مدنی ریاست میں غلام اور لونڈیاں

جاسم محمد

محفلین
مدنی ریاست میں غلام اور لونڈیاں
حاشر ابن ارشاد


جناب عمران خان کی بطور وزیراعظم پہلی تقریر میں ہر پانچ جملوں کے بعد مدینہ کی ریاست کا ذکر تھا۔ ہماری خوش عقیدگی کا یہ تقاضا ہے کہ یہ اصرار کیا جائے کہ ایک جدید فلاحی ریاست کے لیے سب سے بہترین نمونہ مدنی ریاست ہے۔ اسی ایک سانس میں ہم سکنڈے نیویا کے ممالک کی مثال لاتے ہیں اور یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ریاستیں آج انہی خطوط پر استوار ہیں جن کا ڈول مدینہ میں ڈالا گیا تھا۔ ہمارے بہت سے دوست اس ضمن میں بار بار عمر لاء کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے۔ سن 2012 میں جناب عمران خان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ یورپ کا فلاحی نظام اسلام کا عطا کیا ہوا ہے اور سکنڈے نیویا میں سویڈن جیسے ممالک میں قانون کی بنیاد بھی عمر لاء ہے۔

ہمارے کچھ محقق قسم کے صحافیوں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی تو وہ ڈاکٹر کان لومکسوٹ کے پاس جا پہنچے جو سوشل ڈیموکریٹک سسٹم اور مارکسزم کے حوالے سے ہوئی تحقیق میں ایک معتبر مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ عمر لاء والی بات ان کے لیے ایک نئی خبر ہے اور انہیں کسی تحقیق میں ایسے کسی اصول یا قانون کا حوالہ نہیں ملا جو اسلام سے ادھار لے کر یورپ میں نافذ ہوا ہو۔ سکنڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں کا سرا سو سال پہلے شروع ہوئی مزدور تحریکوں سے جا ملتا ہے۔ سکنڈے نیویا میں اسلامی نظام سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے اور خلیفہ عمر سے کوئی آشنا نہیں ہے۔ تس پر ہمارے صحافی اپنا سا منہ لے کر لوٹے اور یہ انٹرویو بھی چھاپ ڈالا پر خاں صاحب کی تحسین کے شور میں کسی نے یہ انٹرویو پڑھنے کی زحمت نہ کی۔

'Omar's Law is UNKNOWN in Sweden': Swedish historian to Imran Khan

اسی حوالے سے دوستوں سے مکالمہ رہا۔ اس میں شک نہیں کہ مدنی ریاست عمدہ اصولوں پر استوار تھی لیکن یہ ایک ایسے دور میں تھی جب معاشی اور معاشرتی مضامین گنجلک نہیں تھے۔ اداروں کا ربط باہمی ابھی دور کی کوڑی تھا کہ اداروں کا جنم نہیں ہوا تھا۔ نظام سلطنت صرف اخلاقی اصولوں پر نہیں چلتا۔ اس کے لیے ایک مکمل نظام کی تشکیل ضروری ہے۔ ایسا تمام ادب جس کا مطمح کردار کی تعمیر ہے، ان آفاقی اصولوں کا ذکر کرتا ہے جو اخلاقی تطہیر کے لیے ضروری ہیں۔ ایسا ہی ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے لیکن نظام کی تعمیر اس کے بعد انسانوں کے شعور اجتماعی کی مرہون منت ہے۔

تیسرے خلیفہ راشد کے بعد طاقت کا مرکز یوں بھی مدینہ سے منتقل ہو گیا تھا تو پہلے تین خلفائے راشدین کی مدنی ریاست کی کل عمر پچیس سال کے آس پاس رہی۔ ان پچیس برسوں میں خلافت پر خونریز جنگیں بھی ہوئیں۔ دو خلفا شہید ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت گھر کے اندر سے ہوئی۔ جید صحابہ تلواریں اٹھائے مدمقابل آئے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ ایک ہی وقت میں خلیفہ رہے۔ خلافت کو ایک قبائلی اور نسلی حق کے طور پر قریش کو ودیعت کیا گیا۔ انتقال اقتدار کا کوئی مربوط نظام تشکیل نہ پا سکا جس کا نتیجہ تین دہائیوں کے اندر اندر ملوکیت کی شکل میں نکلا۔ یہ ایک پر آشوب دور تھا جس میں مسلمانوں کی زیادہ عمر گھوڑے کی پیٹھ پر گزری۔ فقید المثال فتوحات حاصل ہوئیں لیکن آئینی اور قانونی اصلاحات ایام طفولیت میں ہی رہیں۔

