مختصر مختصر : صبح

loneliness4ever

محفلین
مختصر مختصر

صبح

میں حامد کے پر جوش سلام کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ میں جانتا تھا کہ حامد اسی میز کے گرد کرسی کھینچ کر بیٹھے گا جہاں میں اور دیگر احباب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میرے علاوہ تمام ہی دوستوں نے حامد کا پر جوش استقبال کیا، مگر میں حامد کے آتے ہی چہرے پر ناگواری کے تاثرات لے کر اس جگہ سے اٹھ کر کچھ فاصلے پر موجود بچھی میز کے ساتھ لگی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا. میری اس حرکت پر تمام احباب کے چہرے پر ناگواری اور اداسی کی ملی جلی کیفیت نمایاں ہوگئی۔ برسوں پہلے کی حامد سے لڑائی آج تک میرے دل میں تازہ تھی۔ میں ماضی کی تلخی کے سبب اپنا خوشگوار حال ایسے ہی تلخ کر لیتا تھا۔ دوست اپنی جانب سے لاکھ کوششیں کر چکے تھے، خود حامد بھی کئی مرتبہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو چکا تھا۔ لیکن تلخی ختم کرنے کے لئے ہمیشہ حامد کی ہر کوشش کو میری ضد، انا ، سرد مہری نے رائیگاں کیا تھا اور میں ہر مرتبہ اپنے ایسے عمل پر مطمئن رہتا تھا، مگر آج جانے کیوں احباب کے درمیان سے اٹھ جانے پر میرا دل مطمئن نہیں ہو پا رہا تھا، مگر اپنی انا، ضد، ہٹ دھرمی کی اسیری کے سبب میں دوستوں سے دور محفل تمام ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
شادی اپنی روایت کے مطابق جاری تھی، بارات آنے کا انتظار کیا جا رہا تھا اور دوسری جانب میں اطمینان حاصل ہونے کا انتظار کر رہا تھا لیکن شاید میں آج اپنی انا سے بغاوت پر اتر آیا تھا۔ کتنا وقت کٹ گیا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ میری عمر، مال، نام، معاشرے میں مقام ..... غرض ہر کچھ بڑا تھا۔ مگر صد افسوس میرا دل گھٹ چکا تھا۔ بچپن میں چوٹ کھا کر، رو دھو کر بھی، لڑ جھگڑ کر بھی دل بڑا ہی رہتا تھا، صلح ہی کی جانب مائل رہتا تھا مگر آج عمر بڑھتے بڑھتے دل مختصرہو چکا تھا.... انا کا، ضد و ہٹ دھرمی کا، اپنی من مانی کرنے کا میل اتنا چڑھ گیا تھا کہ دل کی وسعت تمام ہو چکی تھی۔ میں ان ہی احساسات میں گھرا تھا کہ انا، خود پسندی، ہٹ دھرمی کے سیاہ بادلوں کو چیرتا آفتاب دل کے آسمان پر نمودار ہوگیا اورمجھے یوں محسوس ہوا کہ برسوں پر محیط رات تمام ہو چکی ہے، میں صبح کی تازگی کو اپنے انگ انگ میں محسوس کرتے ہوئے پل کی بھی تاخیر کئے بنا حامد سے ہاتھ ملانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔


طالب دعا
س ن مخمور
امر تنہائی

 
Top