تیرہویں سالگرہ محفل کے شعراء کرام کے کلام کی مدح سرائی

نور وجدان

لائبریرین
اک نیا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہوں جس میں غزل کی تشریح کرنی ہے تشریح میں مزاح کا پہلو ہونا چاہیے. محفلین کی ریٹنگ سب سے اچھی تشریح کی محتسب ہوگی .. آجائیے بسم اللہ کیجیے ... آغاز میری جانب سے:) غزل محفلین اپنی مرضی کی غزل چن سکتے ہیں:) یا اسی پر طبع آزمائی بھی کرسکتے ہیں .. اور یہ تشریح کسی بھی دوست کو dedicate کرسکتے ہیں ...میں نے یہ انہی شعراء کرام کو dedicate کردی ہے:)



چین کس کو ہے, یہاں پر شاد کون !!
فکرِ ہستی سے ہُوا آزاد کون !!



اس شعر میں شاعرہ بہت دکھی ہے:cry: ..یہ دکھ ایسا ہے کہ شریک محفل نہیں کیا جاسکتا ہے ... ان کا کہنا ہے زندگی میں دو پل سکون کے ہونے چاہیے،:at-wits-end: یہ کیا ہر وقت کام .کام ...:( آرام کا تو وقت ہی نہیں ہے.کیونکہ کام کرنے سے بے چینی بڑھ جاتی ہے .:evil:.. شاعرہ ہر انسان کو مشینوں کی طرح کام کرتے دیکھ کے کڑھتی رہتی ہے اور سوچتی ہے کہ دنیا میں ہر انسان دکھی ہے ..:arrogant: کسی کے پاس سکون کی دولت ہی نہیں ہے .. شاعرہ تاہم بہت حساس واقع ہوئی ہیں کیونکہ وہ دوسروں کی بے سکونی کو بھی محسوس کرتی ہیں:) :desire:



کیجئے کیا شکوہ ِ جورو جفا
اُس ستمگر کو کرے اب یاد کون


شاعرہ اس شعر میں بے نیازی دکھاریی ہیں. ان کا ماننا ہے کہ انہیں اگر محبت راس نہیں آئی ہے اس لیے انہوں نے بھی ایسی محبت کو بھلا دیا ہے ..:laughing:. اچھا ہی ہے وہ چلا گیا ... ہر وقت مجھ سے ایزی لوڈ کا کہتا رہتا تھا :rollingonthefloor::rollingonthefloor:اور جو میں نے اک دن انکار کردیا تو کہنے لگا کہ اب کسی اور سے کہوں گا .:waiting:. شاعرہ کہتی ہیں یہ کیسی محبت ہے جس میں لینے کے بجائے دینا پڑے. اس سے پتا چلتا ہے کہ شاعرہ کا حساب بھی کافی اچھا ہے:)
:wave::wave:

دشمنوں کا ذکر جانے دیجئے
عشق سےبہترکرے بربادکون



اس شعر کا تعلق دراصل پچھلے شعر سے ہے. چونکہ پچھلے شعر میں بات مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے شاعرہ کو مجبوراً دوسرا شعر بھی کہنا پڑا .:thinking:. انہوں اپنے محبوب کو جب کسی اور کو تحائف دیتے پایا تو غصے سے ان کا خون کھول اٹھا اور اس کیفیتِ غیبی میں ان کو یہ شعر الہام ہوگیا ..:brb:. اتنا تلخ تجربہ ان کو اس سے قبل نہیں ہوا تھا اس لیے ان کو ماننا پڑا عشق نری بربادی ہے ..:notlistening:



میں سمندر, اور وہ صحرا نورد!
کون ہوں میں! اور مری ہمزاد کون!


یہ شعر بالکل نیا انوکھا ہے.:bee: اس کا پچھلے شعر سے کوئی تعلق نہیں ہے .:lol:. اس شعر میں شاعرہ کی اک دوست ہے وہ صحرا کی سیاحت کو چلی گئی ہے. اس دوست کا نام ہمزاد ہے.:atwitsend: شاعرہ کے آنسو گرتے رہے مگر چونکہ صحرا خشک ہوتا ہے اس لیے ٹپ ٹپ کرتے ریت میں گم ہوگئے:heehee: ...مزید براں شاعرہ نے سمندر ہونے کا دعوی کیا ہے. گمان غالب ہے ان کے آنسو سمندر بنتے گئے ہوں گے مگر خشک،کٹھور دوست پر اثر نہیں ہوا .. یوں لگتا ہے کہ وہ بھی محبوب جیسی سنگدل ہے... اس لیے شاعرہ ہمزاد کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود کو بھول گئی بقول شاعر

نہ جنون رہا نہ پری رہی ...:bomb:


مے کشوں کا کام ہے تعمیرِ دل
ہوش میں رکھے نئی بنیاد کون!


