مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آپ اپنی کار دس پندرہ میل پہاڑ کے اوپر لے جا سکتے ہیں لیکن آپ کو یقین ہوتا ہے کہ چوٹی پر پہنچنے کے بعد پھر اترائی ہی اترائی ہے۔ یہ یقین اس لیے ہوتا ہے کہ آپ قدرت کے رازوں سے واقف ہیں اور پہاڑ کے خراج کو سمجھتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی کار مسلسل اوپر ہی اوپر نہیں جا سکتی، نہ ہی نیچے ہی نیچے جا سکتی ہے۔ یہ صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔

آپ کی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ چینی فلسفے والے اس کو ین اور یانگ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہم لوگوں سے زندگی میں یہی غلطی ہوتی ہے کہ ہم لوگ متبادل کے راز کو پکڑتے نہیں ہیں، جو شخص آگے پیچھے جاتی لہر پر سوار نہیں ہوتا وہ ایک ہی مقام پر رک کر رہ جاتا ہے۔ (گلائیڈر جہازوں کے پائلٹ اس راز کو خوب سمجھتے ہیں) وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ پہاڑ پہ اوپر ہی اوپر جانا زندگی سے نیچے آنا موت ہےئ۔ وہ زندگی بھر ایک نفسیاتی لڑائی لڑتا رہتا ہے اور ساری زندگی مشکلات میں گزار دیتا ہے۔
ایک سمجھدار انسان جب زندگی کے سفر پر نکلتا ہے تو آسان راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ بلندی پر جانے کا پروگرام بنا کر نہیں نکلتا کہ نشیب میں اترنے کے خوف سے کانپتا رہے وہ تو بس سفر پر نکلتا ہے اور راستے سے جھگڑا نہیں کرتا۔ جو جھگڑا نہیں کرتا، وہ منزل پر جلد پہنچ جاتا ہے۔

اشفاق احمد کی بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بابوں کے ڈیروں پر محبت کا بڑا ذکر ہوتا ہے.نظم میں بھی اور نثر میں بھی. حرف میں بھی اور عمل میں بھی.

ایک دن میں نے پوچھا جناب یہ محبت ہوتی کیا ہے.
بابا جی نے فرمایا ، محبت دوسرے کے اندر چھپی ہوئی خوبی کا نقاب اتارنے کا نام ہے. جس شخص میں جو کوئی بھی خوبی ہے اس پر ایک چھلکا چڑھا ہوتا ہے. اس کی خوبی نظر نہیں آتی. اس چھلکے کو اتارنے کا نام محبت ہے.
پردہ ہٹانے کا نام محبت ہے. سٹیج روشن کرنے کا نام محبّت ہے.

از اشفاق احمد، بابا صاحبا،
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کوئی دو مہینے بعد میں کراچی گیا تو انشا جی کے دفتر ملنے پہنچا -

انشا بیٹھا کام کر رہا ہے - ہم گپ لگا رہے ہیں - ادھر کی باتیں ، ادھر کی باتیں بہت خوش -

ایک لڑکی آئی- اس کی صحت بہت خراب تھی ، اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا کہ جیسے رنگ بھرا ہو پیلا -

اس نے چھپانے کے لیےاپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی تہہ لگا رکھی تھی تو کالا برقع اس نے پہنا ہوا ، آ کھڑی ہو گئی انشا جے کے سامنے -

اس نے ایک خط ان کو دیا وہ خط لے کر رونے لگا - پڑھ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا ، پھر میز پر رکھا ، پھر دراز کھولا -

کہنے لگا بیبی ! میرے پاس یہ تین سو روپے ہی ہیں - یہ تم لے لو ، پھر بعد میں بات کریں گے -
کہنے لگی ! بڑی مہربانی -

وہ بچکی سی ہو گئی بیچاری ، اور ڈر سے گئی ، گھبرا سی گئی -

اس نے کہا ، بڑی مہربانی دے دیں - وہ لے کر چلی گئی -

جب چلی گئی تو میں نے انشا سے کہا ، انشاء یہ کون تھی ؟
کہنے لگا پتا نہیں -
میں نے کہا ، اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی - تو تو نے تین سو روپے دے دیے تو اسے جانتا تک نہیں -

