سولھویں سالگرہ محمد وارث صاحب سے علمی و ادبی مکالمہ

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب، سلام و رحمت
ایک سوال ہے کہ فارسی شعر و ادب سے روشناس ہونے کے لیے کون سی کتب اچھی ہیں؟
(اردو قارئین کے لیے)
"فارسی ادب کے چند گوشے" انور مسعود صاحب کی کتاب ہے، جس میں ان کے کچھ مضامین ہیں، کچھ شعرا پر اور ایک اکبر علی دہخدا پر جن کی لغت فارسی کی مستند ترین لغات میں سے سمجھتی جاتی ہے۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کی اقبال کی فارسی شروح مل جائیں تو عام معلومات کے لیے وہ بھی عمدہ کتب ہیں، خاص طور پر "جاوید نامہ" کی شرح، کیونکہ اس میں بہت سے مشاہیر کا نام ہے سو پروفیسر صاحب نے بہت وضاحت سے ان کا ذکر کیا ہے۔

اپنا ذکر کروں تو میں نصاب کی فارسی کتابیں بھی مارا مارا ڈھونڈتا پھرتا تھا، ایف اے، بی اے فارسی کی کتابیں، جن سے عمدہ معلومات مل جاتی ہیں اور کلام کا ترجمہ بھی ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک اور سوال آپ کی خدمت میں،

چونکہ آپ کا پاکستان و ہندوستان کے باہمی تعلقات کے حوالے سے گہرا مطالعہ ہے جس کے آثار اردو محفل کے مراسلات میں جا بجا مل جاتے ہیں، یہ فرمائیے کہ مستقبل قریب میں ان دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کا آپ کو کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔ کیا وقت کا جبر ان دو قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے؟
علی وقار صاحب اس سوال کا جواب ہم اور آپ دونوں ہی جانتے ہیں بلکہ سبھی جانتے ہیں۔ مستقبل قریب تو کیا مجھے تو دُور دُور بھی اس کے کوئی امکان نظر نہیں آتے، دراصل دونوں طرف کے سیاستدانوں نے اپنی اپنی عوام کا "مائنڈ سیٹ" ہی ایسا بنا دیا گیا ہےکہ جو فلاں کا یار ہے وہ غدار ہے اور یہ نعرہ دونوں طرف ہی ہے۔ سیاست نے اس خطے میں بہت عجب گل کھلائے ہیں اور ابھی مزید کھلائے گی۔ کشمیر کا کوئی ایسا فیصلہ جو تینوں فریقوں کے لیے قابلَ قبول ہو، کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ ایک اور دوراہا ہے، کیونکہ ایک فکر یہ ہے کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا تو پھر تعلقات بہتر ہونگے، دوسری طرف کچھ ایسی کوششیں بھی ہوئیں کہ پہلے تعلقات اچھے کر لیں ا س کے بعد کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ میرے نزدیک تقسیم کے بعد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے دو مواقع آئے تھے، ایک 1971 کے سرنڈر کے بعد شملہ کے وقت لیکن تب بھٹو اڑ گئے تھے (اور کسی قدر صحیح اڑے تھے کہ بقول ان کے میں اگر ایل او سی کو انٹرنیشنل بارڈر مان لوں تو مجھے کوئی پاکستان میں لینڈ نہیں کرنے دے گا) اور دوسری بار جب مشرف اور واجپائی اقتدار میں تھے۔ بہت سے بین الاقوامی ماہرین کا بھی یہی کہنا تھا یا ہے کہ یہ مسئلہ تبھی حل ہو سکتا ہے جب پاکستان میں فوج اور انڈیا میں "ہندتوا" والے اقتدار میں ہوں۔ آگرہ کے وقت تھوڑی سی امید بندھی تھی لیکن وہاں آڈوانی آڑے آ گئے۔ اب اللہ ہی جانے کیا ہوگا!
 

علی وقار

محفلین
علی وقار صاحب اس سوال کا جواب ہم اور آپ دونوں ہی جانتے ہیں بلکہ سبھی جانتے ہیں۔ مستقبل قریب تو کیا مجھے تو دُور دُور بھی اس کے کوئی امکان نظر نہیں آتے، دراصل دونوں طرف کے سیاستدانوں نے اپنی اپنی عوام کا "مائنڈ سیٹ" ہی ایسا بنا دیا گیا ہےکہ جو فلاں کا یار ہے وہ غدار ہے اور یہ نعرہ دونوں طرف ہی ہے۔ سیاست نے اس خطے میں بہت عجب گل کھلائے ہیں اور ابھی مزید کھلائے گی۔ کشمیر کا کوئی ایسا فیصلہ جو تینوں فریقوں کے لیے قابلَ قبول ہو، کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ ایک اور دوراہا ہے، کیونکہ ایک فکر یہ ہے کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل ہو گا تو پھر تعلقات بہتر ہونگے، دوسری طرف کچھ ایسی کوششیں بھی ہوئیں کہ پہلے تعلقات اچھے کر لیں ا س کے بعد کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ میرے نزدیک تقسیم کے بعد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے دو مواقع آئے تھے، ایک 1971 کے سرنڈر کے بعد شملہ کے وقت لیکن تب بھٹو اڑ گئے تھے (اور کسی قدر صحیح اڑے تھے کہ بقول ان کے میں اگر ایل او سی کو انٹرنیشنل بارڈر مان لوں تو مجھے کوئی پاکستان میں لینڈ نہیں کرنے دے گا) اور دوسری بار جب مشرف اور واجپائی اقتدار میں تھے۔ بہت سے بین الاقوامی ماہرین کا بھی یہی کہنا تھا یا ہے کہ یہ مسئلہ تبھی حل ہو سکتا ہے جب پاکستان میں فوج اور انڈیا میں "ہندتوا" والے اقتدار میں ہوں۔ آگرہ کے وقت تھوڑی سی امید بندھی تھی لیکن وہاں آڈوانی آڑے آ گئے۔ اب اللہ ہی جانے کیا ہوگا!
قابل غور نکات ہیں کیونکہ یہ عمیق مطالعے کا نتیجہ ہیں۔ کاش ہم ماضی سے سبق سیکھ سکیں۔ سلامت رہیں وارث بھائی۔
 

میم الف

محفلین
"فارسی ادب کے چند گوشے" انور مسعود صاحب کی کتاب ہے، جس میں ان کے کچھ مضامین ہیں، کچھ شعرا پر اور ایک اکبر علی دہخدا پر جن کی لغت فارسی کی مستند ترین لغات میں سے سمجھتی جاتی ہے۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کی اقبال کی فارسی شروح مل جائیں تو عام معلومات کے لیے وہ بھی عمدہ کتب ہیں، خاص طور پر "جاوید نامہ" کی شرح، کیونکہ اس میں بہت سے مشاہیر کا نام ہے سو پروفیسر صاحب نے بہت وضاحت سے ان کا ذکر کیا ہے۔
بہت شکریہ سر
اب اِن تمام کتب کا مطالعہ ہم پہ واجب ہے
 

میم الف

محفلین
اپنا ذکر کروں تو میں نصاب کی فارسی کتابیں بھی مارا مارا ڈھونڈتا پھرتا تھا، ایف اے، بی اے فارسی کی کتابیں، جن سے عمدہ معلومات مل جاتی ہیں اور کلام کا ترجمہ بھی ہوتا ہے۔
آہ -
یہی ذوق و شوق آپ کے فارسی اشعار کے سلسلے اور دیگر سلسلوں سے بھی ظاہر ہے، جزاک اللہ :rose:
 

سیما علی

لائبریرین
اپنی پہلی کتاب کے دیباچے میں علمائے دیوبند کا تذکرہ جس عقیدت و احترام سے کر گئے ہیں، ان سے سطحی واقفیت رکھنے والوں کو شاید یقین ہی نہ آئے کہ یہ جون کی تحریر ہے
صد فی صد درست کہہ رہے ہیں بھیا آپ سطحی واقفیت رکھنے والا سمجھ ہی نہیں سکتا ۔۔وہ مسلک کے اعتبار سے شیعہ خاندان سے تھے لیکن دیوبند سے منسلک ایک مدرسے میں پڑھے اور عمر بھر علمائے دیوبند کی وطن پرست سیاست کے گن گاتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top