محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

شام پوری

محفلین
اپنی اردو غزلیں، متذکرہ بالا لنک پر اپ لوڈ کر چکا ہوں۔
مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری کی ملازمت میں پسنے لگیں۔
کبھی تھا وہ زمانہ صدا مخمور رہتے تھے
غم روزگار نے ساری مستیاں بھلا دی ہیں
 
10632577_551420658334730_5010403404325224012_n.jpg
 
تازہ افسانہ

کڑوی پیاز

(۱)​
گھنٹے بھر کے انتظار کے بعد آواز سنائی دی: ’’ابو جی، کھانا لگا دیا ہے‘‘۔ تب تک شکور میاں کی بھوک خوب چمک اٹھی تھی۔ کھانے کی میز پر پہنچے تو دیکھا ہفت اقسام کے کھانے لگے ہیں۔ یہ چپاتیاں ہیں وہ چاول ہیں، سفید چنے ڈال کر پلاؤ بنا ہے، ساتھ پتلے شوربے والے ثابت مسور ہیں، اس پلیٹ میں بکرے کا گوشت ہے، ادھر دہی ہے، ایک بڑی سی پلیٹ میں سلاد ہے ۔ باریک کتری ہو پیاز الگ رکھی ہے، ملا جلا اچار بھی ہے اور تلسی پودینے کی چٹنی بھی۔ ایک چھوٹی سی ڈونگی میں کھیر جیسی کوئی میٹھی چیز ہے۔ مہک ایسی اشتہا انگیز کہ بغیر بھوک کے بھی جی کھانے کو مچل اٹھے۔ ’ارے! اتنا کچھ مجھ اکیلے کو کھانا ہے کیا؟ مجھ اکیلے کو...‘ ان کا ذہن اس ایک خیال پر اٹک گیا۔ ’مجھ اکیلے کو...‘ ان کا دل بھر آیا، بھوک کا احساس کہیں دب چکا تھا۔ انہیں یوں لگا کہ وہ کسی شے کا ایک لقمہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ تو ... وہ شور؟ ’’اے لڑکیو! کوئی ہے؟ بھئی ہمیں بھوک لگی ہے !‘‘ اور وہ بے تابی؟ اور گھنٹہ بھر کا انتظار؟ وہ سب کیا ہوا؟ ان کا جی چاہا کہ اٹھ جائیں مگر یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ بہو کیا کہے گی! میں نے اتنی محنت سے کھانا تیار کیا اور ابو جی نے دیکھا تک نہیں؟’ اس کا دل رکھنے کو کچھ کھا لیتے ہیں‘ یہ سوچا اور سلاد سے جی بہلانے لگے کہ شاید کھانے کو جی آ جائے۔ کئی منٹوں بعد ایک چپاتی نکالی اور اس پر آم کا اچار رکھ لیا۔ اسے دیکھتے رہے، تھوڑی سی پیاز منہ میں ڈالی اور چپاتی کا لقمہ لیا۔’ اس کا ذائقہ ...!‘ شکور میاں کے ذہن و دل کے نہاں خانوں میں ایک جھماکا سا ہوا اوروہ ذائقہ ان کے پورے وجود میں پھیل گیا۔

(۲)​
’’ماں، ماں! مجھے سخت بھوک لگی ہے!‘‘ چوتھی پانچویں جماعت کا لڑکا گھر میں داخل ہوتے ہی شور مچانے لگا۔ مرغی اور چوزوں کو دانہ ڈالتی ہوئی بڑھیا نے بیٹے کی بلائیں لیں، ماتھے کو چوما اور چہکتی ہوئی آواز میں گویا ہوئی: ’’آ گیا میرا بچہ! منہ ہاتھ دھو لے بیٹا، کپڑے بدل لے میں روٹی نکالتی ہوں، پکی رکھی ہے، پر، تو آج دیر سے کیوں آیا؟‘‘
’’میں خود ہی نکال لیتا ہوں، ماں‘‘ یہ کہا اور سیدھا اُس پھٹے کو لپکا جہاں روٹی، سالن رکھا ہوتا ۔ ماں اس کی جلدی پر مسکرا دی اور مرغی کا کھُڈا صاف کرنے لگی۔
’’ماں، ماں!‘‘ وہ زور سے چیخا، ’’روٹی تو ہے پر ساتھ کچھ نہیں‘‘۔
’’سالن تو نہیں ہے بیٹا، اچار نکال لے اور لسی لے لے، صبر شکر کے ساتھ، میرے ہاتھ گندے ہیں، خود ہی نکال لے‘‘۔ اچار کے برتن کے پاس پیاز پڑے تھے، اس نے ایک اٹھا لیا۔ سوکھی روٹی، آم کا اچار، پیاز اور لسی؛ اللہ کا نام لے کر سب کچھ چٹ کر گیا۔ ایک بھرپور ڈکار لی اور ’’ماں، میں مسجد جا رہا ہوں، سبق کا وقت ہو گیا ہے‘‘ وہ باہر نکلتے ہوئے بولا۔ ’’بہت تاولا ہو رہا ہے تو، منہ ہاتھ دھوئے بناں روٹی کھا لی، کپڑے تو بدل لے! میلے ہو جائیں گے‘‘ ماں آوازیں دیتی رہ گئی۔ ’’مسجد میں وضو کر لوں گا‘‘ یہ کہا اور... یہ جا وہ جا۔

(۳)​
’’برتن لے جاؤ بیٹا!‘‘ شکور میاں نے بہو سے کہا۔ تھوڑا بہت جو بھی انہوں نے کھایا، خاصی بے دلی سے کھایا تھا۔ بہو نے دیکھا کہ اُن کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا ہے تو پوچھا: ’’ابوجی، کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی؟‘‘
’’ہاں ہاں، ٹھیک ہے بالکل‘‘ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولے جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔
’’اور آپ نے کھایا بھی بہت کم ہے!‘‘
’’ارے نہیں، اچھا خاصا تو کھا لیا‘‘
’’اور یہ آپ کی آنکھوں میں نمی؟‘‘
’’ارے ہاں، وہ شاید پیاز کچھ زیادہ کڑوی ہے‘‘

*******​

محمد یعقوب آسیؔ ... ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۴ء​
 
آخری تدوین:
دو پہلے کے (ترمیم شدہ)، اور دو تازہ شعر
۔۔۔۔۔
شعلۂ جاں کو کچھ ایسے بھی ہوا دیتے ہیں دوست
اپنی آہیں میرے اشکوں میں ملا دیتے ہیں دوست

اعتماد اپنے لکھے پر کچھ مجھے یوں بھی ہوا
پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہوں، بتا دیتے ہیں دوست

چہرہ خوانی کا ہنر کتنا اذیت ناک ہے!
برہمی ماتھے پہ ہوتی ہے، دعا دیتے ہیں دوست

محو حیرت ہوں کہ مجھ سے کیا کچھ ایسا ہو گیا
طعنہ و دشنام کیا کیا برملا دیتے ہیں دوست
۔۔۔۔۔
محمد یعقوب آسیؔ
جمعرات 27 نومبر 2014ء
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرہ خوانی کا ہنر کتنا اذیت ناک ہے!
برہمی ماتھے پہ ہوتی ہے، دعا دیتے ہیں دوست

محو حیرت ہوں کہ مجھ سے کیا کچھ ایسا ہو گیا
طعنہ و دشنام کیا کیا برملا دیتے ہیں دوست

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اک " طعنہ " جو روح تک کو ہلا دے ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
کاپی پیسٹ نہیں کیا مصرع غلط ٹائپ ہو گیا معذرت -
ہے نا، دل چسپ بات!

میں نے نہ تو اسے کاپی پیسٹ سمجھا ہے اور نہ ٹائپنگ کی غلطی۔ بلکہ آپ نے جو لکھا (یا نقل کیا) اس میں الفاظ کی ترتیب اور عبارت کا فرق ہے:
میرا مصرع: محو حیرت ہوں کہ مجھ سے کیا کچھ ایسا ہو گیا
آپ نے لکھا: محو حیرت ہوں کہ مجھ سے ہو گیا ایسا بھی کیا

میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے اصلاح کی غرض سے ایسا لکھا ہے۔ لہٰذا مجھ پر آپ کا شکریہ ادا کرنا واجب تھا، سو کر دیا۔ بارِ دگر شکریہ (وضاحت کے لئے)۔
 

عظیم

محفلین
ہے نا، دل چسپ بات!

میں نے نہ تو اسے کاپی پیسٹ سمجھا ہے اور نہ ٹائپنگ کی غلطی۔ بلکہ آپ نے جو لکھا (یا نقل کیا) اس میں الفاظ کی ترتیب بھی بدلی ہوئی ہے اور عبارت کا فرق بھی ہے:
میرا مصرع: محو حیرت ہوں کہ مجھ سے کیا کچھ ایسا ہو گیا
آپ نے لکھا: محو حیرت ہوں کہ مجھ سے ہو گیا ایسا بھی کیا

میں تو سمجھا تھا کہ آپ نے اصلاح کی غرض سے ایسا لکھا ہے۔ لہٰذا مجھ پر آپ کا شکریہ ادا کرنا واجب تھا، سو کر دیا۔ بارِ دگر شکریہ (وضاحت کے لئے)۔

سبحان اللہ ۔
 
اپنی غزل عموماً ہوتی ہی پانچ شعروں کی ہے۔ اس کو بھی غزل ہی جانئے گا:

غزل
۔۔۔۔۔

شعلۂ جاں کو کچھ ایسے بھی ہوا دیتے ہیں دوست
اپنی آہیں میرے اشکوں میں ملا دیتے ہیں دوست

اعتماد اپنے لکھے پر کچھ مجھے یوں بھی ہوا
پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہوں، بتا دیتے ہیں دوست

چہرہ خوانی کا ہنر کتنا اذیت ناک ہے!
برہمی ماتھے پہ ہوتی ہے، دعا دیتے ہیں دوست

محو حیرت ہوں کہ مجھ سے کیا کچھ ایسا ہو گیا
طعنہ و دشنام کیا کیا برملا دیتے ہیں دوست

تم بھلے کچھ بھی کہو آسیؔ مگر اک بات ہے
آدمی کو زندگی کرنا سکھا دیتے ہیں دوست​

محمد یعقوب آسیؔ
جمعہ ۲۸؍ نومبر ۲۰۱۴ء​
 

یاسر شاہ

محفلین
شعلۂ جاں کو کچھ ایسے بھی ہوا دیتے ہیں دوست
اپنی آہیں میرے اشکوں میں ملا دیتے ہیں دوست

اعتماد اپنے لکھے پر کچھ مجھے یوں بھی ہوا
پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہوں، بتا دیتے ہیں دوست

چہرہ خوانی کا ہنر کتنا اذیت ناک ہے!
برہمی ماتھے پہ ہوتی ہے، دعا دیتے ہیں دوست

بہت پیارے اشعار ہیں -داد حاضر خدمت ہے - بالخصوص مندرجہ بالا آخری دو شعرندرت فکر کے سبب اپنی مثال آپ ہیں -
 

عظیم

محفلین
اعتماد اپنے لکھے پر کچھ مجھے یوں بھی ہوا
پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہوں، بتا دیتے ہیں دوست
 
آخری تدوین:
Top