مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بیٹا وہاں جا کر لوگوں کو اپنا علم عطا کرنے نے بیٹھ جانا ، ان کو محبّت دینا -
میں نے کہا سر ، محبّت تو ہمارے پاس گھر میں دینے جوگی بھی نہیں ، وہ کہاں سے دوں - میرے پاس تو علم ہی علم ہے -

کہنے لگے نہ انھیں علم نہ دینا - انھوں نے محبت سے بلایا ہے ، محبّت سے جانا اگر ہے تو لے کر جانا -

لیکن ہم تو ظاہر علم سکھاتے ہیں کہ اتنا اونچا روشندان رکھو ، مویشی کو اندر مت باندھو ، ناک سے سانس لو منہ سے نکالو - وغیرہ وغیرہ -

اور یہ محبّت ! میں نے کہا ، جی یہ بڑا مشکل کام ہے - میں یہ کیسے کر سکونگا - میں گیا کوششیں بھی کیں لیکن بالکل ناکام لوٹا -

کیونکہ علم عطا کرنا ، اور نصیحتیں کرنا بہت آسان ہے - اور محبّت دینا بڑا مشکل کام ہے -

از اشفاق احمد زاویہ ١ بابا کی تعریف
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کہتے ہیں جب حضرت عمر فاتح کے حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوئے اور نماز کا وقت آیا تو سوال پیدا ہوا کہ نماز کہاں ادا کی جائے ؟

مسلمانوں نے عیسائیوں سے بات کی ، عیسائیوں نے کہا : " بے شک آپ ہمارے گرجے میں نماز ادا کر لیں - "

حضرت عمر نے گرجے میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا انھوں نے کہا :

" اگر میں نے ایسا کیا تو لوگ کہیں گے کہ میں نے زبردستی عیسائیوں کی عبادت گاہ پر قبضہ کر لیا - اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا - ہم پر لازم ہے کہ ہم غیر مسلموں کی عبادت گاہ کا احترام کریں - "

سپین میں الحمرا کی دیواروں پر جگہ جگہ یہ عبارت لکھی ہوئی ہے :
" الله کے سوا کوئی غالب فاتح نہیں - "

مسلمانوں نے سپین پر حکومت کی تو یہی ان کا ماٹو رہا - قصہ یوں ہے کہ جب مسلمانوں نے ہسپانیہ کو فتح کر لیا اور غرناطہ کا مسلمان حکمران شہر میں داخل ہوا تو چاروں طرف سے لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور اسے " الغالب " کے خطاب سے نوازا -

اس پر حکمران نے جواب دیا کہ میں غالب یا فاتح نہیں ہوں - صرف الله کی ذات فاتح اور غالب ہے -

اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے سمجھ میں نہیں آتا آج کیوں کہا جاتا ہے مسلمانوں میں رواداری نہیں ؟

از ممتاز مفتی تلاش
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مہاتما بدھ کہتا ہے ۔“ اگر دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے مجھ سے پوچھا جاتا اور مجھے چوائس ملتی تو میں بوڑھا پیدا ہوتا اور بچہ ہو کر مرتا ۔“ ہر آدمی چاہے وہ کتنا بھی جوان نظر آنا چاہے مگر وہ رہنا بوڑھوں کی طرح چاہے گا ۔

ہر پرانی چیز قیمتی ہوتی ہے ۔ پرانا تو جھوٹ بھی نئے سچ سے زیادہ قابل اعتبار ہوتا ہے انسان کی جتنی عزت بڑھاپے میں ہوتی ہے اتنی ساری زندگی نہیں ہوتی جس کی وجہ یہ ے کہ بڑھاپے میں اس لیے عزت ہوتی ہے کہ اس وقت تک بندے کو جاننے والے ہم عمر بہت کم زندہ ہوتے ہیں ، دنیا میں کوئی بوڑھا بے وقوف نہیں ہوتا ، کیونکہ جو بے وقوف ہوتا ہے وہ بوڑھا نہیں ہوتا ۔

دنیا میں تین قسم کے بوڑھے ہوتے ہیں ایک وہ جو خود کو بوڑھا سمجھتے ہیں دوسرے وہ جنھیں دوسرے بوڑھا سمجھتے ہیں اور تیسرے وہ جو واقعی بوڑھے ہوتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مخلص ، بوڑھا مخلص ہوتا ہے اور سب سے برا دشمن بوڑھا دشمن کیونکہ اس کا اپنا تو کوئی مستقبل نہیں لیکن وہ آپ کا مستقبل خراب کرا سکتا ہے ۔