کہنے لگا ، نہیں میں اتنا ہی جانتا ہوں - یہ خط ہے - اس میں لکھا تھا !
محترم انشا صاحب میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں ، اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں ، اور میں یہاں پر لیاری میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہوں -

اور میری ١٣٠ روپے تنخواہ ہے - میں اور میرے بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں - جس کا کرایا ١٦٠ روپے ہوگیا ہے ، اور ہم وہ ادا نہیں کر سکتے ، اور آج وہ بندہ سامان اٹھا کر باہر پهینک رہا ہے -

اگر آپ مجھے ١٦٠ روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ کر کے ١٠-١٠ کر کے اتار دونگی -

میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے ، وہ بھی کالم کی وجہ سے -
میں نے کہا ، اوئے بے وقوف آدمی اس نے تجھ سے ١٦٠ روپے مانگے تھے تو تو نے ٣٠٠ سو دے دیے -

کہنے لگا ، میں نے بھی تو " دتوں میں سے دیا ہے ، میں نے کونسا پلے سے دیا ہے - "
اس کو بات سمجھ آ گئی تھی -

یہ نصیبوں کی بات ہے ، یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی میں جو بڑے دھیان سے جاتا تھا ، ڈکٹیشن لیتا تھا ، کوششیں کرتا تھا جاننے کی -
کہنے لگا ، میں نے کچھ کالم لکھے تھے یہ ان کا معاوضہ تھا - یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے - میں نے دے دیے -

از اشفاق احمد زاویہ ١ دیے سے دیا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جو معاف نہیں کرسکتا ہے وہ اس پل کو توڑتا ہے جو اسے انسانوں سے اور مخلوق خدا سے ملاتا ہے اور لوگوں سے جوڑتا ہے -

بہت ممکن ہے اس کی اپنی زندگی میں ایک ایسا وقت آجاے کہ اسے لوگوں سے ملنے کی ضرورت پڑے تو وہ ان سے کیسے ملے گا. اس نے تو پل توڑ دیا ہوگا اور خود اپنے ہاتھوں سے توڑا ہوگا -

از اشفاق احمد، بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں نے ندی کے کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اور میں دیر تک کھڑا ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کے لئے جھکنا پڑتا ہے اور رکوع میں جائے بغیر پانی نہیں بھرا جا سکتا. ہر شخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح سے آنا چاہیے تاکہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے -
اور خوب سیر ہو سکے .... لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان جھکنے کا اور خم کھانے کا آرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اور اس کی زبردست طاقتور انا اس کو یہ کام نہیں کرنے دیتی. یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادت اکارت جا رہی ہے اور انسان اکھڑا اکھڑا سا ہو گیا ہے -

اصل میں زندگی ایک کشمکش اور جدوجہد بن کر رہ گئی ہے.اور اس میں وہ مٹھاس، وہ ٹھنڈک اور شیرینی باقی نہیں رہی جو حسن اور توازن اور ہارمنی کی جان تھی. اس وقت زندگی سے چھلکنے اور رکوع کرنے کا پرسرار راز رخصت ہو چکا ہے اور اس کی جگہ محض جدوجہد باقی رہ گئی ہے. ایک کشمکش اور مسلسل تگ و تاز-

لیکن ایک بات یاد رہے کہ یہ جھکنے اور رکوع میں جانے کا آرٹ بلا ارادہ ہو ورنہ یہ بھی تصنع اور ریا کاری بن جائے گا اور یہ جھکنا بھی انا کی ایک شان کہلانے لگے گا.

