محبت کا ترانہ جانتا ہے غزل نمبر 78 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین

محبت کا ترانہ جانتا ہے
یہ دل طرزِ یگانہ جانتا ہے

ادائے دلبرانہ جانتا ہے
یہ رمزِ عاشقانہ جانتا ہے

یہ دل ہنسنا رُلانا جانتا ہے
غموں میں مسکرانا جانتا ہے

مجھے تم بھول جاؤ تیری خوبی
مرا دل کب بُھلانا جانتا ہے

کہاں تک میں بچاؤں اپنے دل کو
ہدف اسکا نشانہ جانتا ہے


ترس فرہاد پر آتا ہے اس کو
جو شیریں کا فسانہ جانتا ہے


خرد والے بھی جس سے نا بلد ہیں
جنوں کیا ہے؟ دیوانہ جانتا ہے


کوئی پوچھے تو ناصح سے ذرا، وہ
نمازِ پنجگانہ جانتا ہے؟


تیری اس بے رخی سے اے محبت!
یہ دل بھی روٹھ جانا جانتا ہے


اُسے دنیا کی دولت کی ہوس کیا؟
جو الفت کو خزانہ جانتا ہے


میں ہوں مشہور رندوں میں، مجھے پر
نہ ساقی نہ میخانہ جانتا ہے

غزل پر داد دیتا ہے وہی جو
مزاجِ شاعرانہ جانتا ہے


جسے میرِ سُخن کہتی ہے دنیا
مجھے وہ غائبانہ جانتا ہے

میں خود سے آشنا شارؔق نہیں پر
مجھے سارا زمانہ جانتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
محبت کا ترانہ جانتا ہے
یہ دل طرزِ یگانہ جانتا ہے
... تکنیکی طور پر تو سارے اشعار درست ہیں لیکن مفہوم ذرا واضح نہیں۔ اب مطلع کے دوسرے مصرع کا مطلب؟ طرزِ یگانہ مراد یاس یگانہ چنگیزی کا اسٹائل؟ دونوں مصرعوں میں ربط بھی محسوس نہیں ہوتا

ادائے دلبرانہ جانتا ہے
یہ رمزِ عاشقانہ جانتا ہے
.. کون؟

یہ دل ہنسنا رُلانا جانتا ہے
غموں میں مسکرانا جانتا ہے
... ٹھیک

مجھے تم بھول جاؤ تیری خوبی
مرا دل کب بُھلانا جانتا ہے
.. تم اور تیری؟ اسے شتر گربہ کہتے ہیں
بھلا دو مجھ کو تم، مرضی تمہاری
جیسا مصرع بہتر ہو گا

کہاں تک میں بچاؤں اپنے دل کو
ہدف اسکا نشانہ جانتا ہے
.. ہدف کا مطلب ہی نشانہ ہے، تم کیا سمجھ رہے ہو؟

ترس فرہاد پر آتا ہے اس کو
جو شیریں کا فسانہ جانتا ہے
.. ٹھیک

خرد والے بھی جس سے نا بلد ہیں
جنوں کیا ہے؟ دیوانہ جانتا ہے
... درست، مگر مکمل دیوانہ نہیں، دِوانہ تقطیع ہوتا ہے اور یہی لکھنا چاہیے

کوئی پوچھے تو ناصح سے ذرا، وہ
نمازِ پنجگانہ جانتا ہے؟
... درست

تیری اس بے رخی سے اے محبت!
یہ دل بھی روٹھ جانا جانتا ہے
... یہ بھی واضح نہیں، تیری کی جگہ تری کا محل ہے

اُسے دنیا کی دولت کی ہوس کیا؟
جو الفت کو خزانہ جانتا ہے
.. درست

میں ہوں مشہور رندوں میں، مجھے پر
نہ ساقی نہ میخانہ جانتا ہے
.. میخانہ تو اس جگہ تقطیع ہی نہیں ہوتا، مخانہ ہی آتا ہے جب کہ اس سے پہلے دو حرفی نا آتا ہے

غزل پر داد دیتا ہے وہی جو
مزاجِ شاعرانہ جانتا ہے
ٹھیک

جسے میرِ سُخن کہتی ہے دنیا
مجھے وہ غائبانہ جانتا ہے
.. ٹھیک

میں خود سے آشنا شارؔق نہیں پر
مجھے سارا زمانہ جانتا ہے
.. پر بمعنی لیکن اچھا نہیں، یہاں 'گو' بہتر ہو گا
 