بڑھاپے کی اس سے زیادہ برائی اور کیا ہوگی کہ آپ کو پاکستان کا صدر بننے کے لیے جس کوالیفیکیشن کی ضرورت ہے وہ صرف بڑھاپا ہے ۔

دنیا میں جتنی عبادت ہوتی ہے اس میں نوے فیصد بڑھاپے میں ہوتی ہے ۔مجھے تو لگتا ہے قیامت میں بخشے نہ جانے والے لوگوں میں زیادہ تر وہی ہوں گے جنھیں بوڑھا ہونے کا موقع نہیں ملا ہوگا ، اس دنیا کو جنت بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کو بوڑھا کر دیا جائے ۔

( ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب شیطانیاں سے اقتباس )
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین

" بابا جی سارے لوگ مجھے اس علاج سے مایوس کراتے ہیں ، میں کیا کروں ؟ "

" ناں ناں پت - مسلمان کو مایوس ہونے کا حکم نہیں - شیطان کا اور کیا کام ہے پت - وہ انسان کو الله کی طرف سے مایوس کراتا ہے - آدمی کا معجزے پر اعتماد ختم کراتا ہے ناں ناں پت مایوسی گناہ ہے گناہ - "

" پر بابا جی "

" پر ور کوئی نہیں پت ........... اوپر والے پر کلی ایمان رکھو - جن کا ایمان مضبوط ہوتا ہے ان کے لئے ستے خیراں - ان کے لئے معجزے ہوتے ہیں - "

یکدم انھوں نے تہ خانے میں نظر دوڑائی اور پھر حیران ہو کر بولے - اشفاق صاحب ھمارے جانی جان کہاں ہیں ؟

" خان صاحب تو آج نہیں آسکے بابا جی "

بابا جی اٹھ کھڑے ہوئے ! " ناں بیٹا ناں ، محرم کے بغیر کہیں نہیں آنا جانا - حج اور عمرے پر بھی نہیں - جہاں محرم ساتھ نہ ہو وہاں شیطان تیسرا فریق بن کر ساتھ بیٹھ جاتا ہے -
پھر خطرہ تو ہر وقت موجود ہوتا ہے - شاباش پت - واپس جاؤ - محرم کو پکڑ کر ساتھ لاؤ - نہ آسکے تو پھر سہی - شاباش پت - "

ہم آزادی پسند پر اعتماد اپنے راستے اور فیصلےخود کرنے والی عورتیں تھیں اس بات سے ہم دونوں کو ٹھیس لگی -

از بانو قدسیہ راہ رواں
 

زبیر مرزا

محفلین
بابا کے تو ہم شیدائی ہیں اور آپا کا لفظ لفظ روشنی کا نا بجھنے والا چراغ- شیئر کرنے کا بہت شکریہ
نوجوان اشفاق احمد گڈریا کے داؤجی کی داستان رقم کرتا ہے تو اردوادب کو تازگی عطا کرتا ہے اور جب بوڑھا اشفاق احمد
اماں سرداربیگم لکھتاہے تو اردوادب کو بلندیوں پر لے جاتاہے کہ اسکا مقابلہ دنیا کے بڑے سے بڑے افسانے سے کیا جاسکتا ہے
 

زبیر مرزا

محفلین
جفا کم کن کہ فراد روز محشر
بہ پيش عاشقاں شر ماندہ باشی
کبھی دونوں ہتھيلياں زور زور سے زمين پر مارتے اور سر اوپر اٹھا کر انگشت شہادت فضا ميں يوں ہلاتے جيسے کوئی ان کے سامنے کھڑا ہو، اور اس سے کہہ رہے ہوں ديکھ لو، سوچ لو۔۔۔۔ ميں تمھيں۔۔۔۔ ميں تمھيں بتا رہا ہوں۔۔۔۔سنا رہا ہوں۔۔۔۔ ايک دھمکی ديتے جاتے تھے اور پھر تڑپ کر ٹھيکريوں پر يوں گرتے اور جفا کم کن کہتے ہوئے رونے سے لگتے، تھوڑی دير ميں ساکت اور جامد کھڑا رہا، داؤ جی ضرور اسم اعظم جانتے تھے، اور جن کو قابو ميں کر رہے تھے، ميں نے اپنی آنکھوں سے ايک جن انکے سامنے کھڑا ديکھا تھا، بالکل الف ليلہ باتصوير والا جن، جب داؤ جی کا طلسم اس پر نہ چل سکا، تو اس نے انھيں نيچے گراليا تھا، وہ چيخ رہتے تھے، جفا کم کم جفا کم کم مگر وہ چھوڑتا نہيں تھا، ميں اسی ڈھيلے پر بيٹھ کر رونے لگا۔۔۔۔تھوڑی در بعد داؤ جی آئے، انھوں نے پہلے جيسا چہرہ بنا کر کہا، چل طنبورے اور ميں ڈرتا ڈرتا ان کے پيچھے ہوليا، راستے ميں انھوں نے گلے ميں لٹکی ہوئی کھلی پگڑی کے دونوں کونے ہاتھ ميں پکڑ لئے اور جھوم جھوم کر گانے لگے۔
تيرے لمے لمے وال فريدا ٹريا جا

