محبت برائے اصلاح

بحرِ متقارب مثمن سالم
افاعیل فعولن فعولن فعولن فعولن
-------------------
1--- محبّت ہی میں زندگی کا مزا ہے
یہی زندگی ورنہ تو اک سزا ہے
-----------------
2---اگر زندگی کسی کے نام کر دو
محبّت کی دنیا میں یہ ہی وفا ہے
--------------
3---کیوں یہ محبّت نہ مل پائی مجھ کو
کیوں یہ محبّت ہی مجھ سے خفا ہے
-------------
4---محبّت ہی سےتو یہ چلتی ہے دنیا
ہاں اندازِ الفت تو سب کا جدا ہے
----------------
5----یہ دنیا محبّت کے قابل نہیں ہے
محبّت میں اس کی تو دل ہی جلا ہے
----------------
6---محبّت میں مجھ کو دکھ ہی ملے ہیں
محبّت نہیں یہ تو کوئی سزا ہے
--------------
7---تم ارشد یہ شکوہ کسی سے نہ کرنا
خدا جانے اس میں ہی تیرا بھلا ہے
 

الف عین

لائبریرین
مزا اور سزا قوافی ظاہر کرتے ہیں کی قوافی 'زا' پر ختم ہونے والے ہیں، جیسے جزا، لیکن ایسا نہین ہے۔ اسے ایطا کا سقم کہتے ہیں
'ہی' اور 'تو' بھرتی کے الفاظ ہیں، ان کے بغیر اوزان مکمل کرنے کی کوشش کریں
'کیوں' محض یوں تقطیع کیا جاتا ہے، "کی یوں" نہیں۔
موضوعاتی غزلیں آج کل نہیں کہی جاتیں، ان سے پرہیز کریں تو بہتر ہے۔
 
Top