محترم محمد خلیل الرحمن صاحب کا انٹرویو

نور وجدان

لائبریرین
اسٹیج سج چکا ہے ،مہمان پنڈال میں بیٹھ چکے ہیں ۔۔ یہ یاد رکھیے کہ محفل میں لائیو براڈ کاسٹنگ پہلی مرتبہ ہورہی ہے ، اس لائیو براڈ کاسٹنگ میں آپ کی میزبان نور سعدیہ شیخ تشریف لاچکی ہے ۔۔۔ میرے ساتھی میزبان عدنان ، مریم اور فہد بھی میرے ساتھ بیٹھ چکے ہیں ۔ ابھی تک محفل کی بہت سی معزز ہستیوں کو مدعو کیا جاچکا ہے ۔۔ان میں ایک بہت ہی جانی مانی شخصیت بھی موجود ہیں ۔۔ جن کا ہاتھ میں ہنر کی چھاپ ہے ! یہ وہ مہمان ہیں جو پابندی سے شاعری کرتے ہیں :) پابندی سے مراد روزمرہ والی پابندی نہیں بلکہ پابند بحور والی پابندی :) اس کے علاوہ ان کی رگِ ظرافت جب پھڑکتی ہے تو کچھ فکاہیہ شاعری یعنی وزل بھی لکھتے ہیں :) سنجیدہ ہونے پر آئیں تو سوانح حیات جیسی لمبی طویل تحاریر لکھ ڈالتے ہیں اور مزاج میں شوخی اس قدر ہے کہ نثر میں بھی کافی فکاہیہ تحاریر موجود ہیں :) ان کو بچوں سے بہت محبت ہے ان کا بس چلے تو سارا ادب ہی بچوں کے نام کر ڈالیں ۔۔ آپ کو ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بتاتی چلوں کہ یہ سفرنامے بھی لکھتے ہیں ۔۔ سو کافی تجربہ کار ہستی ہیں ہمارے اسٹیج پر موجود ہے ۔۔

لو ۔۔۔ حاضرین نے ابھی سے وسٹلنگ شروع کردی ۔۔۔
تابش بھائی ! تابس کدھر ہیں ! ذرا دیکھئے !

آپ بتاسکتے ہیں کون ہیں وہ شخصیت ؟

لو ۔۔۔ شور پھر سے شروع ۔۔۔ کیا ۔۔۔؟ اونچا ۔۔۔! سمجھ نہیں آرہا ! خلیل الرحمن !

جی تو محفلین جیت گئے ۔۔۔ یہ ہمارے خلیل الرحمن بھیا ہیں !
محفل کے مدیر بھی ہیں
محفل کی رونق بھی ہیں
محفلین کے سرپرست بھی
اصلاح سخن میں تاکا جھانکی بھی کرتے ہیں
عروض کی گولیاں بھی کھا رکھی ہیں
جی ۔۔ بالکل کڑوی لگتی ہوں نو آموز شاعروں کو ۔۔
زبان میٹھی ہے !
اخلاص سے پر ہیں ۔۔

ارررے ! آپ نے ہماری اتنی تعریف کردی ( اسٹیج پر چڑھنے کے بعد ) ( میوزک شروع )

(میوزک بند ) ارے کمال کرتے ہیں آپ بھی ! آپ میں اتنے گن موجود ہیں تو بس ہم نے تو وہی دیکھا، سنا اور پڑھا بتایا ہے

تو سوالات شروع کروں ؟ تیار ہیں؟

ارررے میں تو بھول ہی گئی ! یہ چائے اور اسنیکس لیجیئے !

تو ناظرین چائے کے وقفے کیساتھ ہم ہوتے ہیں حاضر ایک بار پھر
تب تک کے لیے اجازت
میں ہوں آپ کی میزبان نور


---------------------------------------------------------------------------------
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
سوال 1: آپ اپنے نام کے اپنی شخصیت پر کیا اثرات پاتے ہیں؟
سوال 2: چائے زیادہ پسند ہیں یا کافی ؟
سوال3: آئسکریم پارلر میں جاکر کھاتے ہیں یا گھر :)
سوالنمبر 4: بچوں کو کہانیاں پکڑا دیتے ہیں یا سناتے ہیں
سوالنمبر 5: سوانح حیات لکھنے کا محرک
سوالنمبر6؛ کھانا پسند نہ آئے تو خود پکاتے ہیں یا باہر سے منگوا لیتے ہیں یا پھر ۔۔۔۔۔۔:)
سوالنمبر 7 ۔ جب کبھی غصہ آتا ہے تو کیا کرتے ہیں؟
سوالنمبر 8: سنجیدہ ادب میں کون کون سے لکھاری پسند ہیں؟
سوالنمبر 9 : آپ خود کے بارے جو خواب دیکھا کرتے تھے اس کی تکمیل ہو چکی ہے یا ابھی سلسلہ باقی ہے
سوالنمبر 10: محفل کیسے آنا ہوا
سوالنمبر 11: آپ کی کوئی کتاب پبلش ہوچکی ہے ؟ اگر نہیں تو کب کروانی ہے؟
سوالنمبر 12": آپ کے پسندیدہ محفلین
سوالنمبر 13: آپ نے قران پاک سے کیا سیکھا ؟
سوالنمبر 14: سنجیدہ شاعری کیوں نہیں کرتے
سوالنمبر 15: بچوں کے بارے میں لکھنے کی کوئی خاص وجہ؟
سوالنمبر 16: کس بیٹے یا بیٹی سے زیادہ پیار ہے ؟
سوالنمبر 17: بچوں کی تربیت کیسے کرنی چاہیے ؟
سوالنمبر 18: آپ کے نزدیک بچوں کو موبائلز ٹیبز دے دینی چاہیے ،جیسے ہمارے خیبر کے حماد صافی 11 سال کی عمر میں پروفیسر ہیں.. وہ بھی تو استعمال کرتے ہوں.گے تو اس کے منفی اثرات سے کیسے بچا جائے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
محترممحمد خلیل الرحمٰن کے انٹرویو کا باقاعدہ آغاز کیا جاتا ہے! چائے اہتمام کے ساتھ لی.جا.چکی ہے. سینڈوچز بہت پسند کیے گئے:) ساتھ میں پزے کی دو سلائسز سے مستفید ہوتے بہت خوشگوار موڈ میں میزبان و.مہمان دونوں موجود ہیں ..
 
