مذہبی عقائد اور نظریات

فہد مقصود

محفلین
لوگوں میں مشہور ہوگیا ہے کہ قرآن کا سمجھنا بہت مشکل ہے ، یہ عربی زبان میں ہے اسے صرف عربی داں ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اس کتاب کو سمجھنے کے لئے اٹھارہ علوم سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ العیاذ باللہ یہ بھی کہاجاتاہے کہ اگر عوام قرآن کا ترجمہ پڑھیں گے تو گمراہ ہوجائیں گے ۔
یہ بات دراصل پیٹ پرست، مطلب پرست اور شہرت پسند کم علم ملاؤں کی طرف سے پھیلائی گئی ہےتاکہ ساری عوام ان ملاؤں کے زندگی بھر غلام رہے اور یہ مولوی ان سے عزت،شہرت اور دولت بیجا حاصل کرتا رہے حالانکہ قرآن سمجھنا نہایت آسان ہے ۔ اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟
یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کو سمجھنے اور اس پہ عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قرأ القرآنَ وتعلَّمه وعمِل به ؛ أُلبِسَ والداه يومَ القيامةِ تاجًا من نورٍ (صحيح الترغيب: 1434)
ترجمہ : جس نے قرآن پڑھا ،اسے سیکھااور اس پہ عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا تاج پہنایاجائے گا۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ مومن کو سمجھ کر قرآن پڑھنا چاہئے تاکہ صحیح سے اس پر عمل کرے جس کا بدلہ اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کے تاج کی شکل میں ملے گا۔
قبرمیں جب مومن بندہ تین سوالات کا جواب دے دیگا تو منکر نکیر چوتھا سوال پوچھیں گے ۔
وما يُدريكَ ؟ فيقولُ: قرأتُ كتابَ اللَّهِ فآمنتُ بِهِ وصدَّقتُ(صحيح أبي داود: 4753)
ترجمہ : تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی تو وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ، اس پہ ایمان لایااور اس کی تصدیق کی ۔
یہ حدیث بھی ہمیں قرآن کے نزول کا مقصد بتلاتی ہے کہ اسے سمجھ کرپڑھاجائے، اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے ۔
ہمیں تو قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی بتلاتا ہے کہ علم حاصل کرو۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(سورة العلق:1)
ترجمہ: پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔
یہی وہ علم ہے جس کے بارے میں کل قیامت میں سوال بھی کیاجائے گا۔
لا تزولُ قدَما عبدٍ يومَ القيامةِ حتَّى يُسألَ عن أربعٍ : عن عُمرِهِ فيمَ أفناهُ ؟ وعن علمِهِ ماذا عمِلَ بهِ ؟ وعن مالِهِ مِن أينَ اكتسبَهُ ، وفيمَ أنفقَهُ ؟ وعن جسمِهِ فيمَ أبلاهُ ؟ (صحيح الترغيب:3592)
ترجمہ : قیامت میں مومن کا قدم اس وقت تک ٹل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے ۔ عمر کے بارے میں کہ تونے کہاں گذاری،علم کے بارے میں کہ تم نے کتنا اس پہ عمل کیا، مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایااور کہاں صرف کیا،جسم کے بارے میں کہ کہاں خرچ کیا۔
ان باتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عمل کرنے سے پہلے علم کا حصول ضروری ہے ، بایں سبب اسلام میں علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے ۔
طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ(صحيح الجامع:3914)
ترجمہ : علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔

قرآن سمجھنا آسان ہے اس کے منطقی دلائل :
اب چلتے ہیں اس طرف کہ قرآن سمجھنا کس قدر آسان ہے ؟۔ اس بات کو پہلے منطقی اور عقلی طورپہ ثابت کرتاہوں ۔
(1) ابھی میں نے بتلایاہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد سمجھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے اور یہ قرآن ساری کائنات کے لئے نازل کی گئی ہے ۔ ہندو،مسلم،سکھ ۔عیسائی۔خواہ اس کی زبان ہندی،اردو،انگریزی،فارسی کچھ بھی ہو۔اور وہ کسی بھی علاقے کا رہنے والاہو۔بھلا اللہ تعالی ایسی کتاب کیوں نازل فرمائے گا جو دنیاوالوں کی سمجھ سے باہر ہواور لوگ جس کے سمجھنے سے قاصرہوں؟۔
اگر ایسا ہے تو پھر قرآن کے نزول کا مقصد فوت ہوجائے گا اور آخرت میں علم وعمل کے متعلق سوال کرنا بندوں پہ ظلم ٹھہرے گاجبکہ ہمیں معلوم ہے کہ نہ تو قرآن کانزول بلامقصدہے اور نہ ہی اللہ بندہ پر ذرہ برابر ظلم کرنے والاہے ۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(سورة آل عمران : 191)
ترجمہ : اے ہمارے تونے (یہ کائنات) بلامقصد نہیں بنائی ۔
اسی طرح اللہ کافرمان ہے :
وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ (سورة ق:29)
ترجمہ: اور ہم ذرہ برابر بھی بندوں پرظلم کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔
 