از اشفاق احمد، بابا صاحبا
 

زبیر مرزا

محفلین
کچھ دیر بعد میں نے دیکھا مسجد کی جانب شربتی، نیم خنک نیم گرم ہوا ماتھا ٹیکنے چلی آرہی تھی۔لگتا تھا ہواکی بیمار روح شفا چاہتی تھی۔اس نے پتہ نہیں کتنے دشت کھنگالے، کتنی وادیوں سے گزری.... گرتی پڑتی، اٹھتی بیٹھتی.... ہوامیں نہ بین تھے نہ آہیں نہ مطالبہ تھا، نہ تجسس وہ تو بس امید سے سسکارتی، عاجزی سے کھسکتی، چپکے ہوئے آنسوﺅں کی نمی سے خنک، گم سم، نہ تو گرداب صورت پریشان نہ ہی بگولے کی طرح یقین بھری، بھنور جیسی.... جھنجھلاہٹ کو دبائے ہوئے ہلکے ہلکے دائروں میں، ننھی لہروں میں مسجد کی طرف پالاگن کو بڑھ رہی تھی اسے حضوری کا شوق سنگ مر مر کے فرشوں سے اٹھنے ہی نہ دیتا تھا۔ اس جانب جہاں بلڈوزر چلتے تھے.... مٹی کو پھولوں کی طرح اٹھا کر گنبد خضریٰ کی جانب اٹھتی اور گر جاتی.... گیسری زمزمیوں کے ادھر ادھر اس گلابی ہوا کے آگے پلاسٹک کے خالی گلاس لرزنے لگے۔ ستونوں کی جدل زرد پڑ جاتی، گلابی ہوا کے ہاتھوں میں کچھ نہیں تھا.... سوائے عاجزی کے، سوائے ایک سلام کے.... اسے خود معلوم نہیں تھا کہ وہ کسی بیماری سے شفا چاہتی ہے!.... کیوں ہر شام آتی ہے اور خالی ہاتھ لوٹ جاتی ہے! دوری اور مجبوری کا یہ سفر کیوں ختم ہو نہیں پاتا!
میرا جی چاہتا تھا کہ اپنے آپ کو کسی ستون سے باندھ لوں اور جب تک حضوری کا اذان نہ ہو، اپنے آپ کو باندھے رکھوں....میں اونچے اونچے رونا چاہتا تھا، لیکن مدینے کی پیازی ہوا نے میرے کان میںہولے سے کہا.... مجھے نہیں دیکھتا.... میں کتنے قرن سے یہاں آتی رہی ہوں اور بولی نہیں.... یہاں نہیں.... یہاں نہیں.... تم خانہ کعبہ میں جاکر اللہ کے دروازے سے لپٹ کر ٹکریں مار مار کر رونا.... یہاں عاجزی سے.... دیکھنا ہاتھ جڑے رہیں آواز نہ نکلے.... من کا کیا ہے!.... اسے تو غم کا دکھلاوا چاہئے.... ادب.... حد ادب.... گلابی ہوا.... ہونٹوں میں الحفیظ.... الحفیظ.... دباتی ننگے پاؤں گھومتی رہی
( بانوقدسیہ کے افسانے کعبہ میرے پیچھے سے اقتباس)
 

زبیر مرزا

محفلین
گورنمنٹ کالج کی طرف مراجعت کے کئی راستے ہیں اور سارے راستے اپنے اپنے رخ پر چل کر اس منزل تک پہنچتے ہیں جو ہر ” راوین ” کے من کا مندر ہے ۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے سب سے مشہور، شیر شاہی اور جرنیلی سڑک تو برتری، تحفظ، منفعت اور پاور کی سڑک ہے جس پر جم غفیر رواں ہے ۔ لیکن کچھ راستے جذباتی وادیوں سے ہو کر بھی اس منزل طرف جاتے ہیں۔
ہم دونوں کا گورنمنٹ کالج سے بندھن ایک بہت کمزور اور کچے سے دھا گے سے بندھا ہے ۔ ایک گم نام اور بے نام پگڈنڈی ہے جو خود رو جھاڑیوں اور گھنگیرلے رستوں سے الجھ الجھ کر بڑی مشکل سے من مندر تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے تب تک اٹھنے کو جی نہیں چاہتا جب تک کہ کوئی وہاں سے اٹھا نہ دے ! نکال نہ دے !!
بانو قدسیہ نے اور میں نے گورنمنٹ کالج کو کبھی بھی ایک درس گاہ نہیں سمجھا ۔ نہ کبھی ہم اس کی علمی روایت سے متاثر ہوئے اور نہ کبھی اس کے استادوں کے تجربئہ علمی سے مرعوب ہوئے ۔ اس کی قدامت، اس کی عمارت اور اس کی شخصی وجاہت بھی ہمیں مسحور نہیں کر سکی ____ اس سے کبھی کچھ لیا نہیں ، مانگا نہیں ، دیا نہیں ، دلوایا نہیں ۔ پھر بھی اس کے ساتھ ایک عجیب سا تعلق قائم ہے جسے ہم آج تک کوئی نام نہیں دے سکے ۔ دراصل ہم دونوں گورنمنٹ کالج کو درس گاہ نہیں مانتے _____ اس میں” سین ” کے حرف کو وافر سمجھتے ہیں
( اشفاٖق احمد کے افسانے چاند کا سفر سے اقتباس)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک بات یاد رکھنے کی ہے اور وہ بہت ہی اہم ہے کہ تصوف یا صوفی ازم اور روحانی طاقت یا spiritulism دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں-

