مدارس اسلامیہ کی جدید کاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حقیقت واقعیت اورضرورت

ابن جمال

محفلین
یہ بھی اکثردیکھاگیاہے کہ جب ہم کسی موضوع پر بات کرتے ہیں تواس کی بنیاد کیاہے اس پرغورکئے بغیر ادھر ادھر کی لایعنی بحثوں میں الجھ جاتے ہیں اوراس کا نتیجہ ہوتاہے کہ بحث ایک غیرمختتم انجام کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ مدارس کے تعلق سےجدید کاری کی مہم کابھی یہی حال ہے۔جدید کاری مہم کی حمایت کرنے والے اس پر دھیان نہیں دیتے کہ مدارس میںجدید کاری کا عمل کیاہوگا۔جدید کاری کس نوعیت کی ہونی چاہئے اورمخالفت کرنے والے بھی بسااوقاتجدید کاری کی بنیادی بات پر دھیان نہیں دیتے اوراس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کی کوئی بات مدارس کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوسکتی۔

کسی بھی ادارے کی جدید کاری کی مہم کا مطلب یہ ہوتاہے کہ وہ ادارہ جوکام کررہاہے اس کو بہتر طریقے پر انجام دے۔ اگرتعلیمی ادارہ ہے توطلباء کی صلاحیت بڑھانے والی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ نصاب تعلیم کو آسان بنایاجاتاہے۔ اساتذہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ معیاری درس دیں۔تجدید کاری کا مطلب یہ کبھی نہیں ہوتاکہ اگرکوئی میڈیکل کالج ہے تو وہاں کے طلباء کو کمپوٹرسائنس میں ماہر کردیاجائے۔ یاکمپیوٹر سائنس کے طلبہ کو طب کی تعلیم میں ماہر کیاجائے۔ مقصد یہ ہوتاہے کہ میڈیکل تعلیم میں مزید معیار کیسے پیداکیاجائے۔ طلبہ کی صلاحیتوں کو کیسے جلابخشی جائے اور اساتذہ کے لیکچر معیاری کس طرح ہوں اورادارہ کا طب کی دنیا میں نام کیسے مشہور ہو۔

مدارس کی جدید کاری کی مہم کی حمایت کرنے والوں کا عمومی زور اس پر ہوتاہے کہ مدارس کے طلبہ کمپیوٹر سیکھ جائیں،انگریزی زبان سے واقف ہوجائیں، حساب وغیرہ سے آشناہوجائیں، انگلش فرفر بولنے لگیں۔ زندگی گزارنے کیلئے کوئی اوسط درجے کا ہنر بھی سیکھ لیں۔ یہی ہے مدارس کی جدید کاری کے حامیوں اوج تخیل۔

بھلاکوئی یہ بتائے کہ مدارس جہاں طلبہ کو عربی زبان سکھائی جاتی ہے۔ ان کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے اورمقصد یہ ہوتاہے کہ مدارس کے طلبہ دینی احکامات سے واقف ہوجائیں اورآئندہ چل کر عملی زندگی میں مسلمانوں کی دینی مسائل کے سلسلے میں رہنمائی کریں۔ ایسے میں انگلش کی تعلیم،کمپیوٹر کی تعلیم، حساب کی تعلیم سے مدرسہ کے نصاب کو کیافائدہ پہنچ سکتاہےہے؟۔ مدارس کے طلبہ کی کون سے صلاحیت بہتر ہوسکتی ہے؟یانصاب تعلیم کو معیاری بنانے میں کون ساتیر ماراجاسکتاہے؟

میں کمپیوٹر اور انگلش زبان کی افادیت کا منکر نہیں ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے مدرسہ کیجدید کاری کا کیاتعلق ہے۔ مدرسہ کی جدید کاری کا مطلب یہ توہے کہ مدرسہ کے نصاب کو آسان کیاجائے۔ طلبہ کو معیاری تعلیم دی جائے۔ ان کی صلاحیت کوبڑھائی جائے۔ عربی زبان وادب سے انہیں مزید آشناکیاجائے۔ لیکن ان سب امور پر عمومی طورپرجدید کاری کی رٹ لگانے والوں کی زبان اورقلم خاموش رہتاہے اورلے دے کر ساری تان اس پر ٹوتتی ہے کہ کمپیوٹر کی تعلیم ہو اورانگلش زبان سے مدارس کے طلبہ واقف ہوجائیں۔

اگرمدرسہ کی جدید کاری کا یہی مفہوم ہے توپھرمعاف کیجئے لیکن یہ کہناپڑے گاکہ یہ بعینہ ایساہی ہے کہہمامریکہ کی ترقی سے متاثر ہوکر یہ سمجھ لیں کہ چونکہ امریکہ والے پینٹ شرٹ پہنتے ہیں لہذا ہمیں ترقی یافتہ ہونے کیلئے پینٹ شرٹ پہنناچاہئے۔ یہ خیال جس قدر خام اورمضحکہ خیز ہے یقین مانئے کہ مدارس کی جدید کاری کے نام پر کمپیوٹر اورانگریزی زبان کی رٹ لگانے والوں کی بات بھی اتنی ہی مضحکہ خیز ہے۔


مدرسہ کی حقیقی جدید کاری:
کوئی بھی تعلیمی ادارہ تین چیزوں سے متصف ہوتاہے۔ طالب علم،استاد اورنصاب تعلیم ۔اس کے بغیر کسی تعلیمی ادارہ کاوجود تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔ ہم فردافردا سبھی پر بات کریں گے تاکہ اصلاح کی کہاں کہاں ضرورت ہے اس کی نشاندہی کی جاسکے۔

نصاب کی جدید کاری:
کسی بھی تعلیمی ادارے کیلئے نصاب تعلیم ریڑھ کی ہڈی ہواکرتی ہے۔ نصاب تعلیم جتنااچھاہوگا۔ طلبہ کو اس سے اتناہی زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس لئے ہرتعلیمی ادارہ اپنے نصاب کو ضروریات زمانہ اورحالات کے اعتبار سے بدلتارہتاہے۔ مدارس نے بھی اپنے نصاب کو بدلاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی وہ رفتار نہیں ہے جس حساب سے حالات بدل رہے ہیں۔ ابھی بھی مدارس میں طلبہ کو ابتدائی صرف ونحو اجنبی زبان فارسی اورعربی میں پڑھایاجاتاہے۔ ایسے میں طلبہ کے سامنے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ اجنبی زبان پر توجہ دین یاپھر گرامر سیکھیں۔ مدارس کو چاہئے کوہ ابتدائی صرف ونحو کی تمام کتابیں جو عربی یافارسی میں ہیں ان کو درس سے خارج کردیں اوراس کی جگہ پر عربی صرف ونحو کی وہ کتابیں جو اردو زبان میں لکھی گئی ہیں ان کو شامل نصاب کریں۔