قرآن وسنت کو آئین کہنا بہت بھلا لگتا ہے لیکن قرآن دورِ جدید کے آئین جیسی دستاویز نہیں ہے۔ اس کے رہنما اصولوں کے تحت ایک سوشل کنٹریکٹ تشکیل پا سکتا تھا اور حضرت عمرؓ کے دور میں اس پر پیش رفت بھی ہوئی مگر یہ کسی مکمل شکل میں نہ ڈھل سکا۔ جو مثالیں اور روایات ہم تک پہنچی ہیں ان کا تجزیہ کریں تو پتہ لگتا ہے کہ وہ ذاتی کردار سے متعلق ہیں نہ کہ، حق حکمرانی، انتقال اقتدار اور اختیارات کی واضح علیحدگی اور باہم احتسابی اختیار کے ایک مربوط نظام سے۔ یہی وجہ رہی کہ حضرت عمرؓ کے مثالی دور حکومت کے فورا بعد حضرت عثمانؓ کا دور ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا شکار رہا۔ اور اس کے بعد ریاست ایک ہمہ وقتی اضطراب کا شکار رہی۔ ہماری تاریخ کے اپنے مستند ماخذ اس بات کے گواہ ہیں۔

برسبیل تذکرہ اس بحث میں غلامی کا ذکر بھی آ گیا۔ ازراہ تفنن یہ بات کی گئی کہ مدنی ریاست میں تو غلامی جائز تھی تو کیا نئے پاکستان میں بھی غلام دستیاب ہوں گے۔ اوریا مقبول جان صاحب جیسے مہربان تو خیر اس کے حق میں ہیں اور اس کا برملا اظہار ٹیلی ویژن پر کر چکے ہین۔ لیکن ہمارے کچھ دانشور دوستوں کو یہ بات نہیں بھائی۔

یہ حقیقت ہے کہ مدنی ریاست میں غلامی پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت ایک الگ موضوع ہے اور اس حوالے سے موجود روایتیں اس زمانے کے لحاظ سے قابل تقلید ہیں لیکن غلامی کا ادارہ بدستور قائم رہا۔ جنگوں کے علاؤہ تحفے میں بھی غلام اور لونڈیاں پیش کرنا عام چلن تھا۔ آج کا انسان اس پر معترض ہے اور بجا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے اکثر دوست یہ فرماتے ہیں کہ غلامی کو فوری ختم کرنا حکمت سے خالی تھا اس لیے اسے بتدریج ختم کیا گیا۔ ایک دوست تو یہاں تک کہہ بیٹھے کہ مدینہ کی ریاست کو غلامی سے جوڑنا سطح بینی اور کور چشمی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شعور اجتماعی اس دور میں غلامی کو غلط خیال نہیں کرتا تھا اس لیے مدنی ریاست میں اس کی موجودگی فطری تھی۔

اس حوالے سے دو سوال اٹھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک انقلابی تحریک اس وقت کے معاشرے کی سب سے بڑی اساس یعنی بت پرستی کو بغیر لیت ولعل ختم کر دیتی ہے لیکن وہی انقلابی تحریک غلامی کو ختم کرنے پر توجہ نہیں دیتی بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کو رکھنے اور برتنے کے اصول وضع کرتی ہے۔ بجا کہ اس دور میں غلامی عام تھی لیکن ہر وہ عمل جو عام ہو، اس کا درست ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک انقلاب میں جہاں خدا کے حقوق محفوظ بنائے گئے وہاں انسانوں کے سب سے بنیادی حق یعنی آزادی کا تحفظ کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ اس سوال کو جب بھی رکھا گیا۔ وہی بتدریج خاتمے والا جواب ملا۔ آئیے ذرا اس کی حقیقت پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔

میرا حقیر مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ غلامی کے بتدریج خاتمے کا دعوی محض ایک متھ ہے۔ حضرت عمرؓ سے یہ قول منسوب کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا، تم انہیں غلام بنانے والے کون ہوتے ہو۔ لیکن حضرت عمرؓ سے ہی یہ قصہ بھی منسوب ہے کہ یروشلم میں داخل ہوتے ہوئے ان کا غلام ان کے ہمراہ تھا۔ مصر کے بادشاہ مقوقس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کنیز تحفے میں بھیجی تھی اور رسول اللہ صلعم کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ انہی کے بطن سے تھے۔ بیشتر مورخین کے مطابق ان کو رسول اللہ صلعم نے کبھی آزاد نہیں کیا۔ حضرت علیؓ کی اولاد میں سے تیرہ بچے ان کی لونڈیوں کے بطن سے تھے۔ باقی خلفا کے غلاموں اور لونڈیوں کی فہرست بھی کتب میں مذکور ہے۔ کسی خلیفہ کے دور میں غلامی کے ”بتددیج“ خاتمے کے لیے کسی قانون سازی کا سراغ نہیں ملتا۔ اکثر اسلامی ممالک میں بیسویں صدی تک غلامی کو قانونی تحفظ حاصل تھا۔ آج بھی شرعی طور پر غلام اور لونڈیوں کو ”مال“ سمجھا جاتا ہے۔

اب یہ کہنا کہ شعور اجتماعی نے یہ بہت بعد میں سیکھا کہ غلامی غیر انسانی ہے، ایک غلط مفروضہ ہے۔ اگر اس بات کو بھی پس پشت ڈال دیا جائے کہ اسلام ایک انقلاب کی دعوت ہوتے ہوئے بتوں کی پوجا پر پابندی تو لگا دیتا ہے پر غلامی کو ختم نہیں کرتا تو بھی کہانی اتنی سادہ نہیں ہے۔ شعور اجتماعی ظہور اسلام سے بہت پہلے غلامی کو قبیح افعال کی فہرست میں ڈال چکا تھا۔ اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔

اسلام کے آنے سے بارہ سو سال پہلے چھٹی صدی قبل مسیح میں ایتھنز کی ریاست نے باقاعدہ قانون سازی کر کے تمام غلاموں کو آزاد حیثیت عطا کی تھی۔ پانچویں صدی قبل از مسیح میں ایسا ہی قانون قدیم فارس کی ریاست میں نافذ ہوا۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں رومن ریپبلک میں قرض کے ساتھ جڑی غلامی کو ختم کیا گیا۔ تیسری صدی قبل از مسیح میں ہندوستان کی موریا سلطنت کے حکمران اشوکا نے غلاموں کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ چین میں چن خاندان کی حکمرانی کے دور میں تیسری صدی قبل از مسیح میں غلامی ممنوع قرار پائی۔ اگرچہ اس خاندان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اس قانون کو بھی بھلا دیا گیا لیکن 12 قبل از مسیح میں ژن خاندان نے اقتدار سنبھالتے ہی دوبارہ غلامی پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ پانچویں صدی عیسوی سے نویں صدی عیسوی تک آئرلینڈ میں غلامی پر پابندی رہی۔ سن 590 میں پوپ گریگوری نے عیسائیوں پر یہودیوں کو غلام بنانا قانوناً ناجائز قرار دیا۔

اس کے کچھ عرصے بعد اسلام کا ظہور ہوتا ہے۔ اگلے گیارہ سو سال میں قدیم فرانس اور برطانیہ سمیت بے شمار ملکوں نے غلامی پر پابندی عائد کی پر کسی مسلم ریاست یا حکمران نے یہ گناہ اپنے سر نہ لیا۔ سن 1703 میں عثمانی سلطنت نے پہلی دفعہ اس حوالے سے قدم اٹھاتے ہوئے عیسائی بچوں کی زبردستی فوج میں غلامانہ حیثیت میں بھرتی کو ختم کیا لیکن غلامی کے دیگر ادارے قائم رہے۔ 1816 میں الجزائر پر برطانوی اور فرانسیسی فوجوں نے حملہ کر کے تین ہزار غلام آزاد کروائے۔ 1846 میں برطانوی دباؤ کے تحت تیونس نے غلامی پر پابندی عائد کی مگر جلد ہی وہاں اس قانون کو پھر بدل کر غلامی کو پھر سے قانونی تحفظ دے دیا گیا۔ 1857 میں بالآخر مصر نے بھی مغربی طاقتوں کے دباؤ پر غلامی ختم کی۔

