ساتویں سالگرہ مختصر ایکٹیویٹی : ٹائپنگ صفحہ 2 از مداری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ ایکٹیویٹی ہفتہ لائبریری میں ان اراکین کے لیے شامل کی جا رہی ہے جو ٹائپنگ کرنا چاہیں:

آپ نے اس اسکین صفحہ کو ٹائپ کرنا ہے:

mad2.gif


جو رکن محفل فورم چاہیں اسے ٹائپ کر کے اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیں۔ اور ٹائپنگ سے پہلے یہاں اپنا نام نشاندہی کر دیں تاکہ ایک ہی صفحہ پر دوسرے اراکین کام نہ کریں۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
مداری ہاتھ میں بانس لے کر لمبے بالوں والے ایک لڑکے کے ساتھ اسٹیج پر جا چڑھا۔ وہ لڑکا مداری کا بیٹا تھا ۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا ، مگر شورغل کی وجہ سے آواز ہم تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ افسر قہقہے لگانے لگے۔ اس کے بعد سادہ لباس والے ایک کارندے نے اسے اونچی آواز میں حکم دیا کہ کوئی شعبدہ دکھائے۔ مداری نے پوچھا کہ وہ کون سا شعبدہ دیکھنا پسند کریں گے تو افسروں نے کچھ کھسر پھسر کی اور پھر کارندے نے پوچھا: "بہترین شعبدہ کیا ہے؟"
مداری نے جواب دیا : "میں کوئی بھی غیبی چیز دکھا سکتا ہوں۔"
کارندہ جواب لے کر افسروں کے پاس گیا اور پھر واپس آکر کہا کہ وہ کچھ آڑو حاضر کر کے دکھائے۔ مداری نے ہامی بھر لی اور کوٹ اتار کر ٹوکری پر رکھتے ہوئے شکایت آمیز لہجے میں لڑکے سے بولا: "یہ افسر بہت ہی نامعقول ہیں۔ برف ابھی پگھلی نہیں ۔ میں آڑو کہاں سے لاؤں؟ لیکن اگر ہم نے کوشش نہ کی تو وہ خفا ہو جائیں گے۔ اب کیا کروں؟"
"ابا! آپ وعدہ کر چکے ہیں۔ اب انکار کی کوئی گنجائش نہیں ۔"اس کے بیٹے نے جواب دیا۔
مداری کچھ دیر منہ لٹکائے سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا: "میں نے خوب غور کیا ہے۔ ابھی تو برف کی موٹی تہہ جمی ہوئی ہے۔ زمین پر تو آڑو ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ ہاں، آسمانی ملکہ کے باغ میں شاید مل جائیں۔ صرف وہاں کے درخت سال بھرہرے بھرے رہتے ہیں ۔ ہمیں آسمان میں نقب لگانی پڑے گی۔"
لڑکے نے پوچھا:"مگر ہم آسمان پر کیسے جا سکتے ہیں؟"
مداری نے جواب دیا:"مجھے ایک طریقہ معلوم ہے۔"
اس نے ٹوکری کا ڈھکنا اٹھا کر رسی کا ایک لچھا نکال لیا۔ رسی کئی سو فیٹ لمبی تھی ۔ اس نے ایک سرا پکڑ کر اچھالا اور رسی ہوا میں تن کر اوپر کی طرف بڑھنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اوپر
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مداری ہاتھ میں بانس لے کر لمبے بالوں والے ایک لڑکے کے ساتھ اسٹیج پر جا چڑھا۔ وہ لڑکا مداری کا بیٹا تھا ۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا ، مگر شورغل کی وجہ سے آواز ہم تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ افسر قہقہے لگانے لگے۔ اس کے بعد سادہ لباس والے ایک کارندے نے اسے اونچی آواز میں حکم دیا کہ کوئی شعبدہ دکھائے۔ مداری نے پوچھا کہ وہ کون سا شعبدہ دیکھنا پسند کریں گے تو افسروں نے کچھ کھسر پھسر کی اور پھر کارندے نے پوچھا: "بہترین شعبدہ کیا ہے؟"مداری نے جواب دیا : "میں کوئی بھی غیبی چیز دکھا سکتا ہوں۔"کارندہ جواب لے کر افسروں کے پاس گیا اور پھر واپس آکر کہا کہ وہ کچھ آڑو حاضر کر کے دکھائے۔ مداری نے ہامی بھر لی اور کوٹ اتار کر ٹوکری پر رکھتے ہوئے شکایت آمیز لہجے میں لڑکے سے بولا: "یہ افسر بہت ہی نامعقول ہیں۔ برف ابھی پگھلی نہیں ۔ میں آڑو کہاں سے لاؤں؟ لیکن اگر ہم نے کوشش نہ کی تو وہ خفا ہو جائیں گے۔ اب کیا کروں؟"
"ابا! آپ وعدہ کر چکے ہیں۔ اب انکار کی کوئی گنجایش نہیں ۔"اس کے بیٹے نے جواب دیا۔ مداری کچھ دیر منہ لٹکائے سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا: "میں نے خوب غور کیا ہے۔ ابھی تو برف کی موٹی تہہ جمی ہوئی ہے۔ زمین پر تو آڑو ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ ہاں، آسمانی ملکہ کے باغ میں شاید مل جائیں۔ صرف وہاں کے درخت سال بھرہرے بھرے رہتے ہیں ۔ ہمیں آسمان میں نقب لگانی پڑے گی۔"لڑکے نے پوچھا:"مگر ہم آسمان پر کیسے جا سکتے ہیں؟"مداری نے جواب دیا:"مجھے ایک طریقہ معلوم ہے۔"اس نے ٹوکری کا ڈھکنا اٹھا کر رسی کا ایک لچھا نکال لیا۔ رسی کئی سو فیٹ لمبی تھی ۔ اس نے ایک سرا پکڑ کر اچھالا اور رسی ہوا میں تن کر اوپر کی طرف بڑھنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اوپر​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پروف ریڈنگ: دوسرا مرحلہ

