مرا مسلک ہے صلحِ کل ۔۔۔غالب کے یوم وفات پر لکھی گئی تحریر

عدنان عمر

محفلین
مرا مسلک ہے صلحِ کل

جمعہ 14 فروری 2020 17:15
محمود الحسن -لاہور

( غالب کے یومِ وفات 15 فروری کے لیے لکھی گئی تحریر)

’فسانہ عجائب‘ اردو کلاسیک میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مصنف رجب علی بیگ سرور ایک دفعہ دلی میں غالب سے ملے تو ان سے پوچھا کہ کس کتاب کی اردو زبان عمدہ ہے؟ اس پر عظیم شاعر نے ’قصہ چہار درویش‘ کا نام لیا۔
رجب علی بیگ نے پوچھا اور ’فسانہ عجائب‘ کیسی ہے؟
غالب نے جواب دیا ’اجی لاحول ولا قوۃ اس میں لطف زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔‘
یہ رائے سن کرسرور پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
غالب پر جب یہ بات کھلی کہ جن صاحب سے انہوں نے ’فسانہ عجائب‘ کی برائی کی ہے وہ اس کے مصنف ہیں تو وہ کفِ افسوس ملنے لگے۔ اس واقعے کے دوسرے دن وہ سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کے پاس گئے اور پورا قصہ سنا کر ان سے کہا کہ رجب علی بیگ سرور کے مکان پر چل کر کل کی بات کی تلافی کرتے ہیں۔ اب یہ حضرات سرور کے یہاں پہنچے۔
وہاں غالب نے غوث علی شاہ کو مخاطب کرکے کہا ’جناب مولوی صاحب رات میں نے ’فسانہ عجائب‘ کو جو بغور دیکھا تو اس کی خوبیئ عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں۔ نہایت ہی فصیح و بلیغ عبارت ہے۔ میرے قیاس میں تو ایسی عمدہ نثر نہ پہلے ہوئی نہ آگے ہوگی کیوں کہ اس کا مصنف اپنا جواب نہیں رکھتا۔‘
غالب سے اپنی کتاب کی تعریف سن کر سرور خوش ہوئے۔ دل جوئی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ بعد ازاں غالب نے ان کی دعوت کی تو اس میں بھی سرور کی تعریفوں کے پل باندھے۔ سید غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کے ملفوظات و حالات پر مشتمل ’تذکرہ غوثیہ‘ میں لکھا ہے:
’مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔‘
’ان کے مزاج میں کمال کسرِ نفسی اور فروتنی تھی۔‘
غالب نے اپنا مسلک اس شعر میں بھی بیان کیا ہے:

آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلحِ کل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

اسی طرح وہ کہتے ہیں:

نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی

دوستوں سے محبت
غالب یاروں کے یار تھے۔ دوستوں سے محبت کرتے۔ ان کی عزتِ نفس کا انہیں پاس رہتا۔ مصیبت میں گِھرے دوستوں کی دلجوئی کرتے کہ جانتے تھے ’دل بدست آور کہ حج اکبر است‘۔
مولانا الطاف حسین حالی کے بقول ’وہ اپنے ان دوستوں کے ساتھ جو گردشِ روزگار سے بگڑ گئے تھے نہایت شریفانہ طور سے سلوک کرتے تھے۔‘
غدر کے بعد ایک دوست کے حالات ابتر ہوگئے۔ ایک روز وہ چھینٹ کا فرغل پہنے غالب سے ملنے آئے۔ مرزا کو بہت رنج ہوا کہ کہاں تو یارِعزیز عمدہ چغے پہن کر آتا تھا اور آج یہ حال کہ حقیر کپڑا پہننے پر مجبور ہے۔ اب دوست سے اس فرغل کی برائی کرسکتے تھے نہ ہی اس کے بدلے کوئی اچھی قسم کا چغہ دے سکتے تھے کہ ’خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم‘ کے قائل تھے۔ آدمی ذہین تھے، اس لیے ایسا باوقار حل نکالا کہ دوست کو سبکی بھی محسوس نہ ہو اور وہ ان کے کام بھی آسکیں۔
ان سے کہا ’یہ چھینٹ آپ نے کہاں سے لی؟ مجھے یہ اچھا معلوم ہوتا ہے مجھے بھی فرغل کے لیے ایسا چھینٹ منگوا دیں۔‘
دوست نے جواب دیا ’یہ فرغل آج ہی بن کر آیا ہے اور میں نے اسی وقت اس کو پہنا ہے۔ اگر آپ کو پسند ہے تو یہی حاضر ہے۔‘
اس پر مرزا نے کہا ’جی تو یہی چاہتا ہے کہ اسی وقت آپ سے چھین کر پہن لوں مگر جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے آپ یہاں سے مکان تک کیا پہن کر جائیں گے؟ پھر ادھر ادھر دیکھ کر کھونٹی سے اپنا مالیدہ کا چغہ اتار کر انہیں پہنا دیا۔‘
غالب کی آمدنی زیادہ نہ تھی، پیسے کی ریل پیل نہ تھی، لیکن دل بہت غنی تھا۔ سوالی ان کے در سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ حالی ’یادگارِ غالب‘ میں لکھتے ہیں ’ان کے مکان کے آگے اندھے، لنگڑے، لولے اور اپاہج مرد و عورت ہر وقت پڑے رہتے تھے۔‘

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
غالب نے زندگی میں بہت صدمے جھیلے۔ سات بچے پیدا ہوئے۔ کوئی بھی 15 ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہا۔ بیوی کے بھانجے زین العابدین خاں عارف کو بیٹا بنایا لیکن وہ بھی جوانی میں چل بسا۔ اس کی موت کا گہرا گھاؤ غالب کو لگا۔ شدتِ غم کا احساس اس غزل سے ہوتا ہے:

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہ ہر حال یہ مدت خوش و نا خوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالبؔ
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور​

زین العابدین خاں عارف کے بچوں سے غالب بہت لاڈ پیار کرتے۔ باپ کے انتقال کے بعد انہیں اپنے بچوں کی طرح چاہا۔ وہ تنگ کرتے تو اس کا بھی برا نہ مانتے۔
ایک خط میں لکھا ’دم بدم مجھ کو ستاتے ہیں اور میں تحمل کرتا ہوں۔ مجھے کھانا نہیں کھانے دیتے، ننگے ننگے پاؤں میرے پلنگ پر رکھتے ہیں، کہیں پانی لڑھاتے ہیں، کہیں خاک اڑاتے ہیں، میں تنگ نہیں آتا۔‘
خضر مرزا مرحوم کے بقول ’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حسین علی خاں، مرزا غالب سے شوخیاں کرتے اور کبھی ان کی چھاتی پر چڑھ بیٹھتے تھے۔ پڑھائی کے معاملے میں بھی ان کی بہت ناز برداری ہوئی۔‘
مرزا صاحب نے کہا ارے حسین علی آ کر پڑھ لے، انہوں نے جواب دیا ’دادا جان، آتا ہوں، اور دوسری طرف نکل گئے۔ کھیل تماشے کا تو انہیں لپکا تھا۔ کٹھ پتلیوں کے تماشے پر ایک دفعہ بیس روپے خرچ کردیے اور پھر مرزا صاحب کے پاس منہ بسورتے ہوئے آئے کہ ’دادا جان بیس روپے دلوا دیجیے۔ مرزا صاحب نے کلو کو بلا کر کہا، بھئی انہوں نے ایک پتھر اور مارا، دے دے بیس روپے۔‘

