مذہبی القاب کے شرعی حدود از: مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

ماہنامہ دار العلوم، شمارہ7-8، جلد 100‏، شوال-ذيقعده 1437ھ مطابق جولائی-اگست 2016ء
مذہبی القاب کے شرعی حدود
از: مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

نام انسان کے تعارف کا ذریعہ ہے، اسی کے ذریعہ وہ مخاطب کیا جاتا ہے، اسی سے وہ معاشرہ میں متعارف ہوتا ہے، نام کے ساتھ اجزء لقب بھی مستعمل ہے، بعض دفعہ القاب کسی خاص پیشہ یا وطن یا کسی اور خصوصیت کے غماز ہوتے ہیں- آج کل معاشرہ میں مذہبی القاب کے استعمال میں بڑی بے اعتدالیاں دیکھی جا رہی ہیں، نام کے آگے القاب جڑ دیے جاتے ہیں چاہے ان القاب کی صلاحیت آدمی میں ہو یا نہ ہو۔ بعض دفعہ القاب سے محض ریاکاری کا جذبہ بھی ظاہر ہونے لگتا ہے. کبھی کسی کے لیے شیخ الاسلام، اور کسی کے لیے شیخ الفقہ، کسی کے لیے شیخ الحدیث، کسی کے لیے مفتیِ اعظم، کسی کے لیے خطیب ِبے بدل، خطیب ِزماں زبان زد خاص وعام ہیں، اس کے تئیں شرعی حدود کیا ہیں؟
تزکیہ کی ممانعت
سورہٴ نجم آیت ۳۲ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تزکیہ (خود کو [اور ایک دوسرے کو] پاک قرار دینے اور اپنی خوبیاں بیان) کرنے کی ممانعت فرمائی ہے، اپنے آپ کو عیوب سے بالکل منزہ اور روحانی ترقی یافتہ مت قرار دو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتے ہیں کہ کون کس درجہ پر ہے۔ ایک مقام پر تزکیہ کو یہودیوں کا طرز ِعمل قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آ پ کو اللہ کا محبوب وپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی کے سامنے ایک لڑکی کا نام برّہ ذکر کیا گیا تو انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے آپ کو پاکیزہ مت قرار دو ؛ بلکہ لڑکی کا نام زینب رکھو، اسی طرح اپنے آپ کو علمی کمالات سے آراستہ قرار دینا خود ہی ”علامة الدھر “، ”فھامة العصر “کے القاب سے خوش ہونا ناپسندیدہ عمل ہے، اگرچہ خود سے اس کا اظہار نہیں ہوتا لیکن جب اشتہار چھپ جاتا ہے، اور اشتہار میں القاب سے نوازا جاتا ہے، اسے دیکھ کر بھی نکیر نہیں کی جاتی، نیز بعض افراد تو اپنے متوسلین کو اس طرح کے القاب استعمال کرنے کی ترغیب بھی دیتے ہیں، اور تو اور بعض دفعہ القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور داعی سے خفگی وناراضگی کا اظہارکیا جاتا ہے۔ علامہ قرطبی نے اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھا ہے کہ قرآن وحدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، ہمارے علماء نے فرمایا کہ مصر کے علاقہ میں اور دیگر بلاد ِعرب وعجم میں جو رواج ہوگیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہے جو تزکیہ پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اسی ممانعت میں داخل ہیں۔(آپ فتویٰ کیسے دیں؟ :۵۰)