اسٹیج سج چکا ہے ،مہمان پنڈال میں بیٹھ چکے ہیں ۔۔ یہ یاد رکھیے کہ محفل میں لائیو براڈ کاسٹنگ پہلی مرتبہ ہورہی ہے ، اس لائیو براڈ کاسٹنگ میں آپ کی میزبان نور سعدیہ شیخ تشریف لاچکی ہے ۔۔۔ میرے ساتھی میزبان عدنان ، مریم اور فہد بھی میرے ساتھ بیٹھ چکے ہیں ۔ ابھی تک محفل کی بہت سی معزز ہستیوں کو مدعو کیا جاچکا ہے ۔۔ان میں ایک بہت ہی جانی مانی شخصیت بھی موجود ہیں ۔۔ جن کا ہاتھ میں ہنر کی چھاپ ہے ! یہ وہ مہمان ہیں جو پابندی سے شاعری کرتے ہیں :) پابندی سے مراد روزمرہ والی پابندی نہیں بلکہ پابند بحور والی پابندی :) اس کے علاوہ ان کی رگِ ظرافت جب پھڑکتی ہے تو کچھ فکاہیہ شاعری یعنی وزل بھی لکھتے ہیں :) سنجیدہ ہونے پر آئیں تو سوانح حیات جیسی لمبی طویل تحاریر لکھ ڈالتے ہیں اور مزاج میں شوخی اس قدر ہے کہ نثر میں بھی کافی فکاہیہ تحاریر موجود ہیں :) ان کو بچوں سے بہت محبت ہے ان کا بس چلے تو سارا ادب ہی بچوں کے نام کر ڈالیں ۔۔ آپ کو ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بتاتی چلوں کہ یہ سفرنامے بھی لکھتے ہیں ۔۔ سو کافی تجربہ کار ہستی ہیں ہمارے اسٹیج پر موجود ہے ۔۔

لو ۔۔۔ حاضرین نے ابھی سے وسٹلنگ شروع کردی ۔۔۔
تابش بھائی ! تابس کدھر ہیں ! ذرا دیکھئے !

آپ بتاسکتے ہیں کون ہیں وہ شخصیت ؟

لو ۔۔۔ شور پھر سے شروع ۔۔۔ کیا ۔۔۔؟ اونچا ۔۔۔! سمجھ نہیں آرہا ! خلیل الرحمن !

جی تو محفلین جیت گئے ۔۔۔ یہ ہمارے خلیل الرحمن بھیا ہیں !
محفل کے مدیر بھی ہیں
محفل کی رونق بھی ہیں
محفلین کے سرپرست بھی
اصلاح سخن میں تاکا جھانکی بھی کرتے ہیں
عروض کی گولیاں بھی کھا رکھی ہیں
جی ۔۔ بالکل کڑوی لگتی ہوں نو آموز شاعروں کو ۔۔
زبان میٹھی ہے !
اخلاص سے پر ہیں ۔۔

ارررے ! آپ نے ہماری اتنی تعریف کردی ( اسٹیج پر چڑھنے کے بعد ) ( میوزک شروع )

(میوزک بند ) ارے کمال کرتے ہیں آپ بھی ! آپ میں اتنے گن موجود ہیں تو بس ہم نے تو وہی دیکھا، سنا اور پڑھا بتایا ہے

تو سوالات شروع کروں ؟ تیار ہیں؟

ارررے میں تو بھول ہی گئی ! یہ چائے اور اسنیکس لیجیئے !

تو ناظرین چائے کے وقفے کیساتھ ہم ہوتے ہیں حاضر ایک بار پھر
تب تک کے لیے اجازت
میں ہوں آپ کی میزبان نور


---------------------------------------------------------------------------------
لو جی!

نور سعدیہ شیخ بٹیا اور مریم افتخار بٹیا نے انٹرویو کے بارے میں دریافت کیا تو ہم سمجھے کہیں کافی ہاؤس کی کسی کونے والی میز پر بیٹھ کر یہ دونوں پرانی طرز کے نیشنل ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کا بٹن دبائیں گی اور سوالات کریں گی اور ہم مزے سے گرم گرم کافی کے گھونٹ بھرتے ہوئے ان کے تند وترش سوالوں کے جواب سوچیں گے اور نہایت اطمینان کے ساتھ بولنا شروع کردیں گے۔ بات سے بات نکلے گی اور یوں یہ مشکل انٹرویو ایک آسان گفتگو میں تبدیل ہو جائے گا!

اللہ ری قسمت!

یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ یوں اس لائیو براڈکاسٹ میں سرِ محفل ہمیں بلاکر سب کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا کہ خلیل میاں، وہ دن گئے جب فاختہ اڑایا کرتے تھے، اب ذرا اپنے کرتوتوں کا حساب تو دو؟

سچ پوچھیے تو ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے ایک لمبی اڑان بھرکر نظروں سے غائب ہوچکے ہیں، اور ہم یکہ و تنہاء اسٹیج پر کھڑے رہ گئے ہیں۔ ابھی کچھ دیر تالیاں بجیں گی اور تھم جائیں گی۔ ہمارا گلا خشک ہوچکا ہے۔ ٹانگیں ہیں کہ بیدِ مجنوں کی طرح کانپ رہی ہیں۔

بولنے کی کوشش تو ضرور کررہے ہیں لیکن گلے سے کچھ اس قبیل کی آواز نکلی ہے گویا کسی ہم نشیں سے سرگوشی میں کچھ کہا ہو۔ یا وحشت!