مثلاً جو آدمی کرامتیں دکھائے، عقل کے خلاف uncanny واقعات عمل میں لائے ضروری نہیں کہ وہ صوفی بھی ہو -
لیکن اس کے الٹ ہر پورے صوفی میں کرامتیں دکھانے کی طاقت موجود ہوتی ہے-
یہ دوسری بات ہے کہ وہ کرامتیں دکھائے یا نہ دکھائے -
اب دیکھنا یہ ہے کہ تصوف یا صوفی ازم ہے کیا چیز اور اس کا انسان سے یا انسانی زندگی سے کیا تعلق ہے-

مختصر طور پر یہ جان لیجئے کہ تصوف ایک علم ہے جس کا موضوع ہے کہ ان طاقتوں اور ہستیوں کی حقیقت معلوم کی جائے جن پر ہمارے مذہب کی بنیاد قائم ہے اور جن کو دیکھے بغیر اور جن کا ثبوت دیے بغیر ہم پر فرض ہے کہ ہم ان کو مانیں.-

وہ طاقتیں اور ہستیاں ہیں الله، فرشتے ،الہامی کتابیں ،رسول، قیامت کا دن، اور حیات بعد الموت ،لیکن اگر اصل طریقے پر دیکھا جائے تو صوفی ازم کی بنیاد ایک ہی بات پر ہے کہ الله کیا ہے-
کیسا ہے- کس طرح کا ہے اور مخلوق سے اس کا کیا تعلق ہے -

قرآن میں وہ اپنے ہاتھ، آنکھ، کان،روح اور نفس کا ذکر کرتا ہے تو یہ سب کیا ہے-
اس سے الله کا کیا مطلب ہے.- کیا اس کے ہاتھ،کان،آنکھ، اور روح و نفس ہماری طرح کے ہیں یا کسی اور طرح کے-
اگر ہماری طرح کے ہیں تو پھر وہ ایک جسم رکھتے ہوئے ہر جگہ حاضر و ناظر کس طرح سے ہو سکتا ہے -

از اشفاق احمد، بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اللہ کا پسندیدہ فعل

محمد حسین: لیکن سرکار، یہ رنگا رنگ مورتیاں۔۔۔ یہ شکلیں شباہتیں۔۔۔ یہ دھینگا مشتی۔۔۔ مار دھاڑ۔۔۔ کھینچا تانی، یہ کیا؟

ارشاد: میاں محمد حسین صاحب راج دلارے! نہ کوئی ساجد ہے نہ مسجود۔۔۔ نہ عابد نہ معبود۔۔۔ نہ آدم نہ ابلیس۔۔۔ صرف ایک ذات قدیم صفات رنگارنگ میں جلوہ گر ہے۔ نہ اس کی ابتداء نہ انتہاء۔۔۔ نہ کو کسی نے دیکھا نہ سمجھا۔۔۔ نہ فہم قیاس میں آئے نہ وہم گماں میں سمائے۔۔۔ جیسا تھا ویسا ہی ہے اور جیسا ہے ویسا ہی رہے گا۔۔۔ نہ گھٹے نہ بڑھے، نہ اترے نہ چڑھے۔۔۔ وہ ایک ہے، لیکن ایک بھی نہیں کہ اس کو موجودات سے اور موجودات کو اس سے الگ سمجھنا نادانی اور مورکھتا ہے۔ دنیا میں طرح طرح کے کاروبار اور رنگا رنگا پروفیشن موجود ہیں۔ ایسے ہی خداشناسی اور خدا جوئی بھی ایک دھندہ ہے۔