القاب - تعریف ونقصان
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں آپ ص نے تعریف کنندہ کے منہ پر مٹی ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن الترمذی:۲۳۱۷) اسی طرح ابو معمر ناقل ہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ اٹھ کر کسی امیر کی تعریف کرنے لگا، حضرت مقداد اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے، نیز یہ فرمایا کہ آپ ا نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والے کے چہرے پر مٹی ڈال دیا کریں۔(سنن الترمذی ۸/۴۰۹) ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر کے روبرو ان کی تعریف کی تو حضرت عمر نے فرمایا :کیا تو مجھے ہلاکت میں ڈال دے گا؟ عموما جلسوں میں مقرر بھی اسٹیج پر براجمان، اور ادھر اناؤنسر مقرر کا تعارف کراتے ہوئے زمین وآسمان کے قلابے ملاتے نظر آتے ہیں۔ عموما ناظم ِجلسہ کامشغلہ ہی تعریفوں کے پل باندھنا ہوتا ہے۔ امام ِغزالی (متوفی ۵۰۵) نے کسی کی تعریف میں چھ نقصانات کو شمار کیا ہے، چار نقصانات تعریف کرنے والے میں اور دو ممدوح میں۔
(۱) اگرتعریف میں مبالغہ آمیزی کی ہے تو یہ مبالغہ کذب بیانی پر ختم ہوگا، اسی لیے خالد بن معدان نے کہا کہ جس نے کسی اما م یا کسی اور کی ایسی تعریف کی جو اس میں موجود نہیں تو ایسا شخص روزِ محشر سب کے روبرو اپنی زبان کھینچتا ہوا حاضر ہوگا۔
(۲) ریاکاری: اس تعریف کے ذریعہ وہ ممدوح سے محبت کا اظہار کر رہا ہے، اورکبھی دل میں اس کی محبت نہیں ہوتی؛ بلکہ یہ تمام دکھلاوے کے لیے ہوتا ہے، ایسی صورت میں وہ ریاکار شمار ہوگا۔
(۳) ایسی چیزیں بیان کرے جو ممدوح میں نہیں، نیز اس کی اطلاع کی بھی کوئی سبیل نہیں، آپ ص کی موجودگی میں ایک شخص کی تعریف کی گئی آپ نے فرمایا : اس نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی، اگر وہ اس کو سن لے تو کامیا ب نہ ہوگا، پھر آپ نے فرمایا : اگر کسی کی تعریف کرنی ہی ہے تو یہ کہے کہ میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں ایسا گمان کرتا ہوں۔ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر کے روبرو کسی کی تعریف کی ، حضرت عمر نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اس کے ساتھ سفرکیا ہے ؟انہوں نے نفی میں جواب دیا ،پھر حضرت عمر نے سوال کیاکہ کیا تم نے اس کے ساتھ خریدوفروخت کامعاملہ کیا ہے؟ پھر اس نے نفی میں جوا ب دیا، پھر سوال کیا کہ کیا تم اس کے پڑوسی ہو؟ پھر انہوں نے نفی میں جواب دیا، حضرت عمر نے فرمایا :اس ذات ِباری کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم اس شخص کو نہیں پہنچانتے۔
(۴) کبھی ممدوح اس تعریف سے خوش ہوجاتا ہے جب کہ وہ ظالم یا فاسق ہوتا ہے اور یہ درست نہیں؛ اس لیے کہ آپ ص نے فرمایا :جب فاسق کی تعریف کی جائے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، حضرت حسن نے فرمایا : جس نے ظالم کے لیے طویل عمر کی دعا کی اس نے اس بات کو پسند کیا کہ زمین میں اللہ کی نافرمانی ہوتی رہے۔ ظالم وفاسق تو قابل ِمذمت ہے تاکہ حسرت وافسوس کرے، تعریف نہ کی جائے کہ وہ خوش ہو۔
ممدوح کے لیے نقصان دہ چیزیں دو ہیں:
(۵) اس تعریف سے ممدوح میں عجب وکبر پیدا ہوگا اور یہ دونوں مہلکات میں سے ہیں۔
(۶) تعریف پر ممدوح خوش ہوجائے گویا اس تعریف سے خود بھی راضی ہے،اس سے اپنے آپ کو کامل سمجھے گا، جو خودکو کامل سمجھے وہ عمل میں کوتاہ ہوگا؛ چونکہ جب تعریف میں زبانیں چلتی ہیں تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ واقعتا قابل تعریف ہے، اس لیے آپ ا نے فرمایا: تو نے اپنے ساتھی کی گردن پر تیز استرا چلایا۔ (احیاء علوم الدین ۲/ ۳۵۲)
امام غزالی نے جو نقصانات بیان کیے ہیں اس پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعریف میں مبالغہ آمیزی سے واقعتاً اس قسم کے نقصانات رونما ہو رہے ہیں، اگر کسی مقرر کو کسی موقع پر بڑے القاب سے نوازا گیا تو وہ ان کے دھوکے میں مخالفین پر سب وشتم کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں، اور پھولے نہ سما کر اوروں کو بھی ان القاب کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں، حالانکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ چند رٹے رٹائے جملوں کے سوا شریعت سے بے بہرہ ہیں، اور دین کی بنیادی معلومات سے بھی نابلد ہیں۔

