محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

آوازِ دوست

محفلین
محبت کی مٹی میں گُندھے انسان کی کائناتی سوچ کے زاویے ہر رُخ سے دلکش اور پرکیف ہیں۔ محترم آسی صاحب دِل چھو لینے والی اِ ن خوبصورت تحریروں کے لیے بہت بہت شکریہ۔
 
10425442_641781789298616_7190588488062917268_n.jpg

آئندہ کتاب ۔۔۔ "پِنڈا پَیر دھرُوئی جاندے" ۔ پنجابی شاعری
۔۔ ان شاء اللہ اپریل 2015 کے پہلے عشرے میں شائع ہو جائے گی۔ ایک مجوزہ سرورق (سادہ سا) ۔۔
:):):)

احباب کے علم میں ہے کہ "مجھے اک نظم کہنی تھی" مارچ کے پہلے عشرے میں متوقع ہے۔ ان شاء اللہ۔
 
آخری تدوین:
دیکھ چاکھ کے
کل ایک دوست نے فیس بک پر بھگت کبیر کے حوالے سے ایک مختصر سی پوسٹ لگا دی۔ اس پر تبصرہ کرنے چلا تو قلم چل نکلا۔ اسی تبصرے میں دو چار لفظ ادھر ادھر کر کے شذرے کی صورت دے دی ہے۔ امید ہے احباب کے ذوقِ سلیم پر گراں نہیں گزرے گا۔

11001529_648369225306539_3639035642011902494_o.jpg
 
۔۔۔۔ "اکو ای گل اے" ۔۔۔۔

اک کہندا اے میں جھلا نہیں
اک کہندا اے میں ڈھگا نہیں
لوکی کہندے
جھلے نے کدی اپنے آپ نوں جھلا منیا؟
تے پھر ڈھگا اپنے آپ نوں ڈھگا من لئے؟
پھر تے سچ مچ ڈھگا ہویا!
ڈھگا کہہ لئو
جھلا کہہ لئو
اکو ای گل اے
جیہڑی جُوہ وچ
اتھرے ڈھگے
اٹھے ویلے
تھاں کتھاویں
کھَورُو پٹی رکھن
اوتھے
عقلاں والے وی تے جھلے ہو جاندے نیں
جھلے کہہ لئو
ڈھگے کہہ لئو
اکو ای گل اے
۔۔۔۔۔۔
گفتہ: 15 مارچ 2015ء
 
سب سے پہلے تو خوبصورت افسانے کو شریک محفل کرنے کا بےحد شکریہ ۔ اب آتے ہیں تحریر کی جانب :)
نفسیاتی طور پر انسان اپنی ذات سے آگے کم ہی سوچ پاتا ہے اور بجائے دوسروں کی سوچ کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے اُن پر اپنی سوچ منطبق کر رہا ہوتا ہے ۔ہمارے خیال میں چھوٹا بھائی بھی یہی کر رہا ہے اس کہانی میں ۔۔۔دوسری بات یہ ہے کہ انسان دوسروں کو گراؤنڈ فیکٹس سے جج کرنے کی کوشش کرتا ہے یعنی جو بات آپ کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں پاتے دووسرے وہ کیسے جان جائیں ؟؟ہمارے خیال میں بڑے بھائی کا کردار ایک ردعمل کے طور پر ہے ۔ہماری ذاتی رائے میں انسان کسی بھی ذات سے محبت کی انتہا پر رُک جاتا ہے اور پھر امتداد زمانہ کی ناگزیر تبدیلیوں کو فراموش کرتے ہوئے اُس سے ہمیشہ اُسی لگاوٹ کا طلبگار رہتا ہے جو اُس کے اپنےذہن نے اُس کے بارے میں قیاس کر رکھی ہوتی ہیں۔۔نتیجاَ َ دُکھی ہوتا ہے۔۔کہیں چھوٹے بھائی کی صورت میں شکایت دل میں رکھ کر ردعمل کا اظہار کرتا ہے تو کہیں بڑے بھائی کی صورت حال سامنے آتی ہے۔۔۔۔یعنی ''اور محبت وہی انداز پرانے مانگے''اصل چیز ہے روابط یا کمیونیکیشن کی کمی ۔اور سب سے بڑھ کر ہمارے بدلتے ہوئے اقدار کی جھلک بھی اس کہانی میں نظر آتی ہے ۔آپ کا انداز فکر اورقلم کی روانی و پختگی تحریر کے اسلوب اور تاثر کو بےحددلکش بناجاتی ہے ۔
خوبصورت تحریر پر بہت سی داد قبول فرمایئے ۔
سلامت رہیں ۔:)
یہ لڑکی کیا ہوئی؟ کسی کو خبر ہو تو بتائے! وہ عین غین بھی غین غائب ہیں۔

عینی شاہ
 
ایک بھولی بسری غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔


ہجر نے جتنے سکھائے تھے قرینے مجھ کو
وصل میں بھول گئے سارے کے سارے مجھ کو

صورتِ عکس لرز جائے گا وہ پانی میں
اس سے کہہ دو مری نظروں سے نہ دیکھے مجھ کو

ابر گیسو کی جھلک آئی نظر سپنے میں
آئے پھر دیر تلک نیند کے جھونکے مجھ کو

کان بجتے ہیں بھرے شہر کے سناٹے میں
اس خرابے میں کوئی ہے جو پکارے مجھ کو

جل گئی روح بھی جب آگ چناروں میں لگی
وقت نے ایسے مناظر بھی دکھائے مجھ کو

شہر والو کوئی مجھ جیسا بھی تنہا ہو گا
اپنے آسیؔ سے کہو، اپنا بنا لے مجھ کو​

محمد یعقوب آسیؔ ۳؍ دسمبر ۲۰۰۹ ء​

یہ غزل کتاب میں شامل ہونے سے رہ گئی۔
آج کچھ پرانے لکھے ہوئے مضامین کی تلاش میں نکلا تو ایک یاہو گروپ پر مل گئی۔ سو یہاں لگا دی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top