جیسی اب ہے مری حالت! کبھی ایسی تو نہ تھی​
پانی، پانی، تھوڑا پانی ملے گا؟

تالیاں تھم چکی ہیں۔ دو منٹ کی مکمل خامشی، گویا کہتے ہوں، لو بیٹا! سوچ لو جتنا سوچ سکتے ہو!

ہلکی ہلکی استھزائیہ ہنسی کی آواز بتدریج بلند ہوتی جاتی ہے۔

اور لیجیے! کہیں سے پانی کا گلاس ہمیں تھمادیا گیا ہے۔ موقعہ مل گیا ہے کہ کونے میں رکھے اسٹول پر جاکر بیٹھ جائیں اور سکون سے قطرہ قطرہ، گھونٹ گھونٹ پانی پئیں۔ روح افزاء اور راحتِ جاں پانی۔

پانی پی لینے دیجیے، پھر جواب دینا شروع کرتے ہیں۔ دے پائیں گے؟
 
آخری تدوین:
دو گھونٹ پورے پی چکے ہیں لیکن حلق کی خشکی ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ لیجیے اتنی دیر ہمارا خود ساختہ تعارف پڑھ لیجیے۔ اسی کو کہتے ہیں نا! اپنے منہ میاں مٹھو!!!

بقلم خود۔محمد خلیل الرحمٰن
تعارف لکھنے کی فرمائش ہوئی تو جی چاہا کہ فوراً کہہ دیں‘‘ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے’’ لیکن پھر قبل اسکے کہ کوئی اور ہم پر ہنستا، ہمیں خود اپنے آپ پر ہنسی آگئی۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، بہت بڑے لکھاری ہیں، لیکن ان سے ایک غلطی سرزد ہوہی گئی۔ تزکِ یوسفی میں اپنے بجائے ہمارا تعارف لکھ مارا۔ لکھتے ہیں‘‘ یہ سرگزشت ایک عام آدمی کی کہانی ہے، جس پر بحمد اللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کجا اینٹی۔ ہیرو ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کرسکتا۔ عام آدمی تو بیچارہ اتنی سکت اور استطاعت نہیں رکھتا کہ اپنی زندگی کو مردم آزاری کے تین مسلمہ ادوار میں تقسیم کرسکے ۔ یعنی جوانی میں فضیحت، ڈھلتی عمر میں نصیحت اور بڑھاپے میں وصیت۔ یہ طغیانِ شباب ، لاف ہائے شادکامی، معاصرانہ چشمکوں اور سیاست کی شورا شوری کی داستان نہیں۔نہ کسی کی مہم جوئی اور کشور کشائی کا ‘‘ساگا’’ ہے۔ ’’
حلیہ بیان کرتے وقت بھی یہی غلطی دہرائی، سوائے ناک کے، کہ یوسفی صاحب، صاحبِ ناک ہیں اور اِدھر ہمارے مدعا کی طرح ناک بھی عنقا ہے۔ لکھتے ہیں۔‘‘ نہاں خانہ دل کی ہیرو گیلری پر نگاہ کی تو کسی کی رمق تک اپنی ذات میں نظر نہ آئی۰۰۰ ہنری ہشتم، سیموئل جانسن، گوتم بدھ، فالسٹاف، بابر، غالب، پک وک، بچے، امیر خسرو۔۔ ہاں ذہن پر ذرا زور ڈالا تو بعض مشاہیر کے جن چیدہ چیدہ اوصاف اور شباہتوں کا اپنی ذات میں جمگھٹا نظر آیا ، کاش وہ نہ ہوتیں تو زندگی سنور جاتی۔مثلاً نپولین کا قد، جولیس سیزر کا چٹیل سر، جینا لولو برجیدا کا وزن، سیموئل جانسن کی بینائی، ناک بالکل قلوپطرہ کی مانند کہ اگر ۱یک بٹا بارہ انچ بھی چھوٹی ہوتی تو اس دکھیا کا شمار بد صورتوں میں اور اپنا خوبصورتوں میں ہوتا۔’’ وغیرہ وغیرہ
ہاتھی اور چوہے کی کہانی تو آپ نے سن رکھی ہوگی جنھوں نے ایک دوسرے سے اسکی عمر دریافت کی تھی۔چوہے کا جواب کہ عمر تو میری بھی اتنی ہی ہے پر میں بچپن میں ذرا بیمار رہتا تھا، دراصل ہمارا بھی جواب ہے۔ بچپن میں ایک مرتبہ ٹائیفائڈ نے آگھیرا تو جان کے لالے پڑ گئے۔ ماں پیاری نے ، روتے ہوئے بچے کو گود میں اٹھا کر کئی کئی راتیں جاگ کر گزاریں۔ باپ فقیر منش آدمی تھے ( جن کی سادہ زندگی اور محیر العقل کارناموں پر کتاب لکھ ماری ہے، جو تقریباً مکمل ہے۔ یعنی لکھ چکے ہیں، بس ایک عدد پبلشر کا ملنا باقی ہے) ،ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لینے کے لیے گئے اور لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ باری آنے پر کاونٹر کلرک نے دوا دیتے وقت کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی جانب سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور گھر چلے آئے۔
ہمیں شاعری اور لکھنے لکھانے کا شوق بھی بچپن ہی سے تھا۔ ایک مرتبہ سوتے سے اٹھے اور کچی نیند میں بڑ بڑائے
لنگڑ دین بھائی لنگڑ دین
سالن تھوڑا روٹی تین
بجاو بین۔
اور پھر سوگئے۔ اباجان جو مطالعے کا بیحد شوق رکھتے تھے، جاگ رہے تھے۔ انھوں نے یہ ساری کارروائی دیکھی ۔ بعد میں اکثر سنایا کرتے اور خوب ہنستے۔
جب ذرا اور بڑے ہوئے تو ‘‘ بہتا تکیہ ’’ کے نام سے ایک کہانی لکھی، جس میں ایک بچے کو پانی پر بہتا ہوا ایک تکیہ ملتا ہے جس پر سونے کا ایک تاج محل بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ترنگ میں آئے تو اس وقت کے ڈکٹیٹر کی تعریف میں ایک نظم لکھ ماری اور اباجان کو دکھائی۔ اباجان جو اس ڈکٹیٹر کے سخت خلاف تھے، انھوں نے شفقتِ پدری سے اس نظم کو دیکھا ، نظرِ ثانی اور تصحیح فرمائی۔ پھر ہم نے وہ نظم ریڈیو پاکستان پر بچوں کے پروگرام میں پڑھی اور داد سمیٹی۔
ایک رات اباجان کو مطالعہ کرتے دیکھا تو خود بھی ان کے شیلف سے ایک کتاب ‘‘ الفاروق’’ نکال کر بیٹھ گئے اور کاغذ پینسل سنبھال کر کئی صفحوں پر مشتمل ایک ضخیم مضمون لکھ مارا۔ ماہنامہ تعلیم و تربیت کو یہ مضمون بھیجا تو انھوں نے ہماری اس مساعی کی لاج رکھتے ہوئے ایک صفحے کا مضمون بعنوان’’ بھوکے بچے خالی ہنڈیا’’ شایع کیا۔