امین شارق

محفلین
محبت کا ترانہ جانتا ہے
یہ دل سازِ یگانہ جانتا ہے

یہاں میں طرزِ یگانہ کو سازِ یگانہ کہنا چاہ رہا تھا یعنی ایک منفرد ساز جس کا تعلق اس ترانے سے ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہےمیں غلط تھا اگر اسے سازِ یگانہ لکھ دیں تو کیسا رہےگا

ادائے دلبرانہ جانتا ہے
یہ رمزِ عاشقانہ جانتا ہے

کیوں کہ مطلع کے فوراً بعد یہ شعر ہے تو اس مصرعے 'یہ دل سازِ یگانہ جانتا ہے' کے تسلسل میں یہ شعر کہا ہےکون جانتا ہے؟ یعنی دل جانتا ہے۔

بھلا دو مجھ کو تم، مرضی تمہاری
مرا دل کب بُھلانا جانتا ہے

آپکی اصلاح کے بعد

کہاں تک میں بچاؤں اپنے دل کو
ہدف اسکا نشانہ جانتا ہے
بہت اچھی توجہ دلائی واقعی غلطی ہوئی ہے مجھ سے تبدیل کردوں گا ہدف کو۔

ترس فرہاد پر آتا ہے اس کو
جو شیریں کا فسانہ جانتا ہے

خرد والے بھی جس سے نا بلد ہیں
جنوں کیا ہے؟ دِوانہ جانتا ہے

آپکی اصلاح کے بعد

کوئی پوچھے تو ناصح سے ذرا، وہ
نمازِ پنجگانہ جانتا ہے؟

تری اس بے رخی سے اے محبت!
یہ دل بھی روٹھ جانا جانتا ہے

آپکی اصلاح کے بعد

اُسے دنیا کی دولت کی ہوس کیا؟
جو الفت کو خزانہ جانتا ہے

غزل پر داد دیتا ہے وہی جو
مزاجِ شاعرانہ جانتا ہے

جسے میرِ سُخن کہتی ہے دنیا
مجھے وہ غائبانہ جانتا ہے

میں خود سے آشنا شارؔق نہیں گو
مجھے سارا زمانہ جانتا ہے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ادائے دلبرانہ جانتا ہے
یہ رمزِ عاشقانہ جانتا ہے

کیوں کہ مطلع کے فوراً بعد یہ شعر ہے تو اس مصرعے 'یہ دل سازِ یگانہ جانتا ہے' کے تسلسل میں یہ شعر کہا ہےکون جانتا ہے؟ یعنی دل جانتا ہے۔
شارق بھائی غزل میں ہر شعر کو اپنا مطلب بیان کرنے کے لیے خود کفیل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جو آپ سمجھ رہے ہیں وہ نظم کا مزاج ہے
 

امین شارق

محفلین
جناب اعجاز عبید صاحب آپکی اصلاح کے بعد غزل پیش ہے دوسرا شعر نکال دیا ہے نشانہ اور میخانہ والے اشعار تبدیل کئے ہیں پلیز ذرا دیکھئے گا۔

محبت کا ترانہ جانتا ہے
یہ دل سازِ یگانہ جانتا ہے

یہ دل ہنسنا رُلانا جانتا ہے
غموں میں مسکرانا جانتا ہے


بھلا دو مجھ کو تم، مرضی تمہاری
مرا دل کب بُھلانا جانتا ہے


کہاں تک میں بچاؤں اپنے دل کو
کہ تیر ان کا نشانہ جانتا ہے


ترس فرہاد پر آتا ہے اس کو
جو شیریں کا فسانہ جانتا ہے


خرد والے بھی جس سے نا بلد ہیں
جنوں کیا ہے؟ دِوانہ جانتا ہے


کوئی پوچھے تو ناصح سے ذرا، وہ
نمازِ پنجگانہ جانتا ہے؟


تری اس بے رخی سے اے محبت!
یہ دل بھی روٹھ جانا جانتا ہے


اُسے دنیا کی دولت کی ہوس کیا؟
جو الفت کو خزانہ جانتا ہے


میں رندوں میں نہیں مشہور لیکن
مجھے ساقی میخانہ جانتا ہے


غزل پر داد دیتا ہے وہی جو
مزاجِ شاعرانہ جانتا ہے


جسے میرِ سُخن کہتی ہے دنیا
مجھے وہ غائبانہ جانتا ہے


میں خود سے آشنا شارؔق نہیں گو
مجھے سارا زمانہ جانتا ہے
 
Top