ساتویں سالگرہ مختصر ایکٹیویٹی : ٹائپنگ صفحہ 4 از مداری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ ایکٹیویٹی ہفتہ لائبریری میں ان اراکین کے لیے شامل کی جا رہی ہے جو ٹائپنگ کرنا چاہیں:

آپ نے اس اسکین صفحہ کو ٹائپ کرنا ہے:

mad4.gif

جو رکن محفل فورم چاہیں اسے ٹائپ کر کے اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیں۔ اور ٹائپنگ سے پہلے یہاں اپنا نام نشاندہی کر دیں تاکہ ایک ہی صفحہ پر دوسرے اراکین کام نہ کریں۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
لوگ ہمیں سو اونس چاندی تو دے ہی دیں گے اور پھر میں تمھارے لیے چاند سی دلہن بیاہ لاؤں گا۔"
اب لڑکا رسی تھامے یوں اوپر جانے لگا جیسے کوئی مکڑی مہین سے دھاگے پر چڑھی جا رہی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادلوں میں گم ہو گیا اور پھر پیالے جتنا بڑا ایک آڑو زمین پر گرا۔ مداری نے خوشی سے بے قابو ہو کر آڑو افسروں کو پیش کر دیا اور افسری باری باری یہ دیکھنے لگے کہ آڑو اصلی تھا یہ نقلی ۔ اچانک رسی زمین پر آرہی اور مداری غم ناک لہجے میں چلا اٹھا : "اوپر کسی نے رسی کاٹ دی ، اب میرے بیٹے کا کیا بنے گا؟"
اور پھر کوئی شے دھم سے زمین پر گری۔ یہ لڑکے کا سر تھا۔ مداری نے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ بولا: "دربان نے یقینا اسے آڑو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو گا۔ میرا غریب بیٹا جان گنوا بیٹھا۔"
تب لڑکے کی ایک ٹانگ نیچے گری اور پھر جسم کے مختلف حصے ایک ایک کر کے گرنے لگے۔ مداری نے بے کسی کے عالم میں سارے ٹکڑے اٹھا کر ٹوکری میں ڈالے اور ڈھکنا بند کرتے ہوئے کہا : "وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا اور میرے ساتھ مارا مارا پھرتا تھا ۔ میرے حکم کی تعمیل میں اس نے جان دے دی۔ اب میں اس لاش کے یہ ٹکڑے لے جا کر دفن کر دوں گا۔"
اس کے بعد وہ چبوترے کی طرف گیا اور افسروں کے سامنے بیٹھ کر بولا : "میں نے اس ایک آڑو کی خاطر اپنے بچے کی جان گنوادی۔ خدا کے لیے مجھ پر ترس کھائیے اور اس کے کفن دفن کے لیے مدد کیجئے ۔ میں مرتے دم تک آپ لوگوں کا شکر گزار رہوں گا۔"
دہشت زدہ تماشائیوں نے سکوں کی بارش کر دی ۔ مداری نے سارے سکے اکٹھے کر کے جیب میں ڈالے اور اچانک پکارنے لگا : "بیٹے ! باہر آکر ان حضرات کا شکریہ ادا کرو۔"
یک لخت ٹوکری کا ڈھکنا کھلا۔ لڑکا بال بکھرائے کود کر باہر نکلا اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ وہ مداری کا بیٹا تھا ۔ یہ واقعہ اتنا حیران کن تھا کہ کئی روز تک میرے ذہن سے محو نہ
 
