"محکمۂ زراعت کی جانب سے ھائیبرڈ بیج کا کامیاب تجربہ"

"محکمۂ زراعت کی جانب سے ھائیبرڈ بیج کا کامیاب تجربہ"


کرۂ ارض پر جوں ہی حضرت انسان نے آنکھ کھولی، جاگیر داروں نے زمین پر قبضہ کرکے غلاموں سے کھیتی باڑی کا کام لینا شروع کردیا۔ یه نظام اس قدر کامیاب تھا کہ صدیوں تک یونہی چلتا رہا۔غلاموں کی محنتیں رنگ لاتیں، زمینیں سونا اگلتیں اور یوں جاگیر داروں کی جاگیریں پھلتیں، پھولتیں، پھیلتیں۔ عین ممکن تھا کہ یه کامیاب کھیتی باڑی کا نظام یوں ہی ابد الآباد تک چلتا رہتا۔ برا ہو ابرہام لنکن کا کہ اس کے ذہنی خناس نے جاگیروں کے بنے بنائے کھیتی باڑی نظام کا ستیاناس کردیا۔ غلام آزاد ہوئے تو اپنی زمینوں پر خود ہی اپنے دقیانوسی انداز میں کھیتی باڑی کرنے لگے۔


اس نظام زراعت سے کسانوں کا تو برا بھلا گزارا ہونے لگا لیکن ملکوں کی معیشت روپے کی جس ہیر پھیر کی متقاضی تھی، وہ نہ ہوتا اور نہ معیشت پھلتی پھولتی۔ دوسری جنگ جنون کے بعد خاص طور پر جاگیر داروں نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے محکمۂ زراعت کے قیام کا باقاعدہ اہتمام کیا۔


انہی دنوں قریب کے ایک فارم پر وہاں کے غلاموں اور جانوروں نے فارم کے جاگیردار مسٹر جونز کو مار بھگایا اور خود ہی فارم پر قبضہ کرکے کھیتی باڑی کرنے لگے۔


رفتہ رفتہ ان جانوروں میں شامل سوؤروں کے ایک جتھے نے فارم پر قبضہ کرلیا اور کسانوں اور آزاد جانوروں کو دوبارہ غلام بنا لیا۔


ہمارے خطے کے کھیتوں میں گزشتہ کئی صدیوں سے مسلط لارڈ کلائیو جو کسانوں کو غلام بنائے ہوئے تھے۔، جنگِ جنون کے خاتمے پر سب کچھ یونہی چھوڑ چھاڑ کر یکایک اپنے دیش سدھارے۔


علاقے کے کسانوں کو تو ایسا موقع خدا دے، فوراً لگے کھیتی باڑی کرنے۔ یہاں بھی ان کے دقیانوسی طریقوں نے جاگیردارانہ مزاج کے حامل افراد کو کچھ نیا کرنے پر مجبور کردیا اور یوں خطے میں محکمۂ زراعت کا قیام عمل میں لایا گیا اور کھیتی باڑی محکمۂ زراعت کے حوالے کردی گئی ۔ ملکی معیشت کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھومنا شروع ہوگیا۔ اس سبز انقلاب کو دس سال گزرے تو زراعت کی ترقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دس سالہ ترقی کا جشن بھی منایا گیا۔ ساتھ ہی ان پڑھ بالغوں کی پڑھائی کے بندوبست اور کسانوں کے پاس وافر مقدار میں موجود گوبر سے بائیو گیس بنانے کے منصوبوں پر کام ہونے لگا۔ یوں محکمۂ زراعت کی مہربانی سے دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہونے لگی۔ محکمۂ زراعت کے سربراہ نے ایک نئی خلعتِ فاخرہ سلوائی اور اسے پہن کر زراعت کے نت نئے منصوبے بنانے لگے۔ زمینیں سونا اگلتیں اور دن ڈھلے محکمہ کے کارندے سونے کی ان اینٹوں کو اٹھاالےجاتے۔