عربی زبان پر توجہ:
قرآن وحدیث اورفقہ کی کتابیں سب کی سب بیشتر عربی زبان میں ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عربی زبان پر ایک عالم کومہارت ہو،اورنہ صرف یہ کہ وہ عربی عبارت پڑھ سکے۔ مطلب اخذ کرسکے بلکہ عربی زبان لکھنااوربولنابھی اسے اچھی طرح آئے۔فی الوقت عربی زبان جس طرز اورنہج پر پڑھائی جاتی ہے ا س میں طلبہ کسی حد تک عربی پڑھنا اورمطلب سمجھناتوسیکھ جاتے ہیں لیکن عربی زبان بولنا یاپھر عربی میں لکھنا انہیں نہیں آتا۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ نصاب درس میں اس سلسلے میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں بالخصوص عربی زبان میں بات چیت کرنے کی مشق ابتداءسے کرائی جائے اوران مشنریز اسکول کے نہج کو ماڈل بنایاجائے جہاں بچوں کو پہلی کلاس سے انگریزی میں بات کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے اورانہیں اس کی تربیت دی جاتی ہے۔اس سلسلے میں بنیادی چیز ہے کہ جوچیزیں روزمرہ کی ہیں ان کیلئے طالب علموں پر زوردیاجائے کہ وہ عربی میں ہی اس کانام لیں ۔جب طلبہ متوسط درجہ میں آجائیں توپھر استاد دوران درس پانچ دس منٹ عربی میں ہی ان کو سمجھائے اورطلبہ کی لیاقت کے حساب سے سہل عربی کااستعمال کرے۔ جب طالب علم ہفتم ودورہ حدیث کو پہنچ جائے توپھر اساتذہ کو محض عربی میں ہی خطاب کرناچاہئے۔ منتہی درجہ کے طلباء پر پابندی ہونی چاہئے کہ وہ عربی زبان کے علاوہ کسی اورزبان میں بات کریں۔ استاذ سے اگرکچھ پوچھنابھی ہو تو عربی میں ہی پوچھیں۔اگرشروع سے عربی بول چال کی مشق جاری رکھی گئی توامید ہے کہ آگے چل کر طلباء عربی بولنے اورلکھنے سے انجان نہیں رہیں گے۔

فقہ واحکام شریعت:
مدرسہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ طلباء کو احکام شریعت سے واقف کرایاجائے تاکہ وہ آگے چل کر دینی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کرسکیں۔ علماء کرام نے فقہ پر اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں جن سے مسلمانوں کو بہت زیادہ نفع ہوا اللہ ان کو اس محنت کا بہترین بدلہ دے۔ فی الوقت مدارس میں فقہ اوراحکام شریعت کی جوکتابیں رائج ہیں وہ تین چار صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ پرانے مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہےکہ ہرمصنف اپنے عہد کے اسلوب اورطرز بیان کو اختیار کرتاہے اوراسلوب اورطرز بیان ہرصدی میں بلکہ ایک ہی صدی میں کئی بار بدل جایاکرتاہے۔آج اگراردو کے طالب علم دوصدی پیشتر کی اردو اوراسلوب میں سمجھایاجائے توکتنے طالب علم سمجھیں گے بالخصوص ابتدائی طالب علم۔اسی طرح فقہ کی ابتدائی کتابوں کو تومیرےناقص خیال میں اردو میں ہی ہونی چاہئے تاکہ طلبہ بآسانی شریعت کے بنیادی احکام،بنیادی اصطلاحات اورفقہی تعبیرات کو جان لیں۔

جب طلبہ اس مرحلہ سے گزرچکیں توپھر ان کو متوسط درجہ کی وہ کتابیں پڑھانی چاہئے جو عصر حاضر میں لکھی گئی ہیںکیونکہ متروک اسلوب اورطرزبیان کابار طلبہ پر ڈالنانامناسب ہے۔ دورحاضر میں طلبہ کے ذہن ومزاج کی رعایت کرتے ہوئے جوفقہی درسی کتابیں لکھی گئیں ان کو نصاب میں شامل کیاجاناچاہئے۔جب طلبہ فقہ پر ایک حد تک عبورحاصل کرلیں توپھر ان کو ہدایہ یاپھر دوسری اعلیٰ درجے کی فقہی کتابیں پڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

متن کی کتابیں:
ایسی تمام کتابیں جو بطور متن گزشتہ مصنفین نے لکھی ہیں یاپھر مصنف کا انداز بیان گنجلگ اورپیچیدہ ومغٖلق ہے اس کو یک قلم متروک اورنصاب سے نکال دیناچاہئے۔ یہ کتابیں مصنف نے اپنی ذہانت کے اظہار کیلئے لکھی تھیں جس میں وہ کامیاب رہے اوردیگر علماء نے ان کے شروح وحواشی لکھ کر مصنف کے مراد کو واضح کیا لیکن ایک طالب علم پر مغلق اورپیچیدہ کتاب کا بار ڈالنا انتہائی نامناسب ہے۔ ہاں طالب علم چاہے توبعد مین ان کتابوں سے استفادہ کرسکتاہے۔

مغلق اورپیچیدہ بلکہ چیستاں طرز کے متن کی کتابوں کونصاب میں شامل کرنے کی خرابی کو مولانا یوسف بنوری نے بھی واضح طورپر محسوس کیاتھااوراصلاح نصاب کے تعلق سے اپنے ایک مقالہ میں لکھاتھاکہ ایک کتاب جو متن کے طرز پر لکھی گئی ہے اورمصنف نے ایک ہی لائن میں اتناکچھ بھردیا ہے جس کیلئے استاد کو چاردن تقریر کرنی پڑتی ہے اورطالب علم کو دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے اس کے بجائے اگر وہ کتاب نصاب میں رکھی جائے جو ایک سطر کے بدلے جس میں دس ورق پڑھناپڑھے تو وہی بہتر ہے۔نحو کی کتاب کافیہ اسی طرح فقہ میں زیلعی کی متن ایسی کتابیں ہیں جس کو نصاب سے نکال دیاجائے اوران کی جگہ کسی قدرے ضخیم لیکن واضح کتاب کو شامل کیاجائے۔ان مغلق پیچیدہ اورچیستاں طرز کی کتابوں کا اپنادور تھا لیکن وہ ختم ہوگیا۔

منطق اورفلسفہ:
فلسفہ کی کسی کتاب کودرس میں شامل کرنے کا اب کوئی جواز نہیں بچاہے۔جب ماڈرن سائنس ہمارے سامنے ہے توپھر پرانے فلسفہ جزء الذی لایتجزی وغیرہ کو پڑھنے اورپڑھانے کی ضرورت سوائے تبرک یاپھریادگارماضی کے اورکیاہے؟جب کہ گزشتہ فلفسہ کی بیشتر باتوں کو موجودہ سائنس غلط ثابت کرچکی ہے ایسے میں فلسفہ کی کتاب کا شامل درس رہنا وقت کی بربادی کے سوااورکچھ نہیں ہے۔

منطق میں ہمارے لئے اتناہی کافی ہے جس سے منطق کی بنیادی اصطلاحات جنس نوع وغیرہ سمجھ میں آجائیں تاکہ فقہ کی جن کتابوں میں منطق کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں طلبہ ان کو سمجھ سکیں۔ منطق کابنیادی مطلب یہ ہے کہ انسان کو اصول استدلال کااورکسی بات کے درست اورغلط ہونے کی پہچان ہوسکے۔پرانی منطق کی کتابیں اس مقصد کیلئے ناکافی ہیں۔ اورویسے بھی فطرت سلیمہ انسان کو خود بتادیتی ہے کہ کیادرست ہے اورکیاغلط ہے اورمنطق کے بارے میں یہ جملہ بھی مشہور ہے ’’ذہین آدمی کو اس کی ضرورت نہیں ہے اوربےو قوف کو اس سے کوئی فائدہ نہیں‘‘۔