لوگ ہمیں سو اونس چاندی تو دے ہی دیں گے اور پھر میں تمھارے لیے چاند سی دلہن بیاہ لاؤں گا۔‘‘
اب لڑکا رسی تھامے یوں اوپر جانے لگا جیسے کوئی مکڑی مہین سے دھاگے پر چڑھی جا رہی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادلوں میں گم ہوگیا اور پھر پیالے جتنا بڑا ایک آڑو زمین پرگرا۔ مداری نے خوشی سے بے قابو ہوکر آڑو افسروں کو پیش کر دیا اور افسری باری باری یہ دیکھنے لگے کہ آڑو اصلی تھا یا نقلی۔ اچانک رسی زمین پر آرہی اور مداری غم ناک لہجے میں چلا اٹھا : ’’اوپر کسی نے رسی کاٹ دی، اب میرے بیٹے کا کیا بنے گا؟‘‘
اور پھر کوئی شے دھم سے زمین پر گری۔ یہ لڑکے کا سر تھا۔ مداری نے سرکو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ بولا: ’’دربان نے یقیناً اسے آڑو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو گا۔ میرا غریب بیٹا جان گنوا بیٹھا۔‘‘
تب لڑکے کی ایک ٹانگ نیچے گری اور پھر جسم کے مختلف حصے ایک ایک کرکے گرنے لگے۔ مداری نے بے کسی کے عالم میں سارے ٹکڑے اٹھا کر ٹوکری میں ڈالے اور ڈھکنا بند کرتے ہوئے کہا: ’’وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا اور میرے ساتھ مارا مارا پھرتا تھا۔ میرے حکم کی تعمیل میں اس نے جان دے دی۔ اب میں اس لاش کے یہ ٹکڑے لے جا کر دفن کر دوں گا۔‘‘
اس کے بعد وہ چبوترے کی طرف گیا اور افسروں کے سامنے بیٹھ کر بولا: ’’میں نے اس ایک آڑو کی خاطر اپنے بچے کی جان گنوادی۔ خدا کے لیے مجھ پر ترس کھائیے اور اس کے کفن دفن کے لیے مدد کیجئے۔ میں مرتے دم تک آپ لوگوں کا شکر گزار رہوں گا۔‘‘
دہشت زدہ تماشائیوں نے سکوں کی بارش کر دی۔ مداری نے سارے سکے اکٹھے کرکے جیب میں ڈالے اور اچانک پکارنے لگا: ’’بیٹے! باہر آکر ان حضرات کا شکریہ ادا کرو۔‘‘
یک لخت ٹوکری کا ڈھکنا کھلا۔ لڑکا بال بکھرائے کود کر باہر نکلا اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ وہ مداری کا بیٹا تھا۔ یہ واقعہ اتنا حیران کن تھا کہ کئی روز تک میرے ذہن سے محو نہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پروف ریڈنگ: دوسرا مرحلہ

