اقتباسات مختار مسعود کی کتاب "سفر نصیب " سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
مختار مسعود کی کتاب "سفر نصیب " سے اقتباس​
" یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے اس کی بڑائی میں مردم شماری کے علاوہ اور بہت سی باتوں کو دخل ہے لوگ بے حد مصروف ہیں ۔فراغت صرف آزادی کے مجسمے کو حاصل ہے ۔عمارتیں بہت اونچی ہیں ۔زندگی بسر کرنے کے لیے نا موزوں' خود کشی کرنے کے لیے شایان شان ۔گلیاں سر شام غیر محفوظ ہو جاتی ہیں البتہ وال سٹریٹ میں دن کے وقت خطرہ زیادہ ہوتا ہے سڑکیں ہیں جن پر ٹریفک روک کر عمر رواں کو پہلے گزرنے کا موقع دیا جاتا ہے سرنگیں ہیں جو یہاں سے نکل کر دوسرےملکوں میں نقب لگاتی ہیں ۔تجارت اس شہر کا پیشہ ہے یہاں ہر شے قیمت یا کرإئے پر مل جاتی ہے 'بالخصوص حال اور مستقبل'البتہ ماضی کا اس شہر کے گودام میں توڑا ہے ۔باشندے یہاں کے خود پسند ہیں ۔ شہر کی خاکروبی کا خرچ بادشاہوں کی آمدنی سے زیادہ ہے ۔ سو یہاں کے باشندوں پر خاک کسی کا رعب ہوگا۔وہ کسی کی بھی نہیں سنتے خواہ معاشرہ ہو یا قانون۔شہر کیا ہے اسے ملک کہنا چاہئیے بلکہ سچ تو یہ ہے کے یہ ایک نوع کی دنیا ہے ۔ نیویارک کا شہر بساتے ہوئے ہر ممکن تدبیر سے کام لیا گیا کہ سبزہ کو پاؤں پھیلانے کی جگہ اور درخت کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے کئی مربع میل کے جس قطعہ پر شہر واقع ہے پہلے اس پر کنکریٹ کا فرش بچھایا گیا اور جب وہ خشک ہو گیا تو اس پر تارکول کا لیپ کردیا ،سبزہ اب پاوں رکھے تو کہاں رکھے پھر شہر کے نیچے ان گنت چھوٹی بڑی نالیاں کھود ڈالیں ،کچھ تازہ پانی کی شریانیں کچھ نکاسی کی وریدیں جو نالیاں ذرا بڑی بن گئیں ان میں زمین دوز ریلیں دوڑادیں ایسی کھوکلی کوکھ میں درخت جڑ پکڑے تو کیونکر پکڑے۔درخت دشمنی میں اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لوہے اور شیشے کے سر بفلک ڈھانچےپہلو بہ پہلو بنا دئیے تاکہ زمین سے ساٹھ ستر منزل بلند سطح پر رہنے والے کو اگر کھڑکی سے بفرض محال درخت نظر آ بھی جائے تو وہ قابل توجہ نظر نہ آئے شہر بسانےوالے بڑے دور اندیش تھے وہ چاہتے تھے کہ اس شہر کے لوگوں کی پوری توجہ اور ساری توانائیاں دولت پیدا کرنے میں صرف ہوں اور کوئی چیز بھی اس مقصد کی راہ میں حائل نہ ہو سبزہ اور درخت کے بارے میں یہ خدشہ تھا کہ اگر انہیں پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو لوگ کام کاج چھوڑ کر صرف غزلیں کہنے پر کمر باندھ لیں اس پس منظر میں جب نیو یارک عالمی میلہ کے میدان مین ایک قدم آور چھتنار درخت کے گرد تماشائیوں کا ہجوم دیکھا تو مسافر کو تعجب نہ ہوا ۔ یہ عجیب درخت ہے نہ ہریالی نہ چھاوں 'نہ وہ سبز پتے جنہیں ' ہر ورقے دفتر معنی کردگار ' کہیں اور نہ وہ ٹھنڈی چھاوںجس کے نیچے بیٹھ کر غریب الوطنی کی دھوپ سے پناہ لیں نہ یہ کیلیفورنیا کے مہا گنی کےاس چوڑے درخت کی طرح ہے جس کے تنے میں سے سڑک آر پار نکل جاتی ہے اور نہ یہ کینیا کے ان قد آور درختوں میں سے ہے جن کی شاخوں پر آشیانوں کی طرح شکاری سیاحوں کے لیے ہوٹل کے رہإئشی کمرے بنے ہوئے ہیں یہ تو اصلی درخت لگتا ہی نہیں گویا اس کا تنہ زمین سے اگنے کے بجائے اس میں گاڑا گیا ہے شاخیں پھوٹنے کے بجائے جوڑی گئی ہیں پتے نکلنے کے بجائے ٹانکے گئے ہیں اور یہ بات سچ ہے اسے کارگاہ میں نقشہ کی مدد سے تیار کیا گیا اور پیش ساختہ ٹکڑوں کو یہاں نمائش میں لاکر باہم جوڑ دیا ہے اس میں عام درختوں کا حسن بے پرواہ نہیں اس کی شکل اقلیدسی ہے یہ سراسر مصنوعی لگتا ہے اس کے باوجود یہاں ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہیں ایک خلقت ہے کہ اس درخت کو دیکھنے کے لیے امڈی آرہی ہے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی ہے حیرت اور حسرت سے دیکھتی ہے للچائی نظروں سے دیکھتی ہے منہ سے بے اختیار ہائے اور کاش کہ کے ہم معنی انگریزی الفاظ یا لغات میں نہ ملنے والی امریکی آوازیں نکل جاتی ہیں بعض تماشائیوں کی آنکھوں میں اتنا تقدس ہے جیسے زیارت کے لیے آئے ہوں یہ درخت عالمی میلہ میں ایک مشہور مالی ادرہ کی طرف سے نصب کیا گیا ہے ۔یہ دولت کا درخت ہےے اس پر پتوں کی جگہ کرنسی نوٹ لگے ہوئے ہیں جن کی مالیت ایک کروڑ روپیہ کے برابر ہے اس کا نام ملین ڈالر درخت ہے "​
 

مہ جبین

محفلین
واہ واہ ۔۔۔۔۔مختار مسعود صاحب نے کس طرح اس شہر کے اس "درخت " کا نقشہ کھینچا ہے ۔۔۔۔بہت زبردست تحریر
روانی اور شگفتگی میں اپنی مثال آپ :p
بہترین اقتباس پیش کرنے کا شکریہ سید زبیر بھائی :)
 
مہ جبین بہنا، نایاب بھائی اور سید زبیر بھائی!
مختار مسعود صاحب اس قدر خوبصورت تحریر رقم کرتے ہیں گویا موتیوں میں تول کر لکھ رہے ہوں۔ انہیں اللہ زندگی دے، موجودہ لکھاریوں میں اتنی خوبصورت انشاء نگاری شاید ہی کوئی اور اردو داں کرسکتا ہو۔
 

مہ جبین

محفلین
مہ جبین بہنا، نایاب بھائی اور سید زبیر بھائی!
مختار مسعود صاحب اس قدر خوبصورت تحریر رقم کرتے ہیں گویا موتیوں میں تول کر لکھ رہے ہوں۔ انہیں اللہ زندگی دے، موجودہ لکھاریوں میں اتنی خوبصورت انشاء نگاری شاید ہی کوئی اور اردو داں کرسکتا ہو۔
جی خلیل بھائی بالکل درست
 
Top