حسد بری بلا ہے۔ کہتے ہیں سامنے والے کی خوشی کسی کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ کسانوں کا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے محکمۂ زراعت کو نکال باہر کیا اور خود اپنے پرانے اور دقیانوسی انداز میں کھیتی باڑی کرنے لگے۔ یه پرانے طور طریقے آخر کہاں تک چلتے، بلآخر محکمہ زراعت نے کھیتوں پر دوبارہ تسلط قائم کرلیا۔ یه آنکھ مچولی یونہی چلتی رہی۔ کبھی کسان غالب آتے تو کبھی محکمہ زراعت۔ اسی دوران دنیا کا ماحول خاصا تبدیل ہوگیا۔ دنیا، خاص طور پر امریکہ بہادر جو پہلے کبھی محکمۂ زراعت اور ان کے نت نئے طور طریقوں کی حمایت کرتا تھا، رفتہ رفتہ ابرہام لنکن کے فلسفے پر واپس آ گیا اور غلاموں کی آزادی پر زور دینے لگا۔



محکمۂ زراعت بھی کسانوں کی اس روز روز کی چخ چخ سے تنگ آچکا تھا۔ کسانوں کے ذہنوں میں بسے لنکن خناس اور امریکن سنڈیوں نے ان کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کسان کس طرح نئے اور سائینسی تحقیق سے منہ موڑ کر دقیانوسی انداز فکر اپنا سکتے ہیں جبکہ انہیں علم ہے کہ کھیت کی بہتری اسی میں ہے اور وہ اسی وقت سونا اگل سکتا ہے جب محکمۂ زراعت کے سائینسی طریقوں پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ بالآخر تنگ آکر انہوں نے وقتی طور پر کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور اپنا وقت نئی سائینسی تحقیق میں گزانے لگے


محکمہ کی دن رات انتھک محنت رنگ لائی اور ایک نیا 'ھائیبرڈ بیج' دریافت کرلیا گیا۔ اب محکمۂ زراعت کے لیے یه ضروری نہیں رہا کہ وہ کھیت پر تصرف حاصل کریں۔ اب وہ اپنے دفتر میں بیٹھے نیا ھائیبرڈ بیج بیچتے، اور بیٹھے اس کے تماشے دیکھتے۔


اس ھائیبرڈ بیج کے ہوتے کسان کی حیثیت کاٹھ کے آلو کی سی ہوگئی ۔ان ھائیبرڈ بیجوں کا مقصد جہاں کسانوں کے ذہنوں سے ابرہام لنکن خناس نکالنا تھا وہیں امریکن سنڈیوں کا بھی خاطر خواہ تدارک ممکن ہوچکا تھا۔ ادھر کسان بھی کاٹھ کا الو بنا یه سمجھتا کہ اسی کے دقیانوسی طریقوں سے کھیتی پھل پھول رہی ہے۔ اب وہ اپنے جھونپڑے میں بستر پر دراز رہتا اور شیخ چلی جیسے منصوبے بنایا کرتا۔ "میں دس مرغیاں پالوں گا۔ وہ روز دس انڈے دیں گی۔ میں بازار جاکر یه انڈے بیچ کر ان سے دس مزید مرغیاں خریدوں گا۔ اب روز بیس انڈے حاصل ہوں گے۔ میں ان بیس انڈوں کو ایک ٹوکرے میں سرپر رکھ کر بیچنے نکلوں گا ۔ اتنے میں منا ٹافی کے لیے ضد کرے گا تو میں اچھل کر اس کی کمر پر ایک لات رسید کردوں گا۔"
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
محکمہ کی دن رات انتھک محنت رنگ لائی اور ایک نیا 'ھائیبرڈ بیج' دریافت کرلیا گیا۔ اب محکمۂ زراعت کے لیے یه ضروری نہیں رہا کہ وہ کھیت پر تصرف حاصل کریں۔ اب وہ اپنے دفتر میں بیٹھے نیا ھائیبرڈ بیج بیچتے، اور بیٹھے اس کے تماشے دیکھتے۔
آپ جسے ہائبرڈ کہہ رہے ہیں وہ دراصل ایک پیج والا بیج ہی ہے۔ جیسے مسیحیوں کا بظاہر عقیدہ تثلیث ہے البتہ اس کا مظہر ایک خداوند ہی ہے۔
951e809a-ef03-4c7a-925d-85a6f5eb03cc.jpg

