محمد یعقوب آسی ، محفل کا ایک معتبر شاعر

محمد یعقوب آسی کے چند خوبصورت اشعار پیشِ خدمت ہیں
محمد یعقوب آسی​
ہم سخن ساز کہاں ، ہم کو یہ دعویٰ کب ہے؟​
ہم تو احساس کو اندازِ بیاں دیتے ہیں​
نام کوئی بھی مجھے دینے سے پہلے سوچ لیں​
آپ کی پہچان بھی اس نام سے مشروط ہے​
کیجیے اظہارِ بیزاری بھی مجھ سے اِس قدر​
آپ کا مجھ سے تعلق جس قدر مضبوط ہے​
خود کو آئینے میں دیکھا میں نے​
راز تکوین کا پایا میں نے​
اس شہر کا کیا جانئیے کیا ہوکے رہے گا​
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہوکے رہے گا​
بھری محفل میں تنہا بولتا ہے​
وہ اپنے قد سے اونچا بولتا ہے​
غموں پر پھر جوانی آگئی ہے​
طبیعت میں روانی آگئی ہے​
دوستوں نے تیر جب دل میں ترازو کردیئے​
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخِ آہو کردئیے​
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی​
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے​
مجھے جتنے ملےغم دوستوں سے​
وہ میں نے اپنے شعروں میں سجائے​
لب و عارض ، وصال و ہجر کی شیرینیاں عنقا​
زمانے بھر کی تلخی بھر گئی ہے میرے لفظوں میں​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
استاد محترم خلیل الرحمن صاحب کے اس دھاگے کی مناسبت سے میں بھی سر محمد یعقوب آسی صاحب کے پنجابی کلام سے کچھ پیش کرتا ہوں۔ :)

میں جوگی خبرے کد مُڑساں پھیرے توں​
سن لے اج کہانی اپنی، میرے توں​
اپنی مُورت ویکھ کے اونہاں اکھّاں وِچ​
میں بیگانہ ہویا چار چوفیرے توں​
میریاں پلکاں تے انگیارے کنبدے نیں​
اپنا دامن پِچھّاں ہٹا لے میرے توں​
جو کچھ لیکھیں لِکھیا ہووے مِلدا اے​
قسمت میری، شکوہ کاہدا تیرے توں​
دن دا چانن اکھاں کھلن نہیں دیندا​
رات پوے تے آوے خوف ہنیرے توں​
لاشاں دے بیوپاری آئے پِھردے نیں​
ویکھاں، کیہڑا وِکدا پہلوں میرے توں​
عمر گزاری آسیؔ ایہو سوچدیاں​
سچی توبہ کرساں کل سویرے توں​
 
استاد محترم خلیل الرحمن صاحب کے اس دھاگے کی مناسبت سے
ں​

نیرنگ خیال بھائی! کون سے استاد اور کہاں کے استاد۔ ایسا نہ ہو کہ اساتذہ سن پائیں اور +پ ہی کی کلاس لے بیٹھیں۔
بھائی ہم خود تو ایک کندہ ناتراش کی مانند ابھی تک مبتدی ہی ہیں۔یہ +پ کی محبت ہے، عنایت ہے، بڑائی ہے کہ ہمیں اس بلند و بالا لقب سے یاد کررہے ہیں ہم جس کے شایانَ شان نہیں۔

خوش رہیے ۔
اور +پ نے جناب یعقوب +سی صاحب کا پنجابی کلام پیش کرکے ہم سمیت لاکھوں کے دل جیت لیے۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہ
کیا خوب انتخاب شریک محفل کیا ہے محترم خلیل بھائی
آسی صاحب بلاشبہ استاد کا درجہ رکھتے ہیں
اور ان کا کلام سادگی و پرکاری ہر دو سے بھرپور ہوتا ہے ۔
دوسرے شعر کے آخری مصرعے میں شائد " مضبوط " ٹائپو ہے ۔
بہت شکریہ شریک محفل کرنے پر
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
پتے اک اک کر کے گرتے جاتے ہیں​
پیڑ پہ اگلا موسم ہے رسوائی کا​
۔۔۔​
کشتی دیکھ کے لڑنا مشکل لگتا ہے​
طارق! رستہ بند کرو پسپائی کا​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

(طارق بن زیاد مراد ہے)
 
ایک نظم جناب محمدعلم اللہ اصلاحی کی نذر

وہاں اُس بزم میں


وہاں اُس بزم میں اِک شخص وہ بھی تھا
کہ جس کے ہاتھ کی جنبش کو
جس کے منہ سے نکلے لفظ کو
قانون کہتے ہیں
وہ اپنی ذات کا قیدی
انا، پندار، خودبینی کی زنجیروں میں جکڑا تھا
وہ اپنے نام کی خاطر
کسی کو بھی نہیں لاتا تھا خاطر میں
کہا: اے اہلِ مجلس، غور سے سُن لو
سمجھ لو سب، یہاں اِک صرف میرا حکم چلتا ہے
مرے الفاظ حاوی ہیں
سبھی اقدار پر، ہر اِک روایت پر
جسے چاہوں
مقامِ عزت و توقیر سے محروم کر ڈالوں
جسے چاہوں
اُسے ناموس کی کرسی عنایت ہو


وہاں اُس بزم میں اک شخص وہ بھی تھا
جو دل میں درد رکھتا تھا
وہ جس نے ذات کی زنجیر توڑی تھی
گزاریں جاگ کر راتیں
وہ جس نے بے زبانوں کو زباں بخشی
وہ خود خاموش بیٹھا تھا


وہاں اُس بزم میں اِک شخص وہ بھی تھا
نگہ جس کی بصیرت کا خزینہ تھی
تحمل جس کا شیوہ تھا، تفکر جس کی عادت تھی
جو ہر اک بات کی تہہ تک اترتا تھا
اُسے محسوس کرتا تھا
بڑا بے چین تھا اور مضطرب لہجے میں
کچھ کہتا تھا لیکن
ربط سے محروم باتوں کاکوئی مفہوم کیا پاتا!