‘غالبیات’ پر کام کا شوق چرایا تو دیوانِ غالب نکال لی اور غالب سے ایک انٹرویو لے ڈالا جسے بعد میں ماہنامہ غنچہ کراچی کی ادبی نشست میں پڑھنے کا موقع ملا۔ اسی رسالے کے لیے ایک یتیم بچے کی دکھ بھری داستان ایک خط کی صورت میں لکھی جو شایع ہوئی۔ ایک دن اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھے اور بہت سی پاکستانی فلموں کے نام ایک کاغذ پر لکھ لیے ، پھر اس فہرست سے ریڈیو پاکستان کے ایک کمرشیل پروگرام کے ماڈریٹر کے نام ایک خط لکھا، جس کے ہرہر جملے میں کئی ایک فلموں کے نام آتے تھے۔ ماڈریٹر صاحب کو وہ خط اتنا بھایا کہ انھوں نے وہ خط نشر کرتے ہوئے سامعین سے سوال کیا کہ دو دوستوں کے اس خط میں کتنی فلموں کے نام آئے ہیں۔
اور پھر یوں ہوا کہ ہم انجینیرنگ کالج کے ادبی مجلے کے منظوم حصے کے ایڈیٹر بنا دیے گئے۔ خوش خوش گھر آئے اور چھ ماہ تک سوتے رہے۔ اس دوران صرف اتنا کیا کہ ہر ایرے غیرے سے ایک عدد نظم یا غزل لکھوا لی۔ چھ ماہ اور مسلسل کئی یاد دہانیوں کے بعد جب عمیر بھائی نے الٹی میٹم دیدیا کہ کل نظم سیکشن مکمل چاہیے تو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا، ساری رات جاگے اور دوستوں کی لکھی ہوئی ان ‘نظموں’ اور غزلوں’ کا ڈائی سیکشن کیا۔ اگلے روز اپنی ‘چھ ماہ ’کی عرق ریزیوں کا نچوڑعمیر بھائی کے حوالے کیا تو وہ پھولے نہ سمائے۔ البتہ ہمارے ایک کلاس فیلو کئی دنوں تک ہم سے ناراض رہے کہ ہم نے ان کی نظم کو کیوں ‘بدل’ دیا۔
لگے ہاتھوں اب یہ بھی بیان ہوجائے کہ ہمارا ذریعہ معاش کیا ہے۔
آٹھویں جماعت میں پہنچے تو یہ سوال ہمارے سامنے آیا کہ ہم بیالوجی پڑھیں یا ریاضی۔ گویا یہ شعبے کے انتخاب کا پہلا مرحلہ تھا۔ ہم نے اباجان سے پوچھا کہنے لگے‘‘ اسکول میں طیب صاحب سے پوچھ لو’’۔ طیب صاحب ہمارے استاد تھے اور اباجان سے ان کی دوستی ہوچکی تھی۔ اسکول پہنچے تو طیب صاحب کا یہ فرمان سننے کو ملا ‘‘ خبردار! کوئی بچہ بیالوجی نہ لے۔’’ اللہ جانے اس میں کیا رمز تھا، لیکن ہم نے میٹرک پری انجینئرنگ میں پاس کرلیا۔
انٹر میڈیٹ میں داخلے کا مرحلہ آیا تو بڑے بھائی( مرحوم) نے صاف صاف کہہ دیا۔ جائو اور پولی ٹیکنیک میں داخلہ لے کر تکنیکی مہارت بہم پہنچائو۔ انٹر، بی اے وغیرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہم پولی ٹیکنیک اداروں کے چکر کاٹتے رہے اور ادِھر ڈی جے اور آدمجی کالج سمیت تمام اچھے کالجوں میں داخلہ بند ہوگیا۔ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ آدمجی کالج کے پرنسپل صاحب نے ہماری رہنمائی نوٹس بورڈ تک کی جہاں پر داخلے بند ہوجانے کا نوٹس جلی حروف میں آویزاں تھا۔عائشہ باوانی کالج پہنچے۔ پرنسپل صاحب نے ہماری مارکس شیٹ دیکھی تو ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا ۔فوراً ہمارے فارم پر اپنے دستخط کیے اور ہمیں داخلہ کلرک کے پاس بھجوادیا۔ جمعے کا دن تھا۔ وہ اپنا کھاتا بند کرچکا تھا۔ اس نے معذرت کی اور ہمیں ہفتے کے روز آنے کا کہہ کر کھڑکی بند کردی۔
ہم روتے روتے نیشنل کالج پہنچےاور ابھی کالج کی خوبصورت عمارت کو دیکھ کر عش عش کر ہی رہے تھے کہ یارِ جانی شیخ صاحب نے ہمیں دیکھ لیا ۔ پہلے تو ہمیں کئی موٹی موٹی گالیوں سے نوازا، پھر ہمیں لیے ہوئے کشاں کشاں پرنسپل صاحب کے کمرے میں پہنچےاور ان سے استدعا کی کہ ’ مانا کہ داخلے بند ہوچکے ہیں ، لیکن اگر وہ ہمارے جیسے اچھے رزلٹ والے لڑکے کو کھو دیں گے تو کیا کریں گے۔’ آخر کار انھیں منالیا اور یوں ہم نے انٹر کالج میں داخلہ لیا اور اڑتے ہوئے رنگوں میں انٹر پاس کیا۔
اب گویا ایک ہی چوائس باقی رہ گئی تھی۔ شیخ صاحب کی دم سے بندھے ہوئے دائود کالج پہنچے اور الیکٹرانکس میں سند یافتہ انجینئر بن کر نکلے۔دو سال اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد اباجان کی کوششوں سے ایک اچھی کمپنی میں ہمارا داخلہ ہوا اور اگلے کچھ سالوں میں ان چند بین الاقوامی کمپنیوں اور ان کے ترتیب دیے ہوئے تربیتی کورسوں نے ہمیں بائیو میڈیکل انجینئر بنادیا۔
تو صاحبو! گویا یوں ہم نے اپنی مرضی کے بغیر اپنے آپ کو تلاشِ معاش میں کھودیا۔ اگر آج الہ دین کا چراغ ہمارے پاس ہوتا اور ہمیں تلاشِ معاش میں یوں در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں تو آج ہم بھی لکھاری ہوتے۔ اب تو ہم ہیں اور ہماری عزیز ترین سہیلی ردی کی ٹوکری ہے۔جو کچھ لکھتے ہیں ، اس کی نذر کردیتے ہیں۔
ابنِ صفی بقلم خود کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔‘‘ بقلم خود، اتنا کچھ لکھ دینے کے بعدسوچ رہا ہوں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ کہاں تک انانیت کو دبایا جاسکتا ہے۔ تھوڑی بہت لاف گزاف بھی ہوجاتی ہے۔ اسی لیے میرا اپنا ہی خیال ہے کہ اپنے بارے میں گفتگو کرنے والے اوّل درجے کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ لیکن مجھ سے یہ بے وقوفی سرزد کرائی گئی ۔ میں خود اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔’’
ہم سے یہ بے وقوفی سرزد کرانے والے حضرات میں شمشاد بھائی، استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب، حافظ سمیع اللہ فاروقی بھائی اور محفل کے دیگر تمام کرم فرما شامل ہیں جنھوں نےہماری تحریروں کی حوصلہ افزائی کی۔
اپنی تعلیمی و تربیتی اسناد کی فائل کے سرنامے پر ہم نے فیض صاحب کا یہ قطعہ چسپاں کررکھا ہے ، سو وہ آپ کی بھی نذر ہے، جو مزاجِ یار میں آئے۔ ہم تہی دامنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا، سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مئے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں​

