مذہب کے خادموں کی خدمت از طلعت حسین سید

آبی ٹوکول

محفلین
جیسے ہی رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوتا ہے تو گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی میڈیا میں اک طوفان بدتمیزی برپا ہوجاتا ہے اور ہر چینل میں رمضان لوٹ سیل بشکل دکانداری کے لگ جاتی ہے کہ جس میں پاکستان کی غریب عوام کا تمسخر ڈیلی بیسز کی بنا پر اڑایا جاتا ہے جبکہ اور اس سارے پراسس میں خصوصیت کے ساتھ مذہبی شخصیات کو باقاعدہ پلاننگ کہ ساتھ ایک خاص نقطہ نظر کی اپروچ منٹ کے لیے شوبز کی ہستیوں کے درمیان مدعو کیا جاتا ہے ۔اور پھراس پر شعائر اسلامی اور امت مسلمہ کا مذاق اڑاتے ہوئےجو باقاعدہ اک طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے ایسا سب کچھ پاکستان اور اسکے میڈیا کا ہی خاصہ ہے دنیا میں اور کہیں نہیں۔۔۔۔۔ بحرحال ان سب باتوں پر سید طلعت حسین کا ایک شاندار کالم کہ جس میں انھوں نے وہ سب کچھ جو میں کہنا چاہ رہا تھا مجھ سے لاکھ درجے بہتر انداز میں کہہ دیا آپ بھی پڑھیئے اور سر دھنیئے.. والسلام

میرا خیال ہے پاکستان میں سب کچھ بِکتا ہے۔ اب یقین ہو گیا ہے۔ رحمتوںاور فضیلتوں کے اس بابرکت مہینہ میں مذہب کے نام پر جو منڈی لگی ہوئی ہے، اُس نے فروخت کے اس نظام کے گزشتہ تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ سحر اور افطار اور اُس کے درمیان کے گھنٹوں میں ہمیں کیا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔کیسے کیسے لوگ کیسے کیسے روپ دھار کر محفل سجائے بیٹھے ہو تے ہیں۔ کہنے کو رمضان کریم کی کرامات کا ورد کرتے ہیں۔ اصل میں چھابڑی فروش ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ بہروپیے اسلامی تاریخ پر لیکچر دے رہے ہیں۔ بے علم قرآن پاک کے آفاقی پیغام پر وعظ د ے رہے ہیں۔ جو کل تک فیشن کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اب ڈوپٹے،چادریں اور ٹوپیاں پہن کر نیکوکار بنے بیٹھے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ایسے ٹھسے کے ساتھ ہو رہا ہے کہ جیسے اسلام کی بیش قیمت خدمت سرانجام دی جا رہی ہو۔

نام نہاد رہنما شوبز کی اداکاروں کے ساتھ سحری مناتے ہوئے ذاتی معاملات زیر بحث لاتے ہیں۔ میک اپ کی دبیز تہوں کے ساتھ انٹرویو دینے والے مہمان ٹھٹھا کرتے ہوئے اول فول بولتے اور اُس کو رمضان کے نام کرتے ہیں۔ ہر طرف مذہب کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی تحقیر اور ان کے تمسخر کا ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی میڈیا بھی چلا اُٹھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کے ساتھ کیا ٹھٹھول ہو رہا ہے۔ مگر بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کی توجہ اس ڈرامہ بازی میں مزید تیزی لائے گی کیونکہ یہ سب کچھ توجہ حاصل کرنے کے لیے ہی تو کیا جا رہا ہے۔ بے ہودگی ویسے بھی نظروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے اور اسے اگر مذہب کے تیل میں تل دیا جائے تو اِس سے کرار ے پکوڑ ے اور کیا بنیں گے۔ افطار سے پہلے جب خداوند تعالی کے حکم کے مطابق جسم کی زکوۃ روحانی پاکیزگی میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے، اشیاء کا لنڈا بازار کھول دیا جاتا ہے۔

اسلامی تاریخ کے بزرگ ترین نام معلومات سے نا آشنا مگر معصوم شرکاء کے سامنے بدتمیزی کے ساتھ اچھالے جاتے ہیں۔ عجلت میں لیے گئے جواب مقدس شخصیات کے مختلف پہلووں، اُن کے کارناموں حتیٰ کہ اُن کی ولدیت اور قریبی رشتہ داروں کے تمام حوالوں کا تمسخر بنا د یئے جا تے ہیں۔ اس تُکے بازی کو ڈھٹائی کے ساتھ عیار آنکھیں اور چرب زبان بہترین سلام کے طور پر پیش کرتی ہیں۔کبھی عدت میں موجود بیوہ کو کیمروں کے سامنے لا کر پیسوں میں تولا جاتا ہے۔ کبھی انسانوں کے بچے تھیٹر کے ٹکٹ کی طرح بانٹے جاتے ہیں۔ کبھی تالیوں کی ڈگڈگی پر قلابازیاں لگاتے ہیں۔ اور چیزیں بیچتے ہوئے یک دم آیت کریمہ کا ورد شروع کر دیتے ہیں۔ دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے، ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان کس ملک میں اس طرح رمضان مناتے ہیں۔ ہماری اپنی ثقافت میں ایسی مثالیں کہا ں ملتی ہیں۔