EIYk-EO-Wk-AAk-Bql.jpg

Whats-App-Image-2019-08-29-at-00-31-49.jpg

اس لئے آپ تھوڑا حوصلہ رکھیں۔ یہ ہائبرڈ بیج فی الحال کہیں نہیں جا رہا۔ بلکہ ابھی تو اس میں سے شاخیں پھوٹنی ہیں اور اسے تناور درخت بننا ہے :)
 
آپ جسے ہائبرڈ کہہ رہے ہیں وہ دراصل ایک پیج والا بیج ہی ہے۔ جیسے مسیحیوں کا بظاہر عقیدہ تثلیث ہے البتہ اس کا مظہر ایک خداوند ہی ہے۔
951e809a-ef03-4c7a-925d-85a6f5eb03cc.jpg

EIYk-EO-Wk-AAk-Bql.jpg

Whats-App-Image-2019-08-29-at-00-31-49.jpg

اس لئے آپ تھوڑا حوصلہ رکھیں۔ یہ ہائبرڈ بیج فی الحال کہیں نہیں جا رہا۔ بلکہ ابھی تو اس میں سے شاخیں پھوٹنی ہیں اور اسے تناور درخت بننا ہے :)
اُف فوہ! آپ کہاں اسے سیاستِ دوراں کی جانب گھسیٹ لے گئے! یہ تو ایک سیدھی سادی زراعت کی کہانی تھی۔
 
آخری تدوین:
محکمہ زراعت نے جس ہائیبرڈ بیج کا کچھ عرصہ قبل تجربہ کیا، اس سے اناج کم اور دیسی و بدیسی جڑی بوٹیوں کی مقدار زیادہ جمع ہو گئی ہے۔زمین کا زیادہ قابل کاشت حصہ ان بوٹیوں نےگھیر رکھا اور بچا کھچا اناج بمشکل محکمہ زراعت کے اپنے ملازمین کا پیٹ ہی بھر پا رہا ہے۔
 
محکمہ زراعت نے جس ہائیبرڈ بیج کا کچھ عرصہ قبل تجربہ کیا، اس سے اناج کم اور دیسی و بدیسی جڑی بوٹیوں کی مقدار زیادہ جمع ہو گئی ہے۔زمین کا زیادہ قابل کاشت حصہ ان بوٹیوں نےگھیر رکھا اور بچا کھچا اناج بمشکل محکمہ زراعت کے اپنے ملازمین کا پیٹ ہی بھر پا رہا ہے۔

آپ کا تبصرہ اتنا مزیدار ہے کہ جی چاہتا ہے اسے اپنی کہانی کے آخر میں نتھی کردیں۔

محکمہ زراعت نے جس ہائیبرڈ بیج کا کچھ عرصہ قبل تجربہ کیا، اس سے اناج کم اور دیسی و بدیسی جڑی بوٹیوں کی مقدار زیادہ جمع ہو گئی ہے۔زمین کا زیادہ قابل کاشت حصہ ان بوٹیوں نےگھیر رکھا اور بچا کھچا اناج بمشکل محکمہ زراعت کے اپنے ملازمین کا پیٹ ہی بھر پا رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
محکمہ زراعت نے جس ہائیبرڈ بیج کا کچھ عرصہ قبل تجربہ کیا، اس سے اناج کم
فیک نیوز۔ ہائبرڈ بیج سے اناج میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہاں اناج بڑھنے کی رفتار کم ہو گئی ہے کیونکہ ن لیگ اور پی پی پی کے گندے بیج ریکارڈ خسارے اور قرضے چھوڑ کر گئے ہیں۔ جن کو کم کئے بغیر کوئی بھی معیشت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔
sixqY6Q.png

image.png
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
خلیل بھائی!!!!!
بہت شاندار و جاندار،بہت مزے دار ۔اور آخری کیل تو شیخ چلی کی منصوبہ بندی نے ٹھونک دی ہے!بے حد کمال ۔:):):):):)
اللہ سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
خلیل بھائی!!!!!
بہت شاندار و جاندار،بہت مزے دار ۔اور آخری کیل تو شیخ چلی کی منصوبہ بندی نے ٹھونک دی ہے!بے حد کمال ۔:):):):):)
اللہ سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
آداب آداب!

