محمد یعقوب آسی ، محفل کا ایک معتبر شاعر

استاد محترم محمد یعقوب آسی کی ایک غزل قارئین کی نذر

وہ ایاغِ دیدہ طرار تھا، مرا حصہ تشنہ لبی رہی
ترا نام آتشِ زیرِ پا، یہاں گام گام کجی رہی

وہ جو زخم تھا سو مٹا دیا، وہ جو پیار تھا سو بھلا دیا
وہ جو درد تھا سو لٹا دیا، پہ کسک سی ایک بچی رہی

کوئی خوف تھا نہ امنگ تھی، وہ جو اپنے آپ سے جنگ تھی
دلِ مضطرب کی ترنگ تھی، دلِ مضطرب میں لگی رہی

کبھی آہ بن کے ہوا ہوئی، کبھی نالہ بن کے ادا ہوئی
کسے کیا خبر کہ وہ کیا ہوئی، وہ جو بے کلی تھی دبی رہی

وہ قرار تھا کہ فرار تھا، اسے اپنے آپ سے پیار تھا
وہ عجیب سینہ فگار تھا، جسے خود سے بے خبری رہی

وہ مثالِ تختۂ کاہ تھا، کئی تتلیوں کی پناہ تھا
وہ کہ شہرِ ہجر کا شاہ تھا، مرے دل پہ اُس کی شہی رہی

یہ چراغِ جاں کا جو دود ہے، سَرِ سَر سپہرِ کبود ہے
یہ جمالِ بود و نبود ہے، یہاں روشنی سی ڈھکی رہی

اسے خوب میرا خیال ہے، کہ وجود جس کا سوال ہے
یہ اسی نظر کا کمال ہے، کہ ہر آنکھ مجھ پہ جمی رہی
 

arifkarim

معطل
urdu%2Bka%2Bdin.jpg
 
Top