یہ شعر تھوڑا مشکل ہے. یہاں پر تعمیرات سے متعلق اپنا تجربہ شریک کیا ہے..:rollingonthefloor:. جتنے بھی دنیا کے مست نشے باز انسان ہیں :kissing:وہ بہت کام کرتے ہیں مگر سارے کام نشے میں دھت رہتے کرتے ہیں ..اس شعر میں ایسے نشے بازوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اب تم ہوش میں رہتے کام نہیں کرسکتے بلکہ سارے تعمیری کام شراب سے دل بہلاتے ہوں گے .:brokenheart::devil:.. شاہ جہاں نے تاج محل ایسے ہی تو تعمیر نہیں کرادیا تھا وہ بھی نشے میں دھت رہتا تھا اس لیے دل میں ممتاز بیگم کا محل تعمیر ہوگیا .. :notworthy: محبت کی یہ نشانی پوری دنیا میں سراہی جاتی ہے .. سو ہوش سے کام نہیں لینا چاہیے سارے کام مستی میں کرنے چاہیے


ڈھونڈھ لے گا عیب ہر تخلیق میں
آدمی سے ہے بڑا نقّاد کون!

شاعرہ نے یہ شعر تب بنایا جب ان کی سابقہ شاعری پر کسی نے بھی واہ واہ نہیں کی :cry2:بلکہ تنقید کی .:applause:.. وہ دل ہی دل میں پریشان ہوگئیں کہ داد تو داد یہاں تو تنقید شروع ہوگئی ہے :laughing:...اب انہوں نے اپنی بات پہنچانے کے لیے اس شعر کا تراشا ہے تاکہ آپ سب سمجھ جائیں. آپ سب سمجھ تو گئے ہوں گے نا
:laughing:

چھوڑ المٰی اب خوئے شوق ِ بیاں
روز سنتا ہے تری روداد کون!


یہ شعر بہت مشکل ہے :nerd:...شاعرہ کا دکھ بہت بڑا ہے جسے وہ پل پل محسوس کرتی ہیں :angry2:...چونکہ ہر وقت اک سی داستان سنتے سنتے سب تنگ آجاتے ہیں اس لیے حساس دل نے اسکو محسوس کرتے خود کو مخاطب کیا ہے ..اچھا چلو، ہماری نہیں سنتا تو ہم بھی نہیں سناتے کسی کو:sick4:
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
ارے آپ نے تو اصل تشریح کر ڈالی۔ بعینہ یہی میرے دل کی آواز تھی۔ اس ایزی لوڈ کی وجہ سے میرے دماغ پہ اتنا ہیوی لوڈ ہو گیا تھا کہ غزل لکھ کر بوجھ ہلکا کرنا پڑا۔ ;)
 

نور وجدان

لائبریرین
لاالمی صاحبہ سے معذرت ، صرف چند اور اشعار کے لیے

اے عقلِ کم شناس! ہوئی کارگر نہ چال
تدبیرِ عشق نے تری، جینا کیا محال
یہ شاعرہ نے ان دنوں شعر لکھا تھا جب وہ اپنے کمرہِ امتحان بیٹھیں تھیِ اور ذہن خالی تھا .:sidefrown:.. اسی اثناء میں انہوں نے ڈرتے ڈرتے دونوں اطراف دیکھا .. نگران استاد کو نا پاکے فٹافٹ بوٹی نکالی اور اس کو پرچے کے نیچے رکھ دیا .:p. جیسے ہی انہوں نے نقل سے جوابی کاپی بھرنا شروع کیا تو ان کی چوری کو پکڑ لیا گیا ...:barefoot: شاعرہ آہیں بھرکے رہ گئی اور دکھ میں یہ شعر تحریر کیا ۔۔۔:D