فہد مقصود

محفلین
(2) دنیا میں ہزاروں غیرمسلم اسلام قبول کرتے ہیں ۔ یہ سب قرآن سے متاثرہوکراسلام قبول کرتے ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی قرآن ہی کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرتے ہیں تاکہ اسلام پہ مضبوطی کے ساتھ جم جائے ۔
بی بی سی کے سابقہ ڈاریکٹر جنرل جان بٹ کا بیٹا یحی بٹ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتاتھا اس نے اسلام قبول کرلیا۔اس کے پی ایچ ڈی کا موضوع تھا
" یورپ میں پچھلے دس سالوں میں ایسے کتنے لوگ مسلمان ہوئے جو یورپین نسل کے تھے اور کیوں ہوئے ؟ "
چنانچہ انہوں نےدوتین سال تک اس بات کی تحقیق کی اور پھر اس نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتلایاگیاتھاکہ پچھلے دس سالوں میں تیرہ ہزاریورپین نسل کے لوگوں نے اسلام قبول کیا جن میں سے اسی (80 ) فیصد لوگ قرآن سے متاثرہوکراسلام کو گلے لگایاتھا۔ ان نئے مسلموں میں ایک امریکی خاتون تھی جس کا نام ایم کے ہرمینسن تھا ۔ اس نے اپنے اسلام لانے کی وجہ بتلائی کہ میں اسپین میں تعلیم حاصل کرتی تھی ، ایک دن ہاسٹل میں ریڈیوکی سوئی گھماتے گھماتے ایک ایسی آواز پہ اٹک گئی جہاں سے ایسی آواز آرہی تھی جسے سن کا میں مبہوت ہوگئی ۔ لگاتار کئی دنوں تک اس آواز کوسنتی رہی ۔ مجھے لگایہ میرے دل کی آوازہے ۔ پھر کسی سے اس آواز کے متعلق دریافت کیا تو پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی آواز(تلاوت) ہے ۔
پس میں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کیا اور مکمل پڑھ لیا ۔ پھر سوچا کیوں نہ اس کتاب کو اس کی اصل زبان عربی کے ذریعہ پڑھی جائے؟ چنانچہ مصر کی قاہرہ یونیورسٹی سے عربی میں دوسالہ ڈپلومہ کورس کیا۔ اس کےبعد اب اصل عربی قرآن کو سمجھ کرپڑھی تو قرآن نے مجھے مسلمان کردیا۔ سبحان اللہ
آج مسلمانوں میں شرک و بدعت کی گرم بارازی اور اختلاف وانتشارکے بادسموم کی بڑی وجہ عوام کا قرآنی تعلیمات سے دوری اور اسے سمجھ کر نہ پڑھناہے۔اگر لوگ اسے سمجھ کرپڑھنے لگ جائیں تو امت ایک پلیٹ فارم اور کتاب وسنت کے ایک ہی شاہ راہ پہ جمع ہوجائیں ۔ اے کاش ایسا ہوتا۔

(3) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جیسے دنیاوی علوم کے الگ الگ ماہرین ہیں ۔ طب کے اندر جسم کے الگ الگ حصے کے الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں اسی طرح قرآنی علوم کے بھی الگ الگ ماہرین ہوتے ہیں کوئی قرات کا ماہر،کوئی علم نحووصرف کاماہر،کوئی لغت کاماہر تو تفسیرکاماہروغیرہ ۔
ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ میرے بھائی مولویوں کی ایسی باتوں پہ نہ جائیں ۔اگر وہ آپ کے خیرخواہ ہوتے توکہتے کہ قرآن کی تعلیم مجھ سے سیکھ لومگر وہ ایسانہیں کہتے بلکہ الٹاقرآن سے ڈراتے ہیں۔ یہ زمانہ سائنس وٹکنالوجی کاہے ۔ اس وقت اندھا،بہرااور گونگاسب کی تعلیم کا بندوبست ہے تو پھرمسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنادشوارکیوں؟ آرٹ اور کمرس کے بالمقابل سائنسی علوم زیادہ سخت ہیں ۔باوجودسائنسی علوم سخت ومشکل ہونے کے اسی فیلڈ میں لوگوں کی بہتات ہے ۔اور یہاں مسلمانوں کے لئے قرآن سمجھنامشکل لگ رہاہے ،کیوں؟
نبی ﷺ نے تو قرآن کی مکمل تعلیم سے امت کو آراستہ کردیا ۔ قرآن کی آیت " لتبین للناس ما نزل الیھم" (آپ کی شان یہ ہے کہ جس بات کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اس کو کھول کھول کر بیان کردیں)۔ نبی ﷺ نے ہپ فریضہ بحسن وخوبی انجام دے دیا ۔ اب کس بات کی ضرورت ہے ؟ مزید برآں اہل علم نے سارے علوم کو یکجا کردیا ۔اب کس بات کی ضرورت ہے ؟
آپ کوئی تفسیر اٹھالیں ۔ آیت پڑھیں اس کا ترجمہ پڑھیں ۔آیت کا معنی معلوم ہوجائے گا۔اور آیت کے ساتھ تفسیر پڑھ لیں تو آپ کو آیت کا مکمل معنی ومفہوم معلوم ہوجائے گا۔
آپ سے میں سوال کرتاہوں کہ اس کام کے لئےآپ کو کن علوم کی ضرورت ہے ؟ بلاشبہ کسی علم کی ضرورت نہیں ۔صرف اس زبان کی ضرورت ہے جس زبان میں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں گے ۔