اسی دباؤ کے تحت 1884 میں عثمانی سلطنت نے بھی غلاموں کو آزاد کرنا شروع کیا۔ مراکش میں 1922 اور افغانستان میں 1923 میں غلامی پر پابندی لگی۔ قطر میں 1952، شام میں 1954، سعودی عرب اور یمن میں 1962، عمان میں 1970 اور موریطانیہ میں 1981 میں غلامی پر پابندی لگی لیکن اس کے باوجود سن 2007 تک موریطانیہ میں غلام بنانا جرم نہیں تھا اور 2007 میں پہلی دفعہ اس قانون کی تدوین کی گئی جس کے تحت غلام بنانا جرم قرار پایا۔

آج تمام اسلامی ملکوں میں غلامی غیر قانونی ہے لیکن اس کے لیے ان میں سے کسی ایک ملک نے بھی کتاب، سنت یا فقہہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں کیا۔ غلامی کے کاروبار پر پابندی مغربی طاقتوں کے زور دینے پر ممکن ہو سکی۔ یہ بات الگ ہے کہ یہ مغربی طاقتیں بھی ایک دور میں غلامی کو قانونی بنائے بیٹھی رہیں لیکن ایک دفعہ جب ان معاشروں نے اپنی اصلاح کر لی تو پھر یہی شمع اٹھا کر انہوں نے امت مسلمہ کی تاریکی بھی دور کی۔ وگرنہ ہمارا ”بتدریج“ ابھی ڈیڑھ ہزار سال بعد بھی بتدریج ہوتا۔ تو بھیا، سیدھے سبھاؤ ستائش جس کی بنتی ہے، اسی کی کیجیے۔ ریاست مدینہ نے انسانیت کی بہتری کے لئے جو اقدامات کیے ان پر ضرور ستائش کریں لیکن باقی جس ریاست نے بھی کوئی بہتری کی ہے تو اس بہتری پر اسی کی ستائش کریں۔ پر مسئلہ یہ ہے کہ خوش عقیدگی کی عینک سے سچ دکھائی نہیں دیتا اور اسے اتار کر دیکھنے کا حوصلہ ہم میں سے کسی کا نہیں ہے۔ اس لیے رہنما وہی بیچتے چلے جا رہے ہیں جو بکتا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
معاشرے میں اس نوعیت کی جو مثبت تبدیلیاں آئیں، بتدریج آئیں۔ اسلام نے بہرصورت صدیوں سے چلے آنے والے غلامی کے نظام کو سپورٹ فراہم نہیں کی۔ یوں بھی دیکھا جائے تو اسلام میں غلام کو آزاد کرانے کا اجر بھی ہے۔ تاہم، یہ بات سچ ہے کہ ہماری خوش عقیدگی بھی مثالی نوعیت کی ہے۔ ہمارے خیال میں بیشتر سیاسی جماعتیں مذہب کا کارڈ استعمال کرتی ہیں؛ مدینے کی طرز پر پاکستانی ریاست کو چلانا ہمیں محض سیاسی نعرہ معلوم ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
معاشرے میں اس نوعیت کی جو مثبت تبدیلیاں آئیں، بتدریج آئیں۔ اسلام نے بہرصورت صدیوں سے چلے آنے والے غلامی کے نظام کو سپورٹ فراہم نہیں کی۔ یوں بھی دیکھا جائے تو اسلام میں غلام کو آزاد کرانے کا اجر بھی ہے۔ تاہم، یہ بات سچ ہے کہ ہماری خوش عقیدگی بھی مثالی نوعیت کی ہے۔
میرا موضوع بحث غلامی نہیں یہ تھا
ریاست مدینہ نے انسانیت کی بہتری کے لئے جو اقدامات کیے ان پر ضرور ستائش کریں لیکن باقی جس ریاست نے بھی کوئی بہتری کی ہے تو اس بہتری پر اسی کی ستائش کریں۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ کیا ۔ ساتھ میں اسکینڈےنیویا کی مثالیں دی۔ جس سے عوام پریشان ہو گئی۔ اس کے حل کیلئے علامہ اقبال کے خطوط کو سمجھنا ضروری ہے جو انہوں نے 1937 میں قائد اعظم کے نام لکھے۔ جس میں مستقبل کی اسلامی فلاحی ریاست کا روڈ میپ پیش کیا گیا
سوشل ڈیموکریسی مغرب کا نظام ہے مگر مفکر پاکستان سر علامہ محمد اقبال کے مطابق اس کے اصول اسلامی ہیں۔ اس سارے معاملے کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ہمارے خیال میں بیشتر سیاسی جماعتیں مذہب کا کارڈ استعمال کرتی ہیں؛ مدینے کی طرز پر پاکستانی ریاست کو چلانا ہمیں محض سیاسی نعرہ معلوم ہوتا ہے۔
اس کا جواب اوپر دے چکا ہوں۔ ریاست مدینہ کا ماڈل مذہبی کارڈ نہیں ہے۔وزیر اعظم عمران خان کے خطاب میں اسلامی اصولوں پر امور ریاست چلانے کی بات کی گئی ہے۔ نہ کہ 7 ویں صدی عیسوی کا نظام خلافت موجودہ دور میں نافظ کرنے کی۔ عوام کو یہ بات سمجھنے میں بہت وقت لگے گا۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو مغربی ممالک جیسا خوشحال بنانے کا وعدہ کرتے تو تنقید آنی تھی پاکستان کو مغرب کی طرح مادر پدر آزاد بنانا چاہتا ہے۔ جب ریاست مدینہ جیسا بنانے کا اعلان کیا تو تنقید آئی مذہبی کارڈ استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کو پتھر کے دور میں لے جانا چاہتا ہے وغیرہ۔ بہتر ہے پاکستانی پہلے فیصلے کرلیں ان کو کیسا ملک چاہئے۔
 

زیک

مسافر
میرا موضوع بحث غلامی نہیں یہ تھا

وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ کیا ۔ ساتھ میں اسکینڈےنیویا کی مثالیں دی۔ جس سے عوام پریشان ہو گئی۔ اس کے حل کیلئے علامہ اقبال کے خطوط کو سمجھنا ضروری ہے جو انہوں نے 1937 میں قائد اعظم کے نام لکھے۔ جس میں مستقبل کی اسلامی فلاحی ریاست کا روڈ میپ پیش کیا گیا
سوشل ڈیموکریسی مغرب کا نظام ہے مگر مفکر پاکستان سر علامہ محمد اقبال کے مطابق اس کے اصول اسلامی ہیں۔ اس سارے معاملے کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوئی ہے۔
اقبال انتہائی کنفیوز تھے
 

سین خے

محفلین
خان صاحب کے حامیوں سے معذرت کے ساتھ پر خان صاحب کا مدینہ کی ریاست کا نعرہ ایک خاص طبقے کو ٹارگٹ کرنا ہی محسوس ہوتا ہے۔ ان کو شائد کسی نے یہ نہیں بتایا کہ عام طور پر اسلامی ریاست کے قیام میں اسلامی سزاوَں کے نفاذ کو ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلامی ریاست اور اسکینڈینیوئین ریاستوں کی ایک ساتھ بات کر کے دونوں طبقوں کو اپنے ساتھ چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
 

سین خے

محفلین
اس کا جواب اوپر دے چکا ہوں۔ ریاست مدینہ کا ماڈل مذہبی کارڈ نہیں ہے۔وزیر اعظم عمران خان کے خطاب میں اسلامی اصولوں پر امور ریاست چلانے کی بات کی گئی ہے۔ نہ کہ 7 ویں صدی عیسوی کا نظام خلافت موجودہ دور میں نافظ کرنے کی۔ عوام کو یہ بات سمجھنے میں بہت وقت لگے گا۔

اور اگر سمجھ نہیں آئی تو؟ وہ صاف صاف بتا دیں کہ کونسے اصول کہاں سے اپنانا چاہتے ہیں۔ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں۔کسی ایک طبقے کے شدت پسند عناصر نے ان سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ یہ اس ریاست کا مخصوص ماڈل تو نہیں ہے تو یہ کیا کریں گے؟ اور اگر وہ ان کے خلاف کل کو اس بنیاد پر تحریک چلانے میں کامیاب ہو گئے تو؟
ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کی سمجھ کے مطابق کسی بھی مخصوص ریاست کے ماڈل میں کن باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ ان باتوں کو شروع میں ہی کلئیر کر دیں گے تو یقیناً اگے تکلیف سے بچ جائیں گے۔
 

عرفان سعید

محفلین
وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں ریاست مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست کا وعدہ کیا ۔

اسلامی ریاست کے قیام میں اسلامی سزاوَں کے نفاذ کو ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلامی ریاست اور اسکینڈینیوئین ریاستوں کی ایک ساتھ بات کر کے دونوں طبقوں کو اپنے ساتھ چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
سیاست سے میری دلچسپی برائے نام ہے۔ لیکن ایک طالب علمانہ سوال ہے۔
ایک اسلامی ریاست کی کیا تعریف ہے؟
کسی ریاست کو کیسے اسلامی کیا جاسکتا ہے۔۔۔شخص کو تو کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، ریاست کو کیا کرنا ہوگا؟
 

سین خے

محفلین
سیاست سے میری دلچسپی برائے نام ہے۔ لیکن ایک طالب علمانہ سوال ہے۔
ایک اسلامی ریاست کی کیا تعریف ہے؟
کسی ریاست کو کیسے اسلامی کیا جاسکتا ہے۔۔۔شخص کو تو کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، ریاست کو کیا کرنا ہوگا؟

اسلامی ریاست کا تصور ہر کسی کے نزدیک الگ الگ ہے۔ اگر میں عام طور پر صرف پاکستان کی بات کروں اور اگر جو یہاں پر اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے تحریکیں چلتی رہی ہیں تو جو اسلامی ریاست کا تصور عام ہے وہ کسی حد تک سعودی عرب کے ریاستی تصور کے نزدیک ہے۔ اس تصور میں اسلامی سزاوَں کا نفاذ، خواتین کے پردے اور ان کی حدود کا تعین کیا جانا، جہاد کی ضرورت، مغربی اقدار کی نقل کو روکا جانا وغیرہ شامل ہیں۔

اب خان صاحب جو یہ کہہ رہے ہیں تو جو افراد آج تک اسلامی ریاست کی تحریکیں چلاتے رہے ہیں، وہ تو یہی سمجھیں گے کہ شائد خان صاحب اس تصور کے تحت ریاست تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک بار ہی بتا دیں کہ ان کے نزدیک اسلامی ریاست کا کیا تصور ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
اسلامی ریاست کا تصور ہر کسی کے نزدیک الگ الگ ہے۔ اگر میں عام طور پر صرف پاکستان کی بات کروں اور اگر جو یہاں پر اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے تحریکیں چلتی رہی ہیں تو جو اسلامی ریاست کا تصور عام ہے وہ کسی حد تک سعودی عرب کے ریاستی تصور کے نزدیک ہے۔ اس تصور میں اسلامی سزاوَں کا نفاذ، خواتین کے پردے اور ان کی حدود کا تعین کیا جانا، جہاد کی ضرورت، مغربی اقدار کی نقل کو روکا جانا وغیرہ شامل ہیں۔

اب خان صاحب جو یہ کہہ رہے ہیں تو جو افراد آج تک اسلامی ریاست کی تحریکیں چلاتے رہے ہیں، وہ تو یہی سمجھیں گے کہ شائد خان صاحب اس تصور کے تحت ریاست تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک بار ہی بتا دیں کہ ان کے نزدیک اسلامی ریاست کا کیا تصور ہے۔
آپ کی تصریح کا بہت شکریہ!
ایک سوال اور پوچھنا چاہوں گا۔
دیارِ غیر میں فرض کریں ہم مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروپ بناتے ہیں تو بلا تکلف اسے اسلامی کمیونٹی کہہ دیتے ہیں۔
پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے 97 فی صد مسلمان مل کر اگر ایک ریاست 71 سال سے بنائے بیٹھے ہیں تو اسے اسلامی ریاست کہنے میں کیا دشواری ہے؟
 

سین خے

محفلین
آپ کی تصریح کا بہت شکریہ!
ایک سوال اور پوچھنا چاہوں گا۔
دیارِ غیر میں فرض کریں ہم مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروپ بناتے ہیں تو بلا تکلف اسے اسلامی کمیونٹی کہہ دیتے ہیں۔
پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں سے 97 فی صد مسلمان مل کر اگر ایک ریاست 71 سال سے بنائے بیٹھے ہیں تو اسے اسلامی ریاست کہنے میں کیا دشواری ہے؟

ایسا سمجھنے میں اصل میں دشواری کچھ خاص طبقات کو ہے۔ مودودی صاحب کا اسلامی ریاست کا تصور الگ ہے، علماء کے بھی الگ الگ خیالات پائے جاتے ہیں، ایک خلافت کی طرز کا بھی تصور ہے جہاں جمہوریت کی کوئی جگہ نہیں ہے، طالبان کا ایک الگ تصور ہے۔ عام پاکستانیوں میں سعودی عرب جیسی ریاست بنائے جانے کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ اب آپ خود ہی سمجھ جائیں کہ موجودہ پاکستان کتنا اسلامی خیال کیا جاتا ہوگا۔

پاکستان مسلم ملک ہے پر اسلامی ریاست بہت بڑے طبقے کے نزدیک نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب خان صاحب جو یہ کہہ رہے ہیں تو جو افراد آج تک اسلامی ریاست کی تحریکیں چلاتے رہے ہیں، وہ تو یہی سمجھیں گے کہ شائد خان صاحب اس تصور کے تحت ریاست تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک بار ہی بتا دیں کہ ان کے نزدیک اسلامی ریاست کا کیا تصور ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی لاتعداد تقریروں، انٹرویوز ، بیانات میں بار بار یہ کہا کہ ان کا نظریہ پاکستان وہی ہے جو جناح و اقبال کا پاکستان تھا۔ یعنی پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا ۔ بہت افسوس کےساتھ ایک مخصوص طبقے نے (جس سے آپ خوفزدہ ہیں) پچھلے 71 سالوں سے تاریخ پاکستان انتہائی مسخ کر کے پیش کی ہے۔ جسکی وجہ سے عام آدمی مکمل طور پر یہ بھول چکا ہے کہ آخر پاکستان حاصل کرنے کا مقصد تھا کیا؟ میری آپ سے گزارش ہے کہ تحریک پاکستان کا دوبارہ مطالعہ کریں اور بتائیں عمران خان کے نظریہ پاکستان اور جناح و اقبال کے نظریہ پاکستان میں کیا فرق ہے؟ اگر کوئی فرق نہیں ہے تو اعتراض کس بات پر ہے؟
https://www.outlookindia.com/websit...stan-that-jinnah-dreamed-of-imran-khan/314077
 

عرفان سعید

محفلین
ایسا سمجھنے میں اصل میں دشواری کچھ خاص طبقات کو ہے۔ مودودی صاحب کا اسلامی ریاست کا تصور الگ ہے، علماء کے بھی الگ الگ خیالات پائے جاتے ہیں، ایک خلافت کی طرز کا بھی تصور ہے جہاں جمہوریت کی کوئی جگہ نہیں ہے، طالبان کا ایک الگ تصور ہے۔ عام پاکستانیوں میں سعودی عرب جیسی ریاست بنائے جانے کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ اب آپ خود ہی سمجھ جائیں کہ موجودہ پاکستان کتنا اسلامی خیال کیا جاتا ہوگا۔

پاکستان مسلم ملک ہے پر اسلامی ریاست بہت بڑے طبقے کے نزدیک نہیں ہے۔
بس پھر تو مدینے کی ریاست بناتے پسینے چھوٹے ہی چھوٹے!
 

جاسم محمد

محفلین
بس پھر تو مدینے کی ریاست بناتے پسینے چھوٹے ہی چھوٹے!
کیونکہ عام پاکستانی، پاکستان کا اصل خواب دیکھنے والے مفکر سرعلامہ محمد اقبال اور اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے قائد اعظم محمد علی جناح کو کب کابھول چکا ہے۔ اور ان کی سوچ، نظریہ اور مقاصد پاکستان کو تاریخ کے کچرا دان میں پھینک کر فارغ ہو گیا ہے۔ ان کے اقوال کو کتابی باتوں جیسی اہمیت دے رکھی ہے۔ کروڑوں مسلمانان ہند نے قربانیاں دے کر جن مقاصد کے تحت یہ ملک حاصل کیا تھا۔ ان کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
ایسا سمجھنے میں اصل میں دشواری کچھ خاص طبقات کو ہے۔ مودودی صاحب کا اسلامی ریاست کا تصور الگ ہے، علماء کے بھی الگ الگ خیالات پائے جاتے ہیں، ایک خلافت کی طرز کا بھی تصور ہے جہاں جمہوریت کی کوئی جگہ نہیں ہے، طالبان کا ایک الگ تصور ہے۔ عام پاکستانیوں میں سعودی عرب جیسی ریاست بنائے جانے کا بھی تصور پایا جاتا ہے۔ اب آپ خود ہی سمجھ جائیں کہ موجودہ پاکستان کتنا اسلامی خیال کیا جاتا ہوگا۔

پاکستان مسلم ملک ہے پر اسلامی ریاست بہت بڑے طبقے کے نزدیک نہیں ہے۔
ایک بات کبھی پلے نہیں پڑی
تمام پاکستانی خود سے زیادہ پاکستان کو مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو کہ قانونِ فطرت کی رُو سے ناممکنات میں سے ہے۔
 
Top