کتب احادیث:
حدیث شریف پڑھانے کا جوطرز ہے وہ درست ہے بلکہ اس سے بھی بہتر طرز وہی ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ نے پسند کیاہے ۔سرد یعنی بطور تلاوت پڑھائی جائے جہاں کوئی لفظ مشکل ہو اس کی وضاحت کردی جائے فقہ پڑھے ہوئے طالب علم کو سب معلوم رہتاہے کہ کس کامسلک کیاہے تواحادیث کو مسلکی اکھاڑہ نہ بنایاجائے۔فی الوقت حدیث شریف پڑھانے کا جوطرز ہے۔یعنی ابتداء میں بڑی لمبی اورطولانی تقریریں ہوتی ہے ایک ایک مسئلے پر دس دس اورپانچ پانچ دن استاد کی تقریر مالہ وماعلیہ سمیت جاری رہتی ہے ۔درمیان میں تقریر کم ہوجاتی ہے اورپھر آخر میں طلبہ واستاد بڑی تیز رفتاری سے کتاب مکمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں یہ لطیفہ مشہور ہوگیاہے کہ تعلیم شروع ہونے کے تین ماہ تک تو درس ایساہوتاہے جس میں استاد اورطالب علم دونوں سمجھتے ہیں کہ کیاپڑھ رہے ہیں اورکیاپڑھارہے ہیں۔ درمیان میں صرف استاد سمجھتاہے کہ وہ کیاپڑھارہاہے طالب علم کچھ نہیں سمجھتااورآخر میں یہ حالت ہوجاتی ہے کہ نہ طالب علم سمجھتاہے اورنہ استاد سمجھتاہے۔

طالب علم
طلبہ کسی بھی تعلیمی ادارے کیلئے بنیاد ہوتے ہیں اگرکوئی طالب علم ہی نہ ہوتوتعلیم کس کو دی جائے گی اورکیوں کر دی جائے گی۔مدارس کے طلبہ جو کھیپ درکھیپ نکل رہے ہیں اگرہمیں ان کے اندر معیارنظرنہیں آتاتواس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔

نمبر۱:طلبہ اب پہلے جیسی محنت نہیں کرتے، موبائل انٹرنیٹ ،کرکٹ میچ اوردیگرشوق نے ان کو اتناالجھالیاہے کہ اب ان کو درس کا مطالعہ کرنے اوراگلے درس کو حل کرنے کاوقت ہی نہیں ملتا۔بھلااتنی مصروف میں کوئی وقت کیسے نکال سکتاہے۔ جب کہ دور کی بات نہیں ماضی قریب کی بات ہے اوربتادیناہی بہترہے کہ حضرت مولاناولی رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ مونگیر مدظلہ العالی نے خود مجھ سے کہاتھاکہ وہ دوران طالب علمی درسی کتابوں کے علاوہ غیردرسی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے جس میں سے صرف اردوادب کے تعلق سے روزانہ ۵سوصفحات کا مطالعہ ان کا معمول تھا۔آج دن بھر میں ۱۰۰؍صفحات پڑھناجوئے شیر لانے کے برابر ہے۔توبنیادی بات محنت کی ہے اگرطالب علم محنت نہیں کرے گا تو چاہے نصاب کتنااچھاہواساتذہ کتنے اچھے ہوں، طالب علم کسی لائق نہیں بن سکے گا۔

۲:دوسری بات یہ ہے کہ اب طلبہ اوراساتذہ کاوہ تعلق جوماضی میں باپ بیٹے کی طرح ہواکرتاتھا وہ ختم ہوتاجارہاہے اب طلبہ اساتذہ کی خدمت شوق سے نہیں کرتے بلکہ کسی لالچ میں کرتے ہیں اساتذہ طلبہ سے باپ کی طرح محبت نہیں کرتے بلکہ ظاہرداری پر ان کاکام ہوتاہے۔ جب تک اساتذہ اورطلبہ کا تعلق باپ بیٹے کی طرح نہیں ہوگا ایک دوسرے سے فائدہ نہیں ہوگا۔ درس میں تقریر کردینااوربات ہے لیکن استاذ کی خدمت میں لگے رہناان سے علمی استفادہ کرنادوسری بات ہے۔جوکوئی بڑابناہے توکسی نہ کسی کی سرپرستی میں ہی اوراس کے ساتھ طویل عرصہ تک رہ کر ہی۔ ماضی سے لے کر تاحال تمام بڑی شخصیتوں کا جائزہ لے لیں اس اصول میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

۳:اچھے اورخوشحال گھرانوں نے اپنے بچوں کو مدرسہ میں بوجوہ چند بھیجنابند کردیاہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مدرسہ میں ایسے بچے آتے ہیں جن کی نہ کوئی تربیت ہوئی ہے اورذہانت بھی برائے نام ہوتی ہے توایسے میں اس طرح کے طالب علم سے زیادہ کیاامید کی جاسکتی ہے کیونکہ خاندانی اثرات اپناوجود رکھتے ہیں۔

اساتذہ کرام:
معیار تعلیم میں بہتری کیلئے نصاب میں تبدیلی اچھی بات ہے لیکن نصاب درس ہی سب کچھ نہیں ہے۔اساتذہ یعنی جوپڑھانے والوں ہو ں ،ان کابھی معیاری ہوناضروری ہے۔ اگر ایک استاد عربی زبان پڑھارہاہے تو اس کو متعلقہ موضوع میں مہارت ہونی چاہئے۔ جو استاد فقہ پڑھارہاہے اس کو فقہ میں رسوخ ہوناچاہئے جو استاد حدیث پڑھارہاہے اس کوعلم حدیث اورمتعلقہ علوم پر مہارت ہونی چاہئے۔

جب آپ ایک ماہر استاد کسی ادارے کیلئے چاہتے ہیں توپھر یہ ضروری ہے کہ آپ اسی اعتبار سے ان کو تنخواہ بھی دیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کو اسکول اورکالج کے اساتذہ کے برابر تنخواہ اوردیگر اضافی چیزیں فراہم کی جائیں لیکن کم ازکم اتنی تنخواہ تودیجئے جس سے وہ اپناماہانہ خرچ بغیر کسی مزید اضافی کام کے وہ پوراکرلیں۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری مہتمم حضرات پر عائد ہوتی ہے جو ہمیشہ مدرسہ کیلئے نت نئے تعمیری منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن اساتذہ کی ضروریات کاخیال نہیں کرتے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ مدرسہ بلڈنگ اورعمارت کا نام ہے۔اس سلسلے میں راقم الحروف حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کے طرزعمل کو سب سے بہتر سمجھتاہے جنہوںنے ایک مرتبہ کہاتھاکہ میں سب سے پہلے طلبہ کی ضروریات کا خیال کرتاہوں کیونکہ مدارس کا وجود ان کے ہی دم سے قائم ہے۔ اس کے بعد اساتذہ کی تنخواہ اور ان کی ضروریات پر توجہ دیتاہوں۔تیسرے نمبر پر لائبریری اورکتابوں اورتعلیمی امور کی چیزوں پر صرف کرتاہوں۔بلڈنگ اورعمارت کی تعمیر میرے نزدیک بالکل آخری نمبر پر ہے۔مہتمم حضرات سے گزارش ہے کہ وہ بلڈنگ کی تعمیر اورنت نئے منصوبوں کے مالیخولیاسے باہر نکلیں اورمعیار تعلیم کو بہتر کرنے کیلئے اچھے اساتذہ کا انتخاب کریں اورپھر انہیں اچھی تنخواہ دیں۔