(4) اگر قرآن سمجھنا مشکل ہوتا تو اولا اس پہ عمل کرنا اس سے بھی مشکل ہوتا۔ ثانتا قرآن سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی صرف پڑھنا مقصود ہوتا تو قرآن کی تعلیم ، نبی ﷺ كا اس کی تعلیم پہ ابھارنا، قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والےکو افضل قرار دینا لغوٹھہرتا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ سورہ اخلاص ثلث قرآن ہے ۔اس کا مطلب یہ ہواکہ تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنے سے قرآن پڑھنا حاصل ہوگیا۔مکمل قرآن پڑھنے کی کیاضرورت؟ اور احادیث میں ایسے ایسے اذکار مسنونہ بتلائے گئے ہیں جن کے پڑھنے سے لاکھوں کروڑوں ثواب قرآن پڑھے بغیر مل جائے گا ۔
ان باتوں سے حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کا مقصد سمجھ کر پڑھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے ۔
 

فہد مقصود

محفلین
قرآن سمجھنا آسان ہے اس پہ قرآن وحدیث کے دلائل :
پہلی دلیل : اللہ کا فرمان ہے :
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کر پڑھاجائے ۔

دوسری دلیل : اللہ تعالی نے خود ہی واضح کردیا کہ قرآن نصیحت کے واسطے آسان ہے ۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ(سورة القمر:17)
ترجمہ : اور ہم نے قرآن کو آسان بنایاہے ، ہے کوئی جو اس سے نصیحت حاصل کرے ۔
یہ آیت سورہ قمر میں چارمقامات میں آئی ہے ۔وہ آیت17، آیت 22، آیت 32اور آیت 40 ہیں۔

تیسری دلیل : قرآن سمجھنے کی کتاب ہے اور جو کتاب سمجھنے کی ہو اسے ہرکوئی سمجھ سکتا ہے ۔ فرمان الہی ہے :
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورة الانبياء :10)
ترجمہ : تحقیق کے ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی جس میں تمہارا ہی ذکر ہے ، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ؟

چوتھی دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ اسے سمجھاجاسکے ۔اللہ نے فرمایا:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورة يوسف:2)
ترجمہ : ہم نے اس قرآن کوعربی زبان میں نازل کیاتاکہ تم سمجھ سکو۔

پانچویں دلیل : قرآن کے نزول کا مقصد تاریکی سے روشنی کی طرف لے جاناہے اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے اسے سمجھ کرپڑھاجائے تاکہ اس کی طرف دعوت دی جائے۔ فرمان رب ذوالجلال ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(سورة ابراهيم:1)
ترجمہ : یہ عالیشان کتاب ہم نے آپ پر نازل کیاکہ آپ لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف لائیں ۔

چھٹی دلیل : یہ ہدایت کی کتاب ہے ، یہ کتاب اسی وقت ساری کائنات کے لئے ہدایت کا سبب بن سکتی ہے جب اس کا سمجھنا آسان ہو۔ اللہ کا فرمان ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ(سورة البقرة : 185)
ترجمہ : رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجولوگوں کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے ۔

ساتویں دلیل : اللہ نے قرآن پاک اس لئے نازل کیاتاکہ اس میں غورکیاجائے ۔ فرمان احکم الحاکمین ہے:
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (سورة ص :29)
ترجمہ : یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل کیاہے کہ لوگ اس کی آیتوں پہ غوروفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
دوسری جگہ اللہ کاارشاد ہے :
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا (سورة محمد :24)
ترجمہ : کیایہ لوگ قرآن میں غورنہیں کرتے ؟ یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں!