جزاک اللہ الخیر۔
 

جاسم محمد

محفلین
زمین کا زیادہ قابل کاشت حصہ ان بوٹیوں نےگھیر رکھا اور بچا کھچا اناج بمشکل محکمہ زراعت کے اپنے ملازمین کا پیٹ ہی بھر پا رہا ہے۔
یہ بات البتہ درست ہے۔ چنتخب عمران خان نے دسترخوان سجا کر ہر اہم ادارہ محکمہ زراعت کے حوالہ کر دیا ہے۔
 
ہمیں بھی یہی حیرت ہے کہ شہزاد اکبر صاحب اور ہم کسی اور یعنی اصلی محکمۂ زراعت کی بات کررہے ہیں جبکہ لوگ جانے کیوں بات کو کسی اور سمت لے جانے پر مصر ہیں۔

ہم ببانگِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری مندرجہ بالا تحریر میں محکمۂ زراعت کا وہ مطلب نہیں جو 2018 میں پاکستانیوں نے ایجاد کیا بلکہ ہم 2018 سے پہلے کے محکمۂ زراعت کو ہی محکمۂ زراعت سمجھتے ہیں!
 

فاخر رضا

محفلین
ہمیں بھی یہی حیرت ہے کہ شہزاد اکبر صاحب اور ہم کسی اور یعنی اصلی محکمۂ زراعت کی بات کررہے ہیں جبکہ لوگ جانے کیوں بات کو کسی اور سمت لے جانے پر مصر ہیں۔

ہم ببانگِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری مندرجہ بالا تحریر میں محکمۂ زراعت کا وہ مطلب نہیں جو 2018 میں پاکستانیوں نے ایجاد کیا بلکہ ہم 2018 سے پہلے کے محکمۂ زراعت کو ہی محکمۂ زراعت سمجھتے ہیں!
آپ کے کہنے سے کیا ہوتا ہے
نصیری تو حضرت علی کے منع کرنے کے باوجود حضرت علی کو خدا مانتے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
ہمیں بھی یہی حیرت ہے کہ شہزاد اکبر صاحب اور ہم کسی اور یعنی اصلی محکمۂ زراعت کی بات کررہے ہیں جبکہ لوگ جانے کیوں بات کو کسی اور سمت لے جانے پر مصر ہیں۔

ہم ببانگِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری مندرجہ بالا تحریر میں محکمۂ زراعت کا وہ مطلب نہیں جو 2018 میں پاکستانیوں نے ایجاد کیا بلکہ ہم 2018 سے پہلے کے محکمۂ زراعت کو ہی محکمۂ زراعت سمجھتے ہیں!
خچر۔ ایک ہائبرڈ جانور
30/08/2020 عدنان خان کاکڑ

لغت میں لفظ ہائبرڈ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ ہائبرڈ دو مختلف قسم کے جانوروں یا پودوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والے جاندار کو کہتے ہیں۔ اس کا ماخذ ہائبریڈا نامی لفظ مانا جاتا ہے جس کا پہلا مطلب ہم نہیں بتاتے کہ منہ ناپاک ہو جائے گا، ہاں دوسرا مطلب ایک آزاد آدمی کی ایک لونڈی سے اولاد ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ دو نسلا یا دوغلا کیا جاتا ہے۔

دنیا میں کئی مختلف دوغلے جانور پیدا کیے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ کارآمد خچر کو مانا جاتا ہے۔ موٹر گاڑیوں کی عدم موجودگی میں عام سول ورک میں تو اسے مفید سمجھا ہی جاتا ہے لیکن فوج میں بالخصوص اس کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ جہاں سڑکیں ہوں وہاں تو جیپیں ٹرک وغیرہ چلے جاتے ہیں مگر پہاڑی علاقوں میں جہاں سڑک تک نہ ہو، ہیلی کاپٹر یا خچر ہی کام آتے ہیں۔