انگلش زبان اورکمپیوٹر:
میں نے ماقبل میں کہاتھاکہ انگلش زبان کی دورحاضر میں افادیت اورکمپیوٹر کی اہمیت کامیں منکر نہیں ۔لیکن اس کو مدارس کے تعلیمی نصاب میں اصلاح یاایک مدرسہ کی طالب علم کی صلاحیت کو بڑھانے یا تعلیمی معیار میں اضافہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ خارجی چیز ہے۔

درسی نصاب کے ساتھ کسی الگ زبان کو پڑھایاجانامناسب نہیں ہے ا س کیلئے بہتر ہے کہ تعلیم سے فراغت پر چھ ماہ ایک سال کاکورس رکھاجائے جس میں طالب علم کو صرف انگلش اورکمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔ ایک سال یاچھ ماہ کی محنت مین اوسط درجہ کا طالب علم اتنی لیاقت ضرورپیداکرلے گاجس سے وہ انگلش میں اپنی بات کہنے کے قابل ہوجائے گا اورکمپیوٹر سے بھی وہ حسب ضرورت واقف ہوجائے گا۔
آخری اوراہم بات :
مدارس کے تعلق سے دوباتیں ہمیشہ ذہن میں رہناچاہئے کہ اکثرجدید کاری کے حامی مولویوں کی غربت کا حوالہ دیتے ہیں توان سے عرض ہے کہ مدرسہ کا راستہ ہی غربت ہے۔ جو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا جاں نشیں بنناچاہتاہے تواسے شروع میں ہی طے کرلیناچاہئے کہ یہ راہ مال ومنال کی نہیں بلکہ جزع وفزع کی ہے۔ یہاں کھوناہی پاناہے اورنایافت ہی یافت ہے۔یہاں درد کی دوانہیں ملتی ہے بلکہ درد کو دوابنایاجاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو یہ معاش کی نہیں بلکہ معاد کی اورمال کی نہیں مآل کی راہ ہے۔اس لئے اس راہ میں تو وہی آئے جوراہ کے ان کانٹوں کی چبھن کو برداشت کرنے کا حوصلہ اورکانٹوں پر چل کر پائوں کو لہولہان کرنے کا حوصلہ رکھتاہو ۔بقول عامر عثمانی
میرے ساتھ ساتھ چلے وہی جوکہ خاررہ کو چوم لے
جسے کلفتوں سے گریز ہو وہ میراشریک سفر نہ ہو
دوسری اوراہم بات یہ ہے کہ اب جس طرح گلی کوچوں کے مدرسوں میں دورہ حدیث اورفراغت تک کی تعلیم دی جاتی ہے وہ غلط ہے اس کیلئے ذمہ داران مدارس مل کر بیٹھیں اورکچھ اصول وضوابط طے کریں ۔اس سے بھ اہم بات یہ ہے کہ ہرطالب علم کو دورہ حدیث تک پڑھاناضروری نہیں ہے۔ سال چہارم اورپنجم بلکہ ششتم تک فقہ اتنی تعلیم ہوجاتی ہے جس سے ایک طالب علم حلال وحرام سے بخوبی واقف ہوجاتاہے۔ یہاں تک پڑھانے کے بعد طلبہ کا امتحان لیاجائے اوروہ طلبہ جو آگے پڑھنے کاشوق رکھتے ہیں اورذہانت بھی ہے۔ ان کو آگے پڑھایاجائے اوردیگر طلبہ کوکوئی ہنر وغیرہ سکھادیاجائے جس سے وہ اپنے روزگار کا انتطام کرسکیں۔ ہرطالب علم کو مولوی بنانادین وشریعت کا کوئی مطالبہ نہیں ہے لیکن ہرمسلمان کو اتناعلم کہ وہ حلال وحرام سے واقف ہو ضروری ہے۔چنانچہ مدارس کے وہ طلبہ جن کے اندر پڑھنے کا شوق نہیں ،گھروالوں یاکسی اورمجبوری کے سبب لگے پڑے ہیں توان کو ششم یاپنجم
کی تعلیم کے بعد کوئی ہنرسکھادیاجائے ۔جس سے وہ اپنے روزگار کا انتظام کرسکیں۔ بقیہ وہ طلبہ جن کےا ندر پڑھنے کا شوق ہے اورذہانت سے بھی خدانے نوازاہے توان کو آگے پڑھایاجائے۔اس سے مدارس پر غیرضروری بار بھی نہیں پڑے گا اور طلبہ بھی آسودہ زندگی گزاریں گے اوراساتذہ کرام کوبھی کم طلبہ میں ان کی نگرانی اوربہترتعلیم دینے کا موقع نصیب ہوگا۔

(نوٹ:یہ تجویز مولانا ولی رحمانی مدظلہ العالی کی ہے جوانہوں نے برسوں قبل ایک اپنے مقالے میں پیش کی تھی۔ )
یہ کچھ باتیں تھیں جو ذہن سے نکل کر بواسطہ قلم قرطاس پر آگئیں۔ اگر حلقہ علماء میں ان کو کسی قدر بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاجائے تو زہے عزوشرف اوراگر اس کو ناپسند بھی کیاجاتاہے تو
وماابری نفسی ان النفس لامارہ بالسوء
 

ابن عادل

محفلین
یہ بھی اکثردیکھاگیاہے کہ جب ہم کسی موضوع پر بات کرتے ہیں تواس کی بنیاد کیاہے اس پرغورکئے بغیر ادھر ادھر کی لایعنی بحثوں میں الجھ جاتے ہیں اوراس کا نتیجہ ہوتاہے کہ بحث ایک غیرمختتم انجام کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ مدارس کے تعلق سےجدید کاری کی مہم کابھی یہی حال ہے۔جدید کاری مہم کی حمایت کرنے والے اس پر دھیان نہیں دیتے کہ مدارس میںجدید کاری کا عمل کیاہوگا۔جدید کاری کس نوعیت کی ہونی چاہئے اورمخالفت کرنے والے بھی بسااوقاتجدید کاری کی بنیادی بات پر دھیان نہیں دیتے اوراس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کی کوئی بات مدارس کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوسکتی۔