غالب پروفیسر کیوں نہ بن سکے؟
گورنمنٹ آف انڈیا کے سیکرٹری جیمز ٹامسن غالب کے قدردان تھے۔ انہوں نے دلی کالج میں فارسی کی پروفیسری کے لیے غالب کو بلایا۔ پالکی میں بیٹھ کر ان سے ملنے گئے تو دفتر کے باہر رک گئے کہ سیکریٹری صاحب پیشوائی کے لیے اسی طرح باہر آئیں گے جیسے دربار کے وقت جاگیرداروں کے استقبال کے واسطے آتے ہیں۔ سیکریٹری کو اس اندازِ خسروانہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے غالب سے کہا کہ آپ نوکری کے لیے آئے ہیں جس قسم کا پروٹوکول چاہتے ہیں وہ نہیں مل سکتا۔
اس پر غالب نے کہا ’سرکاری ملازمت کا ارادہ اس لیے ہے کہ خاندانی اعزاز میں اضافہ ہو نہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی کھو بیٹھوں۔‘
یہ تو انگریز افسر تھے غالب کا معاملہ تو یہ تھا:
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

غالب کا وژن
برصغیر میں سرسید احمد خان کو جدیدیت کا علمبردار کہا جاتا ہے لیکن غالب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان سے پہلے زمانے کی رفتار پہچانی اور اس کے مطابق قومی لائحہ عمل مرتب کرنے پر زور دیا۔
سرسید نے ابوالفضل کی ’آئین اکبری‘ کو مدون کیا تو اس کی تقریظ کے لیے غالب سے کہا جو انہوں نے لکھ تو دی لیکن اس میں علمی کام کی وہ تحسین تو کیا کرتے الٹا اسے کارِعبث قرار دے دیا۔ اس پر سرسید ان سے ناراض ہوگئے۔
غالب نے تقریظ میں سرسید سے کہا کہ وہ آئین اکبری کے اوراقِ پارینہ کے بجائے آئین فرنگ پر نظر ڈالیں جس کی وجہ سے فرنگی ترقی کی دوڑ میں بہت آگے چلے گئے ہیں اور انہوں نے وہ وہ کام کر دکھائے جن کا تصور بھی نہ تھا۔
غالب کی منظوم تقریظ کے چند اشعار کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
آنکھ کھول کر اس دیر کہن میں
اہل انگلستان کو دیکھو
اور ان کے شیوہ انداز پر نظر ڈالو
کہ انہوں نے کیسے کیسے آئین پیدا کیے ہیں
اور جو کچھ کبھی کسی نے دیکھا بھی نہ تھا وہ انہوں نے کر دکھایا ہے
صاحب ہوش لوگوں کے کام پر نظر ڈالو
اور ہرآئین میں نئی طرز کے سو کام دیکھو
الغرض اس آئین کے آگے جو زمانہ آج رکھتا ہے
دیگر آئین پرانی جنتری کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں
(فارسی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر خورشید رضوی)
 
آخری تدوین:

عدنان عمر

محفلین
میرزا غالب سے ایک تازہ ملاقات
ہفتہ 15 فروری 2020 11:05

عبدالخالق بٹ

آج مدت بعد ’شکیل بھائی‘ کی طرف جانا ہوا۔ اُن کا مہمان خانہ الف لیلہ نگری کا منظر پیش کررہا تھا۔ دیوار بہ دیوار دبیز قالین، وسط میں نفیس’غالیچہ‘، اطراف میں نرم گدیلے، گدیلوں پر مخملی غلاف اور ان پر سلیقے سے دھرے گاؤ تکیے حسن انتخاب اورحسن ترتیب کا پتا دے رہے تھے۔
دریچوں پرقدیم وضع کے قیمتی ریشمی پردے، دیوار پر جڑاؤ فریم، فریم میں دہلوی نستعلیق کی خطاطی کا نادر نمونہ، چھت سے جھولتی کاغذی قندیلیں اور اُن میں جگمگاتے برقی قمقمے۔ ’اے سی‘ کے عین نیچے ایک دوسرے کو ’کراس‘ کرتے ’مورچھل‘ کی جوڑی، چاندی کی کشتی میں لونگ اورمصری کی ڈلیاں، سنہری طشتری میں تازہ لگے سانچی پان اور قِوام، ایک جانب حقہ دھرا ہے، جس کی ’نَے‘ پر چنبیلی کے تازہ پھولوں کی مالا لپٹی ہے، دوسری جانب ’فش باؤل‘ رکھا جس کے کیوڑہ ملے پانی میں گلاب کی پتیاں تیررہی ہیں۔ تپائی پر سلگتے بخوردان سے اٹھنے والی خوشبو کی لپٹوں نے ماحول کو خواب ناک بنا دیا ہے۔
یہ دیکھ کر ہم ہکّابکّا رہ گئے۔ پوچھا ’شکیل بھائی یہ سب کیا ہے؟‘
کراری آواز میں بولے: تھیم (theme) کیسی ہے؟
’اچھی ہے، آئیڈیا کہاں سے آیا‘۔۔۔ ہماری حیرانی برقرارتھی۔
’گوگل‘سے ۔۔۔ انہوں نے ہمیں لاجواب کردیا۔
آگے بڑھنے سے قبل ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ’شکیل بھائی‘ کا تعارف کروادیں۔ آپ کا نام ’شکیل خان‘ ہے، ’خان‘ کا لاحقہ اس بات کا اعلان ہے کہ موصوف نسلاً پٹھان ہیں، آبائی تعلق کسی افغان کُٹم قبیلے سے ہے۔ یقیناً اجداد کو ’کشتم کشتا‘ سے علاقہ رہا ہوگا مگر موصوف کا ’مہاجنی‘ سے واسطہ ہے۔ خوداری اور وضعداری مزاج کا حصہ اور ادب اور ادیبوں سے لگاؤ طبیعت کا خاصا ہے۔ شہر قائد میں سجنے والی ادبی محفلوں میں نمایاں نظرآتے ہیں۔ کتنے ہی اساتذہ کا کلام ازبر ہے، مگر اعتراف فقط غالب کی عظمت کا کرتے ہیں اور اس نسبت سے خود کو ’غالیبیا‘ کہلاتے اوراس خوش عقیدگی کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں ’ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں۔‘
ہم نے پوچھا ’شکیل بھائی یہ اس قدر اہتمام کس کے لیے ہے؟‘
انہوں نے کہا ’آج 15فروری ہے، میرزا اسد اللہ خان غالب کا یوم وصال۔‘
’مطلب؟‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔
’یوم وصال کا مطلب ہے ’ملاقات کا دن‘۔۔۔ آج غالب آرہے ہیں ملاقات کو۔‘
’پر میرزا تو 1869 میں انتقال کر گئے تھے۔۔۔‘ ہماری حیرت دوچند ہوگئی۔
’بڑے لوگ کبھی نہیں مرتے۔۔۔‘ شکیل بھائی کا سٹیٹمنٹ مکمل ہوا ہی تھا کہ کمرے میں میرزا اسد اللہ خان غالب داخل ہوئے۔ جنہیں دیکھ کر ہم ششدر رہ گئے، وہ ہو بہو نصیرالدین شاہ والے’غالب‘ تھے۔ شکیل بھائی نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا، اور انہیں ان کی نشست تک لے آئے۔ میرزا نے آراستہ پیراستہ کمرے پر ایک بھرپور نظر ڈالی اور پھر شکیل بھائی سے مخاطب ہوئے ’شکیل میاں، یہ برخوردار کون ہے اور اتنا سہما ہوا کیوں ہے؟
