محبت آخری سایہ -نوید ھاشمی

محبت آخری سایہ


بہت گھومی جہاں بھر میں

مجھے آوارگی لے کر

کبھی صحرا سمندر میں

کبھی دنیا کے میلوں میں

کبھی جنگل میں بھٹکایا

عجب وحشت لہو میں تھی

نظر بھی جستجو میں تھی

کئی چہرے تھے آنکھوں میں

انہیں چہروں کی خواھش میں

ھر اک منزل کو ٹھکرایا

سکوں پھر بھی نہیں پایا

بہت گھوما جہاں بھر میں

تو پھر آخر کھلا مجھ پر

وہ جس کو چھوڑ آیا تھا

میں اپنے ہجر میں جلتا

وہی سچی محبت تھی

اسی کی یاد کے موتی

بنے جیون کا سرمایہ

محبت آخری منزل

محبت آخری سایہ

نوید ھاشمی
 
Top