چاروں طرف سکوت ہے، سُر ہے نہ کوئی تال
عالم پھر آئے وجد میں اب ساز تُو سنبھال

ویسے تو یہ شعر بہت اچھے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے. یہ ایک واقعے کی نشاندہی کرتا ہے جب اک ڈسکو پارٹی میں شاعرہ گئیں:cool: تو یہ دیکھ کے حیران سی رہ گئیں کہ سب اس لیے ڈانس اس لیے نہیں کررہے تھے کہ لائٹ چلی گئی تھی:rollingonthefloor: اور وہاں پر کوئی گائیک ہی نہیں ہے ...اب چونکہ یہ شاعرہ کو ڈانس کرنا ،گانے سے زیادہ مرغوب ہے اس لیے وہ کچھ دکھی ہوگئیں ہیں:nottalking::nottalking: کیونکہ اگر وہ گانا شروع کردیں گی تو ڈانس نہ کر پائیں گی .:bee:. مجبوراً محفل کا سناٹا توڑنے کو انہوں نے خود ترغیبی میں شعر کہا کہ اب ساز سنبھالنے کی باری انہی کی ہے. محفل وجد میں تب ہی آ پائے گی جب ساز ان کے پاس ہوگا :battingeyelashes::applause:

کس طور لب پہ حرفِ تمنا کو لائیے
مقدور کب ہمیں ہے ابھی جراتِ سوال

شاعرہ کی رقیب تمنا انہیں اک دن ملی اور انہیں بتایا کہ ان کے دوست نے ان کو ایزی لوڈ کرا کے دیا تھا. شاعرہ کا تو غم پھر سے ہرا ہی ہوگیا ..:laugh: وہ اپنی مخاطب کی بات سن کے بہت تلملائیں اور پھر اپنے دوست کو فون کر ہی ڈالا .. :kiss3:جب بات سلام سے آگے بڑھی تو ان کی زبان گنگ ہوگئی ..:sad4:. جس کو "کنگال " کہتے کہتے "بریک اپ " کیا تھا وہ آج کل کڑور پتی ہوگیا ہے :music:اور یہ سوچ رہی ہیں تھیں کہ اب پھر سے اس سے کیسے بات کریں .. اس کے لیے جرات چاہیے جو کہ فی الحال خود میں نہیں پاتی. اک کشمکش کا عالم ہے بس کہ کیا کریں


عیش و نشاط نے کیا بیگانہء خرد
اترے خُمار آج، مئے غم ذرا اچھال


اس شعر کا تعلق سابقہ شعر سے ہے ، چونکہ شاعرہ بہت عقل مند اور پریکٹیکل ہیں اس لیے انہوں نے اپنے دوست کی کلاس لینے کی ٹھانی ۔۔:vampirebat:۔ اور اس وقت تو قیامت آگئی جب اس کا موبائل ہاتھ لگا ۔۔:devil3: کیا ٹینا ، شینا ، مینا ۔۔۔۔۔۔ شاعرہ کا تو دماغ ہی بھک سے اڑ گیا اور وہ ہوا ۔۔۔۔۔۔:bomb: جس کی آپ سب کو توقع ہوگی :jokingly: یہ شعر ایک تجربہ ہے جس میں یہ بتایا گیا اگر زیادہ عیش عشرت سے کسی کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے تو سنگین اقدامات بھی ضرور کرنے چاہیے:kissing:
 

La Alma

لائبریرین
لاالمی صاحبہ سے معذرت ، صرف چند اور اشعار کے لیے

اے عقلِ کم شناس! ہوئی کارگر نہ چال
تدبیرِ عشق نے تری، جینا کیا محال
یہ شاعرہ نے ان دنوں شعر لکھا تھا جب وہ اپنے کمرہِ امتحان بیٹھیں تھیِ اور ذہن خالی تھا .:sidefrown:.. اسی اثناء میں انہوں نے ڈرتے ڈرتے دونوں اطراف دیکھا .. نگران استاد کو نا پاکے فٹافٹ بوٹی نکالی اور اس کو پرچے کے نیچے رکھ دیا .:p. جیسے ہی انہوں نے نقل سے جوابی کاپی بھرنا شروع کیا تو ان کی چوری کو پکڑ لیا گیا ...:barefoot: شاعرہ آہیں بھرکے رہ گئی اور دکھ میں یہ شعر تحریر کیا ۔۔۔:D