محمد حسین: جب اس کا کوئی سر پیر ہی نہیں حضور تو پھر ڈھونڈنے والا کیا ڈھونڈے اور کرنے والا کیا کرے؟

ارشاد: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، یا مولا! تیری بارگاہ میں میرا کون سا فعل پسندیدہ ہے تا کہ میں اسے زیادہ کروں اور بار بار کروں۔
حکم ہوا یہ فعل ہم کو پسند آیا کہ جب بچپن میں تیری ماں تجھے مارا کرتی تھی تو مار کھا کر بھی اسی کی طرف دوڑا کرتا تھا اور اسی کی جھولی میں گھستا تھا۔
تو بھائی محمد حسین صاحب! ڈھونڈنے والے کو بھی یہی لازم ہے کہ گر کیسی بھی سختی ہو، کیسی بھی ذلت و خواری پیش آئے لیکن ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرے اور اسی کے فضل کو پکارتا رہے۔

"من چلے کا سودا" صفحہ 286 سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
چھت پر چڑھنے کے دو طریقے ہیں -

ایک تو سیڑھی لگا کے زینہ بہ زینہ - اور دوسرا پھٹا لگا کے ڈھلوان پر آگے بڑھ چڑھ کے ، اوپر اٹھ اٹھ کے -

سیڑھی والا تو یہ دیکھے گا کہ میں اتنے ڈنڈے چڑھ گیا اور اتنے باقی ہیں -
اور پھٹے والا دیکھ گا ابھی چھت دور ہے اور ابھی بہت سا کام باقی ہے -

یہی حال دین کا ہے کچھ لوگ تو سمجھتے ہیں الله کی طرف بڑھنے میں اتنے ڈنڈے چڑھ گئے اس کا شکر ہے -
اور ہمیں بھی شاباش ہے کہ ہم نے اتنی کوشش کر لی -
اب دو تین ڈنڈے اور باقی ہیں وہ بھی طے کر لیں گے -

لیکن پھٹے لگا کر چڑھنے والا کہتا ہے ابھی تک پتا نہیں کتنی منزل دور رہ گئی ہے -
جب تک اوپر نہیں پہنچا جاتا یہی سمجھے گا کہ سفر جاری ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بابا جی نے فرمایا کہ جب الله کسی بندے کیساتھ خیر چاہتے ہیں تو ایسے اسباب غیب سے پیدا فرما دیتے ہیں جس سے اس کے امراض نفسانیہ مثلاً " حب جاہ " کا علاج ہوتا ہے -

مثلاً اس پر کوئی مرض مسلط ہو جاتا ہے یا کوئی دشمن مسلط کر دیا جاتا ہے جو اس کوئی بدنامی کی ایذا پہنچتا ہے -
اس بدنامی سے وہ شخص رسوا ہوتا ہے -

اول اول تو یہ نفس کو نہایت نا خوشگوار گزرتا ہے ، مگر جب وہ صبر و رضا اختیار کر لیتا ہے تو پھر اس میں ایسی قوت تحمل پیدا ہو جاتی ہے کہ بدنامی کو بڑے شوق سے برداشت کرنے لگتا ہے -

پھر الله تعالیٰ اس کو قبول عام اور عزت نصیب فرماتے ہیں جس میں اس کو ناز نہیں ہوتا -