خچر کا نانکا، یعنی گھوڑے ویسے تو زیادہ طاقتور ہوتے ہیں مگر درمیان میں کبھی کبھار وہ اپنا دماغ استعمال کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے فوج میں مشکل مہمات کے لیے انہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ دوسری طرف اس کا دادکا ہے۔ ادھر مسئلہ زیادہ سنگین ہے کہ گدھے اکثر اپنا دماغ استعمال کر لیتے ہیں جس کے نتائج نسبتاً زیادہ خطرناک نکلتے ہیں۔ ویسے بھی وہ زیادہ اڑیل اور خر دماغ ہوتے ہیں، جس چیز پر جم جائیں اس سے نہیں ہلتے۔ جبکہ خچر نہایت صابر شاکر ہوتا ہے اور اپنا نفس مار کر بھی وہ سب کچھ کرنے کے لیے راضی ہو جاتا ہے جس کا اسے حکم دیا جائے۔ وہ کبھی اپنا دماغ استعمال نہیں کرتا ہے۔ جو کمانڈ ملتی ہے، اس پر جی جان سے عمل کرتا ہے۔ نہ اچھا سوچنے کے لیے رکتا ہے نہ برا بس کر گزرتا ہے۔ اور حکم ملے تو اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔

گدھے یا گھوڑے کے مقابلے میں خچر زیادہ وزن اٹھاتا ہے۔ علاقہ جیسا بھی الٹا سیدھا یا خطرناک ہو، معرکہ کیسا ہی گھمسان کا کیوں نہ ہو، خچر نہایت ثابت قدم رہتا ہے۔ اسی وجہ سے اونچ نیچ والے علاقوں میں فوج اسے اس کے والد اور والدہ پر ترجیح دیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ افغان سوویت جنگ کے دوران اس نے اپنا لوہا خوب منوایا۔ اس جنگ میں ایک طرف کے لڑاکوں کے پاس جدید بکتر بند گاڑیاں، ٹینک اور گن شپ ہیلی کاپٹر تھے اور دوسری طرف انحصار گدھوں اور خچروں پر۔ تاریخ شاہد ہے کہ آہن اور پوست کے اس معرکے میں خچر فاتح رہے۔

اس سے پہلے تاج برطانیہ کی فوج نے قبائلی علاقوں میں بھی خچر کو ہی ایک اہم ذریعہ تسلیم کیا۔ خچر کا کردار اتنا بڑا تھا کہ کرنل محمد خان نے اپنی اہم کتاب ”بجنگ آمد“ میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا۔ قبائلی علاقوں میں جنگ کا حال بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ”ایک شام ہمارا ایک خوش مزاج اور کہنہ مشق خچر راہی ملک عدم ہو گیا اور ہمارے سیکشن میں غم کی لہر دوڑ گئی کیونکہ بقول نائیک حیات محمد، آنجہانی کا فیلڈ کرافٹ کا علم اس قدر پختہ تھا کہ اس کا ایک قبائلی کی گولی کی زد میں آنا باور نہ آتا تھا“ ۔ بہرحال تمام خچروں کا فیلڈ کرافٹ کا علم اس قدر پختہ نہیں ہوتا۔ کئی خچروں کے سر دوسروں کا کیا دھرا پڑ جاتا ہے اور زد میں وہ آ جاتے ہیں۔

خچر میں گھوڑے اور گدھے سے بڑھ کر اضافی صفات بھی ہوتی ہیں۔ گدھے اور گھوڑے اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر عشق معشوقی وغیرہ کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ خچر کا فلسفہ زندگی یہ ہوتا ہے کہ عشق نکمے لوگوں کا کام ہے۔ بہرحال یہ فلسفیانہ بحث ہے ہم اس میں نہیں پڑتے کیونکہ گدھے گھوڑے اسے یہ جواب دیتے ہیں کہ برخوردار عشق ناکارہ لوگوں کا کام نہیں ہے، بندہ باصلاحیت ہو تو پھر ہی عشق کا فائدہ ہے، ورنہ کار زیاں ہے، حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا اور بندہ اپنی ناکامی کا الزام دوسروں کو دے کر خفت مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاندار، یہ آج ہی دوسری فاختہ بھی اڑتی ہوئی نظر آئی۔

باقی جہاں تک اس تحریر کا سیاست سے تعلق ہے تو جہاں جاسم محمد وہاں سیاست، اس لیے میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔
 
Top