محفل کا شکریہ کہ انھوں نے ہماری تخلیقات کو اس لائق سمجھا کہ انھیں جگہ عطا فرمائی۔
1. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33120-ھد-یہ-نعت-بحضورِ-سرورِ-کائینات-(-صلی-اللہ-علیہ-و-سلم)-محمد-خلیل-الرحمٰن
2. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33141-دیباچہ-بانگِ-درا-ایک-ایکٹ-کا-کھیل
3. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33140-فسانہ-آزاد-اباجان-چلے-گئے-(-پیش-لفظ)
4. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33164-ہیری-پوٹر-اِن-ٹربل-ایک-کھیل(-فارس)
5. جیون میں ایک بار آنا سنگا پور
6. http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?33694-جب-اسکی-آنکھ-سے-ٹپکے-کو-تم-نے-سچ-جانا
7. How to write a Robert Langdon murder mystery
8. How to become a successful American President
 
سوال 1: آپ اپنے نام کے اپنی شخصیت پر کیا اثرات پاتے ہیں؟

آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا
ہمارا ان باتوں پر یقین نہیں ہے، لیکن آپ کا سوال پڑھ کر ذہن میں کچھ گھنٹیاں بجتی تو ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو اور ہمارے نام کے کچھ خوشگوار اثرات ہماری شخصیت پر ضرور ہوں!