اشفاق احمد کی کتاب اُجلے پھول ( افسانےگڈریا) سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ممکن ہے آپ کی آنکھ میں ٹیڑھ ہو اور اس بندے میں ٹیڑھ نہ ہو - ایک واقعہ اس حوالے سے مجھے نہیں بھولتا جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے - یہ لاہور میں ایک جگہ ہے - وہ ان دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا اچھا پوش علاقہ تھا -

وہاں ایک بی بی بہت خوبصورت ، ماڈرن قسم کی بیوہ عورت ، نو عمر وہاں آ کر رہنے لگی - اس کے دو بچے بھی تھے -
ہم جو سمن آباد کے "نیک " آدمی تھے - ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے - اور اس کا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے -

ایک تو وہ انتہائی اعلا درجے کے خوبصورت کپڑے پہنتی تھی ، پھر اس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی -
تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتیں تھیں -
اس کے جو دو بچے تھے وہ گھر سے باہر بھاگتے پھرتے تھے ، اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے - لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے اور جن گھروں میں جاتے وہیں سے کھا پی لیتے - یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی -

اس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے - گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں - لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتیں تھیں -
ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کر سکتے -

اس کے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا ، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سنا رہا ہوں ، تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہونگے -
ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے محلے میں آباد ہو گئی ہے -

میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا ، وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی - کوئی کام نہیں کرتی تھی - اسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا - بچوں کو بھی کئے بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی -

ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گر گئی ، لوگوں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی -

تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی ، حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی -
جو بندے اس کے ہاں آتے تھے - انھوں نے ہی اس کے کفن دفن کا سامان کیا - بعد میں پتا چلا کے ان کے ہاں آنے والا ایک بندہ ان کا فیملی ڈاکٹر تھا -
اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا -
اس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی skin وغیرہ کی کہ اس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی -
جس پر زخم ایسے تھے اور اسے خوشبو کے لئے اسپرے کرنا پڑتا تھا ، تا کہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو -
اس کا لباس اس لئے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جو بدن کو نہ چبھے -

دوسرا اس کے گھر آنے والا وکیل تھا ، جو اس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا -
تیسرا اس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا ، جو اپنی بھابھی کو ملنے آتا تھا -

ہم نے ایسے ہی اس کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگا لیے اور نتائج اخذ کر لیے اور اس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا ، تو وہ بچوں کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لیے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی -

میرا یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام الله پر چھوڑ دیں وہ جانے اور اس کا کام جانے -
ہم الله کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائیں ، کیونکہ اس کا بوجھ اٹھانے سے آدمی سارے کا سارا "چبہ" ہو جاتا ہے ، کمزور ہو جاتا ہے ، مر جاتا ہے -

الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین

از اشفاق احمد زاویہ ٢ تنقید اور تائی کا فلسفہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
محبت میں” اب”، ”اور ”پھر نہیں ہوتے اور نہ ہی ”یہاں”،” وہاں” ہی ہوتے ہیں۔ سبھی موسم محبت کے موسم ہیں۔ سب ہی جگھیں ”محبت ” کا موزوں مسکن ہیں ۔”محبت ” کوئی رکاوٹیں گوارہ نہیں کرتی، جس محبت کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل ہو، سمجھ لو کہ وہ ابھی ”محبت” کہلائے جانے کی مستحق نہیں۔

(اقتباس: میخایل نعیمی کی کتاب "کتاب میر داد" سے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اگر تم نیکی پاکیزگی اور تقویٰ کے بغیر خدا کا نام لیتے ہو تو پھر خدا ایک نام ہی ہے - اس کے علاوہ کچھ نہیں -