آٹھویں دلیل : اللہ تعالی نے قرآن کوپہاڑ پہ نازل نہیں کیاکیونکہ اس میں سمجھ نہیں ہے ، انسان کے اندر سمجھ بوجھ ہے اس لئے اللہ نے ان پہ نازل کیا۔
لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ(سورة الحشر:21)
ترجمہ : اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پہ اتارتے تو تودیکھتا کہ خوف الہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ۔

نویں دلیل : نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لاَ يفقَهُ من قرأَهُ في أقلَّ من ثلاثٍ(صحيح أبي داود:1390)
ترجمہ : جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن سمجھ کر پڑھنا چاہئے اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ قرآن تین دن میں بھی سمجھ کر ختم کیاجاسکتاہے ۔

دسویں دلیل : نبی ﷺ کا عام فرمان ہے :
إنَّ هذا الدينَ يسرٌ(صحيح النسائي:5049)
ترجمہ : بے شک یہ دین آسان ہے ۔

یوں تو اس پہ بے شماردلائل ہیں مگر میں نے قرآن وحدیث سے دس ادلہ پیش کردیاتاکہ اپنی حجت ان لوگوں پہ تمام کروں جو قرآن سمجھنے کو مشکل خیال کرتے ہیں۔
آپ تصور کریں کہ جس دین کی بنیاد آسانی پر ہو اور جس دین کی پہلی وحی کا آغاز لفظ "اقرا "سے ہوبھلا وہ کتاب کیسے مشکل ہوسکتی ہے ؟ عقل میں بھی یہ بات نہیں آتی اور کتاب وسنت کے دلائل بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔

چند علماء کے اقوال :
(1) مولوی انیس احمد دیوبندی انوارالقرآن صفحہ نمبر35 پر لکھتے ہیں کہ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں اور جو لوگ عربی نہیں جانتے ان کے لئے بہترین ترجمے موجود ہیں وہ ان کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہم قرآن کوبالکل سمجھ نہیں سکتے ، اس کے سمجھنے کے لئے بہت سے علوم وفنون کی ضرورت ہے اور بڑے جیدعالم ہونے کی ضرورت ہے ۔

(2) شاہ اسماعیل شہیدؒ تقویۃ الایمان میں لکھتے ہیں کہ عوام الناس میں یہ بہت مشہور ہے کہ اللہ ورسول ﷺ کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے ، اس کے لئے بڑا علم چاہئے تویہ بات بہت غلط ہے اس واسطے کہ اللہ نے فرمایاہے کہ قرآن مجید میں باتیں صاف اور صریح ہیں ۔ ان کاسمجھنا مشکل نہیں اور اس کو سمجھنے کے لئے بڑا علم نہیں چاہئے ۔

(3) شاہ ولی اللہ ؒ فتح الرحمن میں لکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مثنوی مولاناجلال الدین،گلستاں شیخ سعدی، منطق الطیر شیخ فریدالدین عطار،قصص فارابی،نفحات مولاناعبدالرحمن اور اسی قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں ، اسی طرح طرح قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھ کر قرآن مجید پڑھنے کی توفیق دے ۔ آمین

قرآن سمجھنا آسان ہے
 

فہد مقصود

محفلین
%D8%B3-jpg.16287

%D8%A7-jpg.16288

fdfdfd-jpg.16360
 

فہد مقصود

محفلین
نبی ﷺ کا امام، احمد رضا بریلوی (نعوذ باللہ)

احمد رضا صاحب نے ایک مولوی برکات احمد کے متعلق کہا:

’’ان کے انتقال کے دن مولوی سید امیر احمد صاحب مرحوم خواب میں زیارت اقدس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے کہ گھوڑے پر تشریف لئے جاتے ہیں۔ عرض کی: یا رسول اللہ! حضور کہاں تشریف لے جاتے ہیں۔فرمایا برکات احمد کے جنازے کی نماز پڑھنے۔‘‘

احمد رضا خان صاحب نے اس کے بعد کہا:

’’الحمد للہ! یہ جنازہ مبارکہ میں نے پڑھایا۔‘‘ [ملفوظات،حصہ دوم:ص۱۴۲]

اس سے معلوم ہوا کہ احمد رضا صاحب کے نزدیک انہوں نے وہ جنازہ بھی پڑھا رکھا ہے جس کو پڑھنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ جس نبی(ﷺ) کی موجودگی میں بلا اجازت کوئی دوسرا نبی امام نہیں بن سکتا اس نبی مکرم (ﷺ) کے امام بننے کا بھی شرف احمد رضا بریلوی کو حاصل ہوا (نعوذ باللہ و من ذالک)۔
ملفوظات کی اس عبارت میں موجود گستاخی و توہین کا کوئی صاحب ایمان انکار نہیں کر سکتا۔ مگر اس کے باوجود بریلوی اس گستاخانہ عبارت کی مختلف باطل تاویلات میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے اعلیٰ حضرت کے دفاع میں مزید گستاخی و توہین کے مرتکب بنتے ہیں۔ لہٰذا سب سے پہلے تو خود بریلوی حضرات کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں امام بننے کا حکم ملاحظہ فرمائیں:
بریلویوں کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی نے لکھا:

’’اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی علیہا لصلوٰۃ والسلام کی موجودگی میں کسی کو بھی امام ہونے کا اختیار نہیں۔‘‘ [شان حبیب الرحمٰن:ص۲۱۹]

گویا جو اختیار کسی کو نہیں وہ بریلویوں کے نزدیک ان کے اعلیٰ حضرت کو حاصل تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی امام بن بیٹھے۔ کچھ بریلوی یہاں چالاکی سے بعض صحابہ کرام ؓ سے ایسی امامت کا ثبوت دینے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔مگر ان کی اس تاویل کو خود ان کے حکیم الامت احمد یار خان نعیمی ان الفاظ میں مردود قرار دیتے ہیں:

’’ہاں اگرحضور علیہ السلام ہی اجازت دے دیں کہ تم امام بنے رہو تو اب حضور علیہ السلام کی اجازت سے امام بنے رہنا جائز ہوا، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن ا بن عوف پر گزرا۔‘‘ [شان حبیب الرحمٰن:ص۲۱۹]

معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صرف وہ امام بن سکتا ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اجازت دے دیں۔ لہٰذا احمد رضا خان بریلوی کا خود کو بلا اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امام بنا لینا سوائے گستاخی کے کچھ نہیں۔کچھ بریلوی علماء نے اپنے اعلیٰ حضرت کی اس گستاخی و توہین کو محسوس کرتے ہوئے اس واضح حقیقت پرجھوٹ اورمتضاد و باطل تاویلات کے پردے ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
چنانچہ معروف بریلوی عالم کوکب نورانی اوکاڑوی نے لکھا:

’’یہ مفہوم کیسے اخذ کر لیا گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز جنازہ بھی ادا فرمائی؟ یا یہ کہ اعلیٰ حضرت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کی؟ (معاذ اللہ)۔ بلا شبہ یہ اعلیٰ حضرت پر بہتان ہے۔ خواب اور اعلیٰ حضرت بریلوی کے بیان کی حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی وفات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شفقت و رحمت کے سبب اپنے اس غلام کو نوازنے تشریف لائے اور اس عاشق صادق کے جنازہ کو ملاحظہ فرمایا۔‘‘ [سفید و سیاہ:ص۱۷۹]

اوکاڑوی بریلوی صاحب نے تو اپنی باطل تاویل سے قصہ ہی ختم کر دیا کہ یہ جنازہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہی نہیں بلکہ صرف ملاحظہ فرمایا۔ کوئی ان بریلوی ماہرین تاویل کو سمجھاتا کیوں نہیں کہ بریلوی اعلیٰ حضرت کے ملفوظ میں صاف تصریح موجود ہے کہ’’(نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا برکات احمد کے جنازے کی نماز پڑھنے۔‘‘ اس رضا خانی وضاحت کے باوجودصریح جھوٹ بول کر احمد رضا بریلوی کا دفاع کیوں کیا جا رہا ہے؟
اس باطل تاویل کا سقم تو انتہائی واضح اور روشن ہے،اس لیے اپنے اعلیٰ حضرت کی اس گستاخانہ عبارت پر ایک اور انداز سے بھی بریلوی حضرات نے تاویل دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ بریلویوں کے ترجمانِ مسلک اعلیٰ حضرت حسن علی رضوی بریلوی اپنے اعلیٰ حضرت کے اس توہین آمیز ملفوظ کی من گھڑت وضاحت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’عبارت کا صحیح مفہوم واضح ہوا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز پڑھائی اور میں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔۔۔۔‘‘ [برقِ آسمانی بر فتنہ شیطانی:ص۶۴]

گویا ان کے نزدیک گستاخی والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کے اعلیٰ حضرت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور احمد رضا خان بریلوی نے باقی لوگوں کو نماز پڑھائی۔ حالانکہ اس من گھڑت بات کا دور دور تک کوئی نام و نشان اس ملفوظ میں نہیں۔
بہرحال ان بریلوی تاویلات سے یہ تو بالکل واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی امام بنے رہنے پر اصرار کرنا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا دعویٰ کرنا خود ان کے نزدیک بھی توہین و گستاخی ہے۔
اس تمام تفصیل کے بعد عرض ہے کہ اس گستاخی و توہین سے بریلوی علماء جھوٹ و من گھڑت تاویلات کے سہارے جان نہیں چھڑا سکتے۔بریلویوں کی تسلیم شدہ اس گستاخی و توہین کا اقرار کرتے ہوئے غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق لکھا:

’’ان کو پہلے تو پتا نہیں تھا کہ حضور علیہ السلام جنازہ میں شامل ہیں بعد میں جب پتا چلا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ سرکار ﷺ نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔۔۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ،حصہ اول:ص۳۲۴]

معلوم ہوا کہ اس جنازے کی نماز بطور امام، احمد رضا خان بریلوی نے ہی پڑھائی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بریلوی اعلیٰ حضرت کے پیچھے یہ نماز پڑھی تھی (نعوذ باللہ) اور اس بات کا گستاخی و توہین ہونا خود بریلوی علماء و اکابرین کی اوپر پیش کی گئی تاویلات سے ثابت ہے۔
دوسرا یہ کہ جو بریلوی یہ من گھڑت تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اعلیٰ حضرت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور خان صاحب بریلوی نے باقی لوگوں کو نماز پڑھائی، شاید یہ نہیں جانتے کہ اس صورت میں تو بریلویوں کے نزدیک نماز ہوتی ہی نہیں۔چنانچہ غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی لکھتے ہیں:

’’دوسری عرض یہ ہے کہ حضور علیہ السلام پر نماز اب فرض نہیں ہے۔آپ علیہ السلام کی نماز نفلی ہوتی ہے اور حنفی مذہب میں مفترض (فرض پڑھنے والا) متنفل(نفل پڑھنے والے)کی اقتدا نہیں کر سکتا۔لہٰذا حنفی مذہب رکھنے والوں کو یہ اعتراض زیب نہیں دیتا کہ نبی الانبیاء علیہم السلام کی موجودگی اور حاضر و ناظر ہونے کے باوجود تم خود امام کیوں بن جاتے ہو۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ،حصہ اول:ص۳۲۴۔۳۲۵]

اس صاف وضاحت کے باوجود لوگوں کا بریلویوں پر اعتراض کرنا کس قدر غلط ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود اور حاضر و ناظر ماننے کے باوجود خود امام کیوں بنتے ہیں؟ بھئی وہ تو صاف صاف اعلان کر رہے ہیں کہ اگر چہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر اور موجود مانتے ہیں مگرچونکہ حنفی مذہب میں فرض پڑھنے والا، نفل پڑھنے والے کی اقتداء نہیں کر سکتااور نہ ایسے کی نماز ہوتی ہے۔ لہٰذامسئلہ مذکورہ کے پیشِ نظر ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتی ہی نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اب نفلی ہے۔
چنانچہ احمد رضا خان بریلوی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امام اسی لیے بنے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی تھی اور آج رضا خانی امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ماننے کے باوجود امام بنتی ہے تواس کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ ان کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں ہوتی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

نبی ﷺ کا امام، احمد رضا بریلوی (نعوذ باللہ)
 

فہد مقصود

محفلین
قبر پرستی کی مثال: عبدالحبیب عطاری کی عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری، دیکھئے مزار کی جالیاں پکڑ کر کیا کہہ رہے ہیں: سب کی جھولیاں بھر دیجئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

 

فہد مقصود

محفلین
قبر ميں سب سوالوں كے جواب ميں عبدالقادر جيلانى كهنا اور اسے نجاد ملے گى(استغفرالله )

"سيدنا غوث اعظم رحمة الله عليه كے زمانه مبارك ميں ايك بهت بڑا گنهگار فاسق فاجر گناه كرنے ميں سرمست رهتا تها مگر اس كو آپ رحمة الله عليه سے بے حد محبت تهى- تو جب وه شخص فوت هو گيا اور عزيز و اقارب نے اس كو فبر ميں دفن كر ديا تو سوال و جواب كيلئے منكر نكير آئے- تو فرشتوں نے الله تعالى اور دين اور نبى كريم صلى الله عليه وسلم كے متعلق سوال كيا كه تيرا رب كون هے- تيرا دين كيا هے- اور تيرا نبى كون هے- تو اس شخص نے سب سوالوں كے جواب ميں عبدالقادر كها- تو الله تعالى كى طرف سے فرشتوں كو حكم هوا- اے فرشتو اگرچه يه بنده گنهگار خطا كار هے- ليكن ميرے محبوب بندے سيد عبدالقادر كى سچى محبت اپنے دل ميں ركهتا هے اس لئے ميں نے اس كى مغفرت فرما دى هے- اور اس كى قبر كو حد نگاه كشاده كر ديا هے-"(تفريح الخاطر:ص79)

اس سے معلوم هوا كه ان حضرات كے نزديك صرف شيخ عبدالقادر كى محبت نجات كے ليئے كافى هے- حتى كه قبر ميں جب پوچها جائے كه تيرا رب كون هے؟ تيرا نبى كون هے ؟ تو تب بهى جواب ميں اپنا رب اور نبى شيخ عبدالقادر كو بتا كر صاف كفر بكنے والا

بخش ديا جائے گا, انا لله وانا عليه راجعون-


22-1_jpg.jpg


22-2_jpg.jpg


22-3_jpg.jpg
 

فہد مقصود

محفلین
پير كا نام لينے سے قبر ميں نجات

بريلوى خطيب پاكستان افتحار الحسن شاه اپنے مرشد لاثانى پير جماعت على شاه صاحب اور ان كے ايك مريد كا قصه بيان كرتے هوئے فرماتے هيں:

"نام تو ان كا كچھ اور تها مگر مرشد پاك ان كو پيار سے فرمايا كرتے تهے كه يه ميرے ڈيرے كا نمبردار هے- اور پهر وه نمبردار كے نام سے هى مشهور هو گيا- ان كا كام صرف مرشد پاك كى بھينسوں كو چاره ڈالتا تها- ايك دن مرشد لاثانى نے پيار سے فرمايا- نمبردار ! قبر ميں منكر نكير نے سوال پوچهے تو كيا جواب دے گا- نمبردار نے عرض كى – يا حضرت ميں كهه دوں گا كه ميں تے اپنے پير دياں مجهاں نوں پٹهے پاندا هوندا ساں- آپ نے مسكرا كر فرمايا – جا نمبردار يهى كه دينا تيرى نجات هو جائے گى-"(مقامات اوليا~:ص 119)

barelvi%20ka%20hajj1.jpg


22-4_jpg.jpg
 

فہد مقصود

محفلین
عبدالقادر جيلانى رحمة الله عليه كى الله سے گفتگو، شيخ عبدالقادر جيلانى كا نام لينے كا ثواب اور تاثير الله كا نام لينے كے برابر، شيخ عبدالقادر جيلانى كا نام پكارنا ايسے هى هے جيسے الله كو پكارنا (استغفر اللہ)

عبدالاحد قادرى لكهتے هيں:

"الله تعالى كى طرف سے خطاب هوا كه عبدالقادر جو بهى تيرى جمعة المبارك كے دن زيارت كرے گا وه ولى كامل اور مقرب هو جائے گا اگر تو مٹى پر بهى نگاه كرے گا تو وه بهى سونا بن جائے گى عرض كيا! مولى كريم مجهے اس كى ضرورت نهيں- اے پروردگار مجهے ايسى چيز عنايت فرما جو ان سے اعلى هو اور ميرے وصال كے بعد بهى باقى رهے اور لوگوں كو دنيا و آخرت ميں نفع دے- پس آواز آئى " ميں نے تيرے ناموں كو ثواب اور تاخير كے لحاظ سے اپنے ناموں كے برابر كر ديا – پس جو تيرے نام كو لے گا وه ميرے نام كو لے گا-" (تفريح الخاطر:ص67-68 )

اس سے معلوم هوا كه بریلوى حضرات كے نزديك :
  1. شيخ عبدالقادر جيلانى الله سے براه راست گفتگو كلام كرتے تهے-

  2. شيخ عبدالقادر جيلانى كا نام لينے كا ثواب اور تاثير الله كا نام لينے كے برابر هے (استغفرالله )

  3. جو شيخ عبدالقادر جيلانى كا نام پكارے وه ايسے هى هے جيسے اس نے الله كو پكارا (انا لله وانا عليه راجعون)
ارشاد بارى تعالى هے

"جن لوگوں كو تم الله كے سوا پكارتے هو وه تمهارى هى طرح كے بندے هيں- اگر تم سچے هو تو ضرورى هے كه تم انهيں پكارو تو وه جواب ديں-" (الاعراف: 194)

"اور الله كے سوا جنهيں يه لوگ پكارتے هيں وه كوئى چيز پيدا نهيں كرسكتے بلكه وه خود پيدا كيئے گئے هيں- وه مرده هيں زنده نهيں- انهيں تو يه بهى معلوم نهيں كه كب اٹهائے جائيں گے-"(النحل20-21)

"اور الله كے سوا جنهيں تم پكارتے هو وه تو كجھور كى گٹھلى كى جهلى كے بهى مالك نهيں اور اگر تم ان كو پكارو گے تو وه تمهارى پكار نهيں سنيں گے اور اگر بالفرض سن بهى ليں تو تمهارے كچھ كام نه آئيں گے اور قيامت كے دن تمهارے اس شرك كا انكار كر ديں گے-"(فاطر:14-13)

22-1_jpg.jpg


23-1_jpg.jpg


23-2_jpg.jpg
 

فہد مقصود

محفلین
نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بھی رحمۃ اللعالمین رہے ہیں!!!

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے’’رحمۃ للعالمین‘‘ بنا کر بھیجا ہے اور قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسسلم کو اس لقب اور اعزاز سے نوازا ہے۔ اسی بنا پر آج تک لفظ’’رحمۃللعالمین‘‘ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ مخصوص مانا گیا ہے ۔ مگر کچھ کے نزدیک یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں۔
چنانچہ امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب لکھتے ہیں:
’’لفظ رحمۃ للعالمین صفت خاصہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے۔۔۔۔‘‘
[تالیفاتِ رشیدیہ مع فتاویٰ رشیدیہ:ص۱۰۴]
اسی غلط عقیدے کی بنا پر رشید احمد گنگوہی صاحب اپنے پیر و مرشد حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کو بھی ’’رحمۃ للعالمین‘‘ سمجھتے تھے۔ اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
’’ جب حضرت حاجی صاحب کا انتقال ہواتو ہم نے تو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں چھوڑا۔مگر مولانا(گنگوہی) کو دست لگ گئے کئی روز تک کھانا نہیں کھایا گیا۔اس زمانے میں اکثر لوگوں نے یہی کہتے سنا کہ ہائے رحمۃ للعالمین ۔‘‘
[ قصص الاکابر: ص ۷۷]
ایک اور جگہ تھانوی صاحب اس بات کو ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں:
’’جس وقت حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت حاجی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کی خبر ملی ہے کئی روز تک حضرت مولانا گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کو دست آتے رہے اس قدرصدمہ اور رنج ہوا تھا۔ بظاہر یہ معلوم نہ تھا کہ اس قدرمحبت حضرت کے ساتھ ہو گی۔حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ حضرت (حاجی صاحب) کی نسبت بار بار رحمتہ للعالمین فرماتے تھے۔‘‘
[ملفوظات حکیم الامت:ج۱ص۱۶۱]
ان روایات سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی صاحب کو حا جی امداد اﷲ سے شدید محبت تھی حتیٰ کہ ان کی وفات پر کھانا پینا چھوٹ گیا اور غم سے دست لگ گئے اور مزید یہ بھی ثابت ہوا کہ امام ربانی گنگوہی صاحب کے نزدیک حاجی صاحب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ تھے اور اس بات پر دوسرے اکابرین تھانوی صاحب وغیرہ بھی متفق ہیں۔