محمد بلال اعظم بھائی

لوگ ہمیں سو اونس چاندی تو دے ہی دیں گے اور پھر میں تمھارے لیے چاند سی دلہن بیاہ لاؤں گا۔‘‘
اب لڑکا رسی تھامے یوں اوپر جانے لگا جیسے کوئی مکڑی مہین سے دھاگے پر چڑھی جا رہی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادلوں میں گم ہوگیا اور پھر پیالے جتنا بڑا ایک آڑو زمین پرگرا۔ مداری نے خوشی سے بے قابو ہوکر آڑو افسروں کو پیش کر دیا اور افسری باری باری یہ دیکھنے لگے کہ آڑو اصلی تھا یا نقلی۔ اچانک رسی زمین پر آرہی اور مداری غم ناک لہجے میں چلا اٹھا : ’’اوپر کسی نے رسی کاٹ دی، اب میرے بیٹے کا کیا بنے گا؟‘‘
اور پھر کوئی شے دھم سے زمین پر گری۔ یہ لڑکے کا سر تھا۔ مداری نے سرکو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ بولا: ’’دربان نے یقیناً اسے آڑو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو گا۔ میرا غریب بیٹا جان گنوا بیٹھا۔‘‘
تب لڑکے کی ایک ٹانگ نیچے گری اور پھر جسم کے مختلف حصے ایک ایک کرکے گرنے لگے۔ مداری نے بے کسی کے عالم میں سارے ٹکڑے اٹھا کر ٹوکری میں ڈالے اور ڈھکنا بند کرتے ہوئے کہا: ’’وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا اور میرے ساتھ مارا مارا پھرتا تھا۔ میرے حکم کی تعمیل میں اس نے جان دے دی۔ اب میں اس لاش کے یہ ٹکڑے لے جا کر دفن کر دوں گا۔‘‘
اس کے بعد وہ چبوترے کی طرف گیا اور افسروں کے سامنے بیٹھ کر بولا: ’’میں نے اس ایک آڑو کی خاطر اپنے بچے کی جان گنوادی۔ خدا کے لیے مجھ پر ترس کھائیے اور اس کے کفن دفن کے لیے مدد کیجئے۔ میں مرتے دم تک آپ لوگوں کا شکر گزار رہوں گا۔‘‘
دہشت زدہ تماشائیوں نے سکوں کی بارش کر دی۔ مداری نے سارے سکے اکٹھے کرکے جیب میں ڈالے اور اچانک پکارنے لگا: ’’بیٹے! باہر آکر ان حضرات کا شکریہ ادا کرو۔‘‘
یک لخت ٹوکری کا ڈھکنا کھلا۔ لڑکا بال بکھرائے کود کر باہر نکلا اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ وہ مداری کا بیٹا تھا۔ یہ واقعہ اتنا حیران کن تھا کہ کئی روز تک میرے ذہن سے محو نہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
لوگ ہمیں سو اونس چاندی تو دے ہی دیں گے اور پھر میں تمھارے لیے چاند سی دلہن بیاہ لاؤں گا۔"
اب لڑکا رسی تھامے یوں اوپر جانے لگا جیسے کوئی مکڑی مہین سے دھاگے پر چڑھی جا رہی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بادلوں میں گم ہو گیا اور پھر پیالے جتنا بڑا ایک آڑو زمین پرآگرا۔ مداری نے خوشی سے بے قابو ہو کر آڑو افسروں کو پیش کر دیا اور افسری باری باری یہ دیکھنے لگے کہ آڑو اصلی تھا یہ نقلی ۔ اچانک رسی زمین پر آرہی اور مداری غم ناک لہجے میں چلا اٹھا : "اوپر کسی نے رسی کاٹ دی ، اب میرے بیٹے کا کیا بنے گا؟"
اور پھر کوئی شے دھم سے زمین پر گری۔ یہ لڑکے کا سر تھا۔ مداری نے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ وہ بولا: "دربان نے یقینا اسے آڑو چوری کرتے ہوئے پکڑا لیا ہو گا۔ میرا غریب بیٹا جان گنوا بیٹھا۔"
تب لڑکے کی ایک ٹانگ نیچے گری اور پھر جسم کے مختلف حصے ایک ایک کر کے گرنے لگے۔ مداری نے بے کسی کے عالم میں سارے ٹکڑے اٹھا کر ٹوکری میں ڈالے اور ڈھکنا بند کرتے ہوئے کہا : "وہ میرا اکلوتا بیٹا تھا اور میرے ساتھ مارا مارا پھرتا تھا ۔ میرے حکم کی تعمیل میں اس نے جان دے دی۔ اب میں اس لاش کے یہ ٹکڑے لے جا کر دفن کر دوں گا۔"
اس کے بعد وہ چبوترے کی طرف گیا اور افسروں کے سامنے بیٹھ کر بولا : "میں نے اس ایک آڑو کی خاطر اپنے بچے کی جان گنوادی۔ خدا کے لیے ،مجھ پر ترس کھائیے اور اس کے کفن دفن کے لیے مدد کیجئے ۔ میں مرتے دم تک آپ لوگوں کا شکر گزار رہوں گا۔"
دہشت زدہ تماشائیوں نے سکوں کی بارش کر دی ۔ مداری نے سارے سکے اکٹھے کر کے جیب میں ڈالے اور اچانک پکارنے لگا : "بیٹے ! باہر آکر ان معززحضرات کا شکریہ ادا کرو۔"
یک لخت ٹوکری کا ڈھکنا کھلا۔ لڑکا بال بکھرائے کود کر باہر نکلا اور لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ وہ مداری کا بیٹا تھا ۔ یہ واقعہ اتنا حیران کن تھا کہ کئی روزتک میری ذہن سے محو نہ
 
Top