القاب اوراکابر
درحقیقت اکابر کی خدمات کا تنوع اور اس کی وسعت وہمہ گیری کا بنیادی سبب ان کا خلوص وللہیت کا خوگر ہونا ا ورریاکاری سے دوری تھی، ان کے نزدیک کام اہم ہوتا ہے نام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علامہ نووی مشہور شافعی عالم دین ہیں ان کی مشہور کتاب مجموع شرح مہذب کئی جلدوں میں ہے، مسلم شریف کی بھی انہوں نے بہترین شرح لکھی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ابن حجر عسقلانی جیسی نابغہٴروزگار شخصیت نے بھی اپنی کتابوں میں جابجا علامہ نووی کی کتابوں سے استفادہ کیا ہے ، اس کے باوجود ان کے روبرو ایک شخص نے انہیں محیی الدین کے لقب سے موسوم کیا تو علامہ نووی بگڑ گئے اور یہ کہا کہ میں نے کسی کو اپنے لیے محیی الدین نام رکھنے کی اجازت نہیں دی۔ (المدخل لابن امیر الحاج بحوالہ الشریعہ) یہ اس لقب کے حقدار بھی تھے؛ علماے ملت نے انہیں انتقال کے بعد بھی اسی لقب سے موسوم کیا؛ لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں اس پر خوش ہونے کے بجائے بڑے سخت لہجے میں اس کی تردید کی۔ اسی طرح عراق کے فقہاء میں عام طور پر سادگی تھی، وہ کاروبار، محلہ، قبیلہ، یا گاؤں کی طرف نسبت کرتے تھے، جیسے جصاص (گچ والا) قدوری (ہانڈی والا ) طحاوی (طحا گاؤں کا باشندہ) کرخی (مقام کرخ کا رہنے والا) البتہ ماوراء النہر کے علماء میں عام طور پر القاب میں مبالغہ کیا جاتا تھا اور دوسروں پر ترفع ظاہر کیاجاتا، جیسے شمس الاسلام، فخرالاسلام، صدر الاسلام، صدر جہاں، صدر الشریعہ وغیرہ، اوریہ صورت زمانہ مابعد میں پیدا ہوگئی تھی، پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے۔
محیی الدین نحاس کی تنبیہ الغافلین میں جہاں منکرات کا ذکر ہے لکھا گیا ہے کہ منکرا ت میں سے وہ بھی ہے جو آج وبا کی طرح پھیل گیا ہے، یعنی وہ جھوٹ جو زبانوں پر رائج ہوگیا، یہ خود ساختہ القاب ہیں، جیسے محیی الدین، نور الدین، عضد الدین وغیرہ، یہ وہ جھوٹ ہے جو پکارتے وقت تعریف کرتے وقت واقعہ بیان کرتے وقت بار بار زبانوں پر آتا ہے، یہ سب دین میں امر منکر اور بدعت ہیں۔ مذکورہ بالا اقتباس نقل کرنے کے بعد مولانا لکھنوی نے لکھا ہے کہ یہ بات یعنی مذکورہ بالا القاب کا منکر وبدعت ہونا اس صورت میں ہے جب کہ صاحب ِلقب اس کا اہل نہ ہو، یا اہل ہو مگر اس نے اپنا لقب بطور ِتزکیہ کے رکھا ہو۔(الفوائد البھیہ : ۱۰۰بحوالہ آپ فتویٰ کیسے دیں: ۵۰) نیز مفتی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے عرف میں یہ القاب محیی الدین، ناصرالدین وغیرہ بطور ِنا م کے استعمال ہوتے ہیں اس لیے ممنوع نہیں ہیں، ہمارے محاورات میں القاب ِعالیہ کی مثالیں مفتی ِاعظم، محقق ِبے بدل، خطیب ِعصر، علامہٴ زمان وغیر ہ ہیں۔ (ایضا) ایک دفعہ ایک جلسہ میں حضرت شیخ الہند کو بڑے القابا ت سے نوزا گیا، ان کی بڑی تعریفیں کی گئیں، جب آپ نے تقریر شروع کی تو بذات ِخود اپنی اتنی مذمت کی کہ مجمع سن کر پانی پانی ہوگیا۔ ایک دفعہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے اناؤنسر کی مبالغہ آمیز ی پر انتہائی سخت رویہ اپنایا تھا۔ بڑے بڑے اکابر تو صرف اپنے لیے مولوی کا لفظ استعمال کیاکرتے تھے۔ دیگر کئی اکابر کے سلسلہ میں معروف ہے کہ ادھر اناوٴنسر نے تعریف کرنی شروع کی تو مقرر نے مائیک چھین کر تقریر شروع کردی۔ آج شیخ الاسلام، شیخ الفقہ، شیخ الحدیث کے القاب استعمال کرتے ہوئے زبانیں نہیں تھکتیں۔
اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں بے محل القاب کے نقصانات بیان کیے جائیں کہ عوام خود کذب بیانی وغیرہ کے خوف سے اس سے پرہیز کرنے لگیں، مدارس ِدینیہ میں ابتداء ہی ایسی تربیت کی جائے کہ طلبہ اپنے لیے القاب کے بجائے نام ہی زیادہ پسند کرنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ القاب کے سلسلہ میں صحیح طرز ِعمل اپنا نے کی توفیق نصیب فرمائے!
 