اب گویا ، جاہ عظیم میسر ہوتی ہے اور جاہ پسندی فنا ہو جاتی ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مدینے شریف میں ایک مرتبہ سندھ کے ایک زائر سے ملاقات ہوئی - جنھوں نے اپنی عمر کے پچیس چھبیس سال عذر خواہ عاصیان اور پناہ دار گنہگاراں کے حرم کی سیڑھیوں پر گزار دیے تھے -
ہم نے کہا سائیں آپ بڑے خوش قسمت ہیں جو اس دربار میں حاضری دیتے ہیں - ہمیں فرمائیں کہ آپ یہاں کیا کرتے ہیں ؟
مسکرا کر کہنے لگا ! " بابا ہم یہاں گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں - پھر گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں - غلطی کرتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں - معافی مل جاتی ہے تو پھر بھول چوک ہو جاتی ہے - پھر توبہ تلا کرتے ہیں ، پھر رحم ہو جاتا ہے - "
ہم نے کہا ، " سائیں ! یہ عجیب کیفیت ہماری سمجھ سے باہر ہے ؟ "
فرمایا ! " بابا مومن کی شان ہے یہی ہے کہ وہ گرے تو پھر اٹھ کر کھڑا ہو جائے - لغزش کھائے تو پھر اپنی جگہ پر قائم ہو جائے -
مومن وہ نہیں ہوتا کہ جو کبھی ٹھوکر ہی نہ کھائے - غلطی ہی نہ کرے -
مومن وہ ہوتا ہے کہ ٹھوکر کھائے لیکن پھر اپنی جگہ پر مستعد ہو جائے - "
ہم نے ان کو جب ایک مختلف مقام پر پایا تو ان سے دعا کی درخوست کی -
انھوں نے دونوں ہاتھ اوپراٹھا کر کہا !
" الله سائیں مجھے ایسی طاقت عطا فرما کہ جن چیزوں کو میں تبدیل نہ کر سکوں ان کے لئے اپنی جان عذاب میں نہ ڈالوں اور جن چیزوں کو میں تبدیل کر سکون ان کے لئے مجھے جرأت عنایت فرمائی جائے -
ساتھ ہی مجھے وہ عقل بھی عطا فرمائی جائے ، جو ان دونوں حقیقتوں کے درمیان فرق کر سکے تا کہ میں بیکار اور بے یار و مددگار بھٹکتا نہ پھروں! "
از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

سارہ خان

محفلین
الله سے انسان محبت کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے الله بھی اس سے محبت کرے مگر محبت کے لئے وو کچھ دینے کو تیار نہیں - الله کے نام پر وو وہی چیز دوسروں کو دیتا ہے جسے وو اچھی طرح استمال کر چکا ہو یا پھر جس سے اسکا دل بھر چکا ہو - چاہے وہ لباس ہو یا جوتا - وہ خیرات کرنے والے کے دل سے اتری ہی چیز ہوتی ہے اور اس چیز کے بدلے خیرات کرنے والا الله کے دل میں اترنا چاہتا ہے

شہرذات
عمیرہ احمد
 

سارہ خان

محفلین
یہ جو پیسہ ہے نا اس کی گنتی اربوں کھربوں تک جاتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے.. جو چیز اربوں کھربوں تک جائے نا اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی.. ویلیو اس کی ہوتی ہے جو انگلیوں کی پوروں سے شروع ہو کر پوروں پر ہی ختم ہو جاتی ہے.. جیسے خون کے رشتے بہت بھی ہوں تو بس دونوں ہاتھوں کی پوریں ہی بھر پاتی ہیں.. ایک آدمی کے پاس پیسہ کھربوں ہو سکتا ہے رشتے اربوں کھربوں نہیں ہو سکتے.. تو بس یاد رکھنا جو چیز کم تعداد یا مقدار میں ملے اس کی ویلیو زیادہ ہے. جو ڈھیروں کے حساب سے مالے اس کی ویلیو کم ۔۔۔۔
من وسلوی
عمیرہ احمد
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک دکھی اور سوگی آدمی جب سوچتا ہے کہ اس کو دکھوں سے اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور آنند میں رہنا چاہیے تو وہ ایک بنیادی غلطی میں مبتلا ہو جاتا ہے -

یعنی وہ ایسی چیزوں کی فہرست تیار کرنے میں لگ جاتا ہے جن سے اس کو بچنا چاہیے-
اس فہرست کی تیاری میں وہ سب سے اہم چیز لکھنی بھول جاتا ہے کہ سب سے پہلے اس کو اپنے آپ سے بچنا چاہیے مثلا وہ پروگرام بناتا ہے کہ مجھے ان لوگوں سے تکلیف پہنچی ہے مجھے ان لوگوں کو چھوڑ دینا چاہیے اور ان کی بجائے کچھ دوسرے دوستوں کو اختیار کرنا چاہیے-
لیکن وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ نئے دوستوں کے پاس بھی اپنا پرانا آپ اور اپنے پرانے خیال لے کر جائے گا.
وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جو شخص ذہنی ٹھوکریں کھاتا ہے وہ قدم کی ٹھوکر ضرور کھاتا ہے.