از اشفاق احمد بابا صاحبہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہر انسان جو دنیا میں ہے وہ کسی نہ کسی چو پائے ، دو پائے . رینگنے والے ، تیرنے والے ، اڑنے والے جانور کی جبلت پر پیدا ہوا ہے -

جہاں یہ انسان اشرف المخلوقات ہے وہیں اپنی مخصوص حیوانی جبلت کی بنا پہ افضل اور اسفل رجحانات کا حامل بھی ہے -

انسان تمام عمر اپنے اسی جبلی تقاضوں کے مطابق عمل پیرا رہنے پر مجبور ہے -

اس کی یہ اچھی بری سعد، نحس ، جبلی خصلت اس کی سوچ بچار فیصلوں اور روز مرہ کے دیگر عوامل پر اثر انداز ہوتی ہے -

کوئی شیر ہے تو کوئی محض گیدڑ ، کوئی لومڑ کی خصلت رکھتا ہے تو کوئی ہرن کی مانند بھولا بھالا ہے -

کوئی شکرا تو کوئی کبوتر ہے - اور بلکل اسی طرح کوئی مچھلی ، مینڈک ، گدھ ، الو اور کوئی بکری کی طرح بزدل -

از بابا یحییٰ خان پیا رنگ کالا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بالکل اچانک جب آپ کو محسوس ہوتا ہے کے کوئی دوسرا آپ کے اندر اگنا شروع ہوگیا ہے
محبّت ایک دوسرے کے اندر اگنا ہے پہلے تو کسی بیج کی طرح دوسرے کے اندر فنا ہونا - اپنا آپ مٹا دینا پھر اگنا
جوں جوں محبّت بڑھتی ہے ایک دوسرے کے اندر جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں
اسس پودے کو ہر روز تازہ محسوسات اور جذبوں کی کھاد ،آنسوؤں کا پانی ، دوسرے کے سانسوں کی ہوا اور من کی پر حرارت دھوپ
کی ضرورت رہتی ہے- اگر کبھی آپ کو اپنا آپ مرجھاتا ہوا محسوس ہو تو سمجھ لیں کے دوسرے کے من کی زمین پتھریلی ہوگیئ ہے اور اس نے آپ کے اندر سے اپنی جڑیں بیدردی سے سمیٹ لی ہیں-
جب آپ ایک دوسرے کے اندر اگتے ہیں تو محبّت پھول بن کر کھل اٹھتی ہے اور اسس کی خوشبو آپ کے پورے بدن بدن میں پھیل جاتی ہے
، دوسرے کا وجود اور آپ کا وجود ایک ہوکر ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں- محبّت بری شفّاف چیز ہے کسی آئینے کی طرح
اس پر ہلکا سا ناگواری کا کوئی میلہ چھینٹا بھی فورآ دکھائی پڑ جاتا ہے
ہر سچی اور خالص چیز کے ساتھ یہی مسلہ ہے - تھوڑا سا ناخالص احساس بھی یکدم بری طرح محسوس ہونے لگتا ہے-اس لیہ کسی ایک بھی میلے لفظ ، جملے،کج ادائی یا دل کی کسی غافل دھڑکن سے محبّت کے سیب کو کیڑا لگ جاتا ہے .
-

مظہر السلام کی کتاب محبّت مردہ پھولوں کی سیمفونے سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اماں کو باسی کھانے، پرانے ساگ،اترے ہوئے اچار اور ادھ کھایی روٹیاں بہت پسند تھیں. دراصل وہ رزق کی قدردان تھیں، شاہی دستر خوان کی بھوکی نہیں تھیں.
میری چوٹی آپا کئی مرتبہ خوف زدہ ہو کر اونچی آواز میں چیخا کرتیں:

" اماں حلیم نہ کھاؤ، پھول گیا ہے. بلبلے اٹھ رہے ہیں"

"یہ ٹکڑا پھینک دیں اماں، سارا جلا ہوا ہے."

" اس سالن کو مت کھائیں، کھٹی بو آرہی ہے"

"یہ امرود ہم نے پھینک دئے تھے، ان میں سے کیڑا نکلا تھا."