کسی بھی ادارے کی جدید کاری کی مہم کا مطلب یہ ہوتاہے کہ وہ ادارہ جوکام کررہاہے اس کو بہتر طریقے پر انجام دے۔ اگرتعلیمی ادارہ ہے توطلباء کی صلاحیت بڑھانے والی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ نصاب تعلیم کو آسان بنایاجاتاہے۔ اساتذہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ معیاری درس دیں۔تجدید کاری کا مطلب یہ کبھی نہیں ہوتاکہ اگرکوئی میڈیکل کالج ہے تو وہاں کے طلباء کو کمپوٹرسائنس میں ماہر کردیاجائے۔ یاکمپیوٹر سائنس کے طلبہ کو طب کی تعلیم میں ماہر کیاجائے۔ مقصد یہ ہوتاہے کہ میڈیکل تعلیم میں مزید معیار کیسے پیداکیاجائے۔ طلبہ کی صلاحیتوں کو کیسے جلابخشی جائے اور اساتذہ کے لیکچر معیاری کس طرح ہوں اورادارہ کا طب کی دنیا میں نام کیسے مشہور ہو۔

مدارس کی جدید کاری کی مہم کی حمایت کرنے والوں کا عمومی زور اس پر ہوتاہے کہ مدارس کے طلبہ کمپیوٹر سیکھ جائیں،انگریزی زبان سے واقف ہوجائیں، حساب وغیرہ سے آشناہوجائیں، انگلش فرفر بولنے لگیں۔ زندگی گزارنے کیلئے کوئی اوسط درجے کا ہنر بھی سیکھ لیں۔ یہی ہے مدارس کی جدید کاری کے حامیوں اوج تخیل۔

بھلاکوئی یہ بتائے کہ مدارس جہاں طلبہ کو عربی زبان سکھائی جاتی ہے۔ ان کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے اورمقصد یہ ہوتاہے کہ مدارس کے طلبہ دینی احکامات سے واقف ہوجائیں اورآئندہ چل کر عملی زندگی میں مسلمانوں کی دینی مسائل کے سلسلے میں رہنمائی کریں۔ ایسے میں انگلش کی تعلیم،کمپیوٹر کی تعلیم، حساب کی تعلیم سے مدرسہ کے نصاب کو کیافائدہ پہنچ سکتاہےہے؟۔ مدارس کے طلبہ کی کون سے صلاحیت بہتر ہوسکتی ہے؟یانصاب تعلیم کو معیاری بنانے میں کون ساتیر ماراجاسکتاہے؟

میں کمپیوٹر اور انگلش زبان کی افادیت کا منکر نہیں ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے مدرسہ کیجدید کاری کا کیاتعلق ہے۔ مدرسہ کی جدید کاری کا مطلب یہ توہے کہ مدرسہ کے نصاب کو آسان کیاجائے۔ طلبہ کو معیاری تعلیم دی جائے۔ ان کی صلاحیت کوبڑھائی جائے۔ عربی زبان وادب سے انہیں مزید آشناکیاجائے۔ لیکن ان سب امور پر عمومی طورپرجدید کاری کی رٹ لگانے والوں کی زبان اورقلم خاموش رہتاہے اورلے دے کر ساری تان اس پر ٹوتتی ہے کہ کمپیوٹر کی تعلیم ہو اورانگلش زبان سے مدارس کے طلبہ واقف ہوجائیں۔

اگرمدرسہ کی جدید کاری کا یہی مفہوم ہے توپھرمعاف کیجئے لیکن یہ کہناپڑے گاکہ یہ بعینہ ایساہی ہے کہہمامریکہ کی ترقی سے متاثر ہوکر یہ سمجھ لیں کہ چونکہ امریکہ والے پینٹ شرٹ پہنتے ہیں لہذا ہمیں ترقی یافتہ ہونے کیلئے پینٹ شرٹ پہنناچاہئے۔ یہ خیال جس قدر خام اورمضحکہ خیز ہے یقین مانئے کہ مدارس کی جدید کاری کے نام پر کمپیوٹر اورانگریزی زبان کی رٹ لگانے والوں کی بات بھی اتنی ہی مضحکہ خیز ہے۔


مدرسہ کی حقیقی جدید کاری:
کوئی بھی تعلیمی ادارہ تین چیزوں سے متصف ہوتاہے۔ طالب علم،استاد اورنصاب تعلیم ۔اس کے بغیر کسی تعلیمی ادارہ کاوجود تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔ ہم فردافردا سبھی پر بات کریں گے تاکہ اصلاح کی کہاں کہاں ضرورت ہے اس کی نشاندہی کی جاسکے۔

نصاب کی جدید کاری:
کسی بھی تعلیمی ادارے کیلئے نصاب تعلیم ریڑھ کی ہڈی ہواکرتی ہے۔ نصاب تعلیم جتنااچھاہوگا۔ طلبہ کو اس سے اتناہی زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس لئے ہرتعلیمی ادارہ اپنے نصاب کو ضروریات زمانہ اورحالات کے اعتبار سے بدلتارہتاہے۔ مدارس نے بھی اپنے نصاب کو بدلاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی وہ رفتار نہیں ہے جس حساب سے حالات بدل رہے ہیں۔ ابھی بھی مدارس میں طلبہ کو ابتدائی صرف ونحو اجنبی زبان فارسی اورعربی میں پڑھایاجاتاہے۔ ایسے میں طلبہ کے سامنے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ اجنبی زبان پر توجہ دین یاپھر گرامر سیکھیں۔ مدارس کو چاہئے کوہ ابتدائی صرف ونحو کی تمام کتابیں جو عربی یافارسی میں ہیں ان کو درس سے خارج کردیں اوراس کی جگہ پر عربی صرف ونحو کی وہ کتابیں جو اردو زبان میں لکھی گئی ہیں ان کو شامل نصاب کریں۔

عربی زبان پر توجہ:
قرآن وحدیث اورفقہ کی کتابیں سب کی سب بیشتر عربی زبان میں ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عربی زبان پر ایک عالم کومہارت ہو،اورنہ صرف یہ کہ وہ عربی عبارت پڑھ سکے۔ مطلب اخذ کرسکے بلکہ عربی زبان لکھنااوربولنابھی اسے اچھی طرح آئے۔فی الوقت عربی زبان جس طرز اورنہج پر پڑھائی جاتی ہے ا س میں طلبہ کسی حد تک عربی پڑھنا اورمطلب سمجھناتوسیکھ جاتے ہیں لیکن عربی زبان بولنا یاپھر عربی میں لکھنا انہیں نہیں آتا۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ نصاب درس میں اس سلسلے میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں بالخصوص عربی زبان میں بات چیت کرنے کی مشق ابتداءسے کرائی جائے اوران مشنریز اسکول کے نہج کو ماڈل بنایاجائے جہاں بچوں کو پہلی کلاس سے انگریزی میں بات کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے اورانہیں اس کی تربیت دی جاتی ہے۔اس سلسلے میں بنیادی چیز ہے کہ جوچیزیں روزمرہ کی ہیں ان کیلئے طالب علموں پر زوردیاجائے کہ وہ عربی میں ہی اس کانام لیں ۔جب طلبہ متوسط درجہ میں آجائیں توپھر استاد دوران درس پانچ دس منٹ عربی میں ہی ان کو سمجھائے اورطلبہ کی لیاقت کے حساب سے سہل عربی کااستعمال کرے۔ جب طالب علم ہفتم ودورہ حدیث کو پہنچ جائے توپھر اساتذہ کو محض عربی میں ہی خطاب کرناچاہئے۔ منتہی درجہ کے طلباء پر پابندی ہونی چاہئے کہ وہ عربی زبان کے علاوہ کسی اورزبان میں بات کریں۔ استاذ سے اگرکچھ پوچھنابھی ہو تو عربی میں ہی پوچھیں۔اگرشروع سے عربی بول چال کی مشق جاری رکھی گئی توامید ہے کہ آگے چل کر طلباء عربی بولنے اورلکھنے سے انجان نہیں رہیں گے۔