ہمارے نام ‘خلیل’ کا لفظی مطلب ہے جانی دوست! ہم اپنے تئیں خود کو دوسروں کا دوست ہی سمجھتے ہیں۔ کسی کی بات سن کر رد کردینا ہماری سرشت میں نہیں۔ ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ بازار جاتے ہیں تو گوشت والا زبردستی ڈھیر سارا گوشت ہمیں تھمادیتا ہے جسے اٹھاکر ہم گھر لے بھی آتے ہیں کہ کیونکر اس کی پر خلوص پیشکش کو ٹھکرادیں۔

ہر ایک کو بے وقوفی کی حد تک مسکرا کر دیکھنا ہمارے فرائض منصبی میں شاید شامل ہے۔ ہر ایک کے رازداں بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کبھی کبھی تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ سامنے والے سے ایک ہی کہانی دوبار یا سہہ بار بھی سن لیتے ہیں ، اس انداز سے گویا پہلی بار سن رہے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ اگر درمیان میں میں اسے ٹوک دیا کہ یہ کہانی تو ہم پہلے بھی سن چکے ہیں تو وہ کہیں شرمندہ نہ ہوجائے۔

ہم سادہ ہی ایسے ہیں، کی یوں ہی پزیرائی
جس شخص سے کیں باتیں، اس شخص کی بن آئی

 
آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا
ہمارا ان باتوں پر یقین نہیں ہے، لیکن آپ کا سوال پڑھ کر ذہن میں کچھ گھنٹیاں بجتی تو ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو اور ہمارے نام کے کچھ خوشگوار اثرات ہماری شخصیت پر ضرور ہوں!

ہمارے نام ‘خلیل’ کا لفظی مطلب ہے جانی دوست! ہم اپنے تئیں خود کو دوسروں کا دوست ہی سمجھتے ہیں۔ کسی کی بات سن کر رد کردینا ہماری سرشت میں نہیں۔ ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ بازار جاتے ہیں تو گوشت والا زبردستی ڈھیر سارا گوشت ہمیں تھمادیتا ہے جسے اٹھاکر ہم گھر لے بھی آتے ہیں کہ کیونکر اس کی پر خلوص پیشکش کو ٹھکرادیں۔

خلیل بھائی نام کی نسبت سے اس کہاوت سے آپ کی کیا مناسبت ہے ؟
"وہ دن گئے جب خلیل میاں طوطے اڑایا کرتے تھے "
 
کہ خلیل میاں، وہ دن گئے جب فاختہ اڑایا کرتے تھے، اب ذرا اپنے کرتوتوں کا حساب تو دو؟

سچ پوچھیے تو ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے ایک لمبی اڑان بھرکر نظروں سے غائب ہوچکے ہیں

اللہ ری معصومیت پارٹ ٹو -

خلیل بھائی نام کی نسبت سے اس کہاوت سے آپ کی کیا مناسبت ہے ؟
"وہ دن گئے جب خلیل میاں طوطے اڑایا کرتے تھے "
 
خلیل بھائی نام کی نسبت سے اس کہاوت سے آپ کی کیا مناسبت ہے ؟
"وہ دن گئے جب خلیل میاں طوطے اڑایا کرتے تھے "

ہاہا!
خرم بھائی آپ نے تو محاورے کا اچار بناڈالا۔

کمال ہے، یعنی کہ برس ہا برس اس محاورے میں رہ کر دکھ سہیں اور انڈے سیویں بی فاختہ اور آج آپ کے محاورے میں آکر طوطے میاں اپنے منہ میاں مٹھو بننے چلے ہیں۔

یہ سخن گسترانہ بات تو آپ کے استعمال شدہ محاورے میں آن پڑی تھی ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے یعنی راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اب تو اس نے قسمت میں ایسے بکھیڑے لکھ دیئے ہیں کہ ہم اس سے استدعا کرتے نہیں تھکتے کہ

قسمت میں مری چین سے جینا لکھ دے
 
آخری تدوین:
سوال 2: چائے زیادہ پسند ہیں یا کافی ؟
سوال3: آئسکریم پارلر میں جاکر کھاتے ہیں یا گھر :)

چائے بہت زیادہ پسند ہے لیکن جب کافی کا تذکرہ آجائے تو کہنے پر مجبور ہیں کہ چائے سے بھی زیادہ کافی پسند ہے۔

آئس کریم کچھ بہت زیادہ پسند نہیں۔ البتہ مل جائے تو شکر کرکے کھالیتے ہیں۔

IMG_0700.jpg


IMG_0092.jpg


IMG_20151114_113718.jpg


IMG_20180705_172223.jpg
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
ناظرین و حاضرین دیکھ لیجیے خلیل بھیا اپنے نام کے ہی خلیل نہیں بلکہ مزاج بھی دوستانہ ہے:) آتے ہی زبردست اینٹری! یہ انہی کا خاصہ ہے! ہنسا کے لوٹ پوٹ کردینے والے خلیل بھیا کا خرم بھائی سے سوال جواب! جہاں (مزاح) ایسی گفتگو ہو وہاں عبداللہ بھائی نہ ہوں، سوال پیدا نہیں ہوتا! تو یہ شہد کی مکھی کی طرح اسٹیج پر چڑھنے کی کوشش میں! تو جوش کے ساتھ ہوش برقرار رکھیے! آپ کو بہت کچھ سننے، پڑھنے کو ملے گا:) تعارف پڑھ کے خود بھی ہنسیں اور ہمیں بھی موقع دیں اور دیکھیے ان کہ رگ ظرافت کہاں کہاں پھڑکتی ہے! شور ... شور زیادہ مت مچائیں ورنہ خلیل بھیا کو سن نہیں سکیں گے!
 