میرزا ! ہمارے یہ دوست آپ سے ملنے کے خواہشمند تھے، سو انہیں بھی مدعو کرلیا۔ سہمے ہوئے اس لیے ہیں کہ انہیں آپ کے ہونے کا یقین نہیں آرہا۔‘
میرزا نے ایک آہ کھینچی اور کہا ’ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔‘
غالب مسند نشیں ہوئے تو شکیل بھائی ان کے ہمنشیں ہوگئے اوردل نشیں لہجے میں بولے ’بھیا تم بھی بیٹھ جاؤ اور سوالات کی پٹاری کھول لو۔‘
’کیسے سوالات۔۔۔؟‘ میرزا چونکے۔
شکیل بھائی بولے ’میرزا یہ ’لفظ تماشا‘ سجاتے ہیں اور الفاظ کے منظر و پس منظر سے بحث کرتے ہیں۔‘
ہم نے اجازت ملتے ہی سوال پیش کردیا ’میرزا ایک عالم آپ کا معترف ہے۔ عبدالرحمان بجنوری کے بقول: ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں: مقدس وید اور دیوان غالب۔ جب کہ نثر نگاری میں آپ ایک نئے طرز کے موجد ہیں کہ خطوط نگاری کو مکالمہ نگاری بنا دیا، پھر کیا وجہ ہوئی کی ’لغت‘ کے باب میں آپ کو بدترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بات مقدمہ بازی تک پہنچ گئی۔‘
غالب مسکرا کر بولے ’میاں بات یہ ہے کہ غدر(1857) کا ہنگام تھا۔ ہر طرف مارا ماری کا بازار گرم تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا
ناچار گھر ہی میں محصور ہونا پڑا۔ ایسے میں خود کو مصروف رکھنے کو فارسی زبان کے سب سے مشہور لغت ’برہانِ قاطع‘ کی ورق گردانی شروع کردی۔‘
اتنا بیان کرنے کے بعد یک دم پوچھا ’کبھی نام سنا ہے برہانِ قاطع کا؟‘
چونکہ موضوع ہمارے مطلب کا تھا اس لیے فوراً جواب دیا ’جی میرزا! برہانِ قاطع، محمد حسین برہان کی تالیف ہے۔ یہ لغت انہوں نے گولکنڈہ (دکن) کے سلطان عبداللہ قطب شاہ کے ایما پر مرتب کیا تھا۔ اس میں بیس ہزار سے زیادہ الفاظ کی وضاحت کی گئی ہے۔اس لغت کا مقام اہل ایران کے نزدیک آج بھی مسلّم ہے۔‘
جواب سن کر خوش ہوگئے، طشتری سے مصری کی ایک ڈلی اٹھائی اور ہماری جانب بڑھاتے ہوئے بولے ’اب ہوا یوں کہ ’برہانِ قاطع‘ دیکھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ صاحب لغت نے کئی مقامات پر الفاظ کو غلط سمجھا ہے؛ یوں ان کی تعبیر بھی نادرست کی ہے۔ کتنی ہی تراکیب کا مفہوم وہ نہیں جو اُس نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ میں نے ایسے تمام مقامات پر نشان لگایا اور الفاظ و تراکیب کی وہ تعریف و تعارف لکھا جو میرے نزدیک درست تھے۔ یوں میں نے ’برہانِ قاطع‘ کا جواب ’قاطعِ برہان‘ کی صورت میں دیا۔ اس کا شائع ہونا تھا کہ ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
’کوئی لفظ بیان کردیں جو محمد حسین برہان نے درج کیا اور آپ نے اس کی درست تعبیر کی‘ ہم نے لقمہ دیا۔