آصف اثر

معطل
مدارس ِدینیہ میں ابتداء ہی ایسی تربیت کی جائے کہ طلبہ اپنے لیے القاب کے بجائے نام ہی زیادہ پسند کرنے لگیں۔
جہاں تک مجھے علم ہے، مدارس میں طلبہ نسبتی نام استعمال کرتے ہیں۔ مثلا خاندان، قوم یا ذات۔
یہ سب کچھ عوام کے شعور پر منحصر ہے، مثلا زیادہ پڑھا لکھا طبقہ اس حوالے سے محتاط ہوتا ہے لیکن عوام کسی کو کچھ بھی بول کر مخاطب کرے، ان کی بھلا سے۔ جب تک پاکستانی قوم میں معلومات کے بجائے ”شعور“ پختہ نہیں کیا جائے گا یہ اسی طرح اندھے، بہرے اور گونگے ہی رہیں گے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں آپ ص نے تعریف کنندہ کے منہ پر مٹی ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ (سنن الترمذی:۲۳۱۷) اسی طرح ابو معمر ناقل ہیں کہ کوئی شخص ایک دفعہ اٹھ کر کسی امیر کی تعریف کرنے لگا، حضرت مقداد اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے، نیز یہ فرمایا کہ آپ ا نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والے کے چہرے پر مٹی ڈال دیا کریں۔(سنن الترمذی ۸/۴۰۹) ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر کے روبرو ان کی تعریف کی تو حضرت عمر نے فرمایا :کیا تو مجھے ہلاکت میں ڈال دے گا؟
تابش بھائی یہ وضاحت شاید یہاں ضروری ہے کہ مٹی ڈالنے کا حکم اس وقت ہے کہ جب کوئی آپ کے منہ پر آپ کی تعریف کررہا ہو ۔ حکمت اس میں یہ نظر آتی ہے ایسا کرنے سے خوشامد اور چاپلوسی جیسے غیر صحت مند رویوں کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیگر عوارض کا بھی سدباب ہوجائے گا۔ پیٹھ پیچھے کسی کی اچھائی بیان کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ بعض حالات میں ایسا کرنا احسن ہے ۔ غلو البتہ ویسے ہی جھوٹ کے ضمن میں آجاتا ہے سو اس تو پرہیز لازم ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس مضمون کو پڑھ کر بےاختیار ایک لطیفہ یاد آگیا جو دہائیوں پہلے ابن جوزی کی کتاب "کتاب الاذکیا" کے اردو ترجمے "لطائفِ علمیہ" میں پڑھا تھا ۔ لفظ بہ لفظ تو یاد نہیں لیکن لطیفہ کچھ یوں ہے کہ سرما کی ایک سرد اور تاریک شب میں ایک مسافرایک سرائے تک پہنچا ۔ سرائے کا دروازہ بند تھا سو اس نے دستک دی۔ مسلسل دستکوں کے بعد سرائے کا مالک جاگا اور اندر سے پوچھا " کون ہے؟ "