ناظرین و حاضرین دیکھ لیجیے خلیل بھیا اپنے نام کے ہی خلیل نہیں بلکہ مزاج بھی دوستانہ ہے:) آتے ہی زبردست اینٹری! یہ انہی کا خاصہ ہے! ہنسا کے لوٹ پوٹ کردینے والے خلیل بھیا کا خرم بھائی سے سوال جواب! جہاں (مزاح) ایسی گفتگو ہو وہاں عبداللہ بھائی نہ ہوں، سوال پیدا نہیں ہوتا! تو یہ شہد کی مکھی کی طرح اسٹیج پر چڑھنے کی کوشش میں! تو جوش کے ساتھ ہوش برقرار رکھیے! آپ کو بہت کچھ سننے، پڑھنے کو ملے گا:) تعارف پڑھ کے خود بھی ہنسیں اور ہمیں بھی موقع دیں اور دیکھیے ان کہ رگ ظرافت کہاں کہاں پھڑکتی ہے! شور ... شور زیادہ مت مچائیں ورنہ خلیل بھیا کو سن نہیں سکیں گے!

اور سنیے! نور بٹیا ہماری بھد اُڑائی جانے کا آنکھوں دیکھا حال فی البدیہ بیان کرتے ہوئے!!!

جل تو، جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو

مالک! لاج رکھ لیجو۔ یا تو سوالات وہی ہوں جن کے جواب اتنی مشکل سے رٹا لگا کر بیٹھے ہیں، یا اتنے آسان ہوں کہ ہاں اور نہیں سے کام چل جائے۔ یہ بھی نہیں تو کم از اتنا ہوجائے کہ محفلین فیفا ورلڈ کپ میں مصروف ہونے کے باعث ہمارے اس سوال چنا، جواب گندم جیسے انٹرویو پر زیادہ دھیان نہ دے پائیں، اور اس کندۂ ناتراش کا پول نہ کھلنے پایے!

دو دو لڑکیاں سوال پوچھنے پر معمور ہیں۔ لڑکیوں سے تو ہم یوں بھی ڈرتے ہیں

لڑکیاتُن، بیٹیاتُن، محرمات
پھینکتی ہوں میری جانب کوئسچنات
کیسے ممکن، ہو غلط کوئی جواب
انظباتُن، انظباتُن، انظبات

 

نور وجدان

لائبریرین
اور سنیے! نور بٹیا ہماری بھد اُڑائی جانے کا آنکھوں دیکھا حال فی البدیہ بیان کرتے ہوئے!!!

جل تو، جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو

مالک! لاج رکھ لیجو۔ یا تو سوالات وہی ہوں جن کے جواب اتنی مشکل سے رٹا لگا کر بیٹھے ہیں، یا اتنے آسان ہوں کہ ہاں اور نہیں سے کام چل جائے۔ یہ بھی نہیں تو کم از اتنا ہوجائے کہ محفلین فیفا ورلڈ کپ میں مصروف ہونے کے باعث ہمارے اس سوال چنا، جواب گندم جیسے انٹرویو پر زیادہ دھیان نہ دے پائیں، اور اس کندۂ ناتراش کا پول نہ کھلنے پایے!

دو دو لڑکیاں سوال پوچھنے پر معمور ہیں۔ لڑکیوں سے تو ہم یوں بھی ڈرتے ہیں

لڑکیاتُن، بیٹیاتُن، محرمات
پھینکتی ہوں میری جانب کوئسچنات
کیسے ممکن، ہو غلط کوئی جواب
انظباتُن، انظباتُن، انظبات

بُہت خوب !
جی تو حاضرین کے قہقوں کی آواز سے محفل کے تمام ہال گونج اٹھے مگر یہ کیا محمد وارث صاحب بس مسکرا رہے ہیں اور ابن سعید بھیا منہ چھپا کے تین تین مسکراہٹیں اچھال رہے ہیں تو محترم الف عین نے جاندار قہقہ لگایا اور کہا : واہ ! خلیل میاں ! اور تو اور محمد تابش بھائی بھی شور و غل میں ساتھ شریک ہوگئے ہیں بات ہی ایسی ہے

تو جی حاضرین ! خلیل صاحب کا انٹرویو کیسا جارہا ہے ؟

کیا ۔۔۔۔۔! ا
اچھااااااا
بس اچھا اااا
اے ون ، زبردست ، شاندار

پوری محفل میں شور مچ گیا ، خلیل بھیا انٹرویو دے رہے ہیں
ویسے شور کیوں مچ رہا ہے ؟
وجہ کوئی جانتا ہے؟
بس وہی نا ، ہنسنے والی بات پر سبھی ہنستے ہیں اور ہمارے خلیل بھیا کی مزاح نگاری ، ظرافت ، برجستگی سے تو سبھی واقف ہیں
میں بھی ۔۔۔۔ نعرہ

محفل کی سالگرہ ۔۔۔۔ زبردست
انٹرویوز ۔۔۔۔۔۔ زبردست
خلیل بھیا کا انٹرویو ۔۔۔ اے ون
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
یہ ہے چائے کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں محترم خلیل الرحمن اکیلے اکیلے چائے نوشی میں محو پائے جاتے ہیں :) انہوں نے تصاویر کیساتھ جگہ نہیں لکھی تاکہ ہم سمجھ لیں کہ یہ پاک ٹی ہاؤس ہے :)

IMG_0700.jpg



سفرنامے لکھنے کی وجہ تو سبھی سمجھ گئے ہوں گے نا :) اب ہمیں معلوم نہیں یہ تفریحی سفر ہے یا کاروباری :) ایک سفری اور اک ہینڈ بیگ اور ایک لیپ ٹاپ بیگ کے ہمراہ چائے یا کافی نوشی :) دور سے چائے کافی کا نشان مبہم مبہم ہے
IMG_0092.jpg


یہ غالبا متحدہ عرب امارت ہے تو ہم سب کو معلوم ہوگیا کہ چائے کے یا کافی کے بنا سفر محال ہے ۔ ایگزٹ کے بعد اور ان ہونے سے پہلے ایسی عادت کا ہونا عین ممکن ہے :)
IMG_20151114_113718.jpg



کافی شاپ میں کافی کے ہمراہ بمعہ آئس کریم ۔۔۔ زبردست امتزاج ہے بھئی :)
IMG_20180705_172223.jpg
 
اف فوہ پکڑے گئے!