چاروں طرف سکوت ہے، سُر ہے نہ کوئی تال
عالم پھر آئے وجد میں اب ساز تُو سنبھال

ویسے تو یہ شعر بہت اچھے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے. یہ ایک واقعے کی نشاندہی کرتا ہے جب اک ڈسکو پارٹی میں شاعرہ گئیں:cool: تو یہ دیکھ کے حیران سی رہ گئیں کہ سب اس لیے ڈانس اس لیے نہیں کررہے تھے کہ لائٹ چلی گئی تھی:rollingonthefloor: اور وہاں پر کوئی گائیک ہی نہیں ہے ...اب چونکہ یہ شاعرہ کو ڈانس کرنا ،گانے سے زیادہ مرغوب ہے اس لیے وہ کچھ دکھی ہوگئیں ہیں:nottalking::nottalking: کیونکہ اگر وہ گانا شروع کردیں گی تو ڈانس نہ کر پائیں گی .:bee:. مجبوراً محفل کا سناٹا توڑنے کو انہوں نے خود ترغیبی میں شعر کہا کہ اب ساز سنبھالنے کی باری انہی کی ہے. محفل وجد میں تب ہی آ پائے گی جب ساز ان کے پاس ہوگا :battingeyelashes::applause:

کس طور لب پہ حرفِ تمنا کو لائیے
مقدور کب ہمیں ہے ابھی جراتِ سوال

شاعرہ کی رقیب تمنا انہیں اک دن ملی اور انہیں بتایا کہ ان کے دوست نے ان کو ایزی لوڈ کرا کے دیا تھا. شاعرہ کا تو غم پھر سے ہرا ہی ہوگیا ..:laugh: وہ اپنی مخاطب کی بات سن کے بہت تلملائیں اور پھر اپنے دوست کو فون کر ہی ڈالا .. :kiss3:جب بات سلام سے آگے بڑھی تو ان کی زبان گنگ ہوگئی ..:sad4:. جس کو "کنگال " کہتے کہتے "بریک اپ " کیا تھا وہ آج کل کڑور پتی ہوگیا ہے :music:اور یہ سوچ رہی ہیں تھیں کہ اب پھر سے اس سے کیسے بات کریں .. اس کے لیے جرات چاہیے جو کہ فی الحال خود میں نہیں پاتی. اک کشمکش کا عالم ہے بس کہ کیا کریں


عیش و نشاط نے کیا بیگانہء خرد
اترے خُمار آج، مئے غم ذرا اچھال


اس شعر کا تعلق سابقہ شعر سے ہے ، چونکہ شاعرہ بہت عقل مند اور پریکٹیکل ہیں اس لیے انہوں نے اپنے دوست کی کلاس لینے کی ٹھانی ۔۔:vampirebat:۔ اور اس وقت تو قیامت آگئی جب اس کا موبائل ہاتھ لگا ۔۔:devil3: کیا ٹینا ، شینا ، مینا ۔۔۔۔۔۔ شاعرہ کا تو دماغ ہی بھک سے اڑ گیا اور وہ ہوا ۔۔۔۔۔۔:bomb: جس کی آپ سب کو توقع ہوگی :jokingly: یہ شعر ایک تجربہ ہے جس میں یہ بتایا گیا اگر زیادہ عیش عشرت سے کسی کا دماغ کام کرنا چھوڑ دے تو سنگین اقدامات بھی ضرور کرنے چاہیے:kissing:
میری رقیبوں کی فہرست میں آج سے آپ بھی شامل ہیں۔ آخر یہ راز کی باتیں آپ کو بتاتا کون ہے؟ :eek::-(
ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ اس سے لاکھ بہتر تھا کہ میں انٹرویو دے کر اپنا کچا چھٹا خود ہی کھول دیتی:):):)
 

نور وجدان

لائبریرین
میری رقیبوں کی فہرست میں آج سے آپ بھی شامل ہیں۔ آخر یہ راز کی باتیں آپ کو بتاتا کون ہے؟ :eek::-(
ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ اس سے لاکھ بہتر تھا کہ میں انٹرویو دے کر اپنا کچا چھٹا خود ہی کھول دیتی:):):)
ہہہم! آپ کو ہم سمجھدار سمجھتے تھے اور توقع سے بڑھ کے ہیں ... تو پھر دے رہی ہیں انٹرویو .....؟ یا ....؟ آپ سے انٹرویو تو میں اپنی خواہش پر لینا چاہتی تھی پر آپ: (
 
ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ اس سے لاکھ بہتر تھا کہ میں انٹرویو دے کر اپنا کچا چھٹا خود ہی کھول دیتی
ہم نے بھی اس لڑی کی سازش اس لیے کی ہے تا کہ اس لاکھ درجہ بہتر کو ہونے دیا جائے۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی ساری غزلیں اور ہم!! (دھمکی)
 

La Alma

لائبریرین
ہہہم! آپ کو ہم سمجھدار سمجھتے تھے اور توقع سے بڑھ کے ہیں ... تو پھر دے رہی ہیں انٹرویو .....؟ یا ....؟ آپ سے انٹرویو تو میں اپنی خواہش پر لینا چاہتی تھی پر آپ: (
ہم نے بھی اس لڑی کی سازش اس لیے کی ہے تا کہ اس لاکھ درجہ بہتر کو ہونے دیا جائے۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی ساری غزلیں اور ہم!! (دھمکی)
چلیں آپ بھی کیا یاد کریں گی ۔۔۔۔کر لیں پھر ۔۔۔میری غزلوں کا تیاپانچہ :p:)
 
ہجر کی راتیں نہ کٹتی تھیں کسی تدبیر سے
گفتگو کرتے رہے ہیں ہم تری تصویر سے

نمرہ کا شمار ان شعرا کی صف اول کے داہنے بازو کے شمالی دستے میں ہوتا ہے جنہوں نے وطن سے دور رہتے ہوئے اردو کی سربلندی کے لیے کی جانے والی سر توڑ کوششوں کی اوکھلی میں اپنا سر دیا۔ اس بات کا اندازہ شعر ہذا کے پہلے لفظ 'ہجرت' سے ہی ہو جاتا ہے تاہم قسمت کی خوبی دیکھیے کہ شعر کو وزن میں لانے کے لیے جب ہجرت سے ت گرا دی گئی تو پھر جس لفظ نے جنم لیا اس سے شعر کے معانی نا صرف مزید دو آتشہ ہوئے بلکہ اس سے شعر کی آفاقیت بھی بڑھ گئی اور کیوں نہ بڑھتی کہ تارکین وطن کی تعداد اور وطن عزیز میں عشاق کی تعداد کا تناسب تو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ شعر کے پہلے مصرعہ میں شاعرہ کا اشارہ اس واقعے کی جانب ہے جب انہیں وطن عزیز سے پرواز کیے ہوئے محض چند روز ہی ہوئے تھے اور دیار غیر کا وقت کا زون مختلف تھا۔ شاعرہ دن کو مقامی لوگوں کے تمام گھوڑے بیچ کر سوتی رہتیں اور جب رات اپنی زلفیں بکھیرنے لگتی تو خالی اصطبل کے ایک کونے میں بیٹھ کرتدبیر کی تیز دھار قینچی سے (جو اکثر گھوڑوں کے فرنچ کٹ کے دوران کام آتی ہے بشرطیکہ گھوڑے میاں کی 'دولتی' سے انسان اس مہم میں کام نہ آ جائے) رات کی زلفیں کاٹنے لگتیں۔ ان کا ارادہ تو رات کی سٹیپ لئیر کٹنگ کا ہوتا مگر وطن عزیز کے خیال سے اس وقت چونکتیں جب رات اپنے بال کٹوا کٹوا کر کبوتری بن چکی ہوتی۔