ہر روز کا ایک وظیفہ یاد رکھیے کہ مجھے اپنے آپ کو درست کرنا ہے اور اپنا آپ سنوارنا ہے-

از اشفاق احمد، بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آپ کے وجود کا ایک حصہ تو لوگوں کی توقعات کے مطابق رہنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے ، اور دوسرا سکون اور آرام سے زندگی گزارنے کی خواہش میں ڈوبا رہتا ہے -

دوسروں کی توقعات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ " دوسرا " ہم کو چھوڑ نہ دے -
ہم سے منہ نہ موڑ لے - اس لئے ہم اس کو خوش رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھی رہے ، دوست بنا رہے -

اس ڈر کا آسان علاج یہ ہے کہ " اپنے بن کر اور اپنے ہو کر رہو - "

اس کی چنداں ضرورت نہیں کہ لوگوں کی خواہش کے مطابق رہا جائے -

غلامی سے نکل کر آزاد ہو جاؤ - اپنی مرضی کرو ، جیسے پسند کرتے ہو ویسی زندگی بسر کرو -

اپنے بن کر رہنے میں کوئی اندیشہ نہیں ، کوئی تشویش نہیں ، وسواس نہیں ، مزے ہی مزے ہیں -

اس قدرتی حالت میں رہنے سے کوئی بھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیگا -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ اسلام کا مطلب سلامتی ہے -

جو شخص اسلام قبول کر لیتا ہے ، وہ سلامتی میں داخل ہو جاتا ہے -

اور جو شخص سلامتی میں داخل ہو جاتا ہے ، وہ سلامتی عطا کرتا ہے - اس کے مخالف عمل نہیں کرتا -

جس طرح ایک معطر آدمی اپنے گرد و پیش کو عطر بیز کر دیتا ہے - اسی طرح ایک مسلمان اپنے گرد و پیش کو خیر اور سلامتی سے لبریز کر دیتا ہے -

اگر کسی وجہ سے مجھ سے اپنے ماحول کو اور اپنے گرد و پیش کو سلامتی اور خیر عطا نہیں ہو رہی تو مجھے رک کر سوچنا پڑیگا کہ میں اسلام کے اندر ٹھیک سے داخل ہوں کہ نہیں -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
دو صوفی تھے- ایک بڑا صوفی ٹرینڈ اور ایک چھوٹا صوفی انڈر ٹریننگ-

چھوٹے صوفی کو ساتھ لے کر بڑا صوفی گلیوں،بازاروں میں گھومتا رہا.چلتے چلاتے اس کو لے کر ایک جنگل میں چلا گیا-
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کی، بڑی تابڑ توڑ بارش ہوئی تھی،جنگل بھیگا ہوا تھا اور اس جنگل میں جگہ جگہ لکڑیوں کے ڈھیر تھے-
پتوں کے شاخوں کے انبار تھے - اس بڑے صوفی نے دیکھا کہ شاخوں اور پتوں کے ڈھیر میں ایک سانپ مرجھایا ہوا، کچھ سنگھڑایا ہوا پڑا ہے-

صوفی کو بڑا ترس آیا - اس نے آگے بڑھ کر سانپ کو اٹھا لیا -

چھوٹے صوفی نے کہا، حضور کیا کرتے ہیں. سانپ ہے موذی ہے - اس کو اٹھایا نہیں کرتے-

انہوں نے کہا : نہیں بیچارہ ہے مجبور ہے، زخمی ہے، زخم خوردہ ہے،الله کی مخلوق ہے. اس کی کچھ غور و پرداخت کرنی چاہیے -
تو وہ سانپ کو ہاتھ میں لے کر چلے -
پھر دونوں باتیں کرتے کرتے کافی منزلیں طے کرتے گئے-
جب ٹھنڈی ہوا لگی، جھولتے ہوئے سانپ کو ،تو اسے ہوش آنے لگا.اور جب ہوش آیا تو طاقتور ہو گیا-
طاقتور ہو گیا تو اس نے صوفی کے ہاتھ پر ڈس لیا-