وہاں اُس بزم میں اک شخص وہ بھی تھا
کہ جس کا شوخ لہجہ بولتی آنکھیں
ہر اِک محفل کی رونق تھیں
وہ جو الفاظ سے انصاف کرتا تھا
وہ اپنے حرف ہونٹوں میں دبائے
خالی آنکھوں سے خلا میں گھُورتا تھا
سوچ میں گم تھا


وہاں اُس بزم میں اک شخص وہ بھی تھا
جسے ادراک کی دولت میسر تھی
جسے
الفاظ کو معنی عطا کرنے کا فن آتا تو تھا لیکن
بڑا چپ چاپ بیٹھا تھا
مگر بے چین لگتا تھا
سبھی آنکھوں نے دیکھا
اُس کی پلکوں پر رُکے آنسو
کبھی گرنے کبھی تحلیل ہو جانے پہ مائل تھے
بس اِک سسکی اٹھی، پھر تو


وہاں خاموش بیٹھے سارے ہونٹوں کی فغاں
ادراک سے، سوچوں سے، لفظوں سے کہیں آگے
جہانِ بے کراں کی وسعتوں پر چھا گئی
جیسے
وہاں کوئی نہ بیٹھا ہو!


24th September 1985

جناب منیر انور
 
اوہ مائی گاڈ۔۔۔میں تو کھو گیا ۔۔۔۔کیا لفظوں کا نتخاب ہے ۔
سچ آخری کڑی پر تو میں کھو ہی گیا ۔واقعی بہت عمدہ سر!! اللہ آپ کو صحت و عافیت دے ۔
 
پنجابی نال پیار کرن والے سجناں دی خدمت وچ اک نا مکمل نظم
ہاڑا
جوگن
سُن جوگیا راہواں بھُلیا، مڑ گھر نوں پھیرا پا​
تیری جوگن پئی اڈیکدی، تکدی پئی سُنجے راہ​
میں کُٹھی کرد پریم دی، میرا سنگھی دے وچ ساہ​
نہ مردی نہ میں جیوندی، گئی لمّی عمر وہا​
میں تتڑی تاڑ تریہہ دی، جیوں مچھی بِن دریا​
ساہ ساہ وچ بھانبڑ مچدے، میرے لوں لوں لگی بھا​
ہَڈ بالن کیتے ہجر نے، اتے جثہ وانگ سواہ​
وے جے سندا ایں کوکاں میریاں، کوئی اُتّر چا پرتا​
کوئی گھل سنیہا سکھ دا، کوئی پریم دا راگ سنا​
میں راہیں جند وِچھا دیاں، کراں تیری آدربھا​
سُن جوگیا راہواں بھلیا، مڑ گھر نوں پھیرا پا​
***​
جوگی
پیراں وچ دھرتی کنبدی، مینوں انج نہ واجاں مار​
اک تیر کلیجے ماریا، تیری ڈونگھی اکھ دی دھار​
نی میں لمی واٹیں تر پیا، کچھ منزل سُدھ نہ سار​
کتھے لبھاں اپنے آپ نوں، میں دتا جگت وسار​
محمد یعقوب آسیؔ .... ۴ مارچ ۲۰۱۱ء​
تے پرھیا دے سارے پنچ۔​
 
قدرے مشکل یا کم مانوس الفاظ و تراکیب کے معانی و مطالب
ہاڑا: فراق، درد، وغیرہ میں ڈوبی ہوئی پکار
سُنجے راہ: ویران راستے
کُٹھی: ذبح شدہ
کرد: چھری
سنگھی: حلقوم
ساہ: سانس
سنگھی دے وچ ساہ: جاں بلب
لمّی عمر وہا: طویل عمر بیت گئی
تتڑی: بد نصیب
تاڑ: سختی
تریہہ: پیاس
بھانبڑ: بلند شعلے، الاؤ
لوں لوں: بال بال، ہر بنِ مُو
بھا: آگ
بالن: ایندھن
کوکاں: پکاریں
اُتّر چا پرتا: جواب تو دے
سنیہا: پیغام
آدربھا: آؤبھگت، استقبال
ڈونگھی اکھ دی دھار: نگاہِ جان بر
واٹیں، واٹ: فاصلہ، دوری
سُدھ نہ سار: نہ شعور نہ علم
میں دتا جگت وسار: میں نے دنیا بھر کو بھلا دیا
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

محمد خلیل الرحمٰن ، سید شہزاد ناصر ، محمد وارث ، عاطف مرزا ، نایاب ، مزمل شیخ بسمل ، مدیحہ گیلانی ، محب علوی ؛
 
جی ہاں! یہ تھا تو ’’مضبوط‘‘، یہاں کچھ زیادہ ہی ’’مظبوط‘‘ ہو گیا۔ ٹائپنگ میں ایسا ہو جایا کرتا ہے۔
جناب غلط کو ہمیشہ غلت ہی لکھنا چاہیئے ۔۔۔۔۔ سمجھدار را اشارہ است

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ آسی جی کی گل اے تُساں پنجابی او ۔۔۔۔۔۔ بہت خوشی ہوئی اے جان کے
 

نایاب

لائبریرین
وے جے سندا ایں کوکاں میریاں، کوئی اُتّر چا پرتا
کوئی گھل سنیہا سکھ دا، کوئی پریم دا راگ سنا
کوک تے جیویں سدھی روح اچ کھب گئی اے ۔ استاد محترم
 
Top