مختلف اشعار برائے تبصرہ و اصلاح

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اشعار بہت زیادہ ہیں، سو آپ کا تبصرہ ان سب پر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ آپ مختصرا ہی سہی، اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔۔جن اشعار کی اصلاح فوری سمجھ میں آجائے تو کر دیجئے، ورنہ یہ دردِ سر ہم پر ہی چھوڑئیے۔۔۔ اور صرف جو اشعار قابل قبول ہوں یا اچھے ہوں، انہیں ’’پاس‘‘ کیجئے ۔۔۔ گویا اس لڑی کا مقصد محض اتنا ہے کہ اشعار اور تک بندی کے انبار میں سے کچھ کام کا نکل سکتا ہو تو نکال لیا جائے ۔۔۔
گزارش بخدمت اساتذہ سخن:
محترم الف عین صاحب
اور
محترم محمد یعقوب آسی صاحب

یاد رکھ ان کو جو ہر گام ترے ساتھ رہیں
ہم تو ہیں قصہِ پارینہ، بھلا دے ہم کو
۔۔۔
کہنہ جذبات کو اظہار نیا دیتی ہے
فکر حیوان کو انسان بنا دیتی ہے
۔۔۔۔
کون کہتا ہے صرف ہم گزرے
آپ تنہائیوں سے کم گزرے
یاد کرکے ترے تبسم کو
ہم جہاں سے بہ چشمِ نم گزرے
۔۔۔
بھلا تم سے بھی کیا شکوہ ہو آنکھوں کے بدلنے کا
ہماری شکل خود ہم سے بھی پہچانی نہیں جاتی
۔۔۔۔
بصد شوق و محبت جلوہء مہتاب دیکھیں گے
ذرا سی آنکھ لگ جائے تو پھر ہم خواب دیکھیں گے
تمناؤں کا خوں ہوتے ہوئے دیکھا ہے لفظوں سے
نگاہِ سرد سے خونِ جگر برفاب دیکھیں گے
من و سلویٰ بھی دیکھیں گے کہیں موسیٰ کے قدموں میں
کہیں ہم نیل میں فرعون کو غرقاب دیکھیں گے
ذبیح اللہ کے آدابِ فرزندی بھی سمجھیں گے
خلیل اللہ کی خاطر آگ بھی پایاب دیکھیں گے
تجھے جب اے زلیخا دیکھ لیں گے عشق میں حیراں
میانِ مصر حسنِ یوسفِ نایاب دیکھیں گے
ہمیں تقدیسِ مریم کی گواہی جن سے ملتی ہے
وہ روح اللہ کے گھر کے ہواوآب دیکھیں گے
حزیں توفیق رب سے یہ بھی ممکن ہے کہ ہم دیکھیں
جنابِ سرورِ عالم کو جب اصحاب دیکھیں گے
۔۔۔
اس کو مجھ سے کبھی ملنا تو نہیں ہے لیکن
دل دھڑکتا ہے تو اُمید سی بندھ جاتی ہے
کاش تم کو بھی عطا ہو تو سمجھ پاؤ مجھے
ایک خواہش جو مسلسل مجھے تڑپاتی ہے
نام لیتی ہے تمہارا جو کبھی میری زباں
پھر اسی نام کو بے ساختہ دہراتی ہے
۔۔۔۔
یہ زمانہ ہے اجنبی ہم سے
آکسی اور زمانے میں چلیں
۔۔۔۔
ہم نے دیکھا ہے غور سے اس کو
اک سمندر ہے تیری آنکھوں میں
۔۔۔
زمانہ ان کی کم علمی پہ جب آنسو بہاتا ہے
نہ وہ ہوتے ہیں شرمندہ نہ وہ رنجور ہوتے ہیں
جو اہلِ علم ہیں گمنامیوں میں کھوئے رہتے ہیں
جو شاعر ہی نہیں ہوتے وہی مشہور ہوتے ہیں
۔۔۔
قافیہ بنتے ہوئے پائے مسلسل مجھ کو
اک غزل میں جو کوئی لائے مسلسل مجھ کو
