محبوب سروری، ایک محبوب شاعر مگر قدرے گمنام شاعر۔

ایم اے راجا

محفلین
آجکل میں ایک شاعری کا انتخاب لانے کے لیئے ایسے مستند شعرا کی تلاش میں سر گرداں ہوں جنکا کلا م منظرِ عام پر نہ آیا ہو اور وہ بہترین شاعر ہوتے ہوئے بھی گمنامی کی زندگی گذار رہے ہوں، میں جانتا ہوں کہ ایسے شعرا سوؤں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، لیکن میری جتنی سکت ہے میں وہ کرنے جارہا ہوں۔
اسی تلاش میں سرگرداں، شعرا کو ڈھونڈ رہا تھا کہ مجھے ایک نامانوس فون نمبر سے کال آئی جس پر ایک نوجوان نے سندھی لب و لہجے میں کہا کہ سائیں میرے والد صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف فون پر ایک نحیف مگر پر عزم اور زندگی سے بھرپور آواز سنائی دی، اور انہوں نے بتایا کہ میں، ریٹائرڈ پرفیسر ہوں حیدرآباد سندھ کے قریبی گوٹھ (گاؤں ) میں مقیم ہوں، شاعری سے بھی میرا شغف رہا ہے سندھی کے علاوہ میں نے ارسو میں بھی، حمد، نعت ، نظم اور غزل کہی ہے، 2002 میں میری ایک اردو حمد، نعت، نظم اور غزل پر مشتمل کتاب دوستوں کی مدد سے منظرِ عام پر آچکی ہے میں نے سنا ہیکہ آپ ایک انتخاب لانا چاہتے ہیں جسکے تمام اخراجات بھی آپ خود برداشت کر رہے ہیں تو میں نے سوچا کہ آپ کو اپنی ایک کتاب تحفہ کروں، میں زیادہ چل پھر نہیں سکتا اسلیئے آپکے پاس نہیں آ سکتا۔
کچھ دن بعد میرے پاس بذریعہ رجٹری ڈاک ایک بوسیدہ سی اور نہایت سادہ سی نرم جلد میں محفوظ ایک کتاب ملی، جسکا نام “ اکیسویں صدی کے اشعار مجاہدوں کی للکار“ ہے موصول ہوئی جو کہ سال 2002 میں حیدرآباد سے مولانا محمد سلیمان طاہر نے پبلش کی، کتاب میں پہلا باب حمد، دوسرا باب ، نعت، تیسرا باب غزل اور چوتھا باب نظم سے مزئین ہے، میں شاعری پڑھ کر حیران ہی ہوگیا، کہ وہ شاعر جو اردو سندھی لہجہ میں بولتا ہے اسنے اردو شاعری کے کیا گل کھلائے ہیں، انکی شاعری قومی، اور اسلامی حمیت سے پر ہے، لفظ لفظ میں قومی درد محسوس ہوتا ہے۔
مین یہاں پر انکا مختصر تعارف اور ایک غزل آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا اور وقتا فوقتا انکا کلام پیش کرتا رہوں گا، وہ کیسے شاعر ہیں فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔
خاندانی نام محمد بچل، قلمی نام محبوب سروری، ذات پنھور ( سندھی) سنِ پیدائش 8 جنوی 1932 گاؤں جاڑو پنھور، (ہوسڑی حیدرآبا) تعلیم ایم اے سندھی، ایم اے پولیٹیکل سائینس، انکے چار فرزند شاعر ہیں اور اہلیہ شاعرہ اور ادیبہ ہیں، 44-1943 میں شاعری کی ابتدا کی اسکے علاوہ رجسٹرڈ ہومیو فزیشن ہیں، ریٹائرڈ پرفیسر ہیں اور سندھی ادبی بورڈ حیداآباد جامشورو کے سیکریٹری رھ چکے ہیں۔ وہ حضرت مخدوم محمد زماں طالب المولیٰ مرحوم (سجادہ نشین درگاہ ہالہ) کے شاگرد ہیں جو کہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے سندھی، اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ محبوب سروری صاحب تعریف اور نمائش کے سخت خلاف ہیں بہت ہی غیرت مند شخص ہیں، انکی شاعی میں قومی اور اسلام درد بکھرا ملتا ہے، اردو میں علامہ محمد اقبال سے بہت متاثر ہیں، انکی شاعی میں بھی علامہ اقبال کا خیال و رنگ ملتا ہے۔ انا پسند اور خوددار ہونے کیوجہ سے ہمیشہ مالی و دیگر پریشانیوں میں گھرے رہے۔ یہ ہے مختصر تعارف۔
ایک غزل بطورِ نمونہ فی الحال پیش ہے، اگر حالات اور زندگی نے اجازت دی تو اس مردِ مجاہد کی مزید شاعری آپکی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا۔