" لقمہ زمین سے نہ اٹھائیں، اس سے جراثیم چمٹ گئے ہیں"

" اس کٹورے میں نہ پیئیں ، یہ باہر بھجوایا تھا"

لیکن اماں چوٹی آپا کی خوف ناک للکاریوں کی پرواہ کئے بغیر مزے سے کھاتی چلی جاتیں. چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں اس لئے جراثیموں سے نہیں ڈرتی تھیں، صرف خدا سے ڈرتی تھیں !

از اشفاق احمد ، صبحانے فسانے ،عنوان اماں سردار بیگم
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
لا علی قاری حنفی رحمہ اللہ علیہ نے شمائل ترمذی کی شرح میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ خلیفئہ وقت ابو جعفر منصور کسی بات پہ سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ سے ناراض ہوگیا اور مکہ مکرمہ حکم بھیج دیا کہ سفیان ثوری رحمتہ اللہ کو پھانسی دینے کیلئے سولی نصب کی جائے ۔ جب اس بات کی اطلاع حضرت ثوری رحمتہ اللہ علیہ کو ملی تو آپ آرام فرما رہے تھے ۔ شاگرد نے مشورہ دیا کہ آپ منصور کے آنے سے پہلے کچھ دنوں کیلئے روپوش ہوجائیں ۔ یہ سن کر حضرت ثوری رحمتہ اللہ اطمینان سے اٹھے اور بیت اللہ پہنچ کر غلاف سے چمٹ گئے اور کہا کہ یا اللہ ! اگر ابوجعفر مکہ پہنچا تو تیری میری دوستی ختم ۔
انکا یہ کہنا تھا کہ اطلاع پہنچ گئی کہ ابوجعفر منصور مکہ پہنچنے سے پہلے ہی مرگیا ہے ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
فرعونوں نے مصر پر تین ہزار تین سو سال تک حکومت کی تھی. تاریخ میں 33 فرعون گزرے ہیں. ہر فرعون کو تقریبا سو سال تک اقتدار ملا تھا. حضرت موسیٰ کے ساتھ آخری فرعون کا مقابلہ ہوا، یہ پانی میں ڈوبا اور اس کے ساتھ ہی فرعونوں کا اقتدار بھی ڈوب گیا. فرعون ختم ہو گئے اور ریت نے ان محلات کو ڈھانپ لیا. یہ ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے بن گئے. ان ٹیلوں کے ارد گرد لکسر کا شہر آباد ہو گیا . ان ٹیلوں میں سے کسی ایک ٹیلے پر ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی گئی. 1900 کے شروع میں کھدائی شروع ہوئی فرعون کا محل ریت سے برآمد ہوا تو پتا چلا کہ یہ مسجد فرعون کے خصوصی دربار کے اوپر بن گئی تھی. یہ مسجد آج تک قائم ہے. اوپر مسجد اور نیچے فرعون کا دربار ہے.
کل شام سورج اپنی شعائیں سمیٹ رہا تھا.ہم فرعون کے سنگی ستونوں کے درمیان کھڑے تھے. سورج کی سرخ شعائیں نیل کے پانیوں میں غسل کر رہی تھیں. شام لکسر کے افق پر آہستہ آہستہ پر پھیلا رہی تھی.. میں پانچ ہزار سال پرانے محل کی کھڑکی میں کھڑا ہو گیا. میرے دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی سرخی نیل کے پانیوں میں گھل گئی.
اور اس کے ساتھ ہی فرعون کا محل اذان کی آواز سے گونج اٹھا. میں نے زندگی میں ہزاروں اذانیں سنی ہیں. لیکن فرعون کے محل میں اذان کی آواز کا اپنا ہی سرور تھا. موزن کی آواز کا اتار چڑھاؤ محل کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا. اور دیواروں پر لکھی تحریروں کو پیغام دے رہا تھا، دنیا کے ہر فرعون کو زوال ہے. لیکن الله کا پیغام دائمی ہے. اس دنیا میں اشھد ان لا الہٰ الله کے سوا ہر چیز فانی ہے. مجھے اذان کی اس آواز میں فرعون کا مجسمہ اداس دکھائی دیا. مجھے محسوس ہوا جیسے وہ اپنے گزرے تکبر پر نوحہ کناں ہو.