یاد آتا ہی چلا جائے مسلسل مجھ کو
میرا چہرہ کوئی دکھلائے مسلسل مجھ کو
غمگساری تری چٹان بنا دیتی ہے
زخم جب کھاتا چلا جائے مسلسل مجھ کو
یاد آتا ہے کبھی آنکھ چرانا ان کا
ان کا تکنا وہ کبھی ہائے مسلسل مجھ کو
کوئی آنکھوں میں سمندر لیے بن جائے سراب
کوئی صحراؤں میں بھٹکائے مسلسل مجھ کو
جب خیال آئے گا تم غور سے دیکھو گے مجھے
دل ہی دل میں یہ کسک کھائے مسلسل مجھ کو
کوئی سمجھے تو فقط حرف نہیں ہوں میں حزیں
وہ سبق ہوں کوئی دہرائے مسلسل مجھ کو
۔۔۔
مسلسل جی جلاتی ہے کوئی یادوں کی پرچھائی
مسلسل یاد آتی ہے کوئی خوشبو تمہیں کھو کر
کبھی ہم اتنے غم، اتنی مصیبت سے نہیں گزرے
مسلسل رو رہے ہیں خون کے آنسو تمہیں کھو کر۔
۔۔۔
ہم سیکھ رہے ہیں تری محفل کے ادب کو
گستاخ ہیں، اس خوف سے بیٹھا نہیں کرتے
۔۔۔
بیٹھ جاتے ہو تم قلم لے کر
ہم سے پوچھو یہ شاعری کیا ہے
۔۔۔
چل رہی ہے تو موت کی جانب
کیا کیاجائے زندگی تیرا؟
۔۔۔
بنتی ہے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ الگ
چنتے ہیں ذوق و شوق سے راہیں جدا جدا
مقسومِ زندگی ہے مسلسل بس اک تلاش
مفہومِ زندگی ہے کہ اب تک ہے گمشدہ۔۔
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
من و سلویٰ بھی دیکھیں گے کہیں موسیٰ کے قدموں میں
کہیں ہم نیل میں فرعون کو غرقاب دیکھیں گے
من و سلویٰ: من + نو + سَل + وا :)
۔۔۔
ذبیح اللہ کے آدابِ فرزندی بھی سمجھیں گے
خلیل اللہ کی خاطر آگ بھی پایاب دیکھیں گے
یہاں "خلیل اللہ" میں "ہ" کا گرنا ذرا بھلا نہیں لگ رہا، خاص طور پر جب کہ پہلے مصرعہ (ذبیح اللہ) میں مکمل حروف کی ادائیگی ہو رہی ہے۔ :)
۔۔۔
یہ زمانہ ہے اجنبی ہم سے
آکسی اور زمانے میں چلیں
دونوں مصرعے الگ الگ بحر میں ہیں :)
۔۔۔۔۔
مسلسل جی جلاتی ہے کوئی یادوں کی پرچھائی
مسلسل یاد آتی ہے کوئی خوشبو تمہیں کھو کر
یہ شاید پرچھائیں ہے :)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقیہ اشعار وزن میں ہیں اور کچھ اشعار تو دل کو چھونے والے ہیں (y)، جیسے یہ:
اس کو مجھ سے کبھی ملنا تو نہیں ہے لیکن
دل دھڑکتا ہے تو اُمید سی بندھ جاتی ہے
کاش تم کو بھی عطا ہو تو سمجھ پاؤ مجھے
ایک خواہش جو مسلسل مجھے تڑپاتی ہے
نام لیتی ہے تمہارا جو کبھی میری زباں
پھر اسی نام کو بے ساختہ دہراتی ہے
صرف ایک مشورہ ہے، اگر پہلے شعر میں "اس" کو "تم" سے بدل دیا جائے تو اشعار میں ایک تسلسل قائم ہو جائے گا، بقیہ دونوں اشعار میں "تم تمہارا" (حاضر) سے کلام ہے۔ :)
 
Top