بولے ’برہانِ قاطع کے مطابق ’آب چیں‘ کے معنی اس کپڑے کے ہیں جس سے مُردے کا بدن بعد غسل خشک کیا جاتا ہے۔‘ میں نےاس پر یہ اعتراض کیا تھا کہ مردے کے بدن کو خشک کرنے کی قید بیجا ہے کیونکہ ’آب چین‘ ہر اس کپڑے کو کہتے ہیں جس سے جسم یا اس کا کوئی حصہ خشک کیا جائے، تم آج کی زبان میں اُسے تولیہ کہہ لو۔
غدر کی ہنگامہ خیزی تھمی تو 1862 میں میری کتاب ’قاطعِ برہان‘ شائع ہوئی۔ کتاب کا چھپنا تھا کہ مجھے ناشائستہ زبان میں لکھے گمنام خطوط آنے لگے، بھلا بتاؤ میں کیا جواب دیتا اور کس کس کو دیتا۔
دو سال بعد 1864 میں سید سعادت علی کے جی میں کیا آئی کہ میرے خلاف ’محرق قاطع برہان‘ لکھ ماری، پھر اگلے سال 1865 میں سید محمد نجف علی جھجھری نے ’دافع ہذیان‘ لکھی۔ اسی سال ہی میرزا رحیم بیگ رحیم میرٹھی نے ’ساطع برہان‘ لکھ دی۔
1865 میں مَیں نے ’ساطع برہان‘ کے جواب میں رسالہ ’نامۂ غالب بجواب ساطع برہان‘ لکھا اور اپنی کتاب ’قاطعِ برہان‘کو ’درفش کاویانی‘ کے نام سے مکرر شائع کروایا۔ 1866 میں مولوی احمد علی احمد جہانگیر نگری کو بھی قاطع برہان کی مخالفت کا شوق چڑھا اور اُس نے ’مؤید برہان‘ لکھ ماری۔
اسی سال معین الدین معین دہلوی نے قاطع برہان کے جواب میں ’قاطع قاطع‘ لکھی۔ چونکہ ’مؤید برہان‘ میں میرے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ اس لیے اول میں نے 1867 میں اس کتاب کا علمی جواب ایک مختصر رسالہ ’تیغِ تیز‘ لکھ کردیا، پھر اس کے مصنف ’مولوی احمد علی احمد جہانگیر نگری‘ کے خلاف ازالہ حرفی کا مقدمہ کردیا۔
مولوی احمد بھی کائیاں نکلا عدالت میں اپنے ہر غلط لفظ کی تعبیر کچھ سے کچھ بیان کردی، ناچار 1868 میں اس مقدمے سے دست برادرہوکرراضی نامہ کرنا پڑا۔ مگر اس مولوی نے میرے گزرجانے کے بعد بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا اورمیری کتاب ’تیغ تیز‘ کے جواب میں 1869 میں ’شمشیر تیزتر‘ شائع کردی۔ اس کتاب پر لکھے قطعہ کا مادہ ’ ترکی دادہ جواب ترکی‘ ہے۔‘
اس گفتگو نے غالب کو افسردہ کردیا، لہٰذا گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں اور اپنے فارسی شعر گنگنانے لگے
کوکبم را در عدم اوجِ قبولی بودہ است
شہرتِ شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن
(میرے ستارے کو عدم میں اوجِ قبول حاصل تھا۔ میری شاعری کی شہرت بھی میرے بعد ہی ہو گی)
در تہ ہر حرف غالبؔ چیدہ ام مے خانہ اے
تا ز دیوانم کہ سرمست سخن خواہد شدن
(غالبؔ میں نے اپنی شاعری کے ہر لفظ کی تہہ میں ایک مے خانہ رکھ دیا ہے۔ دیکھیں، میرے دیوان کے مطالعے سے اب کس کس پر سر مستی و سرشاری طاری ہوتی ہے۔)
اس دوران میں شکیل بھائی ایک خوش عقیدہ مرید کی طرح میرزا کی گفتگو سنتے رہے۔ مگرجب غالب نے اشعار کا ورد شروع کیا تو ہمیں اٹھنے کا اشارہ کیا اورخود بھی دبے قدموں سے کمرے سے نکل آئے۔ اس ملاقات کے بعد ہم غالب کے اس دعویٰ پر ایمان لے آئے
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
 
Top