پاکستان کے کس صوبہ، کس ضلع یا کس محلے یا کس گھر میں اِس رکن اسلام کی خاطر مدارت ایسے کی جاتی ہے۔ کو ئی ایک مثال نہیں ملے گی۔ ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا اور ہندوستان میں موجود مسلمان کبھی ٹیلی ویژن پر ایسی دھما چوکڑی کو رمضان المبارک کے ساتھ جوڑتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ مکمل طور پر مغرب زدہ معاشروں میں موجود مسلمان خاندان بھی آپ کو اِن آلائشوں سے پاک انداز سے عبادت کرتے ہوئے ملیں گے۔ اِن تمام معاشروں میں میڈیا بھی موجود ہے۔ ذرایع ابلاغ کا غلط استعمال کرنے والے بھی ہیں۔ اور ان میں نظاروں کو دیکھنے والی آنکھیں (جن کو ہم ناظرین کہتے ہیں) بھی کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ مسخرہ پن آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی اپنے تہواروں کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ آفاقی مذاہب یا انسان کے وہ نظریات جو تہذیبوں کے روح رواں ہیں، ٹھگوں کے ہاتھوں بازاروں میں نہیں بکوائی جاتیں۔

مگر یہ حقائق رمضان المبارک میں میڈیا پر پھیلے ہوئے اِس طوفان بدتمیزی میں گم ہو گئے ہیں۔ کیونکہ آپ کو جو کچھ دکھایا جا رہا ہے، اُس کا اسلام یا روح پروری سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ڈھکو سلا ایک مہینے میں اشتہار کے ذریعے پیسے بٹورنے کا وہ طریقہ ہے جس کے استعمال کا موقع سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ سستی شہرت کے انجن کے پیچھے دیوانے پن کی اِن تمام بوگیوں میں وہ بونے بیٹھے ہوئے ہیں جن کے قول و فعل میں اُتنا تضاد ہے جتنا مذہب کے نام پر کیے جانے والے اِس تماشے کا مذہب کی اساس میں۔ یہ مال گاڑی تیس دن اور راتیں اِس ملک کے شہریوں کو ایک ایسی سیر کرا رہی ہے جس کے آخر میں نیکیاں تو زائل ہوں گی ہی مگر گناہوں کے انبار میں اضافہ ہو گا۔ صرف مال بنانے والے خوش ہوں گے یا مال بیچنے والے۔ یقیناً ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی نظر کے اس دھوکے کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہے۔

میرے پاس جس قسم کا رد عمل آ رہا ہے اُس کو اگر کسی سرو ے میں تبدیل کر دیا جائے تو اِس ملک کی بھاری اکثریت اِس ناٹک کو نہیں دیکھنا چاہتی، مگر چونکہ ناٹک رچانے والے متنفر تماش بینوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں لہذا یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ مستقبل میں بھی مجھے اِس روایت میں کمی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ جس کی ایک وجہ دوسر ے شعبوں میں ہونے والی اسی قسم کی شعبدہ بازی ہے۔ ہم نے حادثاتی طور پر یا اپنی نا لائقی کی وجہ سے ہر شعبے میں دو نمبر مال کو پھیلنے کے بے شمار مواقع فراہم کیے ہیں۔ نوٹ کے زور پر کھوٹے سیاستدان بطور لیڈران خود پر مسلط کیے رکھے ہیں۔ نیم حکیم قسم کے کرداروں کو سیاسی جراحی کے لیے پالے رکھا ہے۔

حتیٰ کہ سائنس ٹیکنالوجی اور انسانی خدمات جیسے شعبہ ہائے زندگی میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک چکرباز کو آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ میڈیا کی دنیا کیسے پیچھے رہ سکتی ہے۔ یہاں پر بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو قومی زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتا ہے۔ مگر چونکہ ٹیلی ویژن اسکرین کے ذریعے پہنچائے جانے والا پیغام ہر کونے میں پھیلتا ہے لہٰذا مذہبی تہواروں کی حد تک خطرناک نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ آنے والی نسلیں انھیں کرداروں کو اپنا مسیحا جانیں گی اور انھیں کا انداز اپنائیں گی۔ اگر حالات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب مذہب کے فروخت کار کسی روز اپنی شیروانیوں اور زیب تن کیے ہوئے لباس کے دوسر ے حصوں کو لائیو پروگراموں میں نیلام کر کے بانٹ رہے ہوں۔ اور ساتھ یہ دعویٰ بھی کر رہے ہوں کہ ان کی یہ قربانی اسلام کی ایک عظیم خدمت ہے جس پر قوم کو فخر ہونا چاہیے۔
ربط
 

Ukashah

محفلین
اچھا کالم ہے لیکن جن مذہب کے خادموں کا ذکر فرما رہے ہیں ، انہیں مذہب کے خادم کون کہتا ہے ، اب کوئی عامر لیاقت کو مذہبی کہے یہ تو مذہب ہی کہ توہین ہے ۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
اگر تو واقعی میں لوگ ایسی چیزیں نہیں دیکھنا چاہتے تو ان پروگراموں کو اشتہارات نہیں ملیں گے اور خود بخود بند ہو جائیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو تھوک کے حساب سے اشتہارات مل رہے ہیں، اور دن بہ دن ان میں اضافہ ہو رہا ہے، تو یہ اس بات کا عکاس ہے کہ لوگ اس طرح کے پروگراموں کو پسند کرتے ہیں۔
کیوں پسند کرتے ہیں اس کی بہت ساری وجوہات ہیں، جس پر کسی اور وقت بات ہو سکتی ہے۔
 
Top