فقہ واحکام شریعت:
مدرسہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ طلباء کو احکام شریعت سے واقف کرایاجائے تاکہ وہ آگے چل کر دینی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کرسکیں۔ علماء کرام نے فقہ پر اچھی اچھی کتابیں لکھی ہیں جن سے مسلمانوں کو بہت زیادہ نفع ہوا اللہ ان کو اس محنت کا بہترین بدلہ دے۔ فی الوقت مدارس میں فقہ اوراحکام شریعت کی جوکتابیں رائج ہیں وہ تین چار صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ پرانے مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہےکہ ہرمصنف اپنے عہد کے اسلوب اورطرز بیان کو اختیار کرتاہے اوراسلوب اورطرز بیان ہرصدی میں بلکہ ایک ہی صدی میں کئی بار بدل جایاکرتاہے۔آج اگراردو کے طالب علم دوصدی پیشتر کی اردو اوراسلوب میں سمجھایاجائے توکتنے طالب علم سمجھیں گے بالخصوص ابتدائی طالب علم۔اسی طرح فقہ کی ابتدائی کتابوں کو تومیرےناقص خیال میں اردو میں ہی ہونی چاہئے تاکہ طلبہ بآسانی شریعت کے بنیادی احکام،بنیادی اصطلاحات اورفقہی تعبیرات کو جان لیں۔

جب طلبہ اس مرحلہ سے گزرچکیں توپھر ان کو متوسط درجہ کی وہ کتابیں پڑھانی چاہئے جو عصر حاضر میں لکھی گئی ہیںکیونکہ متروک اسلوب اورطرزبیان کابار طلبہ پر ڈالنانامناسب ہے۔ دورحاضر میں طلبہ کے ذہن ومزاج کی رعایت کرتے ہوئے جوفقہی درسی کتابیں لکھی گئیں ان کو نصاب میں شامل کیاجاناچاہئے۔جب طلبہ فقہ پر ایک حد تک عبورحاصل کرلیں توپھر ان کو ہدایہ یاپھر دوسری اعلیٰ درجے کی فقہی کتابیں پڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

متن کی کتابیں:
ایسی تمام کتابیں جو بطور متن گزشتہ مصنفین نے لکھی ہیں یاپھر مصنف کا انداز بیان گنجلگ اورپیچیدہ ومغٖلق ہے اس کو یک قلم متروک اورنصاب سے نکال دیناچاہئے۔ یہ کتابیں مصنف نے اپنی ذہانت کے اظہار کیلئے لکھی تھیں جس میں وہ کامیاب رہے اوردیگر علماء نے ان کے شروح وحواشی لکھ کر مصنف کے مراد کو واضح کیا لیکن ایک طالب علم پر مغلق اورپیچیدہ کتاب کا بار ڈالنا انتہائی نامناسب ہے۔ ہاں طالب علم چاہے توبعد مین ان کتابوں سے استفادہ کرسکتاہے۔

مغلق اورپیچیدہ بلکہ چیستاں طرز کے متن کی کتابوں کونصاب میں شامل کرنے کی خرابی کو مولانا یوسف بنوری نے بھی واضح طورپر محسوس کیاتھااوراصلاح نصاب کے تعلق سے اپنے ایک مقالہ میں لکھاتھاکہ ایک کتاب جو متن کے طرز پر لکھی گئی ہے اورمصنف نے ایک ہی لائن میں اتناکچھ بھردیا ہے جس کیلئے استاد کو چاردن تقریر کرنی پڑتی ہے اورطالب علم کو دماغ سوزی کرنی پڑتی ہے اس کے بجائے اگر وہ کتاب نصاب میں رکھی جائے جو ایک سطر کے بدلے جس میں دس ورق پڑھناپڑھے تو وہی بہتر ہے۔نحو کی کتاب کافیہ اسی طرح فقہ میں زیلعی کی متن ایسی کتابیں ہیں جس کو نصاب سے نکال دیاجائے اوران کی جگہ کسی قدرے ضخیم لیکن واضح کتاب کو شامل کیاجائے۔ان مغلق پیچیدہ اورچیستاں طرز کی کتابوں کا اپنادور تھا لیکن وہ ختم ہوگیا۔

منطق اورفلسفہ:
فلسفہ کی کسی کتاب کودرس میں شامل کرنے کا اب کوئی جواز نہیں بچاہے۔جب ماڈرن سائنس ہمارے سامنے ہے توپھر پرانے فلسفہ جزء الذی لایتجزی وغیرہ کو پڑھنے اورپڑھانے کی ضرورت سوائے تبرک یاپھریادگارماضی کے اورکیاہے؟جب کہ گزشتہ فلفسہ کی بیشتر باتوں کو موجودہ سائنس غلط ثابت کرچکی ہے ایسے میں فلسفہ کی کتاب کا شامل درس رہنا وقت کی بربادی کے سوااورکچھ نہیں ہے۔

منطق میں ہمارے لئے اتناہی کافی ہے جس سے منطق کی بنیادی اصطلاحات جنس نوع وغیرہ سمجھ میں آجائیں تاکہ فقہ کی جن کتابوں میں منطق کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں طلبہ ان کو سمجھ سکیں۔ منطق کابنیادی مطلب یہ ہے کہ انسان کو اصول استدلال کااورکسی بات کے درست اورغلط ہونے کی پہچان ہوسکے۔پرانی منطق کی کتابیں اس مقصد کیلئے ناکافی ہیں۔ اورویسے بھی فطرت سلیمہ انسان کو خود بتادیتی ہے کہ کیادرست ہے اورکیاغلط ہے اورمنطق کے بارے میں یہ جملہ بھی مشہور ہے ’’ذہین آدمی کو اس کی ضرورت نہیں ہے اوربےو قوف کو اس سے کوئی فائدہ نہیں‘‘۔

کتب احادیث:
حدیث شریف پڑھانے کا جوطرز ہے وہ درست ہے بلکہ اس سے بھی بہتر طرز وہی ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ نے پسند کیاہے ۔سرد یعنی بطور تلاوت پڑھائی جائے جہاں کوئی لفظ مشکل ہو اس کی وضاحت کردی جائے فقہ پڑھے ہوئے طالب علم کو سب معلوم رہتاہے کہ کس کامسلک کیاہے تواحادیث کو مسلکی اکھاڑہ نہ بنایاجائے۔فی الوقت حدیث شریف پڑھانے کا جوطرز ہے۔یعنی ابتداء میں بڑی لمبی اورطولانی تقریریں ہوتی ہے ایک ایک مسئلے پر دس دس اورپانچ پانچ دن استاد کی تقریر مالہ وماعلیہ سمیت جاری رہتی ہے ۔درمیان میں تقریر کم ہوجاتی ہے اورپھر آخر میں طلبہ واستاد بڑی تیز رفتاری سے کتاب مکمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں یہ لطیفہ مشہور ہوگیاہے کہ تعلیم شروع ہونے کے تین ماہ تک تو درس ایساہوتاہے جس میں استاد اورطالب علم دونوں سمجھتے ہیں کہ کیاپڑھ رہے ہیں اورکیاپڑھارہے ہیں۔ درمیان میں صرف استاد سمجھتاہے کہ وہ کیاپڑھارہاہے طالب علم کچھ نہیں سمجھتااورآخر میں یہ حالت ہوجاتی ہے کہ نہ طالب علم سمجھتاہے اورنہ استاد سمجھتاہے۔