از جاوید چودھری ، کالم " نیل کے ساحل سے "
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک بڑی خوبصورت دھان پان کی پتلی سی لڑکی ایک ٹوٹے سے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر انار کلی بازار آئی- وہاں میں اپنے دوست ریاض صاحب کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا -

اس لڑکی نے آ کر کہا کہ کیا آپ کے پاس کوئی اعلیٰ درجے کا عروسی جوڑا ہوگا - تو میرے دوست نے کہا کہ جی بلکل ہے -

یہ دس ہزار کا ہے - یہ پندرہ ہزار کا - یہ بیس ہزار کا ہے - پسند کر لیجئے - بہت اچھے ہیں- یہ پچیس ہزار کا بھی ہے -

وہ کہنے لگی بس بس یہاں تک کا ہی ٹھیک ہے - کیا مجھے اس پہن کر دیکھنے کی اجازت ہے -

میرے دوست کہنے لگے ہاں ہاں ضرور - یہ ساتھ ہمارا ٹرائے روم ہے آپ ٹرائے کریں -

وہ لڑکی اندر گئی اس کے ساتھ ایک سہما ہوا اور ڈرا ہوا نوجوان بھی تھا -

وہ عروسی جوڑا پہن کر باہر نکلی تو دوکاندار نے کہا !
" سبحان الله بیبی یہ تو آپ پر بہت سجتا ہے ایسی دلہن تو ہمارے پورے لاہور میں کبھی ہوئی نہ ہوگی "

(جس طرح سے دوکاندار کہتے ہیں )

کہنے لگی جی بڑی مہربانی ٹھیک ہے - اسے دوبارہ سے پیک کر لیں -

وہ مزید کہنے لگی کہ میں تو صرف ٹرائے کے لئے آئی تھی میں اپنے اس خاوند کو جو میرے ساتھ آیا ہے یہ بتانے کے لئے لائی تھی کہ اگر ہم امیر ہوتے اور ہمارے پاس عروسی جوڑا ہوتا اور اگر میں پہن سکتی تو ایسی دکھائی دیتی -

آج ہماری شادی کوسات دن گزر چکے ہیں - ہم الله کے فضل سے بہت خوش ہیں - لیکن میں اپنے خاوند کو جو بڑا ہی ڈپریسڈ رہتا ہے اسے خوش کرنے آئی تھی -

میرے دوست نے کہا کیا آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں ؟

اس نے کہا نہیں ہمارے پاس پیسے تو تھے لیکن میری ایک چھوٹی بہن جو ایم بی بی ایس کر رہی ہے اس کو پیسوں کی ضرورت تھی اور میرے والدین نے کہا کہ اگر میں یہ قربانی دوں تو اس کی ضرورت پوری ہو جائے -

تب میں نے کہا کہ بسم اللہ یہ زیادہ ضروری ہے - چنانچہ میں نے سادہ کپڑوں میں ہی شادی کر لی -

جب یہ بات میں اپنے دوستوں کے پاس لے گیا تو انھوں نے کہا کہ it is too good to be true -

از اشفاق احمد زاویہ ٢ محاورے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اپنا فائدہ سوچنے والا انسان دوسروں کو صرف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ کسی کو فائدہ پہنچانا نہیں چاہتااور اس طرح وہ بے فیض ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسان دوسروں کے کام نہ آئے تو ان سے کام لینا ظلم ہے۔ یہ ظلم دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر صاحبِ مقام اور صاحبِ مرتبہ انسان اپنے مقام اور اپنے مرتبے کا خراج وصول کرتا ہے۔

حضرت وا صف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جب بھی تم پر کوئی موڈ طاری ہو ، غم کا موڈ ، غصے کا موڈ ، نفرت کا ، شہوت کا ، خوشی کا جولانی کا حتیٰ کہ نماز میں بھی کوئی موڈ طاری ہو تو ہمیشہ یاد رکھیے کہ یہ بھی گزر جائیگا -

بس اس کو ایک عادت بنا لو کہ یہ بھی جائیگا - اور یہ بھی گزر جائیگا -

حقیقت یہ ہے کہ موڈ گزر جاتا ہے ، چلا جاتا ہے - اور تم صاف ستھرے رہ جاتے ہو دھوئے دھلائے -

آہستہ آہستہ تم میں یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنے آپ کو موڈ سے دور کر لو - پھر تم میں اور موڈ میں فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے دوئی پیدا ہو جاتی ہے -

پھر تم ایک تماشا بن جاتے ہو اور موڈ کو ایک شاہد کے طور پر ایک گواہ عینی گواہ کے طور پر دیکھنے لگ جاتے ہو -

پھر تم پر خاموشی اترتی ہے - وہ خاموشی نہیں جو تم زبردستی اپنے آپ پر طاری کرتے ہو یا زور لگا کر چپ اختیار کرتے ہو -

