ظالم نے سر شاہِ ہدا کاٹ لیا
تیغ سے سبط پیمبر کا گلا کاٹ لیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اے حسین ابن علی منبر احمد کے امیں
تیری قُربانی سے شاداب ہوا دین مبیں
خون سے تیرے ہے افسانہ ایماں رنگیں
تجھ سا اس دہر میں ہونا کبھی ممکن ہی نہیں
آج تک دین کے ارکان جواں تجھ سے ہیں
منبر و مسجد و خطبات و اذاں تجھ سے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تیری عزت، تری رفعت، تری عظمت پہ سلام
تیرے ایثار و کرم تیری سخاوت پہ سلام
تیری تسلیم و رضا، تیری شجاعت پہ سلام
تیرے جینے پہ ترے اوج شہادت پہ سلام
تیرے انصار ،تیرے تشنہ دہانوں کو سلام
تیرے مداح، ترے مرثیہ خوانوں کو سلام
 
Top