محمد یحیٰی خان کی کتاب "پیا رنگ کالا" سے اقتباس

معلوم ہوا کہ ہدایت جہاں سے ملنی ہوتی ہے ، وہیں سے ملتی ہے ۔ جہاں کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی نگاہ کام نہیں کرتی وہاں کسی انتہائی گنہگار ، بدکار اور برے انسان کی بات بول کام کر جاتے ہیں ۔ ماں باپ کہتے کہتے تھک ، ہار، عاجز آ جاتے ہیں مگر وہی بات کوئی سجن بیلی کہہ دیتا ہے تو فوراً مان لی جاتی ہے ۔ بڑے بڑے قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹروں ، معالجوں سے افاقہ نہیں ملتا اور فٹ پا تھ پہ بیٹھنے والے عطائی حکیم سے شفا نصیب ہو جاتی ہے ۔ میں نے پڑھا ہے اور بار بار میرے تجربے مشاہدے میں آیا ہے کہ اچھوں ، نیکوں اور حاجیوں نمازیوں سے کہیں زیادہ گنہگا روں ، خطا کاروں اور بروں کی بات میں اثر ہوتا ہے وہ زیادہ دلپذ یر اور دلنشین ہوتی ہیں ۔ بظاہر برے ، بدمعاش ، اجڑے ہوئے اور شرابی کبابی لوگ اچھوں ، نیکوں سے کہیں بڑھ کر وفادار اور وقت پہ کام آنے والے ہوتے ہیں ۔ اکثر اچھوں اور نیکوں کے ہاں اپنی پاک طینتی اور دین داری کا زعم و مان ہوتا ہے اور بروں ، بد کاروں ، گنہگاروں کے ہاں عجز ہی عجز ، شرمندگی ہی شرمندگی اور ہر وقت خود پہ لعن طعن اور توبہ استغفار ہوتی ہے ۔ بس یہی شرم اور خود کو مٹ مٹی سمجھنا ہی میرے اللہ کو پسند ہے ۔ کہتے ہیں کہ اتنے خالی پیٹ والے بیمار نہیں ہوتے جتنے کہ خوب برے ہوئے پیٹ والے بیمار ہوتے یا مرتے ہیں ۔ اس طرح کبھی کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھو ۔ خود کو نیک ، اچھا ، عبادت گزار، ولی اللہ اور دوسروں کو برا نہ کہو کہ کون جانے ، کوئی آج کیا ہے اور کل کیا ہو گا ؟ بقول شخصے ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔
 
Top