img147312781.jpg


img147312796.jpg
 

فہد مقصود

محفلین
امام احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں کہ شمالی ہوائیں بارش نہیں برسا سکتی ہیں حالانکہ بارہا تجربہ سے ثابت ہے کہ شمالی ہوا کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔

"جب مجمع ہوا کفار کا مدینہ پر کہ اسلام کا قلع قمع کردیں، یہ ’غزوہ احزاب کا واقعہ ہے، رب عزوجل نے مدد فرمانی چاہی اپنے حبیب کی، شمالی ہوا کو حکم ہوا جا اور کافروں کو نیست ونابود کر دے ۔ اس نے کہا ’بیبیاں رات کو باہر نہیں نکلتیں تو اللہ تعالی نے اس کو بانجھ کر دیا ،اسی وجہ سے شمالی ہوا سے کبھی پانی نہیں برستا، پھر صبا سے فرمایا تو اس نے عرض کیا ہم نے سنا اور اطاعت کی، وہ گئی اور کفار کو برباد کرنا شروع کیا۔[بریلوی:مولانا احمد رضاخان صاحب ملفوظات حصہ چہارم ص۳۷۷ بک کارنر جہلم] [ملفوظات اعلیٰ حضرت ج۴ ص۱۱۱]

Shumali-hawa-barish.jpg


ہوا، فرشتے، چاند، سورج، ستارے، یہ سب مجبور ہیں، ان کو کسی قسم کا انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ۔ سورة يس: آية 82

ترجمہ: اس اللہ کا حکم تو ایسا نافذ ہے کہ جب کبھی کسی چیز کا اراداہ کرتا ہے تو اسے اتنا فرمادینا کافی ہے کہ ہو جا،تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔

جن و انس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا راستہ دکھا دیا ہے اور اختیار عطا فرمایا ہے کہ وہ نیکی کریں یا برائی۔ وہ نافرمانی کر سکتے ہیں صرف اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیار عطا فرمایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الانسان آیت ۳ میں فرماتے ہیں

اِنَّا هَدَيۡنٰهُ السَّبِيۡلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوۡرًا‏
بے شک ہم نے اسے (حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہےo

لیکن اس کائنات کی کسی اور مخلوق کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں سورہ حم السجدہ آيت ۱۱میں فرماتے ہیں

ثُمَّ اسۡتَوٰىۤ اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًاؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ‏
پھر وہ سماوی کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو وہ (سب) دھواں تھا، سو اس نے اُسے (یعنی آسمانی کرّوں سے) اور زمین سے فرمایا: خواہ باہم کش

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کو ٹھنڈا ہونے کا حکم فرمایا اور آگ اللہ رب العزت کے حکم سے ٹھنڈی ہو گئی۔ آگ کا کام جلانا ہے وہ ہمیشہ جلائے گی لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر ٹھنڈی ہو گئی، اللہ رب العزت کے حکم کی نعوذباللہ بغاوت کر کے نہیں۔

قُلۡنَا يٰنَارُ كُوۡنِىۡ بَرۡدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓى اِبۡرٰهِيۡمَۙ‏
ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا (سورۃ الانبیاء آیت 69)

اللہ رب العزت چاہیں تو انبیاء علیہم السلام کو معجزے عطا فرماتے ہیں اور کائنات کی مخلوقات کو انکے تابع کر دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت 81 میں فرمایا ہے


وَلِسُلَيۡمٰنَ الرِّيۡحَ عَاصِفَةً تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖۤ اِلَى الۡاَرۡضِ الَّتِىۡ بٰرَكۡنَا فِيۡهَا‌ؕ وَكُنَّا بِكُلِّ شَىۡءٍ عٰلِمِيۡنَ‏

اور (ہم نے) سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تیز ہوا کو (مسخّر کردیا) جو ان کے حکم سے (جملہ اَطراف و اَکناف سے) اس سرزمینِ (شام) کی طرف چلا کرتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، اور ہم ہر چیز کو (خوب) جاننے والے ہیں

پس ثابت ہوا کہ اللہ رب العزت کی مرضی کے بغیر کائنات کی کوئی مخلوق سوائے جن و انس کے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ہے۔
 
Top