لیجیے بتائے دیتے ہیں کہ چائے پیتے ہوئے بلیک اینڈ وہائٹ تصویر امارت ابوظبی کے ایک قصبے غیاثی کے چائے خانے علی بابا چالیس چور کی ہے۔
دوسری تصویر ابوظبی گرینڈ بس اسٹینڈ کے قریب ایک مال، تیسری شارجہ میں ایک مال ہے اور آخری تصویر میں ہم لکی ون مال کے گلوریا جینز کافی ہاوس میں بیٹھے کافی پی دہے ہیں۔ ہمارے دوست نے اپنے لیے آئس کریم شیک منگوایا تھا جو تصویر میں نظر آرہا ہے۔

لیجیے اب سنگاپور کے ایک مال میں ہمارا کافی پینا ملاحظہ فرمائیے۔

FB_IMG_1531133070945.jpg
 
اف فوہ پکڑے گئے!

لیجیے بتائے دیتے ہیں کہ چائے پیتے ہوئے بلیک اینڈ وہائٹ تصویر امارت ابوظبی کے ایک قصبے غیاثی کے چائے خانے علی بابا چالیس چور کی ہے۔
دوسری تصویر ابوظبی گرینڈ بس اسٹینڈ کے قریب ایک مال، تیسری شارجہ میں ایک مال ہے اور آخری تصویر میں ہم لکی ون مال کے گلوریا جینز کافی ہاوس میں بیٹھے کافی پی دہے ہیں۔ ہمارے دوست نے اپنے لیے آئس کریم شیک منگوایا تھا جو تصویر میں نظر آرہا ہے۔

لیجیے اب سنگاپور کے ایک مال میں ہمارا کافی پینا ملاحظہ فرمائیے۔

FB_IMG_1531133070945.jpg
یعنی جس طرح سیاح حضرات کوچے کوچے کی خاک چھانتے ہیں، آپ کوچے کوچے کی کافی پیتے ہیں؟ :)
 

زیک

مسافر
اف فوہ پکڑے گئے!

لیجیے بتائے دیتے ہیں کہ چائے پیتے ہوئے بلیک اینڈ وہائٹ تصویر امارت ابوظبی کے ایک قصبے غیاثی کے چائے خانے علی بابا چالیس چور کی ہے۔
دوسری تصویر ابوظبی گرینڈ بس اسٹینڈ کے قریب ایک مال، تیسری شارجہ میں ایک مال ہے اور آخری تصویر میں ہم لکی ون مال کے گلوریا جینز کافی ہاوس میں بیٹھے کافی پی دہے ہیں۔ ہمارے دوست نے اپنے لیے آئس کریم شیک منگوایا تھا جو تصویر میں نظر آرہا ہے۔

لیجیے اب سنگاپور کے ایک مال میں ہمارا کافی پینا ملاحظہ فرمائیے۔

FB_IMG_1531133070945.jpg
زبردست۔

اب تمام شہروں کی فہرست بنائیں جہاں جہاں کافی پی اور یہ بھی بتائیں کہ کہاں کی کافی بہترین تھی
 
زیک ہم کافی کے صحیح معنوں میں connoisseur یا کہیے کہ ذائقے کو صحیح طور سمجھنے اور تعریف کرنے کے لائق تو نہیں، بس ہمیں پسند ہے۔ البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ انسٹنٹ کافی کی بہ نسبت کافی کے پسے ہوئے دانوں کو کافی میکر میں کاغذ کے فلٹر لگاکر کافی بناکر پینے میں زیادہ مزا ہے۔

جرمنی میں یاکوب کی پیکٹ والی کافی بہت اچھی ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک پیکٹ خرید کر گھر بھی لائے تھے۔ گھر میں کافی میکر تو نہ تھا، البتہ کسی ترکیب سے گرم پانی میں ڈال کر چھان لیا تھا۔

ایک دن ہمارے برازیلین دوست جوڑے ڈینئیل اور سینڈرا نے آینڈھوون (نیدرلینڈ) میں اپنے گھر پر ہمیں برازیلین کافی پلوائی جو بے حد مزےدار تھی۔ پہلے پیالیوں میں تقریباً آدھی پیالی کافی بھرلی پھر اس میں چند گھونٹ گرم پانی ڈال کر اسے پی لیا ، پھر چند گھونٹ پانی ڈالا۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہا۔

مسقط میں اصل عرب قہوا جسے چینی کے بنا چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں پیا جاتا ہے لاجواب ہوتا ہے۔ ان کا رواج ہے کہ جب تک مہمان وہ دو گھونٹ قہوا ختم کرکے پیالی سیدھی رکھتا رہے گا، مہمان اس کی پیالی میں قہوا انڈیلتا رہے گا۔

جب مہمان کا جی بھر جائے تو وہ پیالی کو الٹ کر رکھ دے گا یا ہلاکر رکھ دے گا۔


آئینڈ ھوؤن ہی میں ایک دن ہمارے اپارٹمنٹ میٹ ایک اسرائیلی یہودی نے ہم تین چار لوگوں کو اپنے کمرے میں مدعو کیا اور اسرائیلی کافی سے سب کی تواضع کی۔ سب نے اپنے اپنے رہن سہن اور کلچر پر بات کی۔ اچھی نشست رہی ۔کافی بھی لاجواب تھی۔
 
آخری تدوین:
Top