میں ابھی زندہ ہوں میرا پیار لاوارث نہیں
میری الفت، قوتِ اظہار لاوارث نہیں

شور کیوں کرتے ہیں میرے باغ میں یہ بوم و زاغ
نغمہ خواں بلبل کا یہ گلزار لاوارث نہیں

جام کیوں کم ظرف کے ہاتھوں میں ہے تم نے دیا
جیوے یہ پیرِ مغاں ! میخوار لاوارث نہیں

غیر کو لائے ہو تم محفل میں سب کے سامنے
دوست ! تیرے حسن کا حقدار لاوارث نہیں

تاجدارانِ جنوں کو چھیڑنے سے باز آ
عشق کے ہم ہیں علمبردار ! لاوارث نہیں !

ہم خدا کے آسرے جاتے ہیں منزل کی طرف
قافلہ اور قافلہء سالار لاوارث نہیں

گر صدی ایکسویں میں بھی ہوا ظاہر یزید
کربلا اور حیدری تلوار لاوارث نہیں

یہ شمع میرے بعد بھی ضوفشاں ہے سروری
میرے یہ افکار اور اشعار لاوارث نہیں



پروفیسر محبوب سروری
 

ایم اے راجا

محفلین
جناب منتظم صاحب، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسے کہاں پوسٹ کروں سو یہاں کر دیا اگر یہ درست لڑی نہیں تو درست لڑی میں منتقل کرنے کی درخوست ہے۔ شکریہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
راجا صاحب آپ نے تو بہت ہی بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ کو ہمت دے۔
اس سلسلے میں محفلین کے کرنے کا کوئی کام تو ضرور بتائیے گا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
راجا صاحب آپ نے تو بہت ہی بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ کو ہمت دے۔
اس سلسلے میں محفلین کے کرنے کا کوئی کام تو ضرور بتائیے گا۔
آمین۔ بہت شکریہ شمشاد صاحب، میں سب محفلین کو ایک خاندان کی طرح سمجھتا ہوں، یہ محفل ہی میری پہچان کا پہلا سبب ہے، اور جب کچھ ضرورت درپیش آتی ہے تو آدمی اپنے خاندان ہی کی طرف لپکتا ہے، مجھے بہت خوشی ہوئی آپ کا پیغام پڑھ کر، ایک بار پھر بہت بہت شکریہ، دعاؤں کا طلبگار ہوں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
سروری صاحب فرماتے ہیں کے انکی اردو گلابی اردو ہے، جسکا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں بھی بارہا کیا ہے، انکی ایک اور گلابی غزل ملاحظہ ہو۔

جلالِ عشق ہے “ترکی کے زلزلوں“ کی طرح
جمالِ حسن ہے ساون کے بادلوں کی طرح

تمہارا چہرہ بھی شاداب ہے گلوں کی طرح
میں چومتا ہوں ترے گال بلبلوں کی طرح

تمہارے آنے سے آتی ہے خوشیوں کی بارات
وگرنہ درد ہی آتے ہیں قافلوں کی طرح

تمہاری زلفوں کی خوشبو ابھی ہے ہاتھوں میں
میں سونگھتا ہوں میرے ہاتھ پاگلوں کی طرح

کبھی ہے روح کی راحت تری نگاہِ کرم
کبھی ہے شوخ نظر تیری ، قاتلوں کی طرح

تمہارا سروری ثابت قدم ہے الفت میں
وفا کی راہ نہ چھوڑے گا بزدلوں کی طرح
 

ایم اے راجا

محفلین
سروری صاحب کی کتاب کچھ زیادہ میعاری نہیں ہے ( میرا مطلب پیپر پرنٹنگ اور کتابت سے ہے)سو ہو سکتا ہے کہ کہیں فنی (بحر وغیرہ، بوجہ کتابت یا پرنٹنگ)کی غلطی ہو اگر آپ احباب کو کہیں محسوس ہو تو بلا تکلف نشاندہی کیجیئے گا، میں محبوب صاحب کو بتاؤں گا یقینن انھیں خوشی ہو گی، کیونکہ انکی مادری زبان سندھی ہے اور انکے بقول انکی اردو کوئی خاص اچھی نہیں، انکا لہجہ بھی اردو بولنے میں سندھی والا ہی ہے۔ شکریہ۔
 
Top