محمد شعیب بھائی

مداری ہاتھ میں بانس لے کر لمبے بالوں والے ایک لڑکے کے ساتھ اسٹیج پر جا چڑھا۔ وہ لڑکا مداری کا بیٹا تھا ۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا ، مگر شورغل کی وجہ سے آواز ہم تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ افسر قہقہے لگانے لگے۔ اس کے بعد سادہ لباس والے ایک کارندے نے اسے اونچی آواز میں حکم دیا کہ کوئی شعبدہ دکھائے۔ مداری نے پوچھا کہ وہ کون سا شعبدہ دیکھنا پسند کریں گے تو افسروں نے کچھ کھسر پھسر کی اور پھر کارندے نے پوچھا: "بہترین شعبدہ کیا ہے؟"مداری نے جواب دیا : "میں کوئی بھی غیبی چیز دکھا سکتا ہوں۔"کارندہ جواب لے کر افسروں کے پاس گیا اور پھر واپس آکر کہا کہ وہ کچھ آڑو حاضر کر کے دکھائے۔ مداری نے ہامی بھر لی اور کوٹ اتار کر ٹوکری پر رکھتے ہوئے شکایت آمیز لہجے میں لڑکے سے بولا: "یہ افسر بہت ہی نامعقول ہیں۔ برف ابھی پگھلی نہیں ۔ میں آڑو کہاں سے لاؤں؟ لیکن اگر ہم نے کوشش نہ کی تو وہ خفا ہو جائیں گے۔ اب کیا کروں؟"​
"ابا! آپ وعدہ کر چکے ہیں۔ اب انکار کی کوئی گنجایش نہیں ۔"اس کے بیٹے نے جواب دیا۔مداری کچھ دیر منہ لٹکائے سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا: "میں نے خوب غور کیا ہے۔ ابھی تو برف کی موٹی تہہ جمی ہوئی ہے۔ زمین پر تو آڑو ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ ہاں، آسمانی ملکہ کے باغ میں شاید مل جائیں۔ صرف وہاں کے درخت سال بھرہرے بھرے رہتے ہیں ۔ ہمیں آسمان میں نقب لگانی پڑے گی۔"لڑکے نے پوچھا:"مگر ہم آسمان پر کیسے جا سکتے ہیں؟"مداری نے جواب دیا:"مجھے ایک طریقہ معلوم ہے۔"اس نے ٹوکری کا ڈھکنا اٹھا کر رسی کا ایک لچھا نکال لیا۔ رسی کئی سو فیٹ لمبی تھی ۔ اس نے ایک سرا پکڑ کر اچھالا اور رسی ہوا میں تن کر اوپر کی طرف بڑھنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اوپر​
 
مداری ہاتھ میں بانس لے کر لمبے بالوں والے ایک لڑکے کے ساتھ اسٹیج پر جا چڑھا۔ وہ لڑکا مداری کا بیٹا تھا۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا، مگر شورغل کی وجہ سے آواز ہم تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ افسر قہقہے لگانے لگے۔ اس کے بعد سادہ لباس والے ایک کارندے نے اسے اونچی آواز میں حکم دیا کہ کوئی شعبدہ دکھائے۔ مداری نے پوچھا کہ وہ کون سا شعبدہ دیکھنا پسند کریں گے تو افسروں نے کچھ کھسرپھسر کی اور پھر کارندے نے پوچھا: ’’بہترین شعبدہ کیا ہے؟‘‘​
مداری نے جواب دیا: ’’میں کوئی بھی غیبی چیز دکھا سکتا ہوں۔‘‘​
کارندہ جواب لے کر افسروں کے پاس گیا اور پھر واپس آکر کہا کہ وہ کچھ آڑو حاضر کرکے دکھائے۔ مداری نے ہامی بھرلی اور کوٹ اتار کر ٹوکری پر رکھتے ہوئے شکایت آمیز لہجے میں لڑکے سے بولا: ’’یہ افسر بہت ہی نامعقول ہیں۔ برف ابھی پگھلی نہیں۔ میں آڑو کہاں سے لاؤں؟ لیکن اگر ہم نے کوشش نہ کی تو وہ خفا ہو جائیں گے۔ اب کیا کروں؟‘‘​
’’ابا! آپ وعدہ کر چکے ہیں۔ اب انکار کی کوئی گنجایش نہیں ۔‘‘ اس کے بیٹے نے جواب دیا۔​
مداری کچھ دیر منہ لٹکائے سوچتا رہا اور پھر کہنے لگا: ’’میں نے خوب غور کیا ہے۔ ابھی تو برف کی موٹی تہہ جمی ہوئی ہے۔ زمین پر تو آڑو ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ ہاں، آسمانی ملکہ کے باغ میں شاید مل جائیں۔ صرف وہاں کے درخت سال بھرہرے بھرے رہتے ہیں۔ ہمیں آسمان میں نقب لگانی پڑے گی۔‘‘​
لڑکے نے پوچھا: ’’مگر ہم آسمان پر کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘​
مداری نے جواب دیا: ’’مجھے ایک طریقہ معلوم ہے۔‘‘​
اس نے ٹوکری کا ڈھکنا اٹھا کر رسی کا ایک لچھا نکال لیا۔ رسی کئی سو فیٹ لمبی تھی۔ اس نے ایک سرا پکڑ کر اچھالا اور رسی ہوا میں تن کر اوپر کی طرف بڑھنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اوپر​
 
Top