مسافر نے جواب دیا: " ہم شیخ الکبیر علامۃ الزمان مولانا مفتی سیدنصیرالدین قادری شیرازی ہیں اور رات گزارنے کے لئے جگہ چاہتے ہیں۔"
مالک نے اندر سے جواب دیا : "معاف کرنا ، ہمارے یہاں اتنے لوگوں کے لئے جگہ نہیں ہے ۔" اور یہ کہہ کر پھرسوگیا ۔ :):):)
 
تابش بھائی یہ وضاحت شاید یہاں ضروری ہے کہ مٹی ڈالنے کا حکم اس وقت ہے کہ جب کوئی آپ کے منہ پر آپ کی تعریف کررہا ہو ۔ حکمت اس میں یہ نظر آتی ہے ایسا کرنے سے خوشامد اور چاپلوسی جیسے غیر صحت مند رویوں کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیگر عوارض کا بھی سدباب ہوجائے گا۔ پیٹھ پیچھے کسی کی اچھائی بیان کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ بعض حالات میں ایسا کرنا احسن ہے ۔ غلو البتہ ویسے ہی جھوٹ کے ضمن میں آجاتا ہے سو اس تو پرہیز لازم ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جزاک اللہ احسن الجزاء
 

بافقیہ

محفلین
تابش بھائی یہ وضاحت شاید یہاں ضروری ہے کہ مٹی ڈالنے کا حکم اس وقت ہے کہ جب کوئی آپ کے منہ پر آپ کی تعریف کررہا ہو ۔ حکمت اس میں یہ نظر آتی ہے ایسا کرنے سے خوشامد اور چاپلوسی جیسے غیر صحت مند رویوں کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیگر عوارض کا بھی سدباب ہوجائے گا۔ پیٹھ پیچھے کسی کی اچھائی بیان کرنا کوئی بری بات نہیں بلکہ بعض حالات میں ایسا کرنا احسن ہے ۔ غلو البتہ ویسے ہی جھوٹ کے ضمن میں آجاتا ہے سو اس تو پرہیز لازم ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔
جی بالکل۔ مگر اس حدیث کے مفہوم میں یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ اس سے کہو ’’ فیک التراب‘‘ خاک پڑے منھ میں۔
اور یوں بھی کہ مٹی اٹھاکر اس کی طرف پھینکو۔ تاکہ اسے اس بات سے شرمندگی ہوجائے اور خود بھی اس زعم سے بچ جائے۔
 
Top