جب ڈسا تو انہوں نے سانپ کو بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ایک درخت کی جڑ کےپاس رکھ دیا-
کیوں کہ وہ اب ایک محفوظ جگہ پر پہنچ گیا ہے-
اب یہ یہاں پر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ریوایو (revive) کر لے گا.جہاں بھی اس کا دل ہو گا،چلا جائے گا.
چھوٹے صوفی نے کہا: "دیکھیں سر! میں نے کہا تھا نہ کہ یہ موذی جانور ہے -
آپ کو ڈس لے گا. پھر کیوں ساتھ اٹھا کے لے جا رہے ہیں؟

آپ تو بہت دانشمند ہیں.مجھے سکھانے پر مامور ہیں-

تو انہوں نے کہا: ڈسا نہیں اس کے شکریہ ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے- سانپ اسی طرح شکریہ ادا کیا کرتے ہیں."

از اشفاق احمد، زاویہ ١ ،
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرا دوست " ف " کہتا ہے محبّت بڑا بے زبان جذبہ ہے ، یعنی اظہار کے لئے زبان کا محتاج نہیں -

" ف " کہتا ہے میں موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والے کے انداز سے اس کے چلانے والے کیساتھ رشتے کا اندازہ لگا سکتا ہوں -

اگر موٹر سائیکل کے پیچی بیٹھی خاتون کے بجائے چلانے والے شرما رہا ہو تو سمجھ لیں وہ اس کی " اہل خانہ " ہے -

اور اگر وہ اس طرح بیٹھے ہوں کہ دیکھنے والے شرما رہے ہوں تو سمجھ لیں " اہل کھانا " ہے -

موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنا بھی ایک فن ہے - خواتین منہ ایک طرف کے کے یوں بیٹھتی ہیں کہ جیسے ابھی اترنے والی ہوں - بلکہ بعض اوقات بیٹھی ہوئی نہیں بٹھائی ہوئی لگتی ہیں -

کچھ خواتین تو خوفزدہ مرغی کی طرح پروں میں کئی بچے چھپائے ہوئی ہوتی ہیں - لگتا ہے سفر نہیں " suffer " کر رہی ہیں -

چند یوں بیٹھی ہوتی ہیں جیسے چلانے والے کی اوٹ میں نماز پڑھ رہی ہوں -

بعض تو دور سے کپڑوں کی ایک ڈھیری سی لگتی ہیں - جب تک یہ ڈھیری اتر کر چلنے نہ لگے ، پتا نہیں چلتا اس کا منہ کس طرف ہے ؟

نئے نویلی دلہن نے خاوند کو پیچھے سے یوں مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا ہے جیسے ابھی تک اس پر اعتبار نہ ہو -

جبکہ بوڑھی عورتوں کی گرفت بتاتی ہے کہ انھیں خود پر اعتبار نہیں -

جب میں کسی شخص کو سائیکل کے پیچھے بیٹھے دیکھتا ہوں جس نے اپنا جیسا انسان سائیکل میں جوت رکھا ہوتا ہے تو میری منہ سے بد دعا نکلتی ہے -

مگر جب میں کسی کو موٹر سائیکل کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلانے والے پر اعتماد کے بیٹھے دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے اس کے لئے دعا نکلتی ہے -

کیونکہ اس سیٹ پر مجھے اپنی پوری قوم بیٹھی نظر آرہی ہوتی ہے -

از ڈاکٹر یونس بٹ شیطانیاں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مرد کی ذات ایک سمندر سے مشابہ ہے - اس میں پرانے پانی بھی رستے بستے ہیں اور نئے دریا بھی آ کر گلے ملتے ہیں -

سمندر سے پرانی وفا اور نیا پیار علیحدہ نہیں کیا جا سکتا - وہ ان دونوں کے لئے کٹ مرے گا -

لیکن عورت اس جھیل کی مانند ہے جس کا ہر چشمہ اس کے اندر سے ہی نکلتا ہے - ایسے میں جب کہ جھیل کی زندگی اور ہے -

اور سمندر اور طرح سے رہتا ہے -

ان دونوں کا ہمیشہ یکجا رہنا کس قدر مشکل ہے -

مچھلی اور ابابیل کے سنجوگ کی طرح -

از بانو قدسیہ امر بیل
 
Top