یہ خاموشی اور طرح کی ہوتی ہے ، جو غیر معلوم سے آتی ہے - کسی نا معلوم مقام سے - عرش سے ، عرش عظیم سے ، تحفہ بن کر

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جو اس بنا پر الله کا انکار کرتے ہیں کہ ہم نے نہیں دیکھا آپ ان سے دنیا کے ممالک کے بارے میں پوچھیں کہ یہ ممالک کا نام بھی لے دیں گے.جو انہوں نے نہیں دیکھے ہوئے . آپ ان سے پوچھو گے یہ ممالک تم نے دیکھے ہیں؟ کہے گا لوگوں نےبتایا ہے . تعجب ہے جس کی گواہی چند بندوں نے دی اس کو بنا دیکھے مان رہے ہو. اور جس کی گواہی ساری کائنات دے رہی ہے. آدمی کا وجدان دے رہا ہے اس کا انکار کر رہے ہو.

ہوا ہے ، نظر نہیں آتی......... پھر بھی مانتے ہیں .
غم ہے نظر نہیں آتا............ پھر بھی مانتے ہیں .
درد ہے نظر نہیں آتا........... پھر بھی مانتے ہیں .
روح ہے نظر نہیں آتی........ پھر بھی مانتے ہیں .
یہ تمام نظر نہیں آتے، تم مانتے ہو.
صرف الله کو دیکھنے کی شرط کیوں ؟

محمد مختار شاہ کی کتاب " آہ " سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بغداد میں ایک نوجوان تھا - وہ بہت خوبصورت تھا ، اور اس کا کام نعل سازی تھا - وہ نعل بناتا بھی تھا اور گھوڑے کے سموں پر چڑھاتا بھی تھا -
نعل بناتے وقت تپتی بھٹی میں سرخ شعلوں کے اندر وہ نعل رکھتا اور پھر آگ میں اسے کسی " جمور " یا کسی اوزار کے ساتھ نہیں پکڑتا تھا بلکہ آگ میں ہاتھ ڈال کے اس تپتے ہوئے شعلے جیسے نعل کو نکال لیتا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے (shape) شکل دیتا تھا -
لوگ اسے دیکھ کر دیوانہ کہتے اور حیران بھی ہوتے تھے کہ اس پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا -

وہاں موصل شہر کا ایک شخص آیا جب اس نے ماجرا دیکھا تو اس نے تجسس سے اس نوجوان سے پوچھا کہ اسے گرم گرم لوہا پکڑنے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا ؟
اس نوجوان نے جواب دیا کہ وہ جلدی میں لوہے کو اٹھا لیتا ہے اور اب اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے کہ میرا ہاتھ اسے برداشت کرنے کا عادی ہوگیا ہے -
اور اسے کسی جمور یا پلاس کی ضرورت نہیں پڑتی -
اس شخص نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا " یہ تو کوئی اور ہی بات ہے - "
اس نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اس کی حقیقت بتاؤ ؟

اس نوجوان نے بتایا کہ بغداد میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی اور اس کے والدین عمرے کے لیے گئے ، اور کسی حادثے کا شکار ہو کے وہ دونوں فوت ہو گئے - اور یہ لڑکی بے یار و مددگار اس شہر میں رہنے لگی -

وہ لڑکی پردے کی پلی ہوئی ، گھر کے اندر رہنے والی لڑکی تھی اب اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کیسے گزارے -
آخر کار نہایت غمزدہ اور پریشانی کی حالت میں وہ باہر سڑک پر نکل آئی -
اس نے میرے دروازے پر دستک دی اور کہا " کیا ٹھنڈا پانی مل سکتا ہے "
میں نے کہا ہاں اور اندر سے اس لڑکی کو ٹھنڈا پانی لا کر پلایا اور اس لڑکی نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے -

میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں ؟
اس لڑکی نے کہا نہیں میں نے کچھ نہیں کھایا -

میں نے اس سے اکیلے اس طرح پھرنے کی وجہ پوچھی تو اس لڑکی نے اپنے اوپر گزرا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں زندگی کیسے بسر کروں -
میں نے اس سے کہا کہ تم شام کو یہیں میرے گھر آجانا اور میرے ساتھ کھانا کھانا - میں تمھیں تمہاری پسند کا ڈنر کھلاونگا وہ لڑکی چلی گئی -

اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے کباب اور بہت اچھی اچھی چیزیں تیار کیں وہ شام کے وقت میرے گھر آگئی اور میں نے کھانا اس کے آگے چن دیا -
جب اس لڑکی نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی اور میری نیت بدل گئی کیوں کہ وہ انتہا درجے کا ایک آسان موقع تھا - جو میری دسترس میں تھا -

جب میں نے دروازے کی چٹخنی چڑہائی تو اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اس نے کہا کہ میں بہت مایوس اور قریب المرگ اور اس دنیا سے گزر جانے والی ہوں -
اس نے مزید کہا " اے میرے پیارے بھائی تو مجھے خدا کے نام پر چھوڑ دے "

وہ نوجوان کہنے لگا میرے سر پر برائی کا بھوت سوار تھا - میں نے اس سے کہا کہ ایسا موقع مجھے کبھی نہیں ملے گا میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتا -
اس لڑکی نے مجھے کہا کہ
" میں تمھیں خدا اور اس کے رسول کے نام پردرخواست کرتی ہوں کہ میرے پاس سوائے میری عزت کے کچھ نہیں ہے اور ایسا نہ ہو کہ میری عزت بھی پامال ہو جائے اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچے اور پھر اس حالت میں اگر میں زندہ بھی رہوں تو مردوں ہی کی طرح جیئوں "

اس نوجوان نے بتایا کہ لڑکی کی یہ بات سن کرمجھ پر خدا جانے کیا اثر ہوا ، میں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ

" مجھے معاف کر دینا میرے اوپر ایک ایسی کیفیت گزری تھی جس میں میں نبرد آزما نہیں ہو سکا تھا لیکن اب وہ کیفیت دور ہو گئی ہے تم شوق سے کھانا کھاؤ اور اب سے تم میری بہن ہو - "

یہ سن کر اس لڑکی نے کہا کہ

" اے الله میرے اس بھائی پر دوزخ کی آگ حرام کر دے - "

یہ کہ کر وہ رونے لگی اور اونچی آواز میں روتے ہوئی کہنے لگی کہ

" اے الله نہ صرف دوزخ کی آگ حرام کر دے بلکہ اس پر ہر طرح کی آگ حرام کر دے - "

نوجوان نے بتایا کہ لڑکی یہ دعا دے کر چلی گئی - ایک دن میرے پاس زنبور (جمور) نہیں تھا اور میں دھونکنی چلا کر نعل گرم کر رہا تھا میں نے زنبور پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ دہکتے ہوئے کوئلوں میں چلا گیا لیکن میرے ہاتھ پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا -

میں حیران ہوا اور پھر مجھے اس لڑکی کی وہ دعا یاد آئی اور تب سے لے کر اب تک میں اس دہکتی ہوئی آگ کو آگ نہیں سمجھتا ہوں بلکہ اس میں سے جو چاہے بغیر کسی ڈر کے نکال لیتا ہوں

از اشفاق احمد زاویہ ٣ ڈیفنسو ویپن
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بڑے سالوں کی بات ہے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا دعا کریں مجھے کام مل جائے
میں نے کہا ، تم یقین سے کہتے ہو تمھیں کام کی تلاش ہے ؟

کہنے لگا حد کرتے ہو میں پچھلے دو سال سے بیکار ہوں ، اگر مجھے کام کی تلاش نہ ہوگی تو کسے ہوگی ؟

میں نے کہا ، اچھا اگر تمھیں کام مل جائے اور اگر معاوضہ نہ ملے تو پھر ......... ؟
وہ حیران ہو کر
میری طرف دیکھنے لگا ، تو میں نے کہا !

اچھا اگر تمھیں کام مل جائے اور کام کرنے کی تنخواہ نہ ملے پھر .....؟

گھبرا کر کہنے لگا ، مجھے ایسا کام نہیں چاہئے جیسا کہ تم کہ رہے ہو مجھے نوکری والا کام چاہیے - ایسا کام جس کے دام ملیں -

میں نے کہا اچھا........... !

اگر تم کو تنخواہ ملتی رہے اور کام نہ کرنا پڑے .................... پھر ؟

کہنے لگا سبحان الله ایسا ہو جائے تو اور کیا چاہئے -

میں نے کہا پھر تمھیں کام کی تلاش نہیں ، تنخواہ کی اور معاوضے کی تلاش ہے .......................

اسی طرح ہم خدا کے ساتھ کرتے ہیں بظاہر عبادت ................. باطن کسی اور شے کا طلبگار ہوتا ہے

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 
Top