طالب علم
طلبہ کسی بھی تعلیمی ادارے کیلئے بنیاد ہوتے ہیں اگرکوئی طالب علم ہی نہ ہوتوتعلیم کس کو دی جائے گی اورکیوں کر دی جائے گی۔مدارس کے طلبہ جو کھیپ درکھیپ نکل رہے ہیں اگرہمیں ان کے اندر معیارنظرنہیں آتاتواس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔

نمبر۱:طلبہ اب پہلے جیسی محنت نہیں کرتے، موبائل انٹرنیٹ ،کرکٹ میچ اوردیگرشوق نے ان کو اتناالجھالیاہے کہ اب ان کو درس کا مطالعہ کرنے اوراگلے درس کو حل کرنے کاوقت ہی نہیں ملتا۔بھلااتنی مصروف میں کوئی وقت کیسے نکال سکتاہے۔ جب کہ دور کی بات نہیں ماضی قریب کی بات ہے اوربتادیناہی بہترہے کہ حضرت مولاناولی رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ مونگیر مدظلہ العالی نے خود مجھ سے کہاتھاکہ وہ دوران طالب علمی درسی کتابوں کے علاوہ غیردرسی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے جس میں سے صرف اردوادب کے تعلق سے روزانہ ۵سوصفحات کا مطالعہ ان کا معمول تھا۔آج دن بھر میں ۱۰۰؍صفحات پڑھناجوئے شیر لانے کے برابر ہے۔توبنیادی بات محنت کی ہے اگرطالب علم محنت نہیں کرے گا تو چاہے نصاب کتنااچھاہواساتذہ کتنے اچھے ہوں، طالب علم کسی لائق نہیں بن سکے گا۔

۲:دوسری بات یہ ہے کہ اب طلبہ اوراساتذہ کاوہ تعلق جوماضی میں باپ بیٹے کی طرح ہواکرتاتھا وہ ختم ہوتاجارہاہے اب طلبہ اساتذہ کی خدمت شوق سے نہیں کرتے بلکہ کسی لالچ میں کرتے ہیں اساتذہ طلبہ سے باپ کی طرح محبت نہیں کرتے بلکہ ظاہرداری پر ان کاکام ہوتاہے۔ جب تک اساتذہ اورطلبہ کا تعلق باپ بیٹے کی طرح نہیں ہوگا ایک دوسرے سے فائدہ نہیں ہوگا۔ درس میں تقریر کردینااوربات ہے لیکن استاذ کی خدمت میں لگے رہناان سے علمی استفادہ کرنادوسری بات ہے۔جوکوئی بڑابناہے توکسی نہ کسی کی سرپرستی میں ہی اوراس کے ساتھ طویل عرصہ تک رہ کر ہی۔ ماضی سے لے کر تاحال تمام بڑی شخصیتوں کا جائزہ لے لیں اس اصول میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

۳:اچھے اورخوشحال گھرانوں نے اپنے بچوں کو مدرسہ میں بوجوہ چند بھیجنابند کردیاہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مدرسہ میں ایسے بچے آتے ہیں جن کی نہ کوئی تربیت ہوئی ہے اورذہانت بھی برائے نام ہوتی ہے توایسے میں اس طرح کے طالب علم سے زیادہ کیاامید کی جاسکتی ہے کیونکہ خاندانی اثرات اپناوجود رکھتے ہیں۔

اساتذہ کرام:
معیار تعلیم میں بہتری کیلئے نصاب میں تبدیلی اچھی بات ہے لیکن نصاب درس ہی سب کچھ نہیں ہے۔اساتذہ یعنی جوپڑھانے والوں ہو ں ،ان کابھی معیاری ہوناضروری ہے۔ اگر ایک استاد عربی زبان پڑھارہاہے تو اس کو متعلقہ موضوع میں مہارت ہونی چاہئے۔ جو استاد فقہ پڑھارہاہے اس کو فقہ میں رسوخ ہوناچاہئے جو استاد حدیث پڑھارہاہے اس کوعلم حدیث اورمتعلقہ علوم پر مہارت ہونی چاہئے۔

جب آپ ایک ماہر استاد کسی ادارے کیلئے چاہتے ہیں توپھر یہ ضروری ہے کہ آپ اسی اعتبار سے ان کو تنخواہ بھی دیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کو اسکول اورکالج کے اساتذہ کے برابر تنخواہ اوردیگر اضافی چیزیں فراہم کی جائیں لیکن کم ازکم اتنی تنخواہ تودیجئے جس سے وہ اپناماہانہ خرچ بغیر کسی مزید اضافی کام کے وہ پوراکرلیں۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری مہتمم حضرات پر عائد ہوتی ہے جو ہمیشہ مدرسہ کیلئے نت نئے تعمیری منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن اساتذہ کی ضروریات کاخیال نہیں کرتے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ مدرسہ بلڈنگ اورعمارت کا نام ہے۔اس سلسلے میں راقم الحروف حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کے طرزعمل کو سب سے بہتر سمجھتاہے جنہوںنے ایک مرتبہ کہاتھاکہ میں سب سے پہلے طلبہ کی ضروریات کا خیال کرتاہوں کیونکہ مدارس کا وجود ان کے ہی دم سے قائم ہے۔ اس کے بعد اساتذہ کی تنخواہ اور ان کی ضروریات پر توجہ دیتاہوں۔تیسرے نمبر پر لائبریری اورکتابوں اورتعلیمی امور کی چیزوں پر صرف کرتاہوں۔بلڈنگ اورعمارت کی تعمیر میرے نزدیک بالکل آخری نمبر پر ہے۔مہتمم حضرات سے گزارش ہے کہ وہ بلڈنگ کی تعمیر اورنت نئے منصوبوں کے مالیخولیاسے باہر نکلیں اورمعیار تعلیم کو بہتر کرنے کیلئے اچھے اساتذہ کا انتخاب کریں اورپھر انہیں اچھی تنخواہ دیں۔

انگلش زبان اورکمپیوٹر:
میں نے ماقبل میں کہاتھاکہ انگلش زبان کی دورحاضر میں افادیت اورکمپیوٹر کی اہمیت کامیں منکر نہیں ۔لیکن اس کو مدارس کے تعلیمی نصاب میں اصلاح یاایک مدرسہ کی طالب علم کی صلاحیت کو بڑھانے یا تعلیمی معیار میں اضافہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ خارجی چیز ہے۔