دوسرا مصرعہ اس امر کا آئینہ دار ہے کہ جب شاعرہ ہر نئی رات کو کبوتری بنانے کے مشغلے سے تنگ آگئیں توانہوں نے ایک تصویر سے گفتگو کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعض مؤرخین نے تو ان کے کلام کی شرح کرتے ہوئے وہ تصویر بھی نقل کی ہے۔ شاعرہ کا ہر رات اس تصویر سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ایک دن وہ 'تصویر بولنے لگ گئی'۔ اس وقت شاعرہ کی حالت دیدنی تھی۔ اصطبل کے سبھی گھوڑے سٹپٹا گئے اور شاعرہ نے ایک سٹپٹائے ہوئے گھوڑے پر اس سے زیادہ سٹپٹائی ہوئی حالت میں بیٹھ کرگھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ وہ سر پٹ دوڑتا رہا، دوڑتا رہا یہاں تک کہ موصوف کے جوتے کی ہیل ٹوٹ گئی۔
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
نمرہ کا شمار ان شعرا کی صف اول کے داہنے بازو کے شمالی دستے میں ہوتا ہے جنہوں نے وطن سے دور رہتے ہوئے اردو کی سربلندی کے لیے کی جانے والی سر توڑ کوششوں کی اوکھلی میں اپنا سر دیا۔ اس بات کا اندازہ شعر ہذا کے پہلے لفظ 'ہجرت' سے ہی ہو جاتا ہے تاہم قسمت کی خوبی دیکھیے کہ شعر کو وزن میں لانے کے لیے جب ہجرت سے ت گرا دی گئی تو پھر جس لفظ نے جنم لیا اس سے شعر کے معانی نا صرف مزید دو آتشہ ہوئے بلکہ اس سے شعر کی آفاقیت بھی بڑھ گئی اور کیوں نہ بڑھتی کہ تارکین وطن کی تعداد اور وطن عزیز میں عشاق کی تعداد کا تناسب تو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ شعر کے پہلے مصرعہ میں شاعرہ کا اشارہ اس واقعے کی جانب ہے جب انہیں وطن عزیز سے پرواز کیے ہوئے محض چند روز ہی ہوئے تھے اور دیار غیر کا وقت کا زون مختلف تھا۔ شاعرہ دن کو مقامی لوگوں کے تمام گھوڑے بیچ کر سوتی رہتیں اور جب رات اپنی زلفیں بکھیرنے لگتی تو خالی اصطبل کے ایک کونے میں بیٹھ کرتدبیر کی تیز دھار قینچی سے (جو اکثر گھوڑوں کے فرنچ کٹ کے دوران کام آتی ہے بشرطیکہ گھوڑے میاں کی 'دولتی' سے انسان اس مہم میں کام نہ آ جائے) رات کی زلفیں کاٹنے لگتیں۔ ان کا ارادہ تو رات کی سٹیپ لئیر کٹنگ کا ہوتا مگر وطن عزیز کے خیال سے اس وقت چونکتیں جب رات اپنے بال کٹوا کٹوا کر کبوتری بن چکی ہوتی۔

دوسرا مصرعہ اس امر کا آئینہ دار ہے کہ جب شاعرہ ہر نئی رات کو کبوتری بنانے کے مشغلے سے تنگ آگئیں توانہوں نے ایک تصویر سے گفتگو کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعض مؤرخین نے تو ان کے کلام کی شرح کرتے ہوئے وہ تصویر بھی نقل کی ہے۔ شاعرہ کا ہر رات اس تصویر سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ایک دن وہ 'تصویر بولنے لگ گئی'۔ اس وقت شاعرہ کی حالت دیدنی تھی۔ اصطبل کے سبھی گھوڑے سٹپٹا گئے اور شاعرہ نے ایک سٹپٹائے ہوئے گھوڑے پر اس سے زیادہ سٹپٹائی ہوئی حالت میں بیٹھ کرگھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ وہ سر پٹ دوڑتا رہا، دوڑتا رہا یہاں تک کہ موصوف کے جوتے کی ہیل ٹوٹ گئی۔

شعرا کے راز سر عام افشا کر رہی ہیں آپ تو! بھئی ٹریڈ سیکریٹس ہوتے ہیں یہ سب۔ اور بھی مزاح لکھیے :)
 

سیما علی

لائبریرین
اے عقلِ کم شناس! ہوئی کارگر نہ چال
تدبیرِ عشق نے تری، جینا کیا محال
یہ شاعرہ نے ان دنوں شعر لکھا تھا جب وہ اپنے کمرہِ امتحان بیٹھیں تھیِ اور ذہن خالی تھا .:sidefrown:.. اسی اثناء میں انہوں نے ڈرتے ڈرتے دونوں اطراف دیکھا .. نگران استاد کو نا پاکے فٹافٹ بوٹی نکالی اور اس کو پرچے کے نیچے رکھ دیا .:p. جیسے ہی انہوں نے نقل سے جوابی کاپی بھرنا شروع کیا تو ان کی چوری کو پکڑ لیا گیا ...:barefoot: شاعرہ آہیں بھرکے رہ گئی اور دکھ میں یہ شعر تحریر کیا ۔۔
نور یہ تو بے حد کمال ہے
کیا بات ہے ہم بالکل
Speechless اتنی اعلیٰ تشریح :star:
 
Top