محکوم خیالوں سے آزادی عطا کر دے

loneliness4ever

محفلین
برائے اصلاح


محکوم خیالوں سے آزادی عطا کر دے
اس دیس کے باسی کو محکوم ِ خدا کر دے

حکمت سے نہیں خالی ہر کام خدا تیرا
حکمت کو خدا اپنی بندوں کی صدا کر دے

ہو جس کی رسائی میں افلاک کی ہر منزل
اس قوم کو ایسا پھر اقبال عطا کر دے

مسلم کو عطا پھر ہو یہ شان ِ ولایت بھی
تقدیر کے لکھے کو پابند ِرضا کر دے

نفرت کے خطیبوں نے امت کو کیا ابتر
تکفیر کے نعروں کو تکبیر ِوفا کر دے

اب بھیج محمد کے ایسے کسی غازی کو
جو آکے مساجد کو فرقوں سے جدا کر دے

ہر چند گناہوں کے ہیں بوجھ تلے لیکن
امت ہیں محمد کی مولا تو بھلا کر دے

سید کی دعا سن لے پھر قلب ِ مسلماں کو
سلطان ِ مدینہ کی الفت توعطا کر دے


س ن مخمور
امر تنہائی
 
محکوم خیالوں سے آزادی عطا کر دے
اس دیس کے باسی کو محکوم ِ خدا کر دے
پہلے مصرعے میں خطاب کس سے ہے ، میرے سمجھنے کہ مطابق تو اللہ سے ہی ہے، اور اگر ایسا ہے تو دوسرے مصرع میں کس سے التجا کی جا رہی ہے کہ وہ دیس کے باسیوں کو محکوم خدا کر دے؟
دوسرے مصرعے کو میرے خیال میں ایسے ہونا چاہیے
اس دیس کے باسی کو پابندِ وفا کر دے
 

loneliness4ever

محفلین
پہلے مصرعے میں خطاب کس سے ہے ، میرے سمجھنے کہ مطابق تو اللہ سے ہی ہے، اور اگر ایسا ہے تو دوسرے مصرع میں کس سے التجا کی جا رہی ہے کہ وہ دیس کے باسیوں کو محکوم خدا کر دے؟
دوسرے مصرعے کو میرے خیال میں ایسے ہونا چاہیے
اس دیس کے باسی کو پابندِ وفا کر دے

جی بے شک اللہ کریم ہی سے بات کی جا رہی ہے
جی یہ الجھن فقیر کے ذہن میں بھی تھی مگر پھر بھی
رہنے اس لئے دیا کہ دیکھوں قابلَ قبول ہے کہ نہیں

:eyerolling:

عزیز دوست کی توجہ کرنے پر فقیر ممنون ہے
عنایت کا یہ سلسلہ جاری رکھیں
اللہ آباد رکھے آپکو ۔۔۔۔ آمین
 

الف عین

لائبریرین
واقعی خدا سے خطب کرتے ہوئے ’محکوم خدا‘ کرنے کی دعا نہیں مانگی جاتی۔ عزیزم فاروق نے درست نشان دہی کی ہے۔اس کا کچھ اور سوچو۔
تکفیر کے نعروں کو تکبیر ِوفا کر دے
یہ مصرع واضح نہیں۔ تکبیر وفا واضح نہیں۔
عروض کی صرف ایک معمولی سی غلطی ہے
سلطان ِ مدینہ کی الفت توعطا کر دے
’الفت تو ‘مین تنافر لفظی کا عیب ہے۔ اسکو الفاظ بدل کر کہو۔
 

loneliness4ever

محفلین
واقعی خدا سے خطب کرتے ہوئے ’محکوم خدا‘ کرنے کی دعا نہیں مانگی جاتی۔ عزیزم فاروق نے درست نشان دہی کی ہے۔اس کا کچھ اور سوچو۔
تکفیر کے نعروں کو تکبیر ِوفا کر دے
یہ مصرع واضح نہیں۔ تکبیر وفا واضح نہیں۔
عروض کی صرف ایک معمولی سی غلطی ہے
سلطان ِ مدینہ کی الفت توعطا کر دے
’الفت تو ‘مین تنافر لفظی کا عیب ہے۔ اسکو الفاظ بدل کر کہو۔

السلام علیکم

محترم دوست فاروق صاحب اور شفیق استاد الف عین صاحب کے قیمتی مشوروں کی روشنی
میں فقیر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ حاضر ہوا ہے، امید ہے استاد محترم اور دیگر ضرور عنایت
فرمائیں گے

محکوم خیالوں سے آزادی عطا کر دے
مقبول مرے مالک میری یہ دعا کر دے

حکمت سے نہیں خالی ہر کام خدا تیرا
حکمت کو خدا اپنی بندوں کی صدا کر دے

ہو جس کی رسائی میں افلاک کی ہر منزل
اس قوم کو ایسا پھر اقبال عطا کر دے

مسلم کو عطا پھر ہو یہ شان ِ ولایت بھی
تقدیر کے لکھے کو پابند ِرضا کر دے

تخریب کے نعروں سے گونجا ہے وطن میرا
اس حال پریشاں کو گلزار ِوفا کر دے

اب بھیج محمد کے ایسے کسی غازی کو
جو آکے مساجد کو فرقوں سے جدا کر دے

ہر چند گناہوں کے ہیں بوجھ تلے لیکن
امت ہیں محمد کی مولا تو بھلا کر دے

سید کی دعا سن لے پھر قلب ِ مسلماں کو
آباد محمد کی الفت سے خدا کر دے
 

الف عین

لائبریرین
تخریب کے نعروں سے گونجا ہے وطن میرا
اس حال پریشاں کو گلزار ِوفا کر دے
÷÷یہ نیا شعر ہے۔ حال پریشاں اتنا اچھا لفظ نہیں ہے۔ گلزار وفا کے مقابلے میں دشتِ بے حسی قسم کا کوئی لفظ آ سکے تو بہتر ہے۔ ورنہ محض حا ل کی جگہ دشت کر دو۔

ہر چند گناہوں کے ہیں بوجھ تلے لیکن
امت ہیں محمد کی مولا تو بھلا کر دے
÷÷اس پر پہلے غور نہیں کیا تھا۔ یہ بحر دو ٹکڑوں میں منقسم ہے، ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو تو اچھی لگتی ہے۔
ہر چند ہیں عصیاں کے ہم بوجھ تلے لیکن
ایک ممکنہ صورت ہے
 
Top