رضا محمد مظہر کامل ہے حق کی شان عزت کا ، اعلی حضرت احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہہ

محمد مظہر کامل ہے حق کی شان عزت کا
نظر آتا ہے اس کثرت ميں کچھ انداز وحدت کا

يہی ہے اصل عالم مادہ ايجاد خلقت کا
يہاں وحدت ميں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا

گدا بھی منتظر ہے خلد ميں نيکوں کی دعوت کا
خدا دن خير سے لائے سخی کے گھر ضيافت کا

گنہ مغفور، دل روشن، خنک آنکھيں، جگر ٹھنڈا
تعالٰی اللہ! ماہ طيب عالم تيری طلعت کا

نہ رکھی گل کے جوش حسن نے گلشن ميں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغ رسالت کا

بڑھا يہ سلسلہ رحمت کا دور زلف والا ميں
تسلسل کالے کوسوں رہ گيا عصياں کی ظلمت کا

صف ماتم اٹھے خالی ہو زنداں ٹوٹيں زنجيريں
گنہگارو چلو مولٰی نے در کھولا ہے جنت کا

سکھايا ہے يہ کس گستاخ نے آئينہ کا يارب
نظارہ روئے جاناں کا بہانہ کرکے حيرت کا

ادھر امت کی حسرت پر ادھر خالق کی رحمت پر
نرالا طور ہوگا گردش چشم شفاعت کا

بڑھيں اس درجہ موجيں کثرت افضال والا کی
کنارہ مل گيا اس نہر سے دريائے وحدت کا

خم زلف نبی ساجد ہے محراب دو ابرو ميں
کہ يارب توہی والی ہے سيہ کاران امت کا

مدد اے جوشش گريہ بہادے کوہ اور صحرا
نظر آجائے جلوہ بے حجاب اس پاک تربت کا

ہوئے کمخوابی ہجراں ميں ساتوں پردے کمخوابی
تصور خوب باندھا آنکھوں نے استار تربت کا

يقيں ہے وقت جلوہ لغزشيں پائے نگہ پائے
ملے جوش صفائے جسم سے پابوس حضرت کا

يہاں چھڑ کا نمک واں مرہم کافور ہاتھ آيا
دل زخمی نمک پروردہ ہے کس کی ملاحت کا

الہٰی منتظر ہوں وہ خرام ناز فرمائيں
بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کمخواب بصارت کا

نہ ہو آقا کو سجدہ آدم و يوسف کو سجدہ ہو
مگر سد ذرائع داب ہے اپنی شريعت کا

زبان خار کس کس درد سے ان کو سناتی ہے
تڑپنا دشت طيبہ ميں جگر افگار فرقت کا

سرہانے ان کے بسمل کے يہ بيتابی کا ماتم ہے
شہ کوثر ترحم تشنہ جاتا ہے زيارت کا

جنہيں مرقد ميں تا حشر امتی کہہ کہ پکارو گے
ہميں بھی ياد کرلو ان ميں صدقہ اپنی رحمت کا

وہ چمکيں بجلياں يارب تجلی ہائے جاناں سے
کہ چشم طور کا سرمہ ہو دل مشتاق رويت کا

رضائے خستہ! جوش بحر عصياں سے نہ گھبرانا
کبھی تو ہاتھ آجائے گا دامن ان کی رحمت کا
 

مہ جبین

محفلین
سبحان اللہ ، ماشاءاللہ ، جزاک اللہ @سیدہ سارہ غزل
اللہ تم کو دین و دنیا کی دولتوں سے مالامال فرمائے آمین
 
Top