درسی نصاب کے ساتھ کسی الگ زبان کو پڑھایاجانامناسب نہیں ہے ا س کیلئے بہتر ہے کہ تعلیم سے فراغت پر چھ ماہ ایک سال کاکورس رکھاجائے جس میں طالب علم کو صرف انگلش اورکمپیوٹر کی تعلیم دی جائے۔ ایک سال یاچھ ماہ کی محنت مین اوسط درجہ کا طالب علم اتنی لیاقت ضرورپیداکرلے گاجس سے وہ انگلش میں اپنی بات کہنے کے قابل ہوجائے گا اورکمپیوٹر سے بھی وہ حسب ضرورت واقف ہوجائے گا۔
آخری اوراہم بات :
مدارس کے تعلق سے دوباتیں ہمیشہ ذہن میں رہناچاہئے کہ اکثرجدید کاری کے حامی مولویوں کی غربت کا حوالہ دیتے ہیں توان سے عرض ہے کہ مدرسہ کا راستہ ہی غربت ہے۔ جو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا جاں نشیں بنناچاہتاہے تواسے شروع میں ہی طے کرلیناچاہئے کہ یہ راہ مال ومنال کی نہیں بلکہ جزع وفزع کی ہے۔ یہاں کھوناہی پاناہے اورنایافت ہی یافت ہے۔یہاں درد کی دوانہیں ملتی ہے بلکہ درد کو دوابنایاجاتاہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو یہ معاش کی نہیں بلکہ معاد کی اورمال کی نہیں مآل کی راہ ہے۔اس لئے اس راہ میں تو وہی آئے جوراہ کے ان کانٹوں کی چبھن کو برداشت کرنے کا حوصلہ اورکانٹوں پر چل کر پائوں کو لہولہان کرنے کا حوصلہ رکھتاہو ۔بقول عامر عثمانی
میرے ساتھ ساتھ چلے وہی جوکہ خاررہ کو چوم لے
جسے کلفتوں سے گریز ہو وہ میراشریک سفر نہ ہو
دوسری اوراہم بات یہ ہے کہ اب جس طرح گلی کوچوں کے مدرسوں میں دورہ حدیث اورفراغت تک کی تعلیم دی جاتی ہے وہ غلط ہے اس کیلئے ذمہ داران مدارس مل کر بیٹھیں اورکچھ اصول وضوابط طے کریں ۔اس سے بھ اہم بات یہ ہے کہ ہرطالب علم کو دورہ حدیث تک پڑھاناضروری نہیں ہے۔ سال چہارم اورپنجم بلکہ ششتم تک فقہ اتنی تعلیم ہوجاتی ہے جس سے ایک طالب علم حلال وحرام سے بخوبی واقف ہوجاتاہے۔ یہاں تک پڑھانے کے بعد طلبہ کا امتحان لیاجائے اوروہ طلبہ جو آگے پڑھنے کاشوق رکھتے ہیں اورذہانت بھی ہے۔ ان کو آگے پڑھایاجائے اوردیگر طلبہ کوکوئی ہنر وغیرہ سکھادیاجائے جس سے وہ اپنے روزگار کا انتطام کرسکیں۔ ہرطالب علم کو مولوی بنانادین وشریعت کا کوئی مطالبہ نہیں ہے لیکن ہرمسلمان کو اتناعلم کہ وہ حلال وحرام سے واقف ہو ضروری ہے۔چنانچہ مدارس کے وہ طلبہ جن کے اندر پڑھنے کا شوق نہیں ،گھروالوں یاکسی اورمجبوری کے سبب لگے پڑے ہیں توان کو ششم یاپنجم
کی تعلیم کے بعد کوئی ہنرسکھادیاجائے ۔جس سے وہ اپنے روزگار کا انتظام کرسکیں۔ بقیہ وہ طلبہ جن کےا ندر پڑھنے کا شوق ہے اورذہانت سے بھی خدانے نوازاہے توان کو آگے پڑھایاجائے۔اس سے مدارس پر غیرضروری بار بھی نہیں پڑے گا اور طلبہ بھی آسودہ زندگی گزاریں گے اوراساتذہ کرام کوبھی کم طلبہ میں ان کی نگرانی اوربہترتعلیم دینے کا موقع نصیب ہوگا۔

(نوٹ:یہ تجویز مولانا ولی رحمانی مدظلہ العالی کی ہے جوانہوں نے برسوں قبل ایک اپنے مقالے میں پیش کی تھی۔ )
یہ کچھ باتیں تھیں جو ذہن سے نکل کر بواسطہ قلم قرطاس پر آگئیں۔ اگر حلقہ علماء میں ان کو کسی قدر بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھاجائے تو زہے عزوشرف اوراگر اس کو ناپسند بھی کیاجاتاہے تو
وماابری نفسی ان النفس لامارہ بالسوء

محترم برادر ابن جمال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مدارس کی جدید کاری کے حوالے سے آپ نے کئی پہلووں پر توجہ دلائی ہے ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ یہاں کوئی سنجیدہ گفتگو اس اہم عنوان پر ہو۔ راقم کی دلچسپی کا میدان تعلیم اور بالخصوص دینی مدارس کی تعلیم ہے ۔ اس حوالے سے حلقہ احباب میں نشستیں اور ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور مدارس کا جائزہ بھی ۔ میں یہاں پر کچھ نکات پیش کروں گا ۔ بات چلی تو مزید پہلو بھی سامنے آئیں گے ۔ ان شاء اللہ
اول یہ کہ مدارس کے نظام تعلیم کا مقصد کیا ہے ؟
اگر اس کا جواب اگریہ ہے کہ دینی تعلیم کی ترویج یا معاشرے کو علماء فراہمی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی تعلیم کے بھی مدارج ہیں مثلا ضرورت کی حد تک دینی تعلیم، عالم کی تیاری جو معاشرے کو بنیادی اسلامی رہنمائی دے سکے یا محققین کی تیاری جو رہنمائی کے ساتھ نئے مسائل کا حل بھی تلاش کرسکیں ۔
دوم یہ کہ مقصد کے مطابق حصول کی منصوبہ بندی
یعنی ہم نے جو بھی مقصد متعین کیا ہے اس کی کیا تقسیم ہے ؟ دورانیہ تعلیم آٹھ سال ہے تو مقصد کی درجہ بندی بھی آٹھ درجات میں ہو ۔ ہر درجہ میں یہ جانچ اور جائزہ لیا جاسکے کہ طلباء اپنے مقصد کے کتنے قریب ہوئے ہیں ۔
سوم مضامین کا چناو اور تقسیم
یعنی کون سے مضامین ہوں گے ؟ کس مضمون کو کس درجہ میں کتنا حصہ ملنا ہے ؟ اس مضمون کی اہمیت کیا ہے ؟ کس درجہ میں اس مضمون کا کیا مقصد ہے ؟ کیا مضمون کے لیے کسی کتاب کا تعین ضروری ہے یا استاد کا تعین ہی کافی ہے ؟
پھر اس سب سے قطع نظر یہ سوال بھی اہم ہے کہ نظام تعلیم کی دوئی کیوں ؟ امت کی یہ حالت اسی دوئی کے باعث ہوئی ہے ۔
ان شاء اللہ کچھ نکات